عمر اکمل کا انوکھا کیس

کرکٹ کے کھیل میں کھلاڑی زخمی بھی ہوتے ہیں یا کسی وجہ سے اَن فٹ بھی۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا کھلاڑی ہو گا۔۔۔


Ayaz Khan August 26, 2013
[email protected]

کرکٹ کے کھیل میں کھلاڑی زخمی بھی ہوتے ہیں یا کسی وجہ سے اَن فٹ بھی۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا کھلاڑی ہو گا جس کے کیریئر میں فٹنس کا مسئلہ پیدا نہ ہوا ہو۔ عمران خان جیسے گریٹ کرکٹر بھی اس مرحلے سے گزرے ہیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مگر عمر اکمل کے ساتھ جو ہوا، اس کی مثال اس کھیل میں کم ہی ملے گی۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک انوکھا کیس ہے۔ پاکستان کا یہ نوجوان اور ٹیلنٹڈ کرکٹر پی سی بی کی اجازت سے ویسٹ انڈیز میں کیریبیئن پریمیئر لیگ میں شریک تھا۔ اس وقت زمبابوے کے دورے پر موجود ون ڈے اور ٹیسٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق، ٹی 20 کے کپتان محمد حفیظ اور احمد شہزاد بھی لیگ کھیل رہے تھے۔

دورہ زمبابوے کے لیے ٹیم کا اعلان ہوا تو عمر اکمل بطور وکٹ کیپر بیٹسمین اس میں شامل تھے۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا کہ عمر اکمل کی بدقسمتی ان کے آڑے آ گئی۔ ویسٹ انڈیز کے شدید حبس زدہ موسم میں کھیلتے ہوئے وہ نڈھال ہوئے اور کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق ان کی طیارے میں طبیعت خراب ہوئی۔ ان کے والد کہتے ہیں کہ عمر کو صرف قے آئی تھی اور اس کے بعد طبی امداد لی تو ٹھیک ہو گئے۔ ہم میڈیا والے بھی بعض اوقات ایسی زیادتی کر جاتے ہیں جس کا ازالہ مشکل ہوتا ہے۔

اس کیس میں بھی یہی ہوا' اسپورٹس کے ایک ''جید'' رپورٹر نے خبر دے دی کہ عمر اکمل مرگی کا دورہ پڑنے کی وجہ سے گراؤنڈ میں گر گئے۔ اس ایک خبر پر ہمارے نگران پی سی بی والے ڈھیر ہو گئے اور فوری طور پر عمر کا نام ڈراپ کر کے سرفراز احمد کو ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔ سرفراز کو ویزہ ملنے میں مشکلات آ رہی تھیں تو عمر کے بھائی عدنان اکمل کو اسٹینڈ بائی کر دیا گیا۔ سرفراز کو آخر کار ویزہ مل گیا اور وہ دو ٹی 20 کھیلنے کے بعد آج پاکستان اور زمبابوے کے درمیان ہونے والا پہلا ون ڈے کھیل رہے ہیں۔

عمر اکمل کو قے آئی، موسم کی شدت کی وجہ سے وہ نڈھال ہو کر گر گئے یا کوئی اور مسئلہ تھا، ان کی جو بھی میڈیکل پرابلم تھی یا ہے اس کو فی الوقت بھول جاتے ہیں۔ عمر اکمل پہلی فلائٹ پکڑ کر تن تنہا واپس آ گئے۔ انھوں نے میڈیکل سرٹیفکیٹ دکھا دیے، جن کے مطابق انھیں کوئی مسئلہ نہیں بلکہ انھوں نے اپنے آپ کو فٹ قرار دیا۔ انھوں نے واپس آکر کرکٹ اکیڈمی میں بھرپور پریکٹس کی اور پھر بھی ہشاش بشاش رہے۔ وہ نگران چیئرمین پی سی بی سے ملاقات کے لیے 4 گھنٹے تک انتظار کرتے رہے، طویل انتظار کے بعد ملاقات ہوئی یا انھیں ملاقات کیے بغیر لوٹنا پڑا، یہ سب بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں صرف ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ پی سی بی نے عمر اکمل کے معاملے کو پُراسرار کیوں رکھا؟ اس پُراسراریت سے کون کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتا تھا، کون کس کو بیوقوف بنانا چاہتا تھا؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ دال میں کچھ کالا ہے یا ساری دال ہی کالی ہے؟ وہ کیا راز ہے جس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس دور میں ایسے ایسے عجوبے سامنے آتے ہیں کہ یقین ہی نہیں ہوتا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق چیئرمین پی سی بی ذکاء اشرف کو کام کرنے سے روکا تو وزیر اعظم نواز شریف نے کچھ عرصہ پہلے ہی نگران وزیر اعلیٰ کے منصب سے سبکدوش ہونے والے نجم سیٹھی پر اعتماد کا اظہار کیا اور انھیں قائم مقام چیئرمین پی سی بی بنا دیا۔ سیٹھی صاحب نے عہدہ سنبھالتے ہی پی سی بی کے معاملات ٹھیک کرنے کا تہیہ کر لیا اور پہلی میڈیا ٹاک میں یہ دعویٰ کیا کہ وہ ہر ایشو پر میڈیا والوں سے بات کریں گے کیونکہ ان کا اپنا تعلق بھی میڈیا سے ہے۔ ہر روز پریس کانفرنس کرنے کا اعلان بھی کیا گیا لیکن اب گزشتہ کئی دنوں سے وہ میڈیا کا سامنا کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ انھوں نے ایسا کیوں کیا، عمر اکمل کے معاملے پر وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتے' شاید اس لیے۔

سیٹھی صاحب نے اپنا پہلا اختیار تب استعمال کیا جب چیف سلیکٹر اقبال قاسم نے اپنی مدت پوری ہونے پر یہ اعلان کیا کہ وہ اس عہدے پر مزید کام نہیں کرنا چاہتے۔ انھوں نے معین خان کو اقبال قاسم کی جگہ چیف سلیکٹر بنانے کا اعلان کر دیا۔ عدالت نے انھیں یہ اختیار استعمال کرنے سے روک دیا اور یاد دلایا کہ وہ قائم مقام بھی نہیں بلکہ نگران چیئرمین ہیں اس لیے کوئی بڑا فیصلہ نہ کریں اور اپنی ساری توجہ پی سی بی کے الیکشن کرانے پر مرکوز رکھیں۔ معین خان عدالتی فیصلے کی وجہ سے چیف سلیکٹر تو نہ بن سکے لیکن سیٹھی صاحب نگران ہی سہی پی سی بی کے چیئرمین تو بہرحال ہیں، اس لیے اپنے ''دوست'' کو زمبابوے جانے والی قومی کرکٹ ٹیم کا مینجر بنا دیا۔

معین خان میرے بھی چند فیورٹ کرکٹرز میں سے ایک رہے ہیں، خصوصاً 1992ء کے ورلڈکپ میں انھوں نے اپنی پرفارمنس سے سب کے دل جیت لیے تھے۔ کیا یہ ضروری تھا کہ وہ چیف سلیکٹر نہیں بن سکے تھے تو انھیں ٹیم کے ساتھ بطور مینجر ضرور بھیجا جاتا۔ شاید کوئی ایسی مجبوری ہو گی جس کا مجھے علم نہیں ہے۔ کچھ لوگ تو یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ چیف سلیکٹر اصل میں معین خان ہی ہیں۔ (شاید ایسا ہو بھی) لیکن میں اس پر یقین نہیں کرتا کیونکہ میرے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

کہتے ہیں ٹیلنٹ کی جگہ ذاتی پسند ناپسند پر لوگوں کو ایڈجسٹ کرنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو پھر زوال کو کوئی نہیں روک سکتا۔ کرکٹ میں مختلف گروپ اور دھڑے کام کرتے رہتے ہیں۔ کھلاڑیوں کی سلیکشن میں سفارش بھی چلتی ہے۔ عمر اکمل میں نیچرل ٹیلنٹ ہے اس لڑکے نے ویسٹ انڈیز میں جس طرح کی پرفارمنس دی تھی اس نے کچھ لوگوں کو کافی مایوس کیا ہو گا۔ عمر دورہ زمبابوے میں ٹیم کے ساتھ ہوتا تو ''بچوں'' کے خلاف شاید ایسی آؤٹ کلاس پرفارمنس دے جاتا کہ کسی میں اسے ٹیم سے نکالنے کی جرات ہی نہ ہو سکتی۔ اس نے جب وطن واپس آ کر نیٹ میں اپنی فٹنس ثابت کر دی تھی تو پی سی بی اور اس کی نام نہاد سلیکشن کمیٹی کا فرض تھا کہ اسے ون ڈے میچوں کے لیے زمبابوے بھجوا دیتی۔

اس سے پہلے کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ کرکٹر سے ویسٹ انڈیز میں ہی بات کی جاتی کہ اس کے ساتھ کیا مسئلہ ہوا تھا۔ مصباح، حفیظ یا احمد شہزاد سے ہی استفسار کیا جاتا۔ ایسا کرنے کے لیے نیت کا ٹھیک ہونا ضروری ہے۔ میں پلیئرز پاور کے خلاف ہوں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پی سی بی کی کمائی اور ملک کی نیک نامی کا باعث اچھے کھلاڑی ہی بنتے ہیں۔ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ پہلے ہی نہیں ہو رہی۔ ایسے حالات میں ٹیلنٹ کو ضایع کرنے کی کوشش یا سازش ہوتی رہی تو پاکستان کو زمبابوے یا کینیا جیسی کمزور ٹیم بننے میں دیر نہیں لگے گی۔ زمبابوے سے دونوں ٹی ٹوئنٹی جیتنے پر جیت کے شادیانے بجانے والے کیا نہیں جانتے کہ پاکستانی ٹیم دونوں میچوں میں کمزور ترین حریف کو آؤٹ کلاس نہیں کر سکی۔ زمبابوے کی ٹیم دونوں میچوں میں آخر تک لڑتی رہی۔

نوجوان کرکٹر کے ایشو پر پی سی بی کی یہ پُراسراریت جتنی جلدی ختم ہو بہتر ہے۔ اور ہاں عمر اکمل کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، اس میں ٹیلنٹ ہے اور اسے ٹیم میں واپس آنا ہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں