صاحب دورے پر ہیں
مناسب یہی ہے کہ جس طرح سے اب عوامی اور سرکاری امور ضلعی سطح پر انجام دیے جاتے ہیں تمام محکموں...
مشرف ٹچ سے قبل بلدیاتی نظام اور بلدیاتی نمایندے تحصیل سے لے کر ضلع تک سرکار کے ''سرکاری افسران'' کے دست نگر ہوا کرتے تھے۔ مشرف نے اختیارات کو عوام کے نمایندوں کے سپرد کرنے کا قانون بنا کر کسی حد تک اختیارات کو گاؤں، تحصیل اور ضلع سطح پر اے سی کمروں سے عوامی حجروں کو منتقل کیا۔
اگرچہ مشرف کے عطا کردہ بلدیاتی نظام میں خوبیو ں کی آرائش تھی، وہیں اس ضلع نظام میں خرابیوں کی زیبائش بھی تھی لیکن سابقہ کمشنری نظام کے مقابلے میں یہ نظام عوامی امور کے لحاظ سے قدرے اچھا تھا، خاص طور پر وہ سرکاری امور جو پہلے ڈویژن اور صوبائی سطح پر حل ہوا کرتے تھے، وہ عوامی اور سرکاری امور ضلعی صدر مقام پر نمٹائے جانے لگے۔ اب ن لیگ ایک مرتبہ پھر ''ضلع نظام'' کو ختم کرکے کمشنری نظام کو لاگو کرنے کے لیے پر تولے نظر آرہی ہے۔
کمشنری نظام کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں بلدیاتی نمایندے صرف نام کے نمایندے ہوا کرتے ہیں، جب کہ اصل کام کا فن سرکاری افسران کے ہاں یا ناں سے وابستہ ہوتا ہے۔ کمشنری نظام سے بہت سے عوامی امور سرکاری فیتے کی نذر ہوجاتے ہیں۔ ڈویژن سطح پر کمشنر صاحب ''بادشاہ'' ہوا کرتے ہیں اور ضلع سطح پر ڈپٹی کمشنر صاحب کی ''ٹور ٹار'' آسمان کی بلندیوں پر ہوا کرتی ہے۔ کمشنری نظام میں ''باس'' کا درجہ سرکاری افسران کو حاصل ہوا کرتا ہے۔ بلدیاتی نظام کے تحت منتخب ہونے والے عوامی نمایندوں کو یہ ''باس'' قسم کے افسران کم ہی گھاس ڈالتے ہیں اور اگر گھاس ڈالتے بھی ہیں تو ان کو جو ان کی ''ٹہل سیوا'' کیا کرتے ہیں۔
شنید یہی ہے کہ ضلع سطح پر تمام سرکاری محکموں کے سربراہوں کی چھٹی کر کے وہ تمام امور جو اب تک ضلع سطح پر پایہ تکمیل کی سیڑھیاں چڑھا کرتے تھے اب یہ امور ڈویژن سطح پر فائنل ہوا کریں گے۔ ضلع سے معاملات کو اٹھا کر ڈویژن سطح پر منتقل کرنے سے عوام کے مسائل میں پھر سے اضافہ ہوگا۔ مہنگائی کے اس دور میں عام شہری جیب سے ہزاروں روپے لگا کر ڈویژن کی سطح پر بیٹھے متعلقہ افسران کے پاس جائیں گے اور اس کے آفس سے رٹا رٹایا جواب عام شہریوں کو یہی ملے گا کہ ''صاحب دورے پر ہیں یا صاحب میٹنگ میں ہیں''۔
ہمارے لیے یہ عام سے جملے ہیں لیکن اس ''عام شہری'' کے لیے یہ عام سے جملے کسی ایٹم بم سے کم نہیں جو سیکڑوں میل کا فاصلہ طے کر کے صاحب بہادر کے پاس پہنچے گا اور اسے اگلے دن آنے کا حکم جاری کیا جائے گا۔ دل و جاں سے تسلیم کہ ہر نظام میں جہاں خوبیاں ہوتی ہیں، وہیں اس میں لازماً کچھ خامیاں بھی ہوا کرتی ہیں، مشرف کے متعارف کردہ ''ضلعی نظام'' میں واقعی کچھ خامیاں تھیں لیکن صرف چند خامیوں کی بنا پر پورے نظام کو لپیٹ دینا اور اس بنیادی سیاسی نرسری کو بار بار مشق ستم بنانا چنداں کوئی اچھا فیصلہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
مناسب یہی ہے کہ جس طرح سے اب عوامی اور سرکاری امور ضلعی سطح پر انجام دیے جاتے ہیں تمام محکموں کے سربراہوں کو اسی طرح ضلعی سطح پر برقرار رکھا جا ئے۔ ہاں! اگر ان پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کے لیے ڈویژن سطح پر ہر محکمے کا ایک افسر متعین کیا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں بلکہ اس سے ضلع سطح پر سرکاری اور عوامی امور کی انجام دہی میں مزید بہتری آسکے گی۔ ایک خالص عوامی نظام کو صرف چند افسران کے حوالے کر دینے کو کسی طور پر بھی دانش مندانہ عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
کمشنری نظام میں عام طور پر ایم این اے، ایم پی اے تک کے سیاسی نمایندوں کو لفٹ دی جاتی ہے لیکن اس نیم عوامی قسم کے بلدیاتی نظام میں چیئرمین، ضلع کونسل اور یونین کونسل سطح کے نمایندوں کو ''سپر سیڈ'' کیا جاتا ہے۔ اس خرابی کا حل گھوم پھر کر متعلقہ ایم این اے، ایم پی اے کے در سے نکلتا ہے۔ ضلع کونسل اور یونین کونسل ممبران اول تو ''صاحب'' کے دفتر تک براہ راست رسائی سے محروم ہوتے ہیں اور اگر کوئی ایک آدھ ''صاحب'' کے دفتر تک ہاتھ پاؤں ہلا کر پہنچ بھی جائے تو اس کی پذیرائی ایسی نہیں کی جاتی جیسا کہ متعلقہ ضلع کے ایم این اے اور ایم پی ایز کی کی جاتی ہے۔
بہ امر مجبوری بلدیاتی نظام کے یہ عوامی نمایندے پہلے ایم این اے، ایم پی ایز سے اپنے عوامی امور کے لیے ''صاحب'' کو سفارش کرواتے ہیں اور پھر کہیں جا کر ان کی سڑکوں اور نالیوں کی فائل ''جنبد'' کے راستے پر رواں ہوتی ہے۔ برسر اقتدار مرکزی اور صوبائی حکومتیں اگر اپنے سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کر عوام کی امنگوں اور مسائل کو مدنظر رکھ کر بلدیاتی نظام کے خدوخال اور قانون بنالیں، اس سے جہاں عوامی حقوق کے تحفظ اور عوام کی بھلائی ممکن ہو پائے گی، دوسری جانب حکومت اور حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی بھی عوام کی سطح پر ''گڈ ول'' بن جائے گی۔
رہنا پانچ سال ہے اور ''ساماں'' قیامت تک کرنے سے سوائے سیاسی و عوامی بدنامی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ گھوم پھر کر بات اسی جگہ پر کہ جس عطار کے لونڈے سے جان چھڑانے کی کوشش کی جارہی ہے، آخر اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کی رسم ڈالی جارہی ہے، جو شاید عوام قبول نہ کریں۔
اگرچہ مشرف کے عطا کردہ بلدیاتی نظام میں خوبیو ں کی آرائش تھی، وہیں اس ضلع نظام میں خرابیوں کی زیبائش بھی تھی لیکن سابقہ کمشنری نظام کے مقابلے میں یہ نظام عوامی امور کے لحاظ سے قدرے اچھا تھا، خاص طور پر وہ سرکاری امور جو پہلے ڈویژن اور صوبائی سطح پر حل ہوا کرتے تھے، وہ عوامی اور سرکاری امور ضلعی صدر مقام پر نمٹائے جانے لگے۔ اب ن لیگ ایک مرتبہ پھر ''ضلع نظام'' کو ختم کرکے کمشنری نظام کو لاگو کرنے کے لیے پر تولے نظر آرہی ہے۔
کمشنری نظام کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں بلدیاتی نمایندے صرف نام کے نمایندے ہوا کرتے ہیں، جب کہ اصل کام کا فن سرکاری افسران کے ہاں یا ناں سے وابستہ ہوتا ہے۔ کمشنری نظام سے بہت سے عوامی امور سرکاری فیتے کی نذر ہوجاتے ہیں۔ ڈویژن سطح پر کمشنر صاحب ''بادشاہ'' ہوا کرتے ہیں اور ضلع سطح پر ڈپٹی کمشنر صاحب کی ''ٹور ٹار'' آسمان کی بلندیوں پر ہوا کرتی ہے۔ کمشنری نظام میں ''باس'' کا درجہ سرکاری افسران کو حاصل ہوا کرتا ہے۔ بلدیاتی نظام کے تحت منتخب ہونے والے عوامی نمایندوں کو یہ ''باس'' قسم کے افسران کم ہی گھاس ڈالتے ہیں اور اگر گھاس ڈالتے بھی ہیں تو ان کو جو ان کی ''ٹہل سیوا'' کیا کرتے ہیں۔
شنید یہی ہے کہ ضلع سطح پر تمام سرکاری محکموں کے سربراہوں کی چھٹی کر کے وہ تمام امور جو اب تک ضلع سطح پر پایہ تکمیل کی سیڑھیاں چڑھا کرتے تھے اب یہ امور ڈویژن سطح پر فائنل ہوا کریں گے۔ ضلع سے معاملات کو اٹھا کر ڈویژن سطح پر منتقل کرنے سے عوام کے مسائل میں پھر سے اضافہ ہوگا۔ مہنگائی کے اس دور میں عام شہری جیب سے ہزاروں روپے لگا کر ڈویژن کی سطح پر بیٹھے متعلقہ افسران کے پاس جائیں گے اور اس کے آفس سے رٹا رٹایا جواب عام شہریوں کو یہی ملے گا کہ ''صاحب دورے پر ہیں یا صاحب میٹنگ میں ہیں''۔
ہمارے لیے یہ عام سے جملے ہیں لیکن اس ''عام شہری'' کے لیے یہ عام سے جملے کسی ایٹم بم سے کم نہیں جو سیکڑوں میل کا فاصلہ طے کر کے صاحب بہادر کے پاس پہنچے گا اور اسے اگلے دن آنے کا حکم جاری کیا جائے گا۔ دل و جاں سے تسلیم کہ ہر نظام میں جہاں خوبیاں ہوتی ہیں، وہیں اس میں لازماً کچھ خامیاں بھی ہوا کرتی ہیں، مشرف کے متعارف کردہ ''ضلعی نظام'' میں واقعی کچھ خامیاں تھیں لیکن صرف چند خامیوں کی بنا پر پورے نظام کو لپیٹ دینا اور اس بنیادی سیاسی نرسری کو بار بار مشق ستم بنانا چنداں کوئی اچھا فیصلہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
مناسب یہی ہے کہ جس طرح سے اب عوامی اور سرکاری امور ضلعی سطح پر انجام دیے جاتے ہیں تمام محکموں کے سربراہوں کو اسی طرح ضلعی سطح پر برقرار رکھا جا ئے۔ ہاں! اگر ان پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کے لیے ڈویژن سطح پر ہر محکمے کا ایک افسر متعین کیا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں بلکہ اس سے ضلع سطح پر سرکاری اور عوامی امور کی انجام دہی میں مزید بہتری آسکے گی۔ ایک خالص عوامی نظام کو صرف چند افسران کے حوالے کر دینے کو کسی طور پر بھی دانش مندانہ عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
کمشنری نظام میں عام طور پر ایم این اے، ایم پی اے تک کے سیاسی نمایندوں کو لفٹ دی جاتی ہے لیکن اس نیم عوامی قسم کے بلدیاتی نظام میں چیئرمین، ضلع کونسل اور یونین کونسل سطح کے نمایندوں کو ''سپر سیڈ'' کیا جاتا ہے۔ اس خرابی کا حل گھوم پھر کر متعلقہ ایم این اے، ایم پی اے کے در سے نکلتا ہے۔ ضلع کونسل اور یونین کونسل ممبران اول تو ''صاحب'' کے دفتر تک براہ راست رسائی سے محروم ہوتے ہیں اور اگر کوئی ایک آدھ ''صاحب'' کے دفتر تک ہاتھ پاؤں ہلا کر پہنچ بھی جائے تو اس کی پذیرائی ایسی نہیں کی جاتی جیسا کہ متعلقہ ضلع کے ایم این اے اور ایم پی ایز کی کی جاتی ہے۔
بہ امر مجبوری بلدیاتی نظام کے یہ عوامی نمایندے پہلے ایم این اے، ایم پی ایز سے اپنے عوامی امور کے لیے ''صاحب'' کو سفارش کرواتے ہیں اور پھر کہیں جا کر ان کی سڑکوں اور نالیوں کی فائل ''جنبد'' کے راستے پر رواں ہوتی ہے۔ برسر اقتدار مرکزی اور صوبائی حکومتیں اگر اپنے سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کر عوام کی امنگوں اور مسائل کو مدنظر رکھ کر بلدیاتی نظام کے خدوخال اور قانون بنالیں، اس سے جہاں عوامی حقوق کے تحفظ اور عوام کی بھلائی ممکن ہو پائے گی، دوسری جانب حکومت اور حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی بھی عوام کی سطح پر ''گڈ ول'' بن جائے گی۔
رہنا پانچ سال ہے اور ''ساماں'' قیامت تک کرنے سے سوائے سیاسی و عوامی بدنامی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ گھوم پھر کر بات اسی جگہ پر کہ جس عطار کے لونڈے سے جان چھڑانے کی کوشش کی جارہی ہے، آخر اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کی رسم ڈالی جارہی ہے، جو شاید عوام قبول نہ کریں۔