اف یہ گداگری
شیخ رشید احمد کو اگر منفرد لب ولہجے کا عوامی سیاست دان کہا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ وہ اپنی۔۔۔
شیخ رشید احمد کو اگر منفرد لب ولہجے کا عوامی سیاست دان کہا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ وہ اپنی نوعیت کے واحد سیاستدان ہیں جو عوامی زبان میں گفتگو کرتے ہیں اور زیادہ تر عوام ہی کی بات کرتے ہیں۔ موضوع خواہ کوئی بھی ہو لیکن شیخ صاحب جب اس میں اپنی زبان کا تڑکا لگا دیتے ہیں تو اس کا لطف دوبالا اور مزا دو آتشہ ہوجاتا ہے۔ چناں چہ قومی اسمبلی میں جب گداگری کے خاتمے کی متفقہ قرارداد منظور ہوئی تو جناب شیخ نے برجستہ فرمایا کہ ''اسلام آباد گداگروں کا ہیڈکوارٹر ہے'' انھوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ ''جہاں گدھا گری'' کا فن عروج پر ہوگا،گداگری کا پیشہ چہارم آسمان پر ہوگا'' برجستہ گوئی میں شیخ رشید اپنے تمام ہمدردوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
گداگری کے حوالے سے سیما محی الدین کا یہ کہنا بھی بالکل بجا ہے کہ گداگری اب پیشہ بن چکا ہے اور اب یہ کوئی شرم کی بات نہیں ہے کیونکہ دوسرے پیشوں کی طرح یہ بھی ایک پیشہ ہی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جس طرح سیاست اب ایک کاروبار بلکہ صنعت کی شکل اختیار کرچکی ہے اسی طرح گداگری بھی اب باقاعدہ کمائی کا ایک بہترین دھندا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ہر کاروبار اور انڈسٹری کے لیے آپ کو بے شمار وسائل درکار ہوتے ہیں اور اس کے باوجود اس میں نقصان کا اندیشہ ہر گھڑی لاحق رہتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ناکامی کی صورت میں آپ کی ساری جمع پونجی ہی ڈوب جائے اور آپ کی تمام کوششوں اور توقعات پر پانی پھر جائے۔ گداگری میں اس قسم کے نہ تو کوئی لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی نقصان یا خسارے کا کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ بس ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا ہی چوکھا والی بات ہے۔ گداگری کا تقاضہ محض اس قدر ہے کہ غیرت و حمیت کو بالائے طاق رکھ دیا جائے اور ضمیر کو نکال کر باہر پھینک دیا جائے۔ فی زمانہ یہ کوئی ناممکن یا مشکل کام نہیں ہے کیونکہ ہمارے سیاستدانوں کی غالب اکثریت اسی فارمولے پر عمل کرکے نام بھی کر رہی ہے اور مال و دولت کے انبار بھی لگا رہی ہے۔
ایک دور وہ بھی تھا جب فقیر یہ صدا لگایا کرتے تھے کہ ''جو دے اس کا بھلا اور جو نہ دے اس کا بھی بھلا'' یا بقول میر:
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
مگر آج کل کے فقیروں کا معاملہ اس کے الٹ ہے۔ کسی فقیر کو اگر آپ ایک روپے کا سکہ دیں گے تو عین ممکن ہے کہ وہ پلٹ کر اسے آپ کے منہ پر ماردے یا پھر آپ کی شان سخاوت میں کوئی گستاخی کر بیٹھے۔ پانچ دس روپے سے کم میں یہ لوگ راضی نہیں ہوتے۔ پھر ان فقیروں کی بھی الگ الگ اقسام اور کیٹیگریز ہیں۔ غالباً غالب نے ان ہی فقیروں کے بارے میں فرمایا تھا کہ:
بدل کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
آج کل عروس البلاد کراچی میں فقیروں کا کاروبار اس حد تک عروج پر ہے کہ اگر اسے ''عروس الفقراء'' ، ''فقیروں کا دارالخلافہ'' کہا جائے تو شاید کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ ان میں وہ فقیر خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو ہیجڑوں یا خواجہ سراؤں کا روپ دھار کر آپ کو بڑی بڑی شاہراہوں کے چوراہوں پر ہر طرح کے حربے آزماتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ان کا سب سے بڑا ہتھیار ان کی زبان درازی ہے۔ یہ اپنے شکار کو چند لمحوں میں ہی جانچ اور بھانپ لیتے ہیں اور پھر اس کے بعد حسب ضرورت اسے اپنا نشانہ بناتے ہیں۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ ان کی بددعا سے بچنا چاہیے۔ چناں چہ لوگ پانچ دس روپے ان کے ہاتھ پر رکھ کر ان سے جلد ازجلد اپنی جان چھڑانے میں ہی اپنی عافیت اور خیریت کے خواستگار ہوتے ہیں۔ اور تو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار بھی ان سے پنگا لینے سے کتراتے ہوئے نظر آتے ہیں جس کا یہ ظالم اور ستم ظریف بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ نتیجتاً موٹرکاروں میں سوار عام لوگ اپنی عزت بچانے کی خاطر ان شکاریوں کو دیکھتے ہی اپنی گاڑیوں کے شیشے چڑھالیتے ہیں۔
ہیجڑوں اور خواجہ سراؤں کے بعد ان فقیرنیوں کا نمبر آتا ہے جن کے غول کے غول آپ کو شہر قائد کی سڑکوں اور مین شاہراہوں پر منڈلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کراچی کے مشہور بازار اور مارکیٹیں ان کی سب سے بڑی شکار گاہوں کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ مرد مار قسم کی فقیرنیاں ہر قسم کے اسلحے سے لیس ہوتی ہیں جس میں ان کی شوخ و چنچل اداؤں کے علاوہ ان کی نگاہوں کے تیر ان کا سب سے خطرناک ہتھیار شمار کیے جاتے ہیں۔ کسی دل جلے شاعر نے شاید ان ہی خونخوار قسم کی فقیرنیوں کے حوالے سے یہ فرمایا تھا کہ:
یا ربّ نگاہ ناز پہ لائسنس کیوں نہیں
یہ بھی تو قتل کرتی ہے تلوار کی طرح
جیب تراشی سے لے کر عزت تراشی تک یہ فقیرنیاں اپنے شکار کے ساتھ کوئی بھی سلوک کرسکتی ہیں اور ان کے ہتھے چڑھ جانے والے کسی بھی شریف آدمی کا حشر خربوزے جیسا ہوتا ہے کیونکہ چاہے چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر، کٹنا خربوزے ہی کا مقدر قرار پاتا ہے۔ اس ضمن میں ہمیں زمانہ طالب علم میں پڑھی ہوئی ایک انگریزی نظم بے ساختہ یاد آرہی ہے جس کا عنوان تھا "The Baggar Maid" اس بھکارن دوشیزہ نے ایک بادشاہ وقت پر اپنے حسن و جمال کا ایک زبردست وار کیا کہ وہ بے چارہ اس کی تاب نہ لاکر بھرے دربار میں اس کے قدموں میں جاگرا۔
پیشہ ور بھکاریوں کی ایک قسم وہ بھی ہے جو لوگوں کے جذبات سے کھیلتی ہے اور Emotional Black Mailing کرتی ہے۔ ان میں بعض لوگ جعلی معذور نظر آتے ہیں اور بعض نابینا بن کر آنکھوں والوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہوتے ہیں۔ مگر ان میں سب سے بڑے گروہ وہ ہیں جو ہماری عبادت گاہوں میں اپنی پریشانیوں کے من گھڑت قصے سنا سنا کر سادہ لوح لوگوں کو الو بنا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ اس قسم کے ڈرامے اور ناٹک آج کل ہماری مساجد میں عام ہیں۔ یہ عیار اور مکار لوگ جو خوف خدا سے قطعاً عاری ہیں خدا کے گھر میں خدا کا نام لے لے کر اپنی عاقبت خراب کرنے میں مصروف ہیں۔
افسوس کہ ان ظالم اور عاقبت نااندیشوں کو اتنا بھی احساس نہیں ہے کہ ایک حدیث مبارکہ کے مطابق ''مانگنا ذلت ہے''۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ''اگر تم یہ جان لو کہ سوال کرنے کے کیا نتائج ہیں تو کوئی شخص سوال کرنے کے لیے دوسرے شخص کی طرف رخ نہ کرے'' گداگری کی حوصلہ شکنی کے لیے محض حکومت کو ہی نہیں بلکہ علمائے کرام کو بھی اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ اس کے نتیجے میں سفید پوشی کے سبب محروم رہنے والے جائز اور مستحق لوگوں کی حق تلفی اور محرومی ہوتی ہے اور جھوٹوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔