خاندانی نظام کا کمزور ہوتا ڈھانچہ گزشتہ سال 316 خواتین نے خلع لے لیا
427 مردوں نے طلاقیں دیں، 9 خواتین نے دوسری شادی کرنیوالے شوہروں کیخلاف مقدمات درج کرائے
خاندانی نظام کا کمزور ہوتا ڈھانچہ اور بے جا توقعات اور فرمائشیں، گزشتہ سال 316اس سال 98 خواتین نے خلع لے لیا جب کہ 9 خواتین نے دوسری شادی کرنے والے اپنے شوہروں کیخلاف مقدمات درج کرا دیے۔
سال 2018 کے دوران صرف اسلام آبادکے شہری علاقوں میں 779 طلاقیں رجسٹر ہوئیں جن میں سے 316خلع کے کیسزتھے جن میں خواتین نے عدالتوں سے ڈگری حاصل کی اور پھر ثالثی کونسل میں کیس آئے لیکن یہاں بھی میاں بیوی کا آپس میں اتفاق نہ ہوسکا اور بالآخر طلاق ہوگئی جبکہ اسی سال 427مردوں نے اپنی بیویوں کو طلاقیں دیں۔
موجودہ سال کے پہلے چارماہ کے دوران طلاق کے 269 کیسزرجسٹرہوئے جن میں سے 98خواتین نے خلع لے لی،جبکہ گزشتہ سال کے دوران ہی 7 اوراس سال کے پہلے چارماہ میں 2ایسی خواتین نے اپنے شوہروں کیخلاف ثالثی کونسل میں مقدمات بھی درج کرائے جنہوں نے پہلی بیوی سے اجازت لیے بغیر دوسری شادی رچائی تاہم ان کیسز پر فیصلہ کیا ہوا اس کا ریکارڈ ثالثی کونسل کے پاس نہیں۔
چیئرمین ثالثی کونسل اسلام آبادسید شفاقت حسین نے اس حوالے سے ایکسپریس سے گفتگوکرتے ہوئے کہا دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں میں طلاقوں کی شرح میں اضافہ ہوتانظرآیاہے اوراس بڑھتی ہوئی شرح کی سب سے بڑی وجہ خاندانی نظام کا کمزورہوتاہواڈھانچہ ہے۔
انھوں نے کہا دیہاتوں میں اگرمیاں بیوی میں کوئی جھگڑا ہوجائے تو خاندان کے بڑے بوڑھے بیٹھ کر ثالثی کرادیتے ہیں تاہم اسلام آبادکے شہری علاقوں میں صورتحال اس کے برعکس ہے اس لیے چھوٹے چھوٹے جھگڑے بھی طلاق تک پہنچ جاتے ہیں۔
چیئرمین ثالثی کونسل نے بتایاکہ شہری علاقوں میں خواتین کی جانب سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر طلاق لینے کے کیسزبھی سامنے آئے ہیں ،مثلاکئی خواتین کی شکایت تھی کہ میرا خاوند پارک میں نہیں لے کرجاتا،کسی نے کہاخاوند میری سالگرہ یادنہیں رکھتے،کسی نے کہا خاوندنے عیدپرشاپنگ نہیں کرائی،بہن کی شادی پر شاپنگ نہیں کرائی۔
ان کاکہناتھاایسی خواتین دراصل اپنے شوہروں سے بہت زیادہ امیدیں لگا کرشادی کرلیتی ہیں لیکن بعد میں ان کومایوسی ہوتی ہے جس کے بعد چھوٹی چھوٹی باتوں کو وجہ بناکر طلاقوں تک نوعبت آجاتی ہے۔
چیئرمین ثالثی کونسل سید شفاقت حسین نے پریشان کن لہجے میں کہاکہ ''لیکن اس سارے عمل میں جو سب سے زیادہ متاثر ہونیوالا فریق ہے وہ بچے ہیں،ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ جوڑے کے بچے زندگی بھر اس ٹراماسے متاثر رہتے ہیں،ان کی شخصیت پر انتہائی منفی اثرات پڑتے ہیں اس لئے جب بھی کوئی جوڑامیرے پاس طلاق کیلیے آتاہے میں انہیں کہتاہوں اپنے بچوں کے بارے میں سوچیں،ان کے مستقبل کو تباہ نہ کریں،چند جوڑے اپنے بچوں کے مستقبل کو مدنظررکھتے ہوئے آپس میں سمجھوتہ کر لیتے ہیں لیکن اکثرجو یہاں تک پہنچ جاتے ہیں وہ طلاق تک پہنچتے ہیں''۔
انھوں نے مزید کہا شادی کرتے ہوئے والدین اور لڑکی لڑکے دونوں کو دولت ،عہدہ یارتبہ نہیں دیکھناچاہیے بلکہ شادی کیلیے شرافت،انسان دوستی اور دینی رغبت جیسی خصوصیات کاخیال رکھنا چاہئے،صرف دولت کو دیکھ کر کی جانے والی اکثر شادیاں ناکام ہوتے دیکھی ہیں۔
سال 2018 کے دوران صرف اسلام آبادکے شہری علاقوں میں 779 طلاقیں رجسٹر ہوئیں جن میں سے 316خلع کے کیسزتھے جن میں خواتین نے عدالتوں سے ڈگری حاصل کی اور پھر ثالثی کونسل میں کیس آئے لیکن یہاں بھی میاں بیوی کا آپس میں اتفاق نہ ہوسکا اور بالآخر طلاق ہوگئی جبکہ اسی سال 427مردوں نے اپنی بیویوں کو طلاقیں دیں۔
موجودہ سال کے پہلے چارماہ کے دوران طلاق کے 269 کیسزرجسٹرہوئے جن میں سے 98خواتین نے خلع لے لی،جبکہ گزشتہ سال کے دوران ہی 7 اوراس سال کے پہلے چارماہ میں 2ایسی خواتین نے اپنے شوہروں کیخلاف ثالثی کونسل میں مقدمات بھی درج کرائے جنہوں نے پہلی بیوی سے اجازت لیے بغیر دوسری شادی رچائی تاہم ان کیسز پر فیصلہ کیا ہوا اس کا ریکارڈ ثالثی کونسل کے پاس نہیں۔
چیئرمین ثالثی کونسل اسلام آبادسید شفاقت حسین نے اس حوالے سے ایکسپریس سے گفتگوکرتے ہوئے کہا دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں میں طلاقوں کی شرح میں اضافہ ہوتانظرآیاہے اوراس بڑھتی ہوئی شرح کی سب سے بڑی وجہ خاندانی نظام کا کمزورہوتاہواڈھانچہ ہے۔
انھوں نے کہا دیہاتوں میں اگرمیاں بیوی میں کوئی جھگڑا ہوجائے تو خاندان کے بڑے بوڑھے بیٹھ کر ثالثی کرادیتے ہیں تاہم اسلام آبادکے شہری علاقوں میں صورتحال اس کے برعکس ہے اس لیے چھوٹے چھوٹے جھگڑے بھی طلاق تک پہنچ جاتے ہیں۔
چیئرمین ثالثی کونسل نے بتایاکہ شہری علاقوں میں خواتین کی جانب سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر طلاق لینے کے کیسزبھی سامنے آئے ہیں ،مثلاکئی خواتین کی شکایت تھی کہ میرا خاوند پارک میں نہیں لے کرجاتا،کسی نے کہاخاوند میری سالگرہ یادنہیں رکھتے،کسی نے کہا خاوندنے عیدپرشاپنگ نہیں کرائی،بہن کی شادی پر شاپنگ نہیں کرائی۔
ان کاکہناتھاایسی خواتین دراصل اپنے شوہروں سے بہت زیادہ امیدیں لگا کرشادی کرلیتی ہیں لیکن بعد میں ان کومایوسی ہوتی ہے جس کے بعد چھوٹی چھوٹی باتوں کو وجہ بناکر طلاقوں تک نوعبت آجاتی ہے۔
چیئرمین ثالثی کونسل سید شفاقت حسین نے پریشان کن لہجے میں کہاکہ ''لیکن اس سارے عمل میں جو سب سے زیادہ متاثر ہونیوالا فریق ہے وہ بچے ہیں،ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ جوڑے کے بچے زندگی بھر اس ٹراماسے متاثر رہتے ہیں،ان کی شخصیت پر انتہائی منفی اثرات پڑتے ہیں اس لئے جب بھی کوئی جوڑامیرے پاس طلاق کیلیے آتاہے میں انہیں کہتاہوں اپنے بچوں کے بارے میں سوچیں،ان کے مستقبل کو تباہ نہ کریں،چند جوڑے اپنے بچوں کے مستقبل کو مدنظررکھتے ہوئے آپس میں سمجھوتہ کر لیتے ہیں لیکن اکثرجو یہاں تک پہنچ جاتے ہیں وہ طلاق تک پہنچتے ہیں''۔
انھوں نے مزید کہا شادی کرتے ہوئے والدین اور لڑکی لڑکے دونوں کو دولت ،عہدہ یارتبہ نہیں دیکھناچاہیے بلکہ شادی کیلیے شرافت،انسان دوستی اور دینی رغبت جیسی خصوصیات کاخیال رکھنا چاہئے،صرف دولت کو دیکھ کر کی جانے والی اکثر شادیاں ناکام ہوتے دیکھی ہیں۔