بھارتی انتخابات اور مسلمان
مودی کے خطرناک تیور دیکھ کر ہی مسلمان ان کی شکست کے خواہاں ہیں۔
''مودی ایک زہریلا بچھو ہے جو سب کو ہی ڈنک مار رہا ہے۔اس سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے مگراسے جب گھیرنے کی کوشش کرو وہ شیولنگ پر چڑھ جاتا ہے یعنی مذہب کا سہارا لے لیتا ہے۔'' یہ الفاظ کسی پاکستانی یا بھارتی مسلمان کے نہیں ہیں۔ انھیں ادا کرنے والا ایک ہندو دھرم گرو پنڈت ونودکرشنن کے ہیں مگر صرف انھی پرکیا موقوف بھارت کے اکثر غیر متعصب ہندو مودی کو سوشل میڈیا پر زہریلا سانپ اور راون کا اوتار بھی کہہ رہے ہیں۔
کچھ کا کہنا ہے کہ مودی ایک ایسا ہتھیارا ہے جسے انسانی خون پینے کی عادت پڑچکی ہے۔ وہ انسانوں کی لاشوں پر چڑھ کر پہلے گجرات کا مکھ منتری بنا اور پھر بھارت کا پردھان منتری بن گیا۔ اس نے ہی گجرات میں 2002 میں سابرمتی ایکسپریس میں 59 کار سیوکوں کو جلایا تھا۔ اس میں مسلمانوں کا کوئی دوش نہیں تھا ، مگر اپنی اس کارروائی کا الزام مسلمانوں پر لگا کر ان کا کھل کر قتل عام کروایا، اس نے گجرات کے ہندو مسلمانوں کے بیچ ایسی نفرتیں پھیلائیں کہ اس کے سہارے دوبار وہاں کا مکھ منتری بنا۔
پردھان منتری بن کر بھی اس کی خون کی پیاس نہیں بجھی۔ اس نے گو کشی کے مسئلے کو ہوا دے کر گو رکھشکوں کے ذریعے سیکڑوں مسلمانوں کر مروایا پھر 2019 کا الیکشن قریب آیا تو پاکستان سے نفرت بڑھانے کے لیے پلواما میں اپنے ہی 44 فوجیوں کر مروا ڈالا اور مگر مچھ کے آنسو بہانے لگا، اب وہ انھی کے نام پر ووٹ مانگ رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ فوج کو سیاست میں گھسیٹنے اور پاکستان کو انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کرنے پر جہاں حزب اختلاف کی تمام پارٹیاں مودی کے خلاف ہیں ، وہاں بھارت کے سابق فوجی بھی مودی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ سابق بھارتی آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ مودی کو فوج کو اپنی سینا کہنے پر ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔انھوں نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو بھی لکھا ہے کہ مودی کو نا اہل قرار دیا جائے مگر دونوں ہی ادارے مودی کے خلاف کوئی ایکشن لینے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے، لگتا ہے دونوں ہی مودی کے نمک خوار ہیں۔
مودی نے پچھلا الیکشن جیت کر پورے پانچ سال بھارت پر نہایت شان وشوکت اور عیاشی کے ساتھ حکومت کی ہے مگر عوام کے لیے کچھ نہیں کیا یا تو وہ پوری دنیا کی سیر کرتے رہے یا پھر مغربی ممالک کو پاکستان کے خلاف اکسانے کے لیے ان کی جی حضوری کرتے رہے۔ وہ اپنا پہلا الیکشن ضرور مسلمانوں سے نفرت اور پاکستان دشمنی پر جیتے تھے مگر اب بھارتی عوام ان کے سحر سے باہر آچکے ہیں اور اس لیے اب موجودہ الیکشن جیتنا ان کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔
اس وقت شمالی بھارت میں ضرور مودی کے لیے حالات کچھ سازگار نظر آتے ہیں مگر جنوبی اور مشرقی بھارت میں مودی کا صفایا ہونے کا عندیہ مل رہا ہے۔ وہاں کے لوگ مودی کی نفرت کی سیاست کو پسند نہیں کر رہے مگر اس کا فائدہ کانگریس کو بھی پہنچتا نظر نہیں آرہا۔ اس لیے کہ وہ اب ایک سیکولر جماعت سے زیادہ مذہبی بن چکی ہے۔ البتہ مسلمان اب بھی اس کا دم بھر رہے ہیں کیونکہ وہ مودی کی طرح مسلم کش سیاست پر یقین نہیں رکھتی مگر مسلمانوں کے مکمل حق میں بھی نہیں ہے۔
اس وقت سرکاری اعداد وشمارکے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 18 کروڑ بتائی جاتی ہے جب کہ اصل آبادی کبھی نہیں بتائی گئی کہ کہیں مسلمان اپنی آبادی کی بنیاد پر اپنا حق نہ مانگنے لگیں۔ ویسے بھی مسلمانوں کو ان کا حق کبھی کسی بھارتی حکومت نے نہیں دیا اور نہ آیندہ ملنے کا کوئی امکان ہے۔
غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس وقت مسلمانوں کی اصل آبادی 30 کروڑ سے بھی زیادہ ہے اور اس میں سالہا سال اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ 2011 کی مردم شماری میں مسلمانوں کی آبادی میں کمی کا رجحان دکھایا گیا جب کہ 2001 اور اس سے پہلے کی مردم شماری میں مسلمانوں کی آبادی کو ہمیشہ بڑھتا ہوا دکھایا گیا تھا جس پر بی جے پی نے سخت ردعمل ظاہر کیا تھا اور اس کے جواب میں ہندوؤں کو اپنی آبادی بڑھانے پر زور دیا تھا، ساتھ ہی انھیں ڈرایا بھی گیا تھا کہ مسلمانوں کی آبادی جس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے اس سے 2050 تک بھارت میں مسلمان اکثریت میں ہوں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ 2050 تک کیا 2100 تک بھی مسلمان اکثریت کا درجہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔
گوکہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے مگر صوبائی اور قومی سطح پر ان کی نمایندگی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ 1980 میں لوک سبھا میں مسلمانوں کی تعداد 49 تھی جو کم ہوتے ہوتے 2014 میں صرف 22 رہ گئی ہے۔ کانگریس جو مسلمانوں سے ووٹوں کی امید رکھتی ہے اس نے مسلمانوں کی 18 کروڑ کی آبادی میں اس دفعہ صرف 32 مسلمانوں کو لوک سبھا کے لیے اپنے ٹکٹ دیے ہیں اس نے 2014 میں بھی صرف 31 مسلمانوں کو لوک سبھا کے ٹکٹ دیے تھے جس میں صرف 7 کامیاب ہوئے تھے۔
24 مسلمان امیدواروں کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ انھیں ہندو اکثریتی علاقوں میں کھڑا کیا گیا تھا۔ اس وقت دہلی کی دو کروڑ سے زیادہ آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 25 فیصد ہے مگر یہاں سے کانگریس نے کسی مسلمان کو لوک سبھا کا ٹکٹ نہیں دیا ہے جب کہ پہلے مسلمانوں کو ٹکٹ دیے جاتے تھے اور وہ کامیاب بھی ہوتے تھے۔ اس طرح لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمایندگی بتدریج کم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ان کے مسائل میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
2005 میں مسلمانوں کے شدید احتجاج پر ان کے مسائل کا جائزہ لینے کے کے لیے جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی جس نے اپنی رپورٹ میں مسلمانوں سے دوسرے درجے کے شہری جیسا سلوک کرنے کی شکایت کی تھی اور انھیں گمبھیر مسائل کا شکار قرار دیا تھا۔ اس کمیٹی نے مسلمانوں کے مسائل کو فوری حل کرنے کی سفارش کی تھی مگر اس وقت کی کانگریسی حکومت نے اس کمیٹی کی رپورٹ کو مکمل طور پر نظراندازکردیا تھا۔ اب مودی کے دور میں تو مسلمانوں کو اپنے مسائل حل کرانے کی بات تو کجا ان کے لیے اپنی جانیں بچانا مشکل ہوگیا ہے۔ اور اگر مودی دوبارہ وزیر اعظم بن گئے تو بھارتی مسلمانوں کے لیے بھارت میں رہنا مشکل ہوجائے گا جیت کے بعد پاکستان کے ساتھ ایک بڑی جنگ جو ایٹمی بھی ہوسکتی ہے، مودی کا اہم مشن معلوم ہوتی ہے۔
مودی کے خطرناک تیور دیکھ کر ہی مسلمان ان کی شکست کے خواہاں ہیں ایسے میں پاکستانی وزیر اعظم کی جانب سے مودی کے الیکشن میں کامیاب ہونے کی خواہش کرنا عجیب سا معاملہ ہے۔ عمران خان سوچ رہے ہیں کہ مودی کی کامیابی کی صورت میں مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا یہ سراسر ان کی بھول ہے۔مودی نے 2014 میں اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی نقشے کا جزو لازم قرار دیا تھا اور اسے بھارت سے الگ دکھانے پر ایک کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
کشمیری مظاہرین پر گولی چلانے کا رواج مودی نے ہی شروع کیا ہے وہ یاسین ملک کی پارٹی پر پابندی لگا چکے ہیں اور الیکشن میں کامیابی کے بعد نہ صرف حریت کانفرنس پر پابندی لگادیں گے بلکہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھی ختم کرکے رہیں گے۔ مودی کی نفرت اور تشدد کی پالیسی نے خود ہندوؤں کو پریشان کردیا ہے۔ کیونکہ انھوں نے بھارت کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ٹائم میگزین کے تازہ شمارے میں درست ہی لکھا گیا ہے کہ اگر وہ دوبارہ جیت گئے تو بھارت کو منقسم ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ شاید اس لیے خود بھارتی عوام ان سے نجات کے خواہاں ہیں تو پھر پاکستانیوں کو بھی ان کے حق میں دعا کرنی چاہیے۔
کچھ کا کہنا ہے کہ مودی ایک ایسا ہتھیارا ہے جسے انسانی خون پینے کی عادت پڑچکی ہے۔ وہ انسانوں کی لاشوں پر چڑھ کر پہلے گجرات کا مکھ منتری بنا اور پھر بھارت کا پردھان منتری بن گیا۔ اس نے ہی گجرات میں 2002 میں سابرمتی ایکسپریس میں 59 کار سیوکوں کو جلایا تھا۔ اس میں مسلمانوں کا کوئی دوش نہیں تھا ، مگر اپنی اس کارروائی کا الزام مسلمانوں پر لگا کر ان کا کھل کر قتل عام کروایا، اس نے گجرات کے ہندو مسلمانوں کے بیچ ایسی نفرتیں پھیلائیں کہ اس کے سہارے دوبار وہاں کا مکھ منتری بنا۔
پردھان منتری بن کر بھی اس کی خون کی پیاس نہیں بجھی۔ اس نے گو کشی کے مسئلے کو ہوا دے کر گو رکھشکوں کے ذریعے سیکڑوں مسلمانوں کر مروایا پھر 2019 کا الیکشن قریب آیا تو پاکستان سے نفرت بڑھانے کے لیے پلواما میں اپنے ہی 44 فوجیوں کر مروا ڈالا اور مگر مچھ کے آنسو بہانے لگا، اب وہ انھی کے نام پر ووٹ مانگ رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ فوج کو سیاست میں گھسیٹنے اور پاکستان کو انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کرنے پر جہاں حزب اختلاف کی تمام پارٹیاں مودی کے خلاف ہیں ، وہاں بھارت کے سابق فوجی بھی مودی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ سابق بھارتی آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ مودی کو فوج کو اپنی سینا کہنے پر ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔انھوں نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو بھی لکھا ہے کہ مودی کو نا اہل قرار دیا جائے مگر دونوں ہی ادارے مودی کے خلاف کوئی ایکشن لینے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے، لگتا ہے دونوں ہی مودی کے نمک خوار ہیں۔
مودی نے پچھلا الیکشن جیت کر پورے پانچ سال بھارت پر نہایت شان وشوکت اور عیاشی کے ساتھ حکومت کی ہے مگر عوام کے لیے کچھ نہیں کیا یا تو وہ پوری دنیا کی سیر کرتے رہے یا پھر مغربی ممالک کو پاکستان کے خلاف اکسانے کے لیے ان کی جی حضوری کرتے رہے۔ وہ اپنا پہلا الیکشن ضرور مسلمانوں سے نفرت اور پاکستان دشمنی پر جیتے تھے مگر اب بھارتی عوام ان کے سحر سے باہر آچکے ہیں اور اس لیے اب موجودہ الیکشن جیتنا ان کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔
اس وقت شمالی بھارت میں ضرور مودی کے لیے حالات کچھ سازگار نظر آتے ہیں مگر جنوبی اور مشرقی بھارت میں مودی کا صفایا ہونے کا عندیہ مل رہا ہے۔ وہاں کے لوگ مودی کی نفرت کی سیاست کو پسند نہیں کر رہے مگر اس کا فائدہ کانگریس کو بھی پہنچتا نظر نہیں آرہا۔ اس لیے کہ وہ اب ایک سیکولر جماعت سے زیادہ مذہبی بن چکی ہے۔ البتہ مسلمان اب بھی اس کا دم بھر رہے ہیں کیونکہ وہ مودی کی طرح مسلم کش سیاست پر یقین نہیں رکھتی مگر مسلمانوں کے مکمل حق میں بھی نہیں ہے۔
اس وقت سرکاری اعداد وشمارکے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 18 کروڑ بتائی جاتی ہے جب کہ اصل آبادی کبھی نہیں بتائی گئی کہ کہیں مسلمان اپنی آبادی کی بنیاد پر اپنا حق نہ مانگنے لگیں۔ ویسے بھی مسلمانوں کو ان کا حق کبھی کسی بھارتی حکومت نے نہیں دیا اور نہ آیندہ ملنے کا کوئی امکان ہے۔
غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس وقت مسلمانوں کی اصل آبادی 30 کروڑ سے بھی زیادہ ہے اور اس میں سالہا سال اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ 2011 کی مردم شماری میں مسلمانوں کی آبادی میں کمی کا رجحان دکھایا گیا جب کہ 2001 اور اس سے پہلے کی مردم شماری میں مسلمانوں کی آبادی کو ہمیشہ بڑھتا ہوا دکھایا گیا تھا جس پر بی جے پی نے سخت ردعمل ظاہر کیا تھا اور اس کے جواب میں ہندوؤں کو اپنی آبادی بڑھانے پر زور دیا تھا، ساتھ ہی انھیں ڈرایا بھی گیا تھا کہ مسلمانوں کی آبادی جس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے اس سے 2050 تک بھارت میں مسلمان اکثریت میں ہوں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ 2050 تک کیا 2100 تک بھی مسلمان اکثریت کا درجہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔
گوکہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے مگر صوبائی اور قومی سطح پر ان کی نمایندگی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ 1980 میں لوک سبھا میں مسلمانوں کی تعداد 49 تھی جو کم ہوتے ہوتے 2014 میں صرف 22 رہ گئی ہے۔ کانگریس جو مسلمانوں سے ووٹوں کی امید رکھتی ہے اس نے مسلمانوں کی 18 کروڑ کی آبادی میں اس دفعہ صرف 32 مسلمانوں کو لوک سبھا کے لیے اپنے ٹکٹ دیے ہیں اس نے 2014 میں بھی صرف 31 مسلمانوں کو لوک سبھا کے ٹکٹ دیے تھے جس میں صرف 7 کامیاب ہوئے تھے۔
24 مسلمان امیدواروں کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ انھیں ہندو اکثریتی علاقوں میں کھڑا کیا گیا تھا۔ اس وقت دہلی کی دو کروڑ سے زیادہ آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 25 فیصد ہے مگر یہاں سے کانگریس نے کسی مسلمان کو لوک سبھا کا ٹکٹ نہیں دیا ہے جب کہ پہلے مسلمانوں کو ٹکٹ دیے جاتے تھے اور وہ کامیاب بھی ہوتے تھے۔ اس طرح لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمایندگی بتدریج کم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ان کے مسائل میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
2005 میں مسلمانوں کے شدید احتجاج پر ان کے مسائل کا جائزہ لینے کے کے لیے جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی جس نے اپنی رپورٹ میں مسلمانوں سے دوسرے درجے کے شہری جیسا سلوک کرنے کی شکایت کی تھی اور انھیں گمبھیر مسائل کا شکار قرار دیا تھا۔ اس کمیٹی نے مسلمانوں کے مسائل کو فوری حل کرنے کی سفارش کی تھی مگر اس وقت کی کانگریسی حکومت نے اس کمیٹی کی رپورٹ کو مکمل طور پر نظراندازکردیا تھا۔ اب مودی کے دور میں تو مسلمانوں کو اپنے مسائل حل کرانے کی بات تو کجا ان کے لیے اپنی جانیں بچانا مشکل ہوگیا ہے۔ اور اگر مودی دوبارہ وزیر اعظم بن گئے تو بھارتی مسلمانوں کے لیے بھارت میں رہنا مشکل ہوجائے گا جیت کے بعد پاکستان کے ساتھ ایک بڑی جنگ جو ایٹمی بھی ہوسکتی ہے، مودی کا اہم مشن معلوم ہوتی ہے۔
مودی کے خطرناک تیور دیکھ کر ہی مسلمان ان کی شکست کے خواہاں ہیں ایسے میں پاکستانی وزیر اعظم کی جانب سے مودی کے الیکشن میں کامیاب ہونے کی خواہش کرنا عجیب سا معاملہ ہے۔ عمران خان سوچ رہے ہیں کہ مودی کی کامیابی کی صورت میں مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا یہ سراسر ان کی بھول ہے۔مودی نے 2014 میں اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی نقشے کا جزو لازم قرار دیا تھا اور اسے بھارت سے الگ دکھانے پر ایک کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
کشمیری مظاہرین پر گولی چلانے کا رواج مودی نے ہی شروع کیا ہے وہ یاسین ملک کی پارٹی پر پابندی لگا چکے ہیں اور الیکشن میں کامیابی کے بعد نہ صرف حریت کانفرنس پر پابندی لگادیں گے بلکہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھی ختم کرکے رہیں گے۔ مودی کی نفرت اور تشدد کی پالیسی نے خود ہندوؤں کو پریشان کردیا ہے۔ کیونکہ انھوں نے بھارت کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ٹائم میگزین کے تازہ شمارے میں درست ہی لکھا گیا ہے کہ اگر وہ دوبارہ جیت گئے تو بھارت کو منقسم ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ شاید اس لیے خود بھارتی عوام ان سے نجات کے خواہاں ہیں تو پھر پاکستانیوں کو بھی ان کے حق میں دعا کرنی چاہیے۔