حفاظتی سفارت کار کا کردار

اہل دانش اس بات پر متفق ہیں کہ سفارت کاری ایک ’’علم و فن‘‘ ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq August 27, 2012
[email protected]

ISLAMABAD: اس وقت ہمارے سامنے ایک ایسی کتاب ہے جس نے ہماری آنکھیں اتنی کھول دیں کہ بس پھٹنے ہی والی ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے، سچ میں سفارت کاروں کا کام یہ ہوتا ہے مگر ہم نے تو کچھ اور دیکھا اور بھگتا ہے، یہ کتاب سعودی سفیر محترم عبدالعزیز بن ابراہیم الغدیر (Al ghader) کی لکھی ہوئی ہے۔ پہلے تو ہمیں اس پر یقین نہیں آیا کیا سفیر لوگ کتابیں بھی لکھتے ہیں، کیا واقعی سفیر اتنے عالم بھی ہوتے ہیں، ہم نے تو جن سفیروں کو دیکھا سنا اور بھگتا ہے ان کے لیے تو صرف ایک ہی کوالی فیکیشن ضروری ہوتی ہے اور وہ ہے کسی سیاسی ''کچھ'' کا کچھ ہونا بلکہ بہت کچھ ہونا اور کسی حکومت کے لیے کچھ کچھ یا بہت کچھ کرنا ۔۔۔ کسی سیٹ اپ کے کیٹرنگ میں حصہ بننا، پھر اگر وہ دنیا بھر کا جاہل یا جاہلہ بھی ہو تو چلتا ہے یا چلتی ہے بلکہ ہمارا تصدیق شدہ خیال ہے کہ سفارتی عملے میں کوئی بھی پوزیشن ''سیاسی میرٹ'' کے بغیر حاصل نہیں کر سکتی،

چنانچہ جو حال ہے وہ دنیا جانتی ہے کہ باہر کے ممالک میں کسی کو یہ تک پتہ نہیں کہ پاکستان ایک ملک ہے اور جو ہندوستان کا حصہ نہیں ہے۔ ہمیں تو کچھ زیادہ سفر نہیں کرنا پڑے ہیں کیونکہ نہ جیب میں آرام سے کمائے جانے والے ٹکے تھے اور نہ ہی سرکار دربار میں کوئی جائز یا ناجائز تعلق رکھتے ہیں بلکہ جائز کو بھی گولی ماریئے، اس عرض کے لیے خالص اور سو فیصد پیور ناجائز تعلق ضروری ہوتا ہے۔ اس اخبار نویس کا قصہ تو کہیں ہم نے آپ کو سنایا ہی تھا کہ جو ہر دوسرے تیسرے سال سرکاری حج وفد میں شامل ہوتے تھے۔ ہم نے اس سے کہا، بھئی کچھ ہمارے لیے بھی کرو تو وہ مسکرائے یہ کون سی بڑی بات ہے، پانچ ہزار روپے لاؤ اور وفد کا حصہ بنو۔

یہ اس زمانے کا قصہ ہے جب حج پر پچاس ساٹھ ہزار خرچہ آتا تھا لیکن بزرگوں نے کہا ہے کہ اونٹ کی قیمت ایک پیسہ بھی ہو اور تمہارے پاس پیسہ نہ ہو تو مہنگا ہے، باہر کے ممالک میں ہمارے جو سفیر ہوتے ہیں ان کے بارے میں آپ اخباروں میں پڑھتے رہے ہوں گے کہ کس بنیاد پر کیسے کیسے لوگ کہاں کہاں سفیر بن جاتے ہیں لیکن بات صرف سفیر تک ہوتی تو پھر بھی غنیمت تھا، نہایت ہی چھوٹے اہل کار بھی یا تو کسی کے ''کچھ'' ہوں گے یا کسی کے کچھ کو کچھ نہ کچھ تو دینا پڑتا ہے، ان کی فرض شناسی کا یہ عالم ہے کہ ایک مرتبہ بھارت میں ہمارا پاسپورٹ کھو گیا۔ ظاہر ہے کہ دیار غیر میں سفارت خانے ہی پر نظر پڑتی ہے لیکن وہاں گئے تو پتہ چلا کہ ہم تو پاکستان کے بہت بڑے جرائم پیشہ ہیں اور اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم خود کو صاف ثابت کریں۔ اب دیار غیر میں نیک چال چلن کی تصدیق کس سے کرواتے،

سڑک پار افغان سفارت خانہ تھا، سوچا ممکن ہے وہاں کوئی شناسا نکل آئے۔ ایک تو کیا وہاں صرف ''زبان'' کی وجہ سے کئی لوگ شناسا بن گئے لیکن خدا نے فضل کیا کہ ہمارا پاسپورٹ معجزانہ طور پر مل گیا ورنہ اس کے علاوہ نہ جانے ہمارے ساتھ کیا کیا ہوتا، لیکن اب یہ جو کتاب ہم نے پڑھی اس کا نام ہے ''حفاظتی سفارت کاری'' یعنی (Preventive Diplomacy) سعودی عرب کے کسی سفیر سے ہمیں ایسی کتاب لکھنے کی توقع ہی نہیں تھی، اپنے سفارت کاروں پر قیاس کر کے ہمارا تو خیال تھا کہ سعودی سفیر بھی کسی بادشاہ کی طرح صرف نام کے ہوں گے لیکن کتاب پڑھنے کے بعد پتہ چلا کہ شاہی مملکت ہونے کے باوجود سعودی عرب میں کوئی ویسے ہی راتوں رات سفیر نہیں بن جاتا بلکہ اس کی باقاعدہ علم و تربیت اور اہلیت لازم ہوتی ہے۔

یہ نہیں کہ کسی گلی کوچے سے کسی سیاسی کارکن یا کارکنہ کو پکڑ لیا اور سفیر یا سفیرہ بنا دیا کہ جا ''پندرہ'' تمہارے جیسے اور ہیں تو سولہواں سہی ۔۔۔ جہاں دوسرے کئی نااہل ملک کی عزت، شہرت اور مفادات کا بیڑا غرق کر رہے ہیں تو بھی کر، زیر نظر کتاب میں سب سے پہلے تو سفارتی تاریخ پر علمی اور تحقیقی انداز میں معلومات دی گئی ہیں، ذرا یہ جملہ پڑھئے ''بحیثیت ''علم'' سفارت کاری کے کچھ قواعد بحیثیت ''فن'' کچھ اصول اور بحیثیت ''پیشہ'' کچھ روایات ہیں'' آگے چل کر مزید وضاحت کے لیے سفارت کاری کو مزید اہمیت یوں دی گئی ہے کہ ''اہل دانش اس بات پر متفق ہیں کہ سفارت کاری ایک ''علم و فن'' ہے۔

علم اس اعتبار سے پڑھا سیکھا جاتا ہے اور اس کے اصولوں کو جانا جاتا ہے اور فن اس اعتبار سے ہے کہ یہ ایک حساس پیشہ ہے۔'' یہ دونوں باتیں ہمارے لیے تو انکشاف ہے ہی لیکن شاید ہمارے اکثر سفیروں اور سفارتی نمایندوں کے لیے بھی قطعی نئی ہوں گی کیونکہ ہمارے ہاں سفارت کاری کبھی کسی علم یا فن یا پیشے کے طور پر ہوئی ہی نہیں، اسے یا تو سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے یا چمچوں کو چمچہ گیری کا صلہ دینے کے لیے بروئے کار لایا گیا ہے اور یا کسی کو محض اچھی جاب دینے کے لیے کام میں لایا گیا ہے۔

پاکستان کی سفارتی تاریخ پر نظر ڈالیے اس میں آپ کو طرح طرح کے نام دکھائی دیں گے جو ماہر تو کسی اور کام میں تھے اور صلے میں پائی سفارت، محترم لکھنے والے نے علم سفارت کاری کے بڑے بڑے علماء کے حوالے دینے کے بعد لکھا ہے کہ ''سفارت کاری کے معنی ملکوں کے مابین تعلقات بڑھانا، مختلف میدانوں میں ترقی حاصل کرنا اور بیرون ملک اپنی رعایا اور ملکی مفادات کا دفاع کرنا اور مختلف پروگراموں اور محافل میں اپنے ملک کی نمایندگی کرنا ہے'' اور ہمارا خیال ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کی سفارت کاری میں اور چاہے ہزاروں ''عیب'' ہوں لیکن مذکورہ ''عیوب'' بالکل نہیں پائے جاتے خصوصاً اپنی رعایا کا دفاع اور ملک کا امیج تو شاید وہ جانتے بھی نہیں کہ کیا ہوتے ہیں،

دنیا میں قدیم ترین سفارت کاری کی تاریخ بیان کرنے کے بعد محترم نے لکھا ہے کہ ''اہل عرب کا شمار ان قوموں میں ہوتا ہے جنہوں نے زمانہ جاہلیت سے ہی سفارتی مذاکرات اور تعلقات کی راہ اختیار کر رکھی ہے'' اس کے بعد موصوف نے اسلامی سفارت کاری کی تاریخ بیان کی ہے اور خلاصہ یوں کیا ہے کہ ''اسلام میں سفارت کاری ان قواعد و احکامات کے مجموعے کا نام ہے جو شریعت اسلامیہ سے ہم آہنگ ہوں جس کا تقاضا یہ ہے کہ ایک ملک ہر طرح کے واقعات و حالات میں اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات استوار رکھے'' آگے چل کر عہد نبوی اور خلفائے راشدین کے دور میں سفارت کاری کا بیان ہوا ہے، اس کے بعد موصوف نے وہ اوصاف بیان کیے ہیں جو ایک سفارت کار کے لیے ضروری ہیں، اب ان اوصاف کا ذکر کر کے ہم آپ کا دل دکھانا نہیں چاہتے کیوں کہ ہمارا اپنا دل جو دکھا ہے وہ بھی کافی ہے۔ کاش، ان میں کوئی ایک صفت بھی ہمارے ملک میں سفارت کاری کے لیے ضروری گردانا گیا ہوتا تو آج دنیا بھر میں پاکستان انڈیا کا حصہ نہ سمجھا جاتا اور بھارت میں ایک شخص ہم سے یہ نہ پوچھتا کہ کیا پاکستان افغانستان میں ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں