حقانی نیٹ ورک کو امریکی تعاون کی پیشکش
امریکا نے بالآخر اپنی ناکامی اور شکست کا اعتراف کر لیا ہے
ایک سینئر امریکی فوجی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا ہے کہ واشنگٹن اب نہ صرف حقانی نیٹ ورک کے ساتھ مذاکرات کو تیار ہے بلکہ اسے افغانستان کی سیاست میں اہم کردار دینے پر بھی رضامند ہے' اگر حقانی نیٹ ورک امریکی فوجیوں پر حملے بند کر دے تو افغانستان کے تین صوبوں پکتیا، پکتیکا اور خوست کا کنٹرول اس کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ امریکی فوجی عہدے دار نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ حقانی نیٹ روک کے حوالے سے امریکی پالیسی دوغلی اور دوہری ہے۔
امریکا پاکستان سے تقاضا کرتا ہے کہ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف فوجی اقدام کیا جائے جب کہ خود اسی نیٹ ورک کو یہ سوچے سمجھے بغیر افغانستان کے تین صوبوں کا کنٹرول دینے کو تیار ہے کہ اس کے اس خطے کی سیاست' معیشت اور معاشرت پر کتنے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکا اس سلسلے میں پاکستان کو اعتماد میں لے لیتا تو معاملات کو زیادہ موثر انداز میں آگے بڑھایا جا سکتا تھا۔ حقانی نیٹ ورک کو امریکا کی جانب سے یہ مبینہ پیشکش اس امر کا بھی ثبوت ہے کہ امریکا نے بالآخر اپنی ناکامی اور شکست کا اعتراف کر لیا ہے کیونکہ اس امریکی عہدیدار کے بقول اس گروپ کو نہ تو پاکستان اور نہ ہی امریکا شکست دینے میں کامیاب ہو سکتا ہے اس لیے وہ اس سے امن معاہدہ چاہتا ہے۔ امریکی عہدے دار کی اس بات سے مایوسی بالکل عیاں ہے کہ امریکا تو مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن حقانی خود اس کے لیے آگے نہیں آ رہے۔
امریکی عہدیدار کی یہ بات درست نہیں ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف اس لیے کارروائی نہیں کر رہا کیونکہ ایسا کرنے سے اسے اپنے ملک میں سخت جوابی حملوں کا خدشہ ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایسا کوئی اقدام کسی دوسرے ملک کے کہنے پر یا اس کی ضرورت کے تحت نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس کا موقف ہے کہ ایسا کوئی فیصلہ یہاں کی حکومت اپنی ضرورت کے تحت ہی کرے گی۔ دراصل پاکستان ایک اور طرح کے حالات کا شکار ہے' یہاں کے بنیاد پرست اور انتہا پسندوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت امریکا سے مکمل قطع تعلق کرے بلکہ اس کے خلاف کارروائی کرے ، ادھر یہی طبقے امریکی سہولتوں سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اس سے مذاکرات کو بھی بُرا نہیں سمجھتے۔
امریکی فوجی عہدے دار کی یہ خواہش تو مناسب ہے کہ اس گروپ کو ایسے منتشر کر دیا جائے کہ یہ افغانستان میں غیرملکی فوجوں پر حملوں کے قابل نہ رہے اگر ایسا مذاکرات کے ذریعے ہو سکتا ہے تو ہم اس کے لیے تیار ہیں لیکن یہ سوچ ذاتی مفاد پر مبنی نظر آتی ہے۔ حقانی گروپ کے ساتھ ایسے معاملات کیے جانے چاہئیں جس میں سب کا بھلا ہو۔ یاد رہے کہ 2001 ء میں کابل پر طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد بھی امریکا نے مولانا جلال الدین حقانی کو اہم عہدہ دینے کی پیشکش کی تھی جو ٹھکرا دی گئی تھی۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اب حقانی کے انکار کی صورت میں امریکا کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا۔ ضروری ہے کہ ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا جائے۔