زلزلے ماہرین ارض کی ذمے داری

اگر کوئی بڑا کائناتی حادثہ نہ ہوا تو کرۂ ارض ابھی تین ارب سال تک زندہ رہ سکتا ہے


Zaheer Akhter Bedari August 27, 2012
[email protected]

لاہور: ایران کے شہر تبریز میں چند روز قبل زلزلے سے 300 کے لگ بھگ افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے تھے۔ تبریز کے علاوہ زلزلے سے درجنوں گائوں متاثر ہوئے ہیں، پاکستان میں آزاد کشمیر میں جو زلزلہ آیا تھا، اس میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں انتہائی تباہ کن زلزلے آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے۔ ماہرینِ ارض کی تحقیق کے مطابق دنیا کے بیشتر ملک زلزلوں کی فالٹ لائن پر ہیں۔ ہمارے ملک کے کئی شہر جن میں کراچی بھی شامل ہے، فالٹ لائن پر واقع ہیں۔

زلزلوں سے بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانے والے ملکوں میں جاپان سرفہرست ہے۔ جاپان میں چونکہ زلزلے آتے رہتے ہیں ، اس لیے وہاں لکڑی کی چھتوں کے ایسے مکان بنائے گئے ہیں جو زلزلوں میں کم نقصان دہ ہوتے ہیں۔کرۂ ارض کی معلوم تاریخ قدرتی آفات سے بھری پڑی ہے۔ پچھلے دنوں چین، امریکا، کوریا سمیت کئی ملکوں میں تباہ کن سیلاب اور سمندری طوفان آئے جن میں ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوگئے۔ کہا جارہا ہے کہ ان قدرتی آفات کا تعلق موسموں کی تبدیلی سے ہے اور موسموں کی تبدیلی کا تعلق ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا تعلق گرین ہاوس گیسوں کے بڑھتے ہوئے اخراج سے ہے۔

گرین گیسوں کا سب سے بڑا اخراج امریکا میں ہوتا ہے۔ ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ اگر گرین گیسوں کے بڑھتے ہوئے اخراج کو نہ روکا گیا تو عالمی درجۂ حرارت میں مسلسل ہونے والا اضافہ کرۂ ارض پر بسنے والے انسانوں اور دوسرے جانداروں کی مکمل تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے دنیا کے بیشتر ساحلی شہروں کے آیندہ 30-25 سال میں سمندر برد ہونے کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔

کرۂ ارض کی عمر چار ارب سال بتائی گئی ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی بڑا کائناتی حادثہ نہ ہوا تو کرۂ ارض ابھی تین ارب سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔ انسانوں کی معلوم تاریخ میں زلزلوں، سیلابوں، سمندری طوفانوں وغیرہ کے بڑے بڑے واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں لیکن کرۂ ارض کے جانداروں کی مکمل تباہی کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں لیکن ہماری معلوم تاریخ سے پہلے کے چار ارب برسوں میں کرۂ ارض کے جانداروں کی مکمل تباہی اور کروڑوں سال بعد زندگی کی دوبارہ شروعات پر ماہرینِ ارض یقین رکھتے ہیں اور امکان یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ ان تباہیوں کی بڑی وجہ سطح سمندر میں اضافہ تھا۔ سطح سمندر میں اضافے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمالیہ جیسا دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ مکمل طور پر کروڑوں سال پانی میں ڈوبا رہا۔ اگر یہ قیاس درست ہے تو پھر یہ بات بھی یقینی ہے کہ کرۂ ارض پر جانداروں کا مکمل صفایا ہوا ہوگا۔

اس پس منظر میں اگر عالمی درجۂ حرارت میں مسلسل اضافے اور ماحولیاتی آلودگی پر نظر ڈالی جائے تو اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا ایک بار پھر اس تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے جہاں ہمالیہ سمندر برد ہوسکتا ہے۔ ماہرینِ ارض سیلابوں، سمندری طوفانوں وغیرہ کو تو موسمی تبدیلیوں کا نتیجہ بتاتے ہیں لیکن زلزلوں کا تعلق موسمی تبدیلیوں سے نہیں ہے۔ سمندری طوفان سیلاب، سونامی اور زلزلے ہماری تاریخ کا حصّہ ہیں۔ انسانی زندگی کے ابتدائی ہزاروں برسوں تک ان تباہ کاریوں کی وجوہات کا علم نہیں تھا لیکن جیسے جیسے علم اور تحقیق کا دائرہ بڑھتا گیا، سمندری طوفانوں، سیلابوں، زلزلوں کی اصل وجوہات سے انسان واقف ہوتا گیا۔

اب ان آفات کے اسباب کا پتہ چل گیا ہے۔ اب زمین زادوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ان تباہ کاریوں کو روکنے کی کوشش کریں۔ موسمی تبدیلیوں سے تعلق رکھنے والی آفات کی روک تھام کے حوالے سے دنیا میں اب تک ماہرین کی کئی عالمی کانفرنسیں ہوچکی ہیں اور دنیا کے حکمران طبقات کو بار بار انتباہ دیا جاتا رہا ہے کہ خدارا گرین گیسوں کے اخراج کو کنٹرول کریں لیکن دنیا کے مختلف علاقوں میں جنگوں، دہشت گردیوں کے الائو بھڑکانے والے انسان یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ اگر ان کی حماقتوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ہوسکتا ہے اسی صدی میں کرۂ ارض سمندر برد ہوجائے اور کرۂ ارض پر موجود جاندار کروڑوں سال کے اندھیروں میں گم ہوجائے اور انسانی بستیاں موئن جو دڑو، ہڑپا، ایلورا، ایجنٹا جیسی آثار قدیمہ بن جائیں اور آنے والا انسان ان کی تاریخ ڈھونڈتا رہ جائے۔

انسان نے بیسویں اور اکیسویں صدی میں زندگی کے ہر شعبے میں جو ترقی کی ہے، بلاشبہ اس کی مثال انسانوں کی معلوم تاریخ میں نہیں ملتی، خاص طور پر خلائی شعبے میں انسان کی ترقی ناقابلِ یقین ہے۔ چاند پر انسان کا پہنچنا، خدائی ذرّہ کی دریافت اور پچھلے دنوں مریخ پر خلائی گاڑی کا کامیابی سے لینڈ کرنا انسانی عقل کی وہ کامیابیاں ہیں جو انسان کی عظمت کا احساس دلاتی ہیں اور یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں انسان کائنات کے پراسرار رازوں سے پردے ہٹاتا جائے گا، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ انسان کی کامیابیوں کا سلسلہ کرۂ ارض پر زندگی کے وجود سے مشروط ہے اور کرۂ ارض پر زندگی کی بقا کے لیے جو چیلنج درپیش ہیں، اس کا مقابلہ نہ کیا گیا تو ترقی، تحقیق کائنات کے اسرار سے پردے اٹھانے کے خواب چکنا چور ہوجائیں گے۔

کائنات کے اسرار جاننا انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور وہ اس حوالے سے حیرت انگیز پیش رفت بھی کررہا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کائناتی سفر پر آگے بڑھنے کا حق دار اس وقت ہوسکتا ہے جب وہ کرۂ ارض کو درپیش خطرات سے نجات حاصل کرے۔ اس حوالے سے عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کو روکنا اس کی اوّلین ترجیح ہونی چاہیے اور گرین گیسوں کا کوئی ایسا معقول متبادل تلاش کرنا جو عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کو روک دے یا گرین گیسوں کے استعمال میں کمی یہ دو طریقے ہیں جو موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی تباہ کاریوں کو روک سکتی ہیں۔

اصل مسئلہ زلزلوں کی تباہ کاریوں سے بچائو کا مسئلہ ہے جس کا تعلق موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نہیں بلکہ زیرِ زمین تبدیلیوں سے ہے۔ ہم یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر ماہرینِ ارض اپنی ساری توجہ علمی صلاحیت زیر زمین ہونے والی تبدیلیوں کو کنٹرول کرنے پر صرف کردیں تو زلزلوں کی تباہ کاریوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ہم نہ ماہرِ ارض ہیں نہ زلزلوں کی سائنس سے ہمارا کوئی تعلق، لیکن ہم انسانی ذہن کی ناقابلِ یقین ترقی کے پس منظر میں یہ قیاس کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کرۂ ارض کے ماہرین اگر اپنی ساری توجہ زیرِ زمین ہونے والی تبدیلیوں کی تحقیق پر لگادیں تو زلزلوں کی روک تھام کی کوئی نہ کوئی صورت نکل سکتی ہے اور لاکھوں انسانی جانوں کو بچایا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں