الیکشن کا ذکر کرتے ہیں
حکمران جماعت کو معلوم ہے کہ یہ الیکشن اس کی پارٹی کا نہیں ہے اس لیے یہ الیکشن بے کار ہے
کالم نگاری سے چھٹی میرے لیے بے معنی ہوتی ہے لیکن بعض اوقات حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ کالم نگاری جیسی مرغوب مصروفیت بھی مشکل ہو جاتی ہے۔ ایک رات جاگنا پڑا تو دوسرے دن کالم کون لکھتا۔ چنانچہ چھٹی کرنی پڑی اور یوں لگا کہ جیسے اخبار سے غائب ہو گیا ہوں کیونکہ ہفتہ وار چھٹی بھی اس چھٹی کے ساتھ مل گئی۔ دو دن کی غیرحاضری۔ ویسے ایسی غیرحاضری کئی دن کی بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مجید امجد والی بات ہے کہ
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں کل ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ سوائے لیڈروں کے بیانات کے کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوتی بلکہ لیڈروں کے بیانات میں بھی یکسانیت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ لوگ سرخی دیکھ کر مضمون بھانپ لیتے ہیں۔ ایک بڑی تبدیلی جس کا ذکر بار بار کیا جاتا ہے اور ذہنوں میں سوچا بھی جاتا ہے، وہ ہے آنے والے انتخابات سے کوئی تبدیلی۔ اب ذرا اس تبدیلی کا اندازہ کرتے ہیں۔
اخبارات کے صفحات پر جو سیاسی چہرے ماضی میں دکھائی دیتے تھے وہی آج بھی ان صفحات پر جلوہ گر ہیں سوائے متوفی سیاستدان جن کے صاحبزادے آج ان کی جگہ لے چکے ہیں۔ آج ان کی صورت میں موروثی سیاست کی انتہائی مکروہ شکل ہمارے سامنے سے ہر روز گزرتی ہے۔ یہ سیاست نہ صرف افراد کی حد تک موروثی ہے بلکہ خیالات کی حد تک بھی وہی ہے جو کل تھی۔ آنے والے الیکشن میں یہی لوگ پھر سے سامنے ہوں گے۔ ہم گج وج کر ان کو ووٹ دیں گے اور اسمبلیوں اور حکومتوں میں یہ وہی کچھ کریں گے جو کرتے آئے ہیں۔ یہ تو لباس تک تبدیل نہیں کرتے۔
وہی واسکٹ جو چلتی آ رہی ہے اور وہی چہرہ جو ہر روز تازہ ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔ اس صورت حال پر دھیان دیجیے اور ان چہروں میں اپنا مستقبل تلاش کیجیے۔ وہی پرانا مستقبل جو کبھی ماضی تھا۔ یہاں تو وقت بھی نہیں بدلتا۔ ماضی وحال سب ایک ساتھ چلتے ہیں اور ہم احمق ایسے ہیں کسی تبدیلی کی امید کرتے ہیں۔ یہ تو وہ باتیں ہیں جو اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ الیکشن ہو رہا ہے۔ حکومت وقت کوئی سی بھی ہو اس سے لوگ ناراض زیادہ اور راضی کم ہوتے ہیں لیکن پھر بھی حکومتیں الیکشن کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتی ہیں مگر ہماری موجودہ حکومت نے یہ شوشہ چھوڑ رکھا ہے کہ الیکشن ملتوی ہو سکتے ہیں۔
وہ کیسے' ایسے کہ ''خوئے بد را بہانہ بسیار'' دھماکوں اور کسی بھی حدتک بدامنی کے اس دور میں حالات کو بگاڑنا کسی بھی حکومت کے لیے بہت آسان کام ہے اور ہماری حکومت تو ایسے کھیل کو بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے ہر حکمران کو معلوم ہے کہ یہ الیکشن اس کی پارٹی کا نہیں ہے اس لیے یہ الیکشن بے کار ہے اور ایسے بے کار الیکشن سے جان چھڑانا ہی بہتر ہے۔ میں ایک بات عرض کر دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ آج کی پیپلزپارٹی کے لیے اگر اقتدار نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں اور اس کچھ بھی نہیں میں سب کچھ آ جاتا ہے۔
سندھ کارڈ بھی ہے۔ بلوچستان میں حالات کی ازحد خرابی بھی اور کراچی تو ہے ہی سمندر کے کنارے جس کا رخ سمندر کی طرف رہا ہے۔ ہمارے پختونستان کے دوست اعلانیہ کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے قیام کے خلاف تھے۔ سینیٹر عدیل صاحب جو ابھی بھارت یاترا کر کے آئے ہیں ان کی زبانی میں نے خود ٹی وی پر سنا کہ وہ تو پاکستان کے خلاف تھے۔ ایسے ملک میں اگر الیکشن ہوں گے تو وہ کیا ہوں گے لیکن پھر بھی الیکشن ہی کسی جدید ملک کی زندگی کا ایک ذریعہ ہے۔ مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان سے جب حکمرانوں کی شکایت کرتے تو وہ جواب دیتے اس کا علاج بھی الیکشن ہے اور الیکشن سے جو خرابی بھی پیدا ہوتی ہے اس کا ازالہ الیکشن سے ہی ہوتا ہے۔
نواب صاحب کا یہی فلسفہ تھا لیکن یہ فلسفہ ایک بار غلط ثابت ہو گیا۔ 1970ء کے الیکشن میں ملک کے ایک حصے میں صرف عوامی لیگ منتخب ہوئی اور دوسرے حصے میں اکثریت پیپلزپارٹی کو ملی۔ یہ دیکھ کر نواب صاحب نے جو ان دنوں اپنے گھر مظفر گڑھ میں مقیم تھے چند سطروں پر ایک بیان جاری کیا کہ 'قوم نے غلط فیصلہ دیا ہے'۔ یوں قومیں غلط فیصلہ بھی دیا کرتی ہیں اور ایک غلط فیصلے کی سزا ہم نے بہت بھگتی ہے اور نہ جانے کب تک بھگتتے رہیں گے جب تک کوئی پاکستانی زندہ رہے گا وہ سقوط ڈھاکا کو یاد کرتا رہے گا۔
اس لیے ضروری نہیں کہ کسی الیکشن میں خوا وہ کتنا ہی آزادانہ ہو جیسا 1970ء کا تھا ملک اور قوم کے دکھوں کا علاج بن سکتا ہے لیکن بقول چرچل حکومت کے جتنے نظام بھی دیکھے ہیں جمہوریت ہی ان میں بہتر ہے۔ یہی جمہوریت یعنی عوام کی مرضی کا نظام بھی ہے لیکن اس کا عملی نظام قدرے مختلف ہے۔ بہرکیف یہ موقع ایسی بحثوں کا نہیں ہے۔ ہم لوگ ان بحثوں سے اوپر جا چکے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ الیکشن ہوتا ہے اور ہمارے سیاست دانوں کی یہی چمکتی دمکتی کہکشاں اسمبلیوں میں جلوہ فگن ہوتی ہے تو عوام اپنے نئے گوناگوں مسائل کے لیے تیار رہیں۔
حکومت نے ایک مشہور وزیر کے تحت ایک محکمہ قائم کر رکھا ہے جو عوام کے لیے نئی نئی پریشانیاں ایجاد کرتا رہتا ہے تاکہ وہ ایک لمحہ بھی چین سے نہ بیٹھ سکیں۔ اب موبائل سموں کا معاملہ کھڑا کیا جانے والا ہے۔ جو چودہ کروڑ سے زائد پاکستانیوں کے لیے براہ راست پریشانی کا مسئلہ ہے۔ ایسے غیرضروری تماشے وہ لوگ کرتے ہیں جو قومی امن کے دشمن ہوں۔ خیال تھا کہ کرپشن اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ اس کے بعد کسی دوسرے مسئلے کے ایجاد کی ضرورت نہیں پڑے گی لیکن معلوم ہوتا ہے ہمارے حکمرانوں کی تسلی نہیں ہوئی اور وہ مزید قومی مسائل کی تلاش میں ہیں مگر ساتھ ہی الیکشن کی بات بھی کرتے ہیں۔
مجھے تعجب پیپلزپارٹی کی پالیسی پر نہیں ہوتا بلکہ اس نام نہاد اپوزیشن پر ہوتا ہے جو حکومت کی مخالفت کا دم بھرتی ہے۔ یہ اپوزیشن پرانی سرد وگرم چشیدہ ہو یا نئی نویلی کنواری سبھی حکمرانوں کو چوٹ لگانے کے حق میں نہیں ہیں اور انھی حالات میں الیکشن میں اپنا مستقبل تلاش کرتے ہیں۔ اﷲ ان کا حامی وناصر ہو اگر یہ حق پر ہیں تو۔
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں کل ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ سوائے لیڈروں کے بیانات کے کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوتی بلکہ لیڈروں کے بیانات میں بھی یکسانیت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ لوگ سرخی دیکھ کر مضمون بھانپ لیتے ہیں۔ ایک بڑی تبدیلی جس کا ذکر بار بار کیا جاتا ہے اور ذہنوں میں سوچا بھی جاتا ہے، وہ ہے آنے والے انتخابات سے کوئی تبدیلی۔ اب ذرا اس تبدیلی کا اندازہ کرتے ہیں۔
اخبارات کے صفحات پر جو سیاسی چہرے ماضی میں دکھائی دیتے تھے وہی آج بھی ان صفحات پر جلوہ گر ہیں سوائے متوفی سیاستدان جن کے صاحبزادے آج ان کی جگہ لے چکے ہیں۔ آج ان کی صورت میں موروثی سیاست کی انتہائی مکروہ شکل ہمارے سامنے سے ہر روز گزرتی ہے۔ یہ سیاست نہ صرف افراد کی حد تک موروثی ہے بلکہ خیالات کی حد تک بھی وہی ہے جو کل تھی۔ آنے والے الیکشن میں یہی لوگ پھر سے سامنے ہوں گے۔ ہم گج وج کر ان کو ووٹ دیں گے اور اسمبلیوں اور حکومتوں میں یہ وہی کچھ کریں گے جو کرتے آئے ہیں۔ یہ تو لباس تک تبدیل نہیں کرتے۔
وہی واسکٹ جو چلتی آ رہی ہے اور وہی چہرہ جو ہر روز تازہ ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔ اس صورت حال پر دھیان دیجیے اور ان چہروں میں اپنا مستقبل تلاش کیجیے۔ وہی پرانا مستقبل جو کبھی ماضی تھا۔ یہاں تو وقت بھی نہیں بدلتا۔ ماضی وحال سب ایک ساتھ چلتے ہیں اور ہم احمق ایسے ہیں کسی تبدیلی کی امید کرتے ہیں۔ یہ تو وہ باتیں ہیں جو اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ الیکشن ہو رہا ہے۔ حکومت وقت کوئی سی بھی ہو اس سے لوگ ناراض زیادہ اور راضی کم ہوتے ہیں لیکن پھر بھی حکومتیں الیکشن کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتی ہیں مگر ہماری موجودہ حکومت نے یہ شوشہ چھوڑ رکھا ہے کہ الیکشن ملتوی ہو سکتے ہیں۔
وہ کیسے' ایسے کہ ''خوئے بد را بہانہ بسیار'' دھماکوں اور کسی بھی حدتک بدامنی کے اس دور میں حالات کو بگاڑنا کسی بھی حکومت کے لیے بہت آسان کام ہے اور ہماری حکومت تو ایسے کھیل کو بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے ہر حکمران کو معلوم ہے کہ یہ الیکشن اس کی پارٹی کا نہیں ہے اس لیے یہ الیکشن بے کار ہے اور ایسے بے کار الیکشن سے جان چھڑانا ہی بہتر ہے۔ میں ایک بات عرض کر دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ آج کی پیپلزپارٹی کے لیے اگر اقتدار نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں اور اس کچھ بھی نہیں میں سب کچھ آ جاتا ہے۔
سندھ کارڈ بھی ہے۔ بلوچستان میں حالات کی ازحد خرابی بھی اور کراچی تو ہے ہی سمندر کے کنارے جس کا رخ سمندر کی طرف رہا ہے۔ ہمارے پختونستان کے دوست اعلانیہ کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے قیام کے خلاف تھے۔ سینیٹر عدیل صاحب جو ابھی بھارت یاترا کر کے آئے ہیں ان کی زبانی میں نے خود ٹی وی پر سنا کہ وہ تو پاکستان کے خلاف تھے۔ ایسے ملک میں اگر الیکشن ہوں گے تو وہ کیا ہوں گے لیکن پھر بھی الیکشن ہی کسی جدید ملک کی زندگی کا ایک ذریعہ ہے۔ مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان سے جب حکمرانوں کی شکایت کرتے تو وہ جواب دیتے اس کا علاج بھی الیکشن ہے اور الیکشن سے جو خرابی بھی پیدا ہوتی ہے اس کا ازالہ الیکشن سے ہی ہوتا ہے۔
نواب صاحب کا یہی فلسفہ تھا لیکن یہ فلسفہ ایک بار غلط ثابت ہو گیا۔ 1970ء کے الیکشن میں ملک کے ایک حصے میں صرف عوامی لیگ منتخب ہوئی اور دوسرے حصے میں اکثریت پیپلزپارٹی کو ملی۔ یہ دیکھ کر نواب صاحب نے جو ان دنوں اپنے گھر مظفر گڑھ میں مقیم تھے چند سطروں پر ایک بیان جاری کیا کہ 'قوم نے غلط فیصلہ دیا ہے'۔ یوں قومیں غلط فیصلہ بھی دیا کرتی ہیں اور ایک غلط فیصلے کی سزا ہم نے بہت بھگتی ہے اور نہ جانے کب تک بھگتتے رہیں گے جب تک کوئی پاکستانی زندہ رہے گا وہ سقوط ڈھاکا کو یاد کرتا رہے گا۔
اس لیے ضروری نہیں کہ کسی الیکشن میں خوا وہ کتنا ہی آزادانہ ہو جیسا 1970ء کا تھا ملک اور قوم کے دکھوں کا علاج بن سکتا ہے لیکن بقول چرچل حکومت کے جتنے نظام بھی دیکھے ہیں جمہوریت ہی ان میں بہتر ہے۔ یہی جمہوریت یعنی عوام کی مرضی کا نظام بھی ہے لیکن اس کا عملی نظام قدرے مختلف ہے۔ بہرکیف یہ موقع ایسی بحثوں کا نہیں ہے۔ ہم لوگ ان بحثوں سے اوپر جا چکے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ الیکشن ہوتا ہے اور ہمارے سیاست دانوں کی یہی چمکتی دمکتی کہکشاں اسمبلیوں میں جلوہ فگن ہوتی ہے تو عوام اپنے نئے گوناگوں مسائل کے لیے تیار رہیں۔
حکومت نے ایک مشہور وزیر کے تحت ایک محکمہ قائم کر رکھا ہے جو عوام کے لیے نئی نئی پریشانیاں ایجاد کرتا رہتا ہے تاکہ وہ ایک لمحہ بھی چین سے نہ بیٹھ سکیں۔ اب موبائل سموں کا معاملہ کھڑا کیا جانے والا ہے۔ جو چودہ کروڑ سے زائد پاکستانیوں کے لیے براہ راست پریشانی کا مسئلہ ہے۔ ایسے غیرضروری تماشے وہ لوگ کرتے ہیں جو قومی امن کے دشمن ہوں۔ خیال تھا کہ کرپشن اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ اس کے بعد کسی دوسرے مسئلے کے ایجاد کی ضرورت نہیں پڑے گی لیکن معلوم ہوتا ہے ہمارے حکمرانوں کی تسلی نہیں ہوئی اور وہ مزید قومی مسائل کی تلاش میں ہیں مگر ساتھ ہی الیکشن کی بات بھی کرتے ہیں۔
مجھے تعجب پیپلزپارٹی کی پالیسی پر نہیں ہوتا بلکہ اس نام نہاد اپوزیشن پر ہوتا ہے جو حکومت کی مخالفت کا دم بھرتی ہے۔ یہ اپوزیشن پرانی سرد وگرم چشیدہ ہو یا نئی نویلی کنواری سبھی حکمرانوں کو چوٹ لگانے کے حق میں نہیں ہیں اور انھی حالات میں الیکشن میں اپنا مستقبل تلاش کرتے ہیں۔ اﷲ ان کا حامی وناصر ہو اگر یہ حق پر ہیں تو۔