بُک شیلف

جانیئے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ اہل مشرق کے لئے باعث افتخار تھے۔ فوٹو: فائل

اقبالؒ اہل بیتؑ کے حضور
مصنف: تفاخر محمود گوندل
قیمت: 400 روپے
صفحات:144
ناشر: ماورا، پبلشرز، مال روڈ ، لاہور



اہل بیتؑ سے محبت جزو ایمان ہے، حضرت علامہ اقبالؒ کو اہل بیتؑ سے بہت محبت تھی جس کا اظہار ان کے اردو اور فارسی اشعار میں ہوتا ہے:
لوح بھی تو قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ، تیرے محیط میں حباب
مسلم اول شہ مرداں علیؑ
عشق را سرمایہ ایماں علیؑ
مریمؑ از یک نسبت عیسٰیؑ عزیز
از سہ نسبت حضرت زہراؑ عزیز
نور چشم رحمتہ للعالمینﷺ
آں امام اولین و آخریں
زیر تبصرہ کتاب میں مصنف نے علامہ اقبالؒ کا ایسا کلام یکجا کیا ہے جو اہل بیتؑ اطہار کے ذکر سے مزین ہے، ان کی یہ کاوش باعث تحسین تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ باعث فخر بھی ہے کہ اللہ نے انھیں ایسی توفیق دی کہ وہ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔ علامہ اقبال کے تمام کلام کا مطالعہ کرنا اور پھر ان میں سے اہل بیتؑ اطہار کے ذکر سے مزین اشعار کا چنائو کرنا بہت مشکل کام ہے، مگر اللہ کے فضل سے وہ اس میں کامیاب ٹھہرے۔ قارئین کے لئے خاص تحفہ ہے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

۔۔۔
وارث شاہ ( مڈھلی وچار دھارا تے پنجابی ریت)
Wars Shah: The Ideologue
مصنف: ڈاکٹر منظور اعجاز
قیمت: 200 روپے
صفحات:80
ناشر: سلیکھ/ وچار، فیروز پور روڈ، لاہور


وارث شاہ ؒ کی شاعری کی ایک زمانے میں دھوم ہے، ہر خاص و عام اسے بڑے ذوق و شوق سے پڑھتا ہے ۔ ان کے عرس کے موقع پر ہیر پڑھنے کے مقابلے ہوتے ہیں اور اتنے جذب سے پڑھی جاتی ہے کہ اس عالم کی کیفیات کو بیان کرنا مشکل ہے۔ ڈاکٹر منظور اعجاز ادب پر بڑی گہری نظر رکھتے ہیں زیر تبصرہ کتاب میں انھوں نے وارث شاہ کے بنیادی خیال اور سوچ کو موضوع بنایا ہے، وہ بڑے باریک بیں ہیں چھپی پرتوں میں جھانک لینے کا ملکہ رکھتے ہیں، وہ عام سے نقطے کو بھی نظر انداز نہیں کرتے، انھوں نے کتاب کو سات ابواب میں تقسیم کیا ہے جن میں وارث شاہ کی شاعری کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان کے بارے میں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے، پنجابی سے لگائو رکھنے والوں کے سیکھنے کے لئے اس میں بہت کچھ ہے ۔ اس کتاب کو انگریزی زبان میں بھی Wars Shah: The Ideologue کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے تاکہ انگریزی زبان والے بھی استفادہ کر سکیں ۔ ادب کے قارئین کے لئے خاصے کی چیز ہے۔

۔۔۔
25 ہفتے ''دنیا'' میں
مصنف: منیر احمد منیر
قیمت: 500 روپے،صفحات: 184
پبلشرز: ماہنامہ آتش فشاں، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور


تاریخی حقائق کی کھوج بہت مشکل کام ہے مگر وہ جو اس میدان کے شناور ہیں ان کے لئے اس میں انتہائی کشش ہوتی ہے کیونکہ تاریخ کے صفحات جب الٹے جاتے ہیں تو ان سے بہت سے انکشافات سامنے آتے ہیں ، کسی تاریخ دان نے اگر ایک واقعہ اپنے انداز میں بیان کیا ہے تو دوسرے تاریخ دان نے اسے کسی اور انداز میں بیان کیا ہے یہی پرکھ محقق کو کسی اور ہی نتیجے پر لے جاتی ہے، سینئر صحافی منیر احمد منیر بھی اس معاملے میں خصوصی ملکہ رکھتے ہیں، زیر تبصرہ کتاب ان کے کالموں کا مجموعہ ہے مگر انھوں نے ان کالموں میں بہت سے تاریخی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے جیسے '' مشرف سے این آر او لینے کی وجہ نواز شریف نے یہ بیان کی' مجھ سے جیل برداشت نہیں ہوتی'، مشن را کے مطابق ولی خاں کو بھارتی حکمرانوں نے ہر قسم کی امداد دی۔

مصنف نے سردار پٹیل کی اس پیش کش کو من گھڑت قرار دیا ہے کہ انھوں نے لیاقت علی خان سے کہا تھا کہ ہمیں حیدر آباد دے دو اور کشمیر لے لو، وہ تفصیل بھی بیان کی گئی ہے جس کے تحت سردار پٹیل کو ایسا اختیار ہی نہ تھا اور نہ لیاقت علی خان ایسا اختیار رکھتے تھے۔ قرار داد لاہور کے حوالے سے خان عبدالولی خاں اور ڈاکٹر مبارک علی کے اس موقف کو ریکارڈ، شواہد اور تاریخی حوالوں سے غلط قرار دیا گیا ہے کہ وائسرائے لارڈ لنتھگوکی ہدایت پر چوہدری ظفراللہ نے اس کا مسودہ تیار کیا تھا۔ غرض پوری کتاب میں ایسے ہی حقائق منکشف ہیں، مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کے لئے خاص تحفہ ہے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

۔۔۔
اک سوال
مصنفہ: امریتا پریتم
قیمت: 250 روپے،صفحات:104
ناشر: سلیکھ/وچار ، فیروز پور روڈ ، لاہور


عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ تحریر میں جاذبیت، چاشنی، پھیلائو اور دلکشی اسی وقت ہوتی ہے جب اس میں بڑے مشکل، ثقیل اور بھاری بھرکم الفاظ استعمال کئے جائیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ الفاظ کے چنائو سے تحریر میں جان پڑتی ہے مگر کمال تو تب ہے کہ جب الفاظ کا چنائو بھی سیدھا سادا اور آسان ہو اور تحریر بھی دل میں اتر جائے۔ امریتا پریتم کو قدرت نے ایسی ہی خصوصیات سے نوازا تھا، ایک زمانہ ان کی تحریروں کا شیدائی ہے، ان کی تحریر قاری کو پکڑ لیتی ہے وہ چاہے بھی اس سے جان نہیں چھڑا پاتا کیونکہ اس کے من کی بات اس کے سامنے بڑی خوبصورتی سے پیش کر دی جاتی ہے، وہ جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے گویا تحریر کے بہائو میں ایسے بہتا چلا جاتا ہے جیسے کسی تیز رو ندی میں بہنے والی بن ماجھی کی نیا آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔

امریتا پریتم قاری کو گویا اپنی انگلی سے لگائے پھرتی ہیں ، قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ گویا اس پر بیت رہا ہے،اور پھر وہ ہمارے معاشرے کی اتنی پرتوں کو زیر بحث لاتی ہیں کہ ان کے مشاہدے پر عش عش کرنے کو جی چاہتا ہے، اک سوالِ، بھی ان کا ایسا ہی ناول ہے، جو انسان کے دل و دماغ پر سحر طاری کر دیتا ہے، پڑھنے والا کرداروں کی غم و خوشی کو محسوس کرتا ہے، کیونکہ یہ کردار اسے اپنے ارد گرد گھومتے دکھائی دیتے ہیں، اسے اپنے لگتے ہیں۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

۔۔۔
نیا پاکستان، نئے راہزن؟
مصنف: قیصر عباس صابر

قیمت: 500 روپے، صفحات: 152
ناشر: کتاب نگر، ایس ایس مال، ملتان کینٹ


مشاہدہ دیکھنے سے تعلق ضرور رکھتا ہے مگر اس کے لئے نظر میں دوربین کے خصائل ہونا ضروری ہیں، اور یہی چیز دل سے تعلق رکھتی ہے ورنہ ایک عام سی سڑک، عام سی سڑک ہی ہے، یہ بھی ایک مشاہدہ ہے مگر دوربینی نگاہ رکھنے والا سڑک کو بالکل مختلف نکتہ نظر سے دیکھے گا، اس کے لئے وہ عام سی سڑک بھی خاص بن جائے گی۔ یہی نظر کی گہرائی معاشرے کو بالکل مختلف زاویے سے دکھاتی ہے۔

سڑک پر ریڑھی لگائے پھل بیچنے والا سب کے لئے پھل بیچنے والا ہی ہے مگر مشاہدے کی گہرائی رکھنے والے کو ایک ہی نظر میں اس کی محرومیاں اور مجبوریاں بھی نظر آتی ہیں۔ قیصر عباس صابر کا تعلق تو قانون سے ہے مگر ان کی فکر بالکل ایک ادیب جیسی ہے وہ اپنے اردگرد پھیلے ہوئے ماحول اور مسائل میں الجھے معاشرے کو سلجھانے کی فکر میں ہیں، ان کی تحریروں میں نشتر کی کاٹ واضح طور پر محسوس ہوتی ہے، جیسے، ہم سب مولوی دتہ ہیں، میں وہ ہمارے مذہبی طبقے کی محرومیوں کو سب کے سامنے لاتے ہیں۔

حالانکہ سب کو اس بات کا کبھی خیال نہیں آتا کہ ان کے محلے کی مسجد کا مولوی بھی آخر ان کی طرح انسان ہے، اس کے بھی کچھ مسائل ہوں گے، مگر ہم اسے مذہبی ہونے کی وجہ سے اپنے سے بہت دور رکھتے ہیں، صرف ضرورت کے وقت اسے یاد کرتے ہیں ، یوں وہ اپنی محرومیوں کو گلے سے لگائے اپنی زندگی گزارتا رہتا ہے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

۔۔۔
متاع احساس
مصنف: ابو البیان ظہور احمد فاتح
قیمت:500 روپے
صفحات:160
ناشر: فاتح پبلی کیشنز، نیو کالج روڈ، تونسہ شریف
ظہور احمد فاتح متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، وہ اپنے خیالات اور احساسات دوسروں تک پہنچانے میں پوری مہارت رکھتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ہے۔ وہ بڑی ادا سے اپنے دل کی بات کہتے ہیں، جس میں تصنع اور بناوٹ نظر نہیں آتی، یہ کسی بھی شعر کی بہت بڑی خوبی ہے،جیسے رمضان المبارک کے مہینہ کے بارے میں کہتے ہیں،
دل تھا جس کا منتظر لو وہ مہینہ آگیا
واسطے معراج اہل دیں کے زینہ آ گیا
آ گیا تربیت مسلم کا ایک ماہ حسیں
اک سکون و معرفت کا آبگینہ آ گیا
اسی طرح غزل کے میدان میں اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہیں،
نہ پوچھو کیوں زمانے میں محبت کیش آتے ہیں؟
لٹانے کیلئے دل کی متاع بیش آتے ہیں
لئے برق تبسم، تیغ ابرو، تیر زن پلکیں
مسیحائی کو میری وہ بزعم خویش آتے ہیں
شاعری سے لگائو رکھنے والوں کے لئے دلچسپی کی چیز ہے، مجلد کتاب خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔

۔۔۔

''کون''
کہانی کا وجود اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ انسان خود، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ کہانی شاید انسان کی رونمائی سے پہلے وجود میں آ چکی تھی۔ انسان اور کہانی کا ساتھ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ انسان کے فکری ارتقاء میں داستان گوئی نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور آج بھی کہانی انسان کو سحر زدہ کرتی ہے، اس سے احساسات کو جلا ملتی ہے اور امکانات کے نئے در وا ہوتے ہیں۔

کردار کہانی کا بنیادی عنصر ہوتا ہے اور ایک زندہ کردار خواہ وہ پردے پر نمودار ہو یا صفحات پر تحریر کی شکل میں نظر آئے، انسان پر اپنے اثرات ضرور چھوڑتا ہے۔ بعض کردار اتنا جاندار تاثر رکھتے ہیں کہ ہمارے اعصاب پر سوار ہو جاتے ہیں اور یہ اس لئے ہوتا ہے کہ ان کرداروں کا تعلق ہمارے اپنے ماحول کے ساتھ ہوتا ہے اور ان کے حالات بھی ہماری زندگی کے امکانات اور اندیشوں کے آس پاس ہی کے ہوتے ہیں۔ کسی فلم، ڈرامے یا تمثیل میں کسی کردار کا روپ دھارن کرنا کسی کردار کو باہر بیٹھ کر دیکھنے سے کہیں زیادہ کرب ناک تجربہ ہو سکتا ہے۔ اس تجربے کے نتیجے میں بعض انتہائی ناخوشگوار واقعات تاریخ کا حصہ ہیں جن میں خودکشی تک شامل ہے۔

زیرنظر پنجابی ناولٹ ''کون'' پڑھنے والے کو کسی کردار کے حقیقی کرب، نارسائی، اذیت اور مایوسی کے اتنا قریب لے جاتا ہے کہ وہ بڑی حد تک ذاتی تجربہ لگنے لگتا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے مصنف مدثر بشیر نے اپنے بیانیے میں قابل قدر تکنیکی تجربہ کیا ہے۔ اس ناولٹ کے مرکزی کردار سرمد کے سر میں اداکار بننے کا سودا سمایا ہے اور وہ اپنے ہدایتکار دوست جوزف کو مجبور کرتا ہے کہ اسے فلم میں کردار دلائے۔ جوزف سرمد کو کچھ دنوں کے لئے ایک ایسے ریہرسل روم میں چھوڑ دیتا ہے جس میں مختلف کرداروں کے سکرپٹ ہیں ۔



ہر طرح کے کپڑے ہیں اور روپ دھارنے کے تمام سامان موجود ہیں۔ یہاں انوکھی بات یہ ہے کہ جب ہمارا ہیرو کوئی سکرپٹ پڑھ کر کردار کو چن لیتا ہے تو سامنے لگے آئینے کے ساتھ دائیں بائیں دیواریں بھی شیشے کی ہو جاتی ہیں اور سرمد اپنے اردگرد پیدا ہونے والے حقیقی منظر کے اندر داخل ہو جاتا ہے۔ شیشہ خود کردار سے بات کرتا ہے۔ گو کہ یہ باتیں حقیقت سے دور ہیں لیکن بڑا مقصد تو بیانیے کے پیغام اور ماحول کی تاثیر کو پڑھنے والے تک منتقل کرنا ہے۔ ناول نگاری میں ایسے تجربات کوئی نئی بات نہیں۔ مصنف نے تخیل کی اس واردات اور حقیقی دنیا کے درمیان فاصلہ اس قدر کم کر دیا ہے کہ یہ ایک مہین پردے کی طرح لگنے لگتا ہے، جس کے آر پار دیکھا جا سکتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پڑھنے والا ایک لمحے کے لئے بھی اس تصوراتی عارضی بندوبست پر معترض نہیں ہوتا۔ ناولٹ کے مرکزی کردار کا مختلف کرداروں کے روپ میں سفر دراصل تاریخ کے ادوار کا سفر ہے۔

اس سفر کا آغاز ایک مزدور کے کردار سے ہے اور اس کردار کے دور کا پتہ نہیں چلتا کیونکہ مزدور تو ہر دور میں مزدور ہے اور کوئی بھی دور اس کی مصیبتوں کو کم نہیں کرتا ۔ اس کے بعد وہ ایک گویئے کا کردار اپناتا ہے اور بابا گرونانک کے دور میں پہنچ جاتا ہے جہاں اس کی ملاقات بابانانک اور ان کے چہیتے چیلے بھائی مردانہ سے ہوتی ہے۔ اسی طرح برطانوی عہد کے کلرک ڈپٹی نذیر کا کردار، عظیم کلاسیکل گائیک استاد بڑے غلام علی کے دور میں سفر، میر منو کے دور میں ایک عاشق کا کردار، بابا بلھے شاہ کے دور میں سفر، ایک بدھ بھکشو کا کردار اور آخر میں ایک عورت کا کردار۔ اس کہانی کے ذریعے ہمارے اس خطے میں گزرے زمانوں کا احوال بھی سامنے آتا ہے اور انسان پر گزرنے والی بپتا کو محسوس کرنے کا تجربہ بھی ہوتا ہے۔

یہ کہانی پڑھنے والے کو اپنے ساتھ باندھے رکھتی ہے اور یہی کسی تخلیق کار کی سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ مدثر بشیر کا لاہور کی تاریخ پر کام قابل قدر ہے۔ 9 کتب کے مصنف مدثر کا یہ دوسرا ناولٹ ہے۔ زیرنظر کتاب سانجھ پبلی کیشن 46/2 مزنگ روڈ لاہور نے شائع کی ہے۔ تخلیقی ادب سے شغف رکھنے والوں کو اس ناولٹ کو ضرور پڑھنا چاہئے۔

۔۔۔

ثقافتی میڈیا
پاکستان کا صوبہ بلوچستان ملک میں اور دنیا بھر میں اپنے وسیع و عریض رقبے کے باعث ممتاز ہے۔ یہاں پر انسانی آبادیاں ایک دوسرے سے طویل فاصلوں پر آباد ہیں۔ ایک جگہ آباد گائوں کے مکینوں کا دوسرے دیہات سے میل ملاپ انتہائی محدود ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود سینکڑوں کلومیٹر کے فاصلوں پر آباد قبائل جدید اطلاعاتی سہولتوں کے عام ہونے سے بہت پہلے کے زمانے میں بھی ایک دوسرے کے حالات سے مکمل طور پر آگاہ رہا کرتے تھے۔ آج کے زمانے میں بھی جب کوئی شخص اپنے اونٹ کے ساتھ سفر پر نکلتا ہے تو راستے میں ملنے والے ہر شخص کو اپنے گائوں کی ہر چھوٹی بڑی خبر سے آگاہ کرتا ہے اور دوسرا اسے اپنے گاوں اور راستے میں ملنے والے باقی تمام مسافروں کے دیہات تمام خبروں کی تفصیل بتاتا ہے۔ اس عمل کو مقامی لوگ ''حال دینا'' بولتے ہیں۔ یعنی جب دو مسافر راستے میں ملیں گے تو سلام دعا کے بعد پہلا دوسرے سے کہے گا ''حال دو'' اور وہ ایک خاص نیم شاعرانہ انداز میں تمام خبریں اسے پہنچا دے گا۔ یوں ہزاروں کلو میٹر پر پھیلا ہوا یہ قبائلی معاشرہ اس دور میں بھی پوری طرح سے مربوط اور ایک دوسرے کے حالات سے آگاہ تھا جب برقی مواصلات کا تصور تک نہیں تھا۔ اسی طرح افریقہ میں مختلف حُجم کے ڈرمز (ڈھولوں) کو بجا کر جنگلوں میں آباد قبائل پیغام رسانی کیا کرتے تھے۔ شاید انسان نے مورس کوڈ کے ذریعے پیغام رسانی کا تصور یہیں سے لیا ہو ۔ بلوچی ''حال'' ہو، افریقی قبائل کے ڈرمز ہوں یا پھر قبل از تاریخ کے ادوار کی غاروں پر بنے نقش و نگار یہ سب فوک میڈیا کی اولین صورتیں ہیں یعنی ابلاغ انسانی جبلت کا سب سے طاقتور عنصر ہے اور انسان ہمیشہ اس میں سہولت اور ندرت پیدا کرنے کا خوگر رہا ہے۔ زیر نظر کتاب فوک میڈیا منیبہ افتخار کی کاوش ہے جو خود لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی میں ابلاغیات کے شعبہ میں تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔

الیکٹرانک میڈیا کے اس چکا چوند میں انہوں نے فوک میڈیا جیسے اولین اور بنیادی ابلاغ کے ذرائع پر قلم اُٹھایا ہے جو ان کے اس یقین کی غمازی کرتا ہے کہ اپنے ماضی سے تعلق جوڑے بنا کسی بھی شعبے میں مستحکم بنیادوں پر ترقی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اس کتاب میں ''فوک میڈیا'' کے موضوع پر تمام بنیادی معلومات فراہم کردی گئی ہیں جن کی بنیاد پر نئے فکری موضوعات کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔

نامور صحافی سہیل وڑائچ نے کتاب پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ''منیبہ افتخار نے اپنی تصنیف میں ایسے ثقافتی ذرائع کو جامع انداز میں پیش کیا ہے جن کے ذریعے ہماری ثقافت ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی ہے لیکن اپنی کم علمی کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل انہیں بھول چکی ہے۔''

معروف کالم نگار اور روزنامہ ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹر ایاز خان کا اس کتاب کے بارے میں کہنا ہے ''میرے نزدیک جدیدیت کا زور چاہے کتنا ہی زور آور ہو اصل میں اپنی مٹی سے جڑے رہنے میں ہی عافیت ہے۔ اسی لیے میرے نزدیک یہ معاشرے کے اصل خمیر کی نشاندہی کرنے والی کتاب ہے جس کو بہت پہلے شائع کیا جانا چاہیے تھا لیکن شاید قدرت نے یہ افتخار منیبہ افتخار کے لیے رکھا تھا۔''

اس مجلد کتاب کی پیشکش کا انداز شاندار ہے۔ پوری کتاب موزوں تصاویر سے مزین ہے۔ قیمت 250 روپے ہے۔
Load Next Story