مبالغہ آمیز رپورٹنگ ہائیبرڈ وار کا ایک اور ہتھیار

مفادات کی جنگ میں ایک اور خطرناک حربہ جسے ہم ’’مسالے دار خبریں‘‘ کہہ سکتے ہیں۔

کسی بھی شخص یا ملک کو تباہ و برباد کرنے کے لیے ہر طرح کی ٹیکنالوجی اورمیڈیائی کرتب کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔ جعلی خبریں، جھوٹ پھیلانا یا کسی ذرائع سے ملنے والی خبروں کو بلاتصدیق دہرانا بھی عدم استحکام پیدا کرنے کا ایک طریقہ ہے ، جس کے نتیجے میں کسی بھی فرد یا ملک کو بے یقینی کی سولی پر لٹکایا جا سکتا ہے۔ عام طور پر اس طرح کی خبریں بہت دیر تک نہیں چلتیں کیوں کہ سچ بہرحال اپنا راستہ بنا لیتا ہے لیکن ان سے نقصان ہوتا ہے بالخصوص جب آبادی کا بڑا حصہ ناخواندہ ہو تو یہ زہریلے اثرات زیادہ دیرپا ہوتے ہیں۔

مفادات کی جنگ میں ایک اور خطرناک حربہ جسے ہم ''مسالے دار خبریں'' کہہ سکتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بنیادی طور پر خبر درست ہے لیکن اسے مرچ مسالا لگا کر بیان کیا گیا ہے، بات کو بڑھا چڑھا کر اس میں منفعیت بھی شامل کر دی گئی ہے، اس کے نتائج بھی فیک نیوز جیسے ہی برآمد ہوتے ہیں یعنی اس کے نتیجے میں بھی عدم استحکام، شبہات اور بے اعتمادی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔

خبریں دینے کے اس انداز کو سمجھنے کے لیے سب سے بڑے ہدف سی پیک اور چین سے متعلق رپورٹنگ کا جائزہ لینا کافی ہو گا۔ پی سی گوادر پر دہشتگردانہ حملے کی رپورٹنگ ہونی چاہیے تھی اور اکثر اخبارات نے آئی ایس پی آر کے فراہم کردہ حقائق آگے بیان کیے۔ تاہم ہمارے ایک معاصر نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ بلوچستان جنگ کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، وہاں عوام اور جاری منصوبے محفوظ نہیں اور ان سے دور رہنے ہی میں عافیت ہے۔ یہ سیدھا سادا دشمن کا پراپیگنڈا ہے۔ اس اخبارنے کبھی یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا کہ بھارت کشمیر سمیت دیگر 17 ریاستوں تک میڈیا کو رسائی کیوں نہیں دیتا؟ اسی اخبار میں معاشی امور پر لکھنے والے کالم نگار نے کراچی کے طلبا کے سامنے آئی بی اے میں ہونے والی ایک نشست میں سی پیک کو ''خواب و خیال'' قرار دیا۔

درحقیقت نام نہاد بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) ایک دم توڑتی تنظیم ہے، جسے غیر ملکی سرپرستوں نے پاکستان کو بدنام کرنے اور دباؤ میں رکھنے ، سی پیک کو بے یقینی کی نذر کرنے اور ایرانی سرحد کے نزدیک بے چینی بڑھانے کے لیے زندہ رکھا ہوا ہے۔ اس اخبار نے اپنے اداریے میں یہی انداز اپنایا جب کہ مارے جانے والے حملہ آوروں میں شامل ''مسنگ پرسنز'' اسے یاد نہیں رہے۔ ایسے ہی مسنگ پرسنز کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے میں بھی ملوث تھے۔ بھارت بھی یہی چاہتا ہے کہ پاکستان پر دہشتگردی کی پشت پناہی کا الزام بار بار دہرایا جاتا رہے اور اسے دنیا کے سامنے سرمایہ داری کے لیے غیر محفوظ ملک کے طور پر پیش کیا جائے۔

ایسی ہی ایک اور مبالغہ آمیز خبر پاکستان سے چین دلہنوں کی اسمگلنگ سے متعلق پھیلائی گئی۔ میڈیا نے خبریں چلانا شروع کر دیں کہ چینی مرد شہری پاکستانی اور بالخصوص ہماری مسیحی برادری کی نوجوان لڑکیوں سے جعلی شادی کر کے یا ان کے والدین سے خرید کر انھیں اپنے ملک لے جاتے ہیں جہاں ان سے یا تو جسم فروشی کا دھندا کروایا جاتا ہے یا زبردستی ان کے اعضا نکال لیے جاتے ہیں۔ یقیناً اس خبر میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور تھی۔ انسانی اسمگلنگ کی تحقیقات کرنے والے ایف آئی اے کے اعلی افسر جمیل احمد نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ شادی کے نام پر اسمگلنگ اور جسم فروشی کا نیٹ ورک چلانے والے 12مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان میں 8 چینی اور 4 پاکستانی شہری شامل ہیں۔


اس معاملے پر ہیومن رائٹس کمیشن واچ نے بھی آواز اٹھائی اور پاکستان کو خواتین اور نوجوان لڑکیوں کی چین اسمگلنگ کی اطلاعات سے متعلق ہوشیار رہنے کے لیے خبردار کیا۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ بھی ان اطلاعات کی بنیاد پر پاکستان میں چین کے عزائم اور درپردہ سی پیک سے متعلق شبہات پھیلانے کی دوڑ میں شامل ہوگئے۔ انسانی اسمگلنگ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فورمائیگریشن جینوا کے بزنس ایڈوائزری بورڈ میں شامل ہونے کی وجہ سے میں اس کی اہمیت اور حساسیت سے واقف ہوں۔ اس پورے ہنگامے میں کسی کو یہ یاد ہی نہیں رہا کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں خواتین کی اسمگلنگ کے اعتبار سے بھارت پہلے نمبر پر ہے، اس کے بعد بنگلا دیش اور نیپال ہیں۔ پاکستان کا نام سری لنکا کے بھی بعد آتا ہے۔

سی این این نے چین میں ایغور مسلمانوں کے لیے بنائے گئے حراستی کیمپوں کی رپورٹ کو خوب اچھالا ۔ ان کیمپوں میں ایغور مسلمانوں کے شدت پسند خیالات تبدیل کیے جاتے ہیں اور انھیں اس بات پر قائل کیا جاتا ہے کہ مذہب ان کا نجی معاملہ ہے۔ لیکن یہی سی این این مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے اس سے بھی زیادہ بھیانک جرائم بیان کرنے سے کیوں کتراتا ہے؟

بھارتی فوج نے جس طرح کشمیر میں خون کی ہولی کھیلی ہے، انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ قابل اعتبار تصور ہونے والے چینل نے معصوم کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر آنکھ ، کان اور زبان بند کر رکھے ہیں۔ انسانی المیوں کو بھی اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا ، ایک جگہ زیادتیوں کا بیان کرنا مفاد کے خلاف ہو تو خاموشی اور دوسری جگہ صرف خاص مقاصد کے حصول کے لیے مظالم پر واویلا بھی خبر نہیں فریب ہے، اور ہائیبرڈ وارفیئر کی ایک اور تکنیک۔ پاکستان اور چین کے تعلقات دیرینہ ہیں اور سی پیک اس تعلق کا ایک اور اہم حوالہ بن چکا ہے ۔ ہم نے ہر طرح کے حالات میں چین کا ساتھ دیا ہے۔

بھلے ہی امریکیوں سے ہمارے تعلقات بدترین سطح پر پہنچ چکے ہیں لیکن ہمیں پھر بھی چین سے اپنی مضبوط دوستی پر حرف نہیں آنے دینا چاہیے۔ توقع ہے کہ افغان امن عمل کے آغاز کے ساتھ ہی امریکا سے تعلقات میں بہتری آنے لگے گی۔ مستقبل میں ایسے حالات سے نمٹنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ جعلی اور مسالے دار خبروں کی رو میں بہنے کے بجائے پورے اطمینان سے حالات کا جائزہ لینے کے بعد ہی کوئی رائے قائم کی جائے۔ پاکستان نے اپنی پوری تاریخ میں دنیا میں اپنی امیج بلڈنگ کے لیے پراپیگنڈے کو بطور ہتھیار استعمال نہیں کیا۔ ہم نے 1971ء میں سیاسی ہی نہیں عسکری محاذ پر بھی شکست کھائی تھی لیکن یہ انتہائی غیر معمولی منفی پراپیگنڈے اور بین الاقوامی دباؤ کی بنا پر ممکن ہوا۔ ہم نے خبروں کا سارا کاروبار بھارت پر چھوڑ رکھا تھا۔

سلامتی امور کے ہمارے تجزیہ کاروں کو لیبیا، شام، یمن، عراق اور افغانستان وغیرہ کے حالات پر نظر رکھنی چاہیے اور اس کے بعد فیصلہ کرنا چاہیے کہ نام نہاد ''لبرل'' میڈیا محب وطن ہے یا ہمارے دشمنوں کے عزائم کے مطابق مسالے دار خبریں پھیلاتا ہے۔ ''آزادی اظہار رائے'' کی آڑ میں دشمنوں کا پراپیگنڈا پھیلانے والے عناصر کو روکنے کی اشد ضرورت ہے۔ لیبیا، شام، یمن ، سوڈان (اور قریب قریب مصر اور ترکی) کو ''آزادی اظہار رائے'' نے کس نہج پر پہنچایا۔ آزادی بردباری اور ذمے داری کا تقاضا کرتی ہے۔ موجودہ طرز عمل کے برخلاف انتہائی احتیاط اور مہارت سے دنیا پر یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ متواتر حملوں کے باوجود ہم ہائبرڈ وارفیئر کے ان حملوں کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

(فاضل کالم نگار دفاعی اور سیکیورٹی امور تجزیہ کار ہیں)
Load Next Story