دنیا ہم پر ہنس رہی ہے

جن قوموں کے حکمران ذاتی فائدوں کےلیے اپنا ضمیر گروی رکھ دیتے ہیں ذلت، رسوائی ان کے عوام کا مقدر بن جاتی ہے

ایف اے ٹی ایف بظاہر پاکستان کو غیر ضروری بوجھ اتارنے کےلیے موقع فراہم کررہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ایف اے ٹی ایف نے پاکستانی حکام کو بتایا ہے کہ دہشت گردی کے لیے رقم پاکستان سے باہر لے جانے کے لیے کوریئر اور ڈاک کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی اگر کوئی تنظیم پاکستان سے لندن میں کسی دہشت گرد گروپ کو ایک لاکھ ڈالر بھجوانا چاہتی ہے تو اسے کسی بینک یا ہنڈی ڈیلر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ خط کے لفافے میں ایک کاغذ کا ٹکرا ڈالتے ہیں اور اس کاغذ کے اندر سو ڈالر کے دس سے بیس نوٹ رکھ دیتے ہیں۔ اس طرح کے پچاس یا سو خط تیار کیے جاتے ہیں اور مختلف شہروں سے کسی بھی سستی کوریئر کمپنی یا ڈاکخانے کے ذریعے بیرون ملک بھجوادیے جاتے ہیں۔ اس طرح بغیر کسی دشواری کے اربوں روپے پاکستان سے منی لانڈر کیے جاتے ہیں۔ یہ طریقہ کار کالعدم تنظیمیں استعمال کررہی ہیں۔

اس کے علاوہ چھوٹے شہروں میں بہت سی کوریئر کمپنیوں کی فرنچائزز کالعدم تنظیموں کی ملکیت ہیں۔ یہ نیٹ ورک انتہائی منظم طریقے سے کام کررہا ہے اور اس نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے منظم حکمت عملی درکار ہے۔ اب صرف کاغذوں میں کارروائی دکھا کر دنیا کو بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ ہمیں یہ سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ اگر چائنا جیسی عالمی طاقت جیشِ محمد کی سپورٹ ختم کرنے پر مجبور ہوگئی ہے تو پاکستان کتنی دیر تک اس بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر چل سکتا ہے؟

دہشت گردوں کی معاونت اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ایشو بن چکا ہے۔ پاکستان نے اگر اسے ماضی کے طریقوں سے ٹالنے کی کوشش کی تو پوری دنیا کی درآمدات اور برآمدات ہم پر بند ہوجائیں گی اور روپیہ کریش کرجائے گا۔ معاملے کی حساسیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیجئے کہ آئی ایم ایف نے پریس ریلیز جاری کی ہے کہ ہماری تمام شرائط ماننے کے باوجود اگر آپ ایف اے ٹی ایف کو مطمئن نہیں کرپاتے اور بلیک لسٹ میں شامل کردیے جاتے ہیں تو آئی ایم ایف پاکستان کو قرض نہیں دے گا۔ لہٰذا کوریئر منی لانڈرنگ کو روکنے کےلیے پاکستان کو کوریئر کمپنیوں پر کریک ڈاؤن کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر ہم گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں شامل ہوجائیں گے۔

آئیے! اب ایک نظر آئی ایم ایف کے چھ بلین ڈالر قرض کی طرف ڈالتے ہیں۔ آئی ایم ایف پاکستان کو تین سال میں مبینہ طور پر چھ ارب ڈالر قرض دے گا۔ اگر تکنیکی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ قرض تین ارب ڈالر بنتا ہے۔ کیونکہ پاکستان نے تین سال میں تین ارب ڈالر آئی ایم ایف کو واپس کرنے ہیں۔ باقی تین ارب ڈالر پاکستان کو مالی بحران سے نکالنے کے لیے ناکافی ہیں۔ ان تین سال میں پاکستان نے سعودی عرب، چین اور یو اے ای سے جو قرض لیے ہیں، وہ بھی واپس کرنے ہیں۔ جو کہ پاکستان کے لیے ناممکن ہے۔ چائنا سے پروجیکٹ فائنانسنگ کی مد میں لیا گیا قرض انیس ارب ڈالر ہے۔ چائنا کے کمرشل بینکوں سے لیا گیا قرض سات ارب ڈالر اور چار ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں رکھنے کے لیے لیا گیا ہے۔ سعودی ارب نے تین ارب ڈالر اور یو اے ای نے دو ارب ڈالر پاکستان کو دے رکھا ہے۔ جو کہ تین سال کے اندر واجب الادا ہے۔

آئی ایم ایف پاکستان پر زور دے رہا ہے کہ اپنے دوست ممالک کے قرضوں کی ادائیگی کا وقت بڑھائیں، ان سے وقت لیں۔ پہلے ہمارے قرض ادا کریں پھر دوست ممالک کے قرضوں کی ادائیگی کے بارے میں سوچیں۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اتنا بڑا قرض کیسے ادا کرے گا؟ یقیناً یہ رقم پاکستانی عوام کی جیبوں سے جائے گی اور عام پاکستانی کی زندگی عذاب بن جائے گی۔

آئی ایم ایف معاہدے کے تحت پاکستان نے روپے کو آزاد رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی بندر کے ہاتھ ماچس دے دی جائے اور وہ پورے شہر کو آگ لگادے۔ روپے کو آزاد کرنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ روپیہ دو دن میں گیارہ روپے گرگیا ہے۔ پاکستان کے بیرونی قرض پانچ ارب ڈالر بڑھ گئے ہیں، جبکہ پاکستان کو اس معاہدے کے تحت تین سال میں صرف چھ ارب ڈالر ملیں گے، جو کہ دراصل تین ارب ڈالر ہوں گے۔ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ جتنی رقم آپ کو قرض میں ملنی ہے، اس رقم کی وجہ سے آپ کے پرانے قرض نئے قرض کی رقم سے دگنا بڑھ گئے ہیں۔


کیا یہ دانش مندانہ فیصلہ ہے؟ روپے کو آزاد کرنے کا فیصلہ پاکستان کو صومالیہ سے بدتر بنادے گا۔ لیکن حکومت پاکستان ہوا کے رخ کے ساتھ چلتی جارہی ہے، نہ تو کوئی مزاحمت ہے اور نہ ہی بہتری کی طرف کوئی حکمت عملی۔

آئی ایم ایف، این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو دیے گئے فنڈز میں مداخلت کررہا ہے۔ آئی ایم ایف اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو دیے گئے حصے میں کمی کے خلاف ہے۔ جس سے پاکستانی معیشیت مزید دباؤ کا شکار رہے گی۔ کیونکہ وفاق کے پاس خرچ کرنے یا بچانے کے لیے کوئی پیسہ نہیں ہو گا، کیونکہ سارا پیسہ صوبوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ سرکار کے پاس اگر کچھ بچے گا تو وہ ڈیفنس بجٹ ہوگا۔ جس میں کمی کرکے حکومت کا تھوڑا بہت سانس بحال ہوسکتا ہے۔ لیکن ان حالات میں حکومت ڈیفنس بجٹ کم نہیں کرسکتی، جب ہندوستان جنگ کے لیے تیار ہو اور امریکا ایران پر حملہ کرنے کے لیے پر تول رہا ہو۔

یاد رہے کہ آئی ایم ایف کا سب بڑا شراکت دار امریکا ہے۔ آئی ایم ایف کی پالیسی امریکا کی پالیسی ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کا ڈیفنس بجٹ دو فیصد سے کم کرکے %0.6 کرنے پر زور دے رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے پاکستان پرائمری ڈیفیسٹ ختم کرکے اسے ڈھائی فیصد کے سرپلس میں تبدیل کرے۔ پرائمری ڈیفیسٹ کا مطلب ہوتا ہے آمدن میں سے ریاست کا خرچ نکال کر جو بچ جائے۔

ان اخراجات میں قرض اور سود کی ادائیگیاں شامل نہیں ہوتیں، یعنی آپ کے پاس ڈیفنس بجٹ کے علاوہ کچھ نہیں بچتا، جسے کم کیا جاسکے۔ یعنی کہ نہ تو پاکستانی عوام کھل کر سانس لے سکیں گے اور نہ ہی اپنی حفاظت کے لیے لڑ سکیں گے۔

ایف اے ٹی ایف بظاہر پاکستان کو دنیا کے ساتھ مل کر چلنے اور غیر ضروری بوجھ کو کندھوں سے اتارنے کےلیے موقع اور راستہ فراہم کررہا ہے، جبکہ آئی ایم ایف پاکستان کےلیے گلے کا پھندا ثابت ہورہا ہے۔ لیکن دونوں ایشوز کا بیک وقت عالمی منظرنامے پر آجانا اتفاق نہیں ہے۔

ہم دراصل بین الاقوامی پروپیگنڈا کا شکار ہوگئے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم ایٹمی طاقت ہونے اور دنیا کی مضبوط ترین فوج رکھنے کے باوجود بھی دونوں اداروں کے ساتھ معاملات اپنی مرضی کے مطابق طے کرنے میں ناکام ہورہے ہیں اور دنیا ہمارے ساتھ کھڑی ہونے کے بجائے ہم پر ہنس رہی ہے۔ ان کا ہنسنا بجا بھی ہے، کیونکہ جن قوموں کے حکمران ذاتی فائدوں کےلیے اپنا ضمیر گروی رکھ دیتے ہیں ذلت، رسوائی ان کے عوام کا مقدر بن جاتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story