آئی جی سندھ تفتیشی نظام کے نقائص پر برہم
ناقص کارکردگی پر تفتیشی افسر فارغ، شہریوں کو بھرپورسہولیات دینے کی ہدایت
گنجان آباد شہروں میں جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کیا جاتا ہے لیکن دنیا کے دس بڑے شہروں میں شمار ہونے والے شہر کراچی کا المیہ یہ ہے کہ یہاں صرف بلند و بانگ دعوے ہی کیے جاتے ہیں۔
ایڈیشنل آئی جی ڈاکٹر امیر شیخ نے اپنی تعیناتی کے فوراً بعد سے ہی شہریوں کو یقین دلانا شروع کر دیا تھا کہ پولیس ان کی حفاظت کے لیے چاق و چوبند ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شہری تھانے جائیں تو ان کی ایف آئی آر درج نہیں ہوتی اور اگر درج ہو بھی جائے تو اس میں کہیں نہ کہیں کسی اثر و رسوخ یا رقم کا چمتکار ہوتا ہے اور جب مقدمہ ہی پیسے لے کر درج کیا جائے تو اس کی تفتیش کے تو کیا ہی کہنے ہوں گے۔
اس تمام تر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے انویسٹی گیشن پولیس کے خلاف ڈنڈا اٹھاتے ہوئے حکم جاری کر دیا کہ جو انویسٹی گیشن آفیسر درست تحقیقات نہیں کرے گا وہ گھر جائے گا، کیس حل نہ کرنے والے کو عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں ہونے والے ایک اجلاس میں آئی جی سندھ شعبہ تفتیش پر برہم ہوگئے۔
سندھ بھر کے تمام ایڈیشنل آئی جیز اور ڈی آئی جیز کو انہوں نے حکم دیا ہے کہ جو ایس آئی او کسی بھی کیس کو حل نہ کرسکے یا اس کی کارکردگی سے ایسا محسوس ہو کہ کیس حل کرنے میں وہ دلچسپی نہیں لے رہا تو اسے عہدے سے فوری طور پر ہٹادیا جائے۔
اجلاس میں آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ شہریوں کو بلاجواز تنگ نہ کیا جائے اور انھیں انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے ، عام تاثر یہ ہے کہ شہریوں کی ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی ، اس ضمن میں تمام متعلقہ حکام کو ہدایت جاری کی گئی کہ شہریوں کو کسی طرح بھی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا چاہیے اور ان کی ایف آئی آرز فوری طور پر درج کی جائیں، اس موقع پر اجلاس میں انھیں بتایا گیا کہ ایف آئی آر کے اندراج میں 19 فیصد اضافہ ہوا۔
آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام کا کہنا تھا کہ شعبہ تفتیش کسی بھی کیس کی اس انداز میں تفتیش کرے کہ تحقیقات مکمل طور پر میرٹ کی بنیاد پر ہو اور اس میں کسی بھی قسم کا کوئی ابہام باقی نہ رہے حتیٰ کہ جب کیس عدالت میں پیش کیا جائے تو کیس مضبوط ہونا چاہیے۔ انہوں نے تمام ایڈیشنل آئی جیز اور ڈی آئی جیز کو شعبہ تفتیش کی کارکردگی کو مکمل طور پر مانیٹر کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔
دوسری طرف پولیس کے شعبہ تفتیش کا حال یہ ہے کہ بااثر شخص اپنی مرضی کی تحقیقاتی رپورٹ بنوا سکتا ہے اور اگر بااثر نہ ہو تو گرم جیب بھی یہ مسئلہ حل کر سکتی ہے۔ لوگ کسی پر بھی الزام عائد کر کے مقدمہ درج کرا لیتے ہیں اور اپنے اوپر لگے الزامات دھوتے دھوتے مدعی کی زندگی پوری ہوجاتی ہے۔ ماضی میں ایسے کچھ کیسز سامنے آئے ہیں، جن میں مدعی اپنی زندگی کی کئی بہاریں عدالتوں کی سیڑھیاں چڑھتے اترتے گزارنے پر مجبور ہوجاتا ہے جبکہ اصل مجرم بار بار ضمانتیں کراتا رہا، کیس چلتا رہا اور تاریخ پر تاریخ ، تاریخ پر تاریخ ملتی رہی۔
پولیس کے شعبہ تفتیش پر کبھی بھی اتنی توجہ نہیں دی گئی، جتنی اس پر دینی چاہیے تھی ، تفتیش میں کئی نقائص رہ جاتے ہیں، جس سے ملزمان نہ صرف ضمانتیں حاصل کر لیتے ہیں بلکہ رہا تک ہوجاتے ہیں، اس کی واضح مثالیں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی بہت سی گرفتاریاں ہیں۔ سی ٹی ڈی کے اعلیٰ حکام نے لمبی چوڑی پریس کانفرنسز کیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ گرفتار کرلیے، کبھی پریس کانفرنس کی کہ کالعدم تنظیم کے انتہائی خطرناک دہشت گرد ، کمانڈر اور امیر گرفتار کرلیے گئے لیکن جب انہیں عدالتوں میں پیش کیا گیا تو محض دو سے تین سماعتوں میں ہی وہ باہر آجاتے ہیں، یہاں تک کہ القاعدہ کے ایک مقامی امیر کی گرفتاری پر ایک انتہائی پرجوش اور جذباتی پریس کانفرنس سی ٹی ڈی کے اعلیٰ حکام نے کی لیکن وہ بھی کچھ عرصے بعد جیل سے باہر آگیا ، اسی طرح بھارتی ایجنسی را کے دو ایجنٹ کی گرفتاری پر پریس کانفرنس کی گئی لیکن جب اگلے روز انھیں عدالت میں پیش کیا گیا تو ان کی حالت دیکھ کر جج نے حیرت سے پوچھا کہ کیا را کے ایجنٹ ایسے ہوتے ہیں؟
حقیقت حال بعد میں کھلا کہ وہ بے چارے ماہی گیر تھے جو کہ غلطی سے سمندری حدود میں آگئے تھے جبکہ سی ٹی ڈی حکام نے ان کے قبضے سے حساس مقامات کے نقشے تک برآمد کرنے کے دعوے کیے تھے۔ عدالت نے انھیں سرکاری خرچ پر واپس بھیجنے کا بھی حکم دیا تھا ، یہ تو ایک پہلو ہے اسی تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جن الزامات کے تحت پریس کانفرنس کی جاتی ہے وہ الزامات عدالت میں ثابت ہی نہیں ہوپاتے اور ان میں برسوں لگ جاتے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے کہ جیسی پریس کانفرنس کی جائے تو چالان بھی ویسا ہی ہونا چاہیے تاکہ عدالت میں جب کیس جائے تو جج کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو لیکن ایسا بھی نہیں ہوتا ، جیلیں ایسے ملزمان سے بھری پڑی ہیں جن کے الزامات ہی ثابت نہیں ہوتے اور وہ اس دوران متعلقہ الزام کے تحت ملنے والی سزا بھی بھگت چکے ہوتے ہیں۔
یہ تو چند ایک مثالیں ہیں، جو ہمارے یہاں کے تفتیشی نظام کی ہیں اور وہ بھی اتنی حساس قسم کی گرفتاریوں پر، جن سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تھانے کا تفتیشی نظام کتنا '' موثر'' اور کتنا '' قابل بھروسہ '' ہے۔ اگر پولیس میں شعبہ تفتیش پر ہی اس کی حساسیت کی بنیاد پر توجہ دی جائے تو نہ صرف گرفتاریاں کم ہوں گی بلکہ جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں بھی انتہائی کمی واقع ہوگی، اس کے ساتھ ساتھ شہر بھر سے معصوم اور بے گناہ افراد کو بھی گرفتار کرنے کا سلسلہ تھم جائے گا۔
کراچی پولیس چیف ڈاکٹر امیر شیخ نے گزشتہ سال اگست میں اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد پولیس افسران پر مشتمل متعدد اجلاس منعقد کیے اور ان اجلاسوں میں شریک انویسٹی گیشن پولیس افسران کو بھی تاکید کی کہ وہ تفتیش میں تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں تاہم ان کی یہ ہدایات صرف اجلاسوں تک ہی محدود رہی اور ان کی جانب سے بھی تفتیشی نظام میں بہتری لانے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات یا چیک اینڈ بیلنس دیکھنے میں نہیں آیا تاہم کراچی پولیس چیف کی جانب سے تھانوں کے نمائشی دورے ضرور کیے جاتے رہے۔ آئی جی سندھ سید کلیم امام نے شعبہ تفتیش کے خلاف ڈنڈا تو اٹھالیا ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کے احکامات پر کس حد تک عملدرآمد ہوتا ہے۔
ایڈیشنل آئی جی ڈاکٹر امیر شیخ نے اپنی تعیناتی کے فوراً بعد سے ہی شہریوں کو یقین دلانا شروع کر دیا تھا کہ پولیس ان کی حفاظت کے لیے چاق و چوبند ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شہری تھانے جائیں تو ان کی ایف آئی آر درج نہیں ہوتی اور اگر درج ہو بھی جائے تو اس میں کہیں نہ کہیں کسی اثر و رسوخ یا رقم کا چمتکار ہوتا ہے اور جب مقدمہ ہی پیسے لے کر درج کیا جائے تو اس کی تفتیش کے تو کیا ہی کہنے ہوں گے۔
اس تمام تر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے انویسٹی گیشن پولیس کے خلاف ڈنڈا اٹھاتے ہوئے حکم جاری کر دیا کہ جو انویسٹی گیشن آفیسر درست تحقیقات نہیں کرے گا وہ گھر جائے گا، کیس حل نہ کرنے والے کو عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں ہونے والے ایک اجلاس میں آئی جی سندھ شعبہ تفتیش پر برہم ہوگئے۔
سندھ بھر کے تمام ایڈیشنل آئی جیز اور ڈی آئی جیز کو انہوں نے حکم دیا ہے کہ جو ایس آئی او کسی بھی کیس کو حل نہ کرسکے یا اس کی کارکردگی سے ایسا محسوس ہو کہ کیس حل کرنے میں وہ دلچسپی نہیں لے رہا تو اسے عہدے سے فوری طور پر ہٹادیا جائے۔
اجلاس میں آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ شہریوں کو بلاجواز تنگ نہ کیا جائے اور انھیں انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے ، عام تاثر یہ ہے کہ شہریوں کی ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی ، اس ضمن میں تمام متعلقہ حکام کو ہدایت جاری کی گئی کہ شہریوں کو کسی طرح بھی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا چاہیے اور ان کی ایف آئی آرز فوری طور پر درج کی جائیں، اس موقع پر اجلاس میں انھیں بتایا گیا کہ ایف آئی آر کے اندراج میں 19 فیصد اضافہ ہوا۔
آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام کا کہنا تھا کہ شعبہ تفتیش کسی بھی کیس کی اس انداز میں تفتیش کرے کہ تحقیقات مکمل طور پر میرٹ کی بنیاد پر ہو اور اس میں کسی بھی قسم کا کوئی ابہام باقی نہ رہے حتیٰ کہ جب کیس عدالت میں پیش کیا جائے تو کیس مضبوط ہونا چاہیے۔ انہوں نے تمام ایڈیشنل آئی جیز اور ڈی آئی جیز کو شعبہ تفتیش کی کارکردگی کو مکمل طور پر مانیٹر کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔
دوسری طرف پولیس کے شعبہ تفتیش کا حال یہ ہے کہ بااثر شخص اپنی مرضی کی تحقیقاتی رپورٹ بنوا سکتا ہے اور اگر بااثر نہ ہو تو گرم جیب بھی یہ مسئلہ حل کر سکتی ہے۔ لوگ کسی پر بھی الزام عائد کر کے مقدمہ درج کرا لیتے ہیں اور اپنے اوپر لگے الزامات دھوتے دھوتے مدعی کی زندگی پوری ہوجاتی ہے۔ ماضی میں ایسے کچھ کیسز سامنے آئے ہیں، جن میں مدعی اپنی زندگی کی کئی بہاریں عدالتوں کی سیڑھیاں چڑھتے اترتے گزارنے پر مجبور ہوجاتا ہے جبکہ اصل مجرم بار بار ضمانتیں کراتا رہا، کیس چلتا رہا اور تاریخ پر تاریخ ، تاریخ پر تاریخ ملتی رہی۔
پولیس کے شعبہ تفتیش پر کبھی بھی اتنی توجہ نہیں دی گئی، جتنی اس پر دینی چاہیے تھی ، تفتیش میں کئی نقائص رہ جاتے ہیں، جس سے ملزمان نہ صرف ضمانتیں حاصل کر لیتے ہیں بلکہ رہا تک ہوجاتے ہیں، اس کی واضح مثالیں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی بہت سی گرفتاریاں ہیں۔ سی ٹی ڈی کے اعلیٰ حکام نے لمبی چوڑی پریس کانفرنسز کیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ گرفتار کرلیے، کبھی پریس کانفرنس کی کہ کالعدم تنظیم کے انتہائی خطرناک دہشت گرد ، کمانڈر اور امیر گرفتار کرلیے گئے لیکن جب انہیں عدالتوں میں پیش کیا گیا تو محض دو سے تین سماعتوں میں ہی وہ باہر آجاتے ہیں، یہاں تک کہ القاعدہ کے ایک مقامی امیر کی گرفتاری پر ایک انتہائی پرجوش اور جذباتی پریس کانفرنس سی ٹی ڈی کے اعلیٰ حکام نے کی لیکن وہ بھی کچھ عرصے بعد جیل سے باہر آگیا ، اسی طرح بھارتی ایجنسی را کے دو ایجنٹ کی گرفتاری پر پریس کانفرنس کی گئی لیکن جب اگلے روز انھیں عدالت میں پیش کیا گیا تو ان کی حالت دیکھ کر جج نے حیرت سے پوچھا کہ کیا را کے ایجنٹ ایسے ہوتے ہیں؟
حقیقت حال بعد میں کھلا کہ وہ بے چارے ماہی گیر تھے جو کہ غلطی سے سمندری حدود میں آگئے تھے جبکہ سی ٹی ڈی حکام نے ان کے قبضے سے حساس مقامات کے نقشے تک برآمد کرنے کے دعوے کیے تھے۔ عدالت نے انھیں سرکاری خرچ پر واپس بھیجنے کا بھی حکم دیا تھا ، یہ تو ایک پہلو ہے اسی تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جن الزامات کے تحت پریس کانفرنس کی جاتی ہے وہ الزامات عدالت میں ثابت ہی نہیں ہوپاتے اور ان میں برسوں لگ جاتے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے کہ جیسی پریس کانفرنس کی جائے تو چالان بھی ویسا ہی ہونا چاہیے تاکہ عدالت میں جب کیس جائے تو جج کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو لیکن ایسا بھی نہیں ہوتا ، جیلیں ایسے ملزمان سے بھری پڑی ہیں جن کے الزامات ہی ثابت نہیں ہوتے اور وہ اس دوران متعلقہ الزام کے تحت ملنے والی سزا بھی بھگت چکے ہوتے ہیں۔
یہ تو چند ایک مثالیں ہیں، جو ہمارے یہاں کے تفتیشی نظام کی ہیں اور وہ بھی اتنی حساس قسم کی گرفتاریوں پر، جن سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تھانے کا تفتیشی نظام کتنا '' موثر'' اور کتنا '' قابل بھروسہ '' ہے۔ اگر پولیس میں شعبہ تفتیش پر ہی اس کی حساسیت کی بنیاد پر توجہ دی جائے تو نہ صرف گرفتاریاں کم ہوں گی بلکہ جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں بھی انتہائی کمی واقع ہوگی، اس کے ساتھ ساتھ شہر بھر سے معصوم اور بے گناہ افراد کو بھی گرفتار کرنے کا سلسلہ تھم جائے گا۔
کراچی پولیس چیف ڈاکٹر امیر شیخ نے گزشتہ سال اگست میں اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد پولیس افسران پر مشتمل متعدد اجلاس منعقد کیے اور ان اجلاسوں میں شریک انویسٹی گیشن پولیس افسران کو بھی تاکید کی کہ وہ تفتیش میں تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں تاہم ان کی یہ ہدایات صرف اجلاسوں تک ہی محدود رہی اور ان کی جانب سے بھی تفتیشی نظام میں بہتری لانے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات یا چیک اینڈ بیلنس دیکھنے میں نہیں آیا تاہم کراچی پولیس چیف کی جانب سے تھانوں کے نمائشی دورے ضرور کیے جاتے رہے۔ آئی جی سندھ سید کلیم امام نے شعبہ تفتیش کے خلاف ڈنڈا تو اٹھالیا ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کے احکامات پر کس حد تک عملدرآمد ہوتا ہے۔