ہمارا نشہ مت خراب کرو
الیکشن سے پہلے یوں لگ رہا تھا جیسے میاں نواز شریف اور ان کے رفقا ناصرف ’’بعد از الیکشن کیا کیا کس کس ترتیب سے۔۔۔
LONDON:
الیکشن سے پہلے یوں لگ رہا تھا جیسے میاں نواز شریف اور ان کے رفقا ناصرف ''بعد از الیکشن کیا کیا کس کس ترتیب سے کرنا ہے '' کے بارے میں واضح اور یکسو ہیں بلکہ ان کی ٹیم نے اس ضمن میں بنیادی ہوم ورک بھی مکمل کرلیا ہے۔ ترجیحات میں شائد بالترتیب توانائی کا بحران ، معیشت کی بحالی ، دہشت گردی سے نمٹنا اور پھر علاقائی و بین الاقوامی مسائل و تعلقات کی جانب توجہ دینا شامل تھا۔ فی زمانہ چونکہ ہر مسئلہ ایک دوسرے سے براہِ راست یا بلاواسطہ جڑا ہوتا ہے۔لہذا ریاست چلانے کے لیے آئیڈیل بات تو یہی ہوتی ہے کہ اگر وقت ، وسائل اور حکمتِ عملی اجازت دیں تو تمام بنیادی مسائل پر ایک ساتھ پیش رفت ہو۔
لیکن پاکستان جیسے ممالک کے پاس چونکہ تمام اجزائے اعظم نہ کبھی یکجا اور نہ ہی وافر ہوئے لہذا بیک وقت کے بجائے یکے بعد دیگرے ترجیحاتی فہرست کے مطابق چلنا ہی ایسے ممالک کی مجبوری ہوتی ہے۔لیکن اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔مگر اس کی کامیابی کے لیے بنیادی شرط یہ ہوتی ہے کہ ترجیحاتی فہرست بناتے وقت زمینی حقائق کے بارے میں بنیادی و حقیقی آگہی ہو اور یہ بھی معلوم ہو کہ کس ترجیح کے لیے کون کون سے وسائل اور مہارتیں درکار ہیں اور ان کی دستیابی کہاں کہاں سے ہوگی۔انھیں موثر انداز میں کیسے استعمال کیا جائے گا اور ممکنہ رکاوٹیں کیا کیا اور کہاں کہاں سے آسکتی ہیں اور پھر ان سے کیسے نمٹا جائے گا۔ تاکہ مسئلے کے حل کا ٹائم فریم کم ازکم متاثر ہو۔
اس تناظر میں اگر نواز حکومت کے لگ بھگ پہلے تین ماہ کا جائزہ لیا جائے تو تصویر کچھ یوں بن رہی ہے کہ الیکشن سے پہلے والی مربوطیت کا تاثر زائل ہو رہا ہے۔ترجیحات گڈمڈ ہورہی ہیں۔کون سی گیند کس ترتیب سے اچھالنی ہے ، کب اور کیوں اچھالنی ہے، اس بارے میں بھی کنفیوژن پیدا ہو رہا ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ترجیحات کو آگے پیچھے کرنے کی ضرورت ہو لیکن یہ سمجھ میں نہ آرہا ہو کہ ہاتھ کہاں اور کیسے ڈالا جائے ؟
مثلاً ایک دن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ لوڈ شیڈنگ ہے۔وہ ختم ہوگئی تو معیشت کا پہیہ بھی رواں ہوجائے گا۔دوسرے دن کے بیانات سے یوں لگتا ہے جیسے مواصلات کی ترقی بنیادی مسئلہ ہے۔اگر گوادر ہانک کانگ بن گیا اور گوادر خنجراب موٹر وے اور پشاور تا کراچی ریل کا جدید نظام ڈال دیا جائے۔کراچی اور اسلام آباد میں بھی لاہور کی طرز کا میٹرو سسٹم متعارف ہوجائے اور فتح جنگ کے بجائے روات میں نیا اسلام آباد ایرپورٹ بنا دیا جائے تو باقی چیزیں خود بخود درست ہونا شروع ہو جائیں گی۔
تیسرے دن یوں لگتا ہے کہ اصل مسئلہ تو د ہشت گردی ہے۔جب تک اس کا سدِباب نہیں ہوگا تب تک معیشت جام رہے گی۔چوتھے روز کے بیانات یہ تاثر دیتے ہیں کہ سب سے پہلے ہمسایہ ممالک کے ساتھ سفارتی ، عسکری اور اقتصادی امن کے قیام میں پیش رفت اور عالمی برادری پر ایک مثبت اور پروگریسو تاثر چھوڑنا ضروری ہے۔انھیں یہ باور کرانا ضروری ہے کہ ہم اپنے مستقبل اور ان کی تشویش کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔اور پانچویں روز لگتا ہے کہ سب چیزیں خلط ملط ہوگئی ہیں۔سرا ہی ہاتھ نہیں آرہا تو ڈور کیسے سلجھے گی ؟
آئیے ان ترجیحات کو ایک ایک کرکے دیکھ لیں۔
توانائی کا بحران
الیکشن جیتنے سے پہلے کس نے کیا کہا اسے بھول جائیں۔برسرِ اقتدار آنے کے بعد اندازہ یہ ہوا کہ کہنے اور کرنے کے درمیان جو کھائی ہے اسے عبور کرنے کے لیے صبر اور پیسہ درکار ہے۔سرکاری گفتگو سے تاثر یہ مل رہا ہے کہ توانائی کا بحران ختم کرنے کے لیے جتنے بڑے بڑے آبی و غیر آبی منصوبے ہیں وہ پانچ سال کی انتخابی مدت کے بعد ہی دودھ دینا شروع کریں گے۔وہ بھی تب اگر ان پر آج ہی سے تعمیراتی کام شروع ہوجائے۔لیکن اس کے لیے ڈالر میں بھاری رقم چاہیے۔یہ رقم یا تو ٹیکسوں کو پانچویں سے ساتویں آسمان پر لے جا کر جمع کی جائے یا پھر بیرونی مالیاتی اداروں سے رجوع کیا جائے یا پھر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا نسخہ آزمایا جائے۔
ایسے وقت جب کہ موجودہ حکومت کی بجٹ ترجیحات گذشتہ ادوار سے مختلف دکھائی نہیں دیتیں۔ جہاں قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے بھی قرضہ لینے کی نوبت ہو اور ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑ چکا ہو اور تھر کے عظیم کوئلہ ذخائر کے حجم کو بھی بس محسوس کر کے خوش ہوا جارہا ہو، وہاں توانائی کا بحران اگلی حکومت کے دور میں داخل ہوتا نظر آرہا ہے۔
معیشت کی بحالی
یہ ایک ایسی ایف آئی آر کی طرح نظر آرہی ہے جو نامعلوم ملزموں کے خلاف درج کی جاتی ہے اور اس میں نام ڈالے اور نکالنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ معیشت کی بحالی کی اس مرحلے پر گفتگو انڈے اور مرغی کی بحث جیسی ہے۔یعنی توانائی معیشت چلائے گی یا معیشت توانائی کے منصوبوں کو آگے بڑھائے گی۔سڑک پہلے ضروری ہے کہ کارخانہ سڑک سے زیادہ ضروری ہے۔منڈیوں کی تلاش پہلی ترجیح ہو یا مصنوعات کی تیاری کی حوصلہ افزائی۔ڈومیسٹک مارکیٹ کے حالات اور قوتِ خرید بہتر بنانے کی ضرورت ہے یا بیرونی ممالک میں کھپت کے حساب سے زرعی و صنعتی و سرمایہ کارانہ حکمتِ عملی کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔اندرونی سرمایہ کار کی حوصلہ افزائی کی جائے یا بیرونی سرمایہ کار کو راغب کرنے کے لیے کشش پیدا کی جائے۔نجکاری تیز کردی جائے یا پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو آگے رکھا جائے۔
کارٹل اور مونوپلی کو لگام دی جائے یا فی الحال بھڑوں کے چھتے کو ہاتھ نہ لگایا جائے۔پہلے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر امن و امان درست کرلیا جائے یا یہ تصور کرلیا جائے کہ معیشت چل پڑے گی تو روزگار پیدا ہوگا، روزگار پیدا ہوگا تو بے روزگار نوجوانوں کی فرسٹریشن کم ہوگی، فرسٹریشن کم ہوگی تو ان کے ذہن میں منفی و تخریبی خیالات کم ہوجائیں گے۔یوں جرائم کے جوہڑ میں مچھروں کی تعداد نہیں بڑھے گی۔اور کیوں نہ ان سب سے پہلے دہشت گردی کو منہ دے لیا جائے۔دشت گردی ختم ہوگی تو سرمایہ بھی ٹکنا شروع کردے گا۔سرمایہ ٹکے گا تو اس کی دیکھا دیکھی اور بھی سرمایہ آئے گا۔یوں اقتصادی زندگی آسان ہوتی چلی جائے گی۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پر معیشت کی بحالی کی ترجیح کا معاملہ بھی اگر مگر کے جال میں پھنستا نظر آرہا ہے۔اتنے آپشن ہیں کہ سہولت کے بجائے '' میں کیہڑے پاسے جاواں میں منجی کتھے ڈاہواں '' طرز کا کنفیوژن پیدا ہورہا ہے۔اور یہ شش و پنج وزیرِ اعظم سے لے کر وزیرِ خزانہ اور اقتصادی پنڈتوں کی گفتگو سے جھلک اور چھلک رہا ہے۔
انسدادِ دہشت گردی
اب تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ دہشت گردی گفتگو سے ختم ہوگی یا بندوق سے یا دونوں سے۔جب حکومتوں کو اپنی مرضی کرنی ہوتی ہے تو وہ کر گذرتی ہیں۔لیکن نہ کرنا ہو تو پھر قومی اتفاقِ رائے کا کمبل اوڑھ لیا جاتا ہے۔جب تک ماموں نہیں مانیں گے تب تک رشتہ نہیں ہوگا۔جب تک تایا ناراض ہیں تب تک بارات روانہ نہیں ہوگی۔جب تک دادی نہیں مان جاتیں تب تک نکاح نہیں ہوگا۔
نہ توانائی کے بحران کے حل میں ، نہ معیشت کی بحالی کے خطوط طے کرنے میں، نہ بلوچستان جیسے مسائل کا حل نکالنے میں اور نہ ہی خارجہ تعلقات کی ترجیحات وضع کرنے میں قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔لے دے کے انسدادِ دہشت گردی ہی ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں قومی اتفاقِ رائے کے بغیر کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانا محال بتایا جارہا ہے۔سوال یہ ہے کہ جیسے حالات باقی تین صوبوں کے ہیں ویسے ہی حالات اگر پنجاب کے ہوتے تو کیا تب بھی سانپ کے آگے قومی اتفاقِ رائے اور بات چیت کی بین بج رہی ہوتی ؟
علاقائی و بیرونی تعلقات
یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان کبھی بھی کوئی ایسا پہیہ ایجاد نہیں کرسکتا جسے لگا کر وہ بھارت ، افغانستان اور ایران سے دور چلا جائے۔اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو امریکا سے دور کیسے اور کہاں جائے گا۔یہی وہ شعبہ ہے جس میں واقعی قومی اتفاقِ رائے پیدا کرکے تہتر کے آئین کی طرز پر ایسے بنیادی پالیسی نکات طے کرنے کی اشد ضرورت ہے جن سے کوئی بھی آنے والی حکومت منہ نہ موڑ پائے۔جب تک امورِ خارجہ میں ٹھیکیداری نظام چلتا رہے گا اور جب تک وزارتِ خارجہ کا مقام ایک پوسٹ آفس سے آگے نہیں بڑھے گا یہ چمن یونہی رہے گا۔
لگ یہ رہا ہے کہ موجودہ حکومت بھی زرداری حکومت کی طرح پانچ برس نکالنے پر سب سے زیادہ توجہ دیتی رہے گی۔کسی سے پنگا نہیں اور جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پر سسٹم چلتا رہے گا۔آپ کو جو کرنا ہے کرتے رہو، ہمارا نشہ خراب نہ کرو کے اصول کے تحت۔۔۔۔۔
دعا ہے کہ یہ توقع غلط ثابت ہوجائے۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )
الیکشن سے پہلے یوں لگ رہا تھا جیسے میاں نواز شریف اور ان کے رفقا ناصرف ''بعد از الیکشن کیا کیا کس کس ترتیب سے کرنا ہے '' کے بارے میں واضح اور یکسو ہیں بلکہ ان کی ٹیم نے اس ضمن میں بنیادی ہوم ورک بھی مکمل کرلیا ہے۔ ترجیحات میں شائد بالترتیب توانائی کا بحران ، معیشت کی بحالی ، دہشت گردی سے نمٹنا اور پھر علاقائی و بین الاقوامی مسائل و تعلقات کی جانب توجہ دینا شامل تھا۔ فی زمانہ چونکہ ہر مسئلہ ایک دوسرے سے براہِ راست یا بلاواسطہ جڑا ہوتا ہے۔لہذا ریاست چلانے کے لیے آئیڈیل بات تو یہی ہوتی ہے کہ اگر وقت ، وسائل اور حکمتِ عملی اجازت دیں تو تمام بنیادی مسائل پر ایک ساتھ پیش رفت ہو۔
لیکن پاکستان جیسے ممالک کے پاس چونکہ تمام اجزائے اعظم نہ کبھی یکجا اور نہ ہی وافر ہوئے لہذا بیک وقت کے بجائے یکے بعد دیگرے ترجیحاتی فہرست کے مطابق چلنا ہی ایسے ممالک کی مجبوری ہوتی ہے۔لیکن اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔مگر اس کی کامیابی کے لیے بنیادی شرط یہ ہوتی ہے کہ ترجیحاتی فہرست بناتے وقت زمینی حقائق کے بارے میں بنیادی و حقیقی آگہی ہو اور یہ بھی معلوم ہو کہ کس ترجیح کے لیے کون کون سے وسائل اور مہارتیں درکار ہیں اور ان کی دستیابی کہاں کہاں سے ہوگی۔انھیں موثر انداز میں کیسے استعمال کیا جائے گا اور ممکنہ رکاوٹیں کیا کیا اور کہاں کہاں سے آسکتی ہیں اور پھر ان سے کیسے نمٹا جائے گا۔ تاکہ مسئلے کے حل کا ٹائم فریم کم ازکم متاثر ہو۔
اس تناظر میں اگر نواز حکومت کے لگ بھگ پہلے تین ماہ کا جائزہ لیا جائے تو تصویر کچھ یوں بن رہی ہے کہ الیکشن سے پہلے والی مربوطیت کا تاثر زائل ہو رہا ہے۔ترجیحات گڈمڈ ہورہی ہیں۔کون سی گیند کس ترتیب سے اچھالنی ہے ، کب اور کیوں اچھالنی ہے، اس بارے میں بھی کنفیوژن پیدا ہو رہا ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ترجیحات کو آگے پیچھے کرنے کی ضرورت ہو لیکن یہ سمجھ میں نہ آرہا ہو کہ ہاتھ کہاں اور کیسے ڈالا جائے ؟
مثلاً ایک دن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ لوڈ شیڈنگ ہے۔وہ ختم ہوگئی تو معیشت کا پہیہ بھی رواں ہوجائے گا۔دوسرے دن کے بیانات سے یوں لگتا ہے جیسے مواصلات کی ترقی بنیادی مسئلہ ہے۔اگر گوادر ہانک کانگ بن گیا اور گوادر خنجراب موٹر وے اور پشاور تا کراچی ریل کا جدید نظام ڈال دیا جائے۔کراچی اور اسلام آباد میں بھی لاہور کی طرز کا میٹرو سسٹم متعارف ہوجائے اور فتح جنگ کے بجائے روات میں نیا اسلام آباد ایرپورٹ بنا دیا جائے تو باقی چیزیں خود بخود درست ہونا شروع ہو جائیں گی۔
تیسرے دن یوں لگتا ہے کہ اصل مسئلہ تو د ہشت گردی ہے۔جب تک اس کا سدِباب نہیں ہوگا تب تک معیشت جام رہے گی۔چوتھے روز کے بیانات یہ تاثر دیتے ہیں کہ سب سے پہلے ہمسایہ ممالک کے ساتھ سفارتی ، عسکری اور اقتصادی امن کے قیام میں پیش رفت اور عالمی برادری پر ایک مثبت اور پروگریسو تاثر چھوڑنا ضروری ہے۔انھیں یہ باور کرانا ضروری ہے کہ ہم اپنے مستقبل اور ان کی تشویش کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔اور پانچویں روز لگتا ہے کہ سب چیزیں خلط ملط ہوگئی ہیں۔سرا ہی ہاتھ نہیں آرہا تو ڈور کیسے سلجھے گی ؟
آئیے ان ترجیحات کو ایک ایک کرکے دیکھ لیں۔
توانائی کا بحران
الیکشن جیتنے سے پہلے کس نے کیا کہا اسے بھول جائیں۔برسرِ اقتدار آنے کے بعد اندازہ یہ ہوا کہ کہنے اور کرنے کے درمیان جو کھائی ہے اسے عبور کرنے کے لیے صبر اور پیسہ درکار ہے۔سرکاری گفتگو سے تاثر یہ مل رہا ہے کہ توانائی کا بحران ختم کرنے کے لیے جتنے بڑے بڑے آبی و غیر آبی منصوبے ہیں وہ پانچ سال کی انتخابی مدت کے بعد ہی دودھ دینا شروع کریں گے۔وہ بھی تب اگر ان پر آج ہی سے تعمیراتی کام شروع ہوجائے۔لیکن اس کے لیے ڈالر میں بھاری رقم چاہیے۔یہ رقم یا تو ٹیکسوں کو پانچویں سے ساتویں آسمان پر لے جا کر جمع کی جائے یا پھر بیرونی مالیاتی اداروں سے رجوع کیا جائے یا پھر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا نسخہ آزمایا جائے۔
ایسے وقت جب کہ موجودہ حکومت کی بجٹ ترجیحات گذشتہ ادوار سے مختلف دکھائی نہیں دیتیں۔ جہاں قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے بھی قرضہ لینے کی نوبت ہو اور ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑ چکا ہو اور تھر کے عظیم کوئلہ ذخائر کے حجم کو بھی بس محسوس کر کے خوش ہوا جارہا ہو، وہاں توانائی کا بحران اگلی حکومت کے دور میں داخل ہوتا نظر آرہا ہے۔
معیشت کی بحالی
یہ ایک ایسی ایف آئی آر کی طرح نظر آرہی ہے جو نامعلوم ملزموں کے خلاف درج کی جاتی ہے اور اس میں نام ڈالے اور نکالنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ معیشت کی بحالی کی اس مرحلے پر گفتگو انڈے اور مرغی کی بحث جیسی ہے۔یعنی توانائی معیشت چلائے گی یا معیشت توانائی کے منصوبوں کو آگے بڑھائے گی۔سڑک پہلے ضروری ہے کہ کارخانہ سڑک سے زیادہ ضروری ہے۔منڈیوں کی تلاش پہلی ترجیح ہو یا مصنوعات کی تیاری کی حوصلہ افزائی۔ڈومیسٹک مارکیٹ کے حالات اور قوتِ خرید بہتر بنانے کی ضرورت ہے یا بیرونی ممالک میں کھپت کے حساب سے زرعی و صنعتی و سرمایہ کارانہ حکمتِ عملی کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔اندرونی سرمایہ کار کی حوصلہ افزائی کی جائے یا بیرونی سرمایہ کار کو راغب کرنے کے لیے کشش پیدا کی جائے۔نجکاری تیز کردی جائے یا پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو آگے رکھا جائے۔
کارٹل اور مونوپلی کو لگام دی جائے یا فی الحال بھڑوں کے چھتے کو ہاتھ نہ لگایا جائے۔پہلے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر امن و امان درست کرلیا جائے یا یہ تصور کرلیا جائے کہ معیشت چل پڑے گی تو روزگار پیدا ہوگا، روزگار پیدا ہوگا تو بے روزگار نوجوانوں کی فرسٹریشن کم ہوگی، فرسٹریشن کم ہوگی تو ان کے ذہن میں منفی و تخریبی خیالات کم ہوجائیں گے۔یوں جرائم کے جوہڑ میں مچھروں کی تعداد نہیں بڑھے گی۔اور کیوں نہ ان سب سے پہلے دہشت گردی کو منہ دے لیا جائے۔دشت گردی ختم ہوگی تو سرمایہ بھی ٹکنا شروع کردے گا۔سرمایہ ٹکے گا تو اس کی دیکھا دیکھی اور بھی سرمایہ آئے گا۔یوں اقتصادی زندگی آسان ہوتی چلی جائے گی۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پر معیشت کی بحالی کی ترجیح کا معاملہ بھی اگر مگر کے جال میں پھنستا نظر آرہا ہے۔اتنے آپشن ہیں کہ سہولت کے بجائے '' میں کیہڑے پاسے جاواں میں منجی کتھے ڈاہواں '' طرز کا کنفیوژن پیدا ہورہا ہے۔اور یہ شش و پنج وزیرِ اعظم سے لے کر وزیرِ خزانہ اور اقتصادی پنڈتوں کی گفتگو سے جھلک اور چھلک رہا ہے۔
انسدادِ دہشت گردی
اب تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ دہشت گردی گفتگو سے ختم ہوگی یا بندوق سے یا دونوں سے۔جب حکومتوں کو اپنی مرضی کرنی ہوتی ہے تو وہ کر گذرتی ہیں۔لیکن نہ کرنا ہو تو پھر قومی اتفاقِ رائے کا کمبل اوڑھ لیا جاتا ہے۔جب تک ماموں نہیں مانیں گے تب تک رشتہ نہیں ہوگا۔جب تک تایا ناراض ہیں تب تک بارات روانہ نہیں ہوگی۔جب تک دادی نہیں مان جاتیں تب تک نکاح نہیں ہوگا۔
نہ توانائی کے بحران کے حل میں ، نہ معیشت کی بحالی کے خطوط طے کرنے میں، نہ بلوچستان جیسے مسائل کا حل نکالنے میں اور نہ ہی خارجہ تعلقات کی ترجیحات وضع کرنے میں قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔لے دے کے انسدادِ دہشت گردی ہی ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں قومی اتفاقِ رائے کے بغیر کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانا محال بتایا جارہا ہے۔سوال یہ ہے کہ جیسے حالات باقی تین صوبوں کے ہیں ویسے ہی حالات اگر پنجاب کے ہوتے تو کیا تب بھی سانپ کے آگے قومی اتفاقِ رائے اور بات چیت کی بین بج رہی ہوتی ؟
علاقائی و بیرونی تعلقات
یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان کبھی بھی کوئی ایسا پہیہ ایجاد نہیں کرسکتا جسے لگا کر وہ بھارت ، افغانستان اور ایران سے دور چلا جائے۔اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو امریکا سے دور کیسے اور کہاں جائے گا۔یہی وہ شعبہ ہے جس میں واقعی قومی اتفاقِ رائے پیدا کرکے تہتر کے آئین کی طرز پر ایسے بنیادی پالیسی نکات طے کرنے کی اشد ضرورت ہے جن سے کوئی بھی آنے والی حکومت منہ نہ موڑ پائے۔جب تک امورِ خارجہ میں ٹھیکیداری نظام چلتا رہے گا اور جب تک وزارتِ خارجہ کا مقام ایک پوسٹ آفس سے آگے نہیں بڑھے گا یہ چمن یونہی رہے گا۔
لگ یہ رہا ہے کہ موجودہ حکومت بھی زرداری حکومت کی طرح پانچ برس نکالنے پر سب سے زیادہ توجہ دیتی رہے گی۔کسی سے پنگا نہیں اور جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پر سسٹم چلتا رہے گا۔آپ کو جو کرنا ہے کرتے رہو، ہمارا نشہ خراب نہ کرو کے اصول کے تحت۔۔۔۔۔
دعا ہے کہ یہ توقع غلط ثابت ہوجائے۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )