آزاد ہندوستان کا پہلا دہشت گرد
ہندو تنظیم مہاسبھا کے سفاک رکن رام گوڈسے نے جنوری 1948ء کو مہاتما گاندھی کو گولیاں مار کر قتل کر ڈالا تھا
چونسٹھ سالہ کمل ہاسن بھارت کے مشہور اداکار ہیں۔ اُن کا تعلق تمل ناڈو ریاست سے ہے۔ تمل ادب اور تمل زبان میں کامیاب ترین فلمیں بنانے کے بعد اُنہوں نے بالی وُڈ میں قسمت آزمائی۔ یہاں بھی کامیابیوں نے اُن کے قدم چومے۔ ممبئی میں بننے والی درجنوں فلموں میں ہیرو کا کردار ادا کر چکے ہیں۔کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ کہتے ہیں: لامذہبیت اور دہریت ہی میرا مذہب ہے۔ بھارتی حکومت اُنہیں بھارت کے دونوں بڑے ایوارڈز (پدم شری اور پدم بھوشن) سے نواز چکی ہے۔ اپنی شاعری اور اپنے منفرد افسانوں کے چند مجموعے بھی شائع کر چکے ہیں۔ بھارت کے کئی دیگر مشہور اداکاروں اور فنکاروں کی طرح کمل ہاسن بھی سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں۔ وہ اپنی سیاسی جماعت (ایم این ایم)کے بانی اور صدر ہیں۔
بھارت میں جاری انتخابات، جس کا آخری فیز چل رہا ہے، میں وہ تمل ناڈو سے لوک سبھا (قومی اسمبلی) کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ کمل ہاسن چونکہ لا مذہب ہیں، اس لیے اپنی انتخابی مہمات میں بھی اُنہوں نے مذہبی جذبات کے استحصال سے خود کو باز رکھا ہے۔ اُن کا سچ مگر بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور اُن بھارتی سیاستدانوں کو ہضم نہیں ہورہا جو ہندو توا کی بنیاد پر ووٹ اور نوٹ اکٹھے کررہے ہیں۔ چند دن پہلے کمل ہاسن نے تمل ناڈو کے اپنے حلقے میں اپنے انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہُوئے بلند اور غیر مبہم الفاظ میں کہا: ''ہندو ناتھو رام گوڈسے آزاد ہندوستان کا پہلا دہشت گرد تھا۔ یہ بات مَیں پہلی بار نہیں کہہ رہا۔ یہ بات مَیں نے گاندھی جی کے مجسمے کے سامنے کھڑے ہو کر بھی کہی تھی۔'' اس بیان نے سارے ہندوستان میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے کارکنوں کے تن بدن میں آگ لگا رکھی ہے۔ کٹر ہندوؤں کی ایک تنظیم ''ہندو منانی'' کے ضلعی سیکریٹری جنرل، کے وی رام کرشنن، نے اسی بیان پر اداکار کے خلاف ایف آئی آر کٹوا دی ہے۔شدت پسند ہندوؤں نے کمل ہاسن کو پتھر اور گندے انڈے بھی مارے ہیں۔
کمل ہاسن نے جو کہا ہے، غلط نہیں کہا ہے۔ شاید اس لیے بھی ایک بھارتی سیاسی جماعت ''سوراج انڈیا'' کے سربراہ، یوگندر یادیو، نے کہا ہے کہ کمل ہاسن نے ناتھو رام گوڈسے کے بارے جو کچھ کہا ہے، اس میں غلط کیا ہے؟ ناتھو رام گوڈسے متعصب اور بنیاد پرست ہندو تنظیم ''مہاسبھا'' کا وہ سفاک رکن تھا جس نے جنوری 1948ء کو مہاتما گاندھی کو گولیاں مار کر قتل کر ڈالا تھا۔ اگر ہم ہندو ناول نگار، یشپال، کا معرکہ خیز ضخیم ناول ''جھوٹا سچ'' پڑھیں تو ہمیں اس قتل کی چلتی پھرتی تصویر پڑھنے کو ملتی ہے۔ ''مہاسبھا'' کو دراصل آج کی آر ایس ایس اور بی جے پی کی ''ماں'' سمجھا جاتا ہے ۔ بھارتی اقلیتوں اور مسلمانوں کے خلاف اس ہندو تنظیم نے عشروں قبل جو بیج کاشت کیے تھے، وہ آج نفرت و تحقیر کے تناور درخت بن چکے ہیں۔ہر انصاف پسند اور تاریخی حقائق سے آگاہ بھارتی کمل ہاسن کے بیان سے اتفاق کرتا ہے لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس کو اس بیان سے بڑی تکلیف پہنچی ہے ؛ چنانچہ اس کا فوری ردِ عمل بھی سامنے آیا ہے۔
سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر بی جے پی کی مشہور سیاستدان ہیں۔اُن کا شمار شدت پسند ہندو سیاستدانوں میں کیا جاتا ہے۔ہمیشہ نارنجی رنگ کے کپڑوں میں ملبوس رہتی ہیں۔ وہ بی جے پی کے ٹکٹ پر بھوپال( مدھیہ پردیش)سے لوک سبھا کا انتخاب بھی لڑ رہی ہیں ۔ اُنہوں نے کمل ہاسن کے بیان کا ترنت جواب دیتے ہُوئے کہا ہے: ''ناتھو رام گوڈسے دہشت گرد نہیں بلکہ ''دیش بھگت'' ( محبِ وطن) تھا، ہے اور رہے گا۔'' یہ بیان اس امر کا مظہر ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس بھارت کے پہلے اور ڈیکلئرڈ دہشت گرد (اور عدالت سے سزا یافتہ ہو کر پھانسی پانے والے) کو اب بھی ہیرو سمجھتی ہیں۔
آزادہندوستان کے بابائے قوم،گاندھی جی، کے قاتل کو ''دیش بھگت'' قرار دئیے جانے کے خلاف بھی کئی اطراف سے آوازیں اُٹھی ہیں ۔بھارتیوں کے ''باپو'' کا سفاک قاتل بھارتیوں کے لیے ''دیش بھگت'' کیسے ہو سکتا ہے؟ لیکن ووٹ کھونے کے ڈر سے بی جے پی نے بلند آواز سے سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر کی مذمت نہیں کی ہے، بس دبے لفظوں میں کہا ہے کہ سادھوی کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ امن کے نوبل انعام یافتہ بھارتی سماجی کارکن، کیلاش ستھیارتھی، نے حیرت سے کہا ہے کہ سادھوی کے بیان نے گاندھی جی کی رُوح کچل دی ہے۔ کانگریسی اُمیدوار پریانکا گاندھی نے سادھوی ٹھاکر کو بی جے پی سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے اور انڈین الیکشن کمیشن سے بھی کہا ہے کہ اسے انتخابی عمل سے بے دخل کیا جائے۔
دہشت پسند اور بی جے پی کی اُمیدوار بھارتی سیاستدان، سادھوی پرگیا ٹھاکر، کے خلاف ابھی تک کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ بھارتی الیکشن کمیشن بھی متشدد ہندوؤں کے خوف سے منہ میں گھنگھنیاں ڈالے رہا ہے۔نریندر مودی کی زیر قیادت بھارت میں ہندوتوا کو جس وحشت سے دانستہ فروغ دیا جارہا ہے، سادھوی پرگیا کو اس کا عملی نمونہ کہا جا سکتا ہے۔ پرگیا سنگھ پہلے بھی دہشتگردی کے کئی واقعات میں خود بھی ملزمہ رہی ہیں۔ یہی وہ تشدد پسند خاتون ہیں جس نے بابری مسجد کی شہادت میں دیوانہ وار حصہ لیا تھا۔
یہ مالیگاؤں دہشتگردی کے سانحہ ( جس میں بم دھماکے سے نصف درجن سے زائد مسلمان شہید اور 100سے زائد شدید زخمی ہو گئے تھے) میں ملوث رہی ہیں۔ تازہ عام انتخابات سے قبل کئی بھارتی حلقوں کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ بی جے پی سادھوی سنگھ ایسی مجرمانہ ذہنیت رکھنے والی سیاستدان کو ٹکٹ نہ دے لیکن بی جے پی نے ایسے کسی بھی مطالبے پر کان نہ دھرا۔ مودی جی توسادھوی ایسی مسلمان دشمن اور تشدد پسند کارکن کو پارٹی کا اثاثہ سمجھتے ہیں ؛ چنانچہ مودی کی سفارش پر ہی پرگیا سنگھ کو بھوپال کے حلقے کے لیے بی جے پی کا ٹکٹ دیا گیا۔ اور یہ خاتون اب جو گُل کھلا رہی ہیں ، وہ بھارت کے ساتھ ساتھ ساری دُنیا کے سامنے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ سادھوی سنگھ نے ایک قاتل اور دہشتگرد کو اپنا ہیرو اور دیش بھگت قرار دے کر بی جے پی، آر ایس ایس اور نریندر مودی کی چنگیزیت بھی عیاں کر دی ہے۔
اگر سادھوی ٹھاکر ایسی شخصیات منتخب ہو کر لوک سبھا کی رکن بن جاتی ہیں تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نام نہاد سیکولر بھارت کی آیندہ شکل کیسے ہوگی؟ بھارتی سیاستدانوں کا تشدد مزید کیا رنگ اختیار کرے گا؟ عالمی میڈیا بھی متواتر لکھ رہا ہے کہ نریندر مودی کے ایسے ساتھیوں کی موجودگی میں ساری بھارتی اقلیتیں خود کو غیر محفوط سمجھ رہی ہیں۔ اس مایوسی اور خوف کی فضا کے باوجود بھارت میں کہیں کہیں اُمید کی کرنیں چمک رہی ہیں۔ مثال کے طور پر معروف بھارتی اخبار نویس، مصنف اور اینکر، برکھا دَت، کی احتجاجی آوازیں۔ برکھا نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ''سادھوی پرگیا ایسی عورت جو گاندھی جی کے قاتل کو ہیرو اور دیش بھگت خیال کرتی ہو، اُسے اور اُس کی پارٹی کو نارمل نہیں کہا جا سکتا۔
ایسے سیاستدانوں کی کسی بھی پارٹی میں کوئی بھی جگہ نہیں ہونی چاہیے ۔'' برکھا دَت نے صرف اِسی احتجاجی ٹویٹ پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اُنہوں نے معروفِ عالم امریکی اخبار ''واشنگٹن پوسٹ'' میں بھی ایک تفصیلی آرٹیکل لکھا ہے ۔ یہ آرٹیکل16مئی کو An Indian Candidate Called Mahatma Gandhi,s Killer a Patriot. Modi Must Drop Her Nowکے زیر عنوان شائع ہُوا ہے ۔برکھا دَت نے آزاد ہندوستان کے پہلے دہشتگرد کی بھی خوب خبر لی ہے اور سادھوی پرگیا ٹھاکر ایسے متعصب اور متشدد بھارتی سیاستدانوں کی بھی گوشمالی کی ہے جو ناتھورام گوڈسے ایسے دہشتگردوں کو ''محبِ وطن'' اور ''دیش بھگت'' کہتے ہیں ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ نریندر مودی نے ابھی تک سادھوی پر گیا سنگھ ٹھاکر کے اشتعال انگیز اور جنونی بیان کی مذمت نہیں کی ہے۔