معاشی بحران اور اپوزیشن کی احتجاجی تحریک
حکومت کے خلاف عوامی تحریک کے لیے یہ بہترین وقت ہے
پاکستان کا معاشی بحران حکومت کی نالائقی پر مہر ثبت کر رہا ہے۔ پتہ نہیں کب حکومت کو یہ سمجھ آئے گی کہ اب وہ اپنی نا اہلی کا ملبہ سابقہ حکومتوں پر نہیں ڈال سکتی۔ وہ وقت گزر گیا ہے جب لوگ ماضی کی حکومتوں کو ذمے دار سمجھ رہے تھے۔ اب آپ کی اپنی کارکردگی کا سوال بھی پیدا ہو گیا ہے۔ آج کے معاشی بحران کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے اور اسے یہ ذمے داری قبول کرناہو گی۔
حکومت کے قیام کے وقت اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے حکومت کو چارٹر آف اکانومی پر مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب ن لیگ حکومت سے بات چیت کے دروازے کھولنے کی راہیں تلاش کر رہی تھی۔ تعاون کی کوئی نہ کوئی شکل بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ شہباز شریف مفاہمت کی سیاست کے لیے کوشاںتھے۔ لیکن اس وقت حکومت ہوائی گھوڑے پر سوار تھی۔ اپوزیشن سے بات کرنا توہین سمجھ رہی تھی۔ شاید اس وقت حکومت کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ معاشی بحران اس قدر شدید ہو جائے گا۔ ویسے تو معاشی بحران کے بعد بھی حکومت کو کوئی خاص عقل نہیں آئی ہے۔ اب بھی حکومت کا رویہ نا قابل فہم ہے۔ وہ اپوزیشن سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ ملک میں کسی نئے چارٹر آف اکانومی کے لیے آج بھی مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہے۔
ادھر ایک سال آپس میں لڑ کر اپوزیشن کو عقل آ رہی ہے۔ اپوزیشن کی جماعتوں کو سمجھ آرہی ہے کہ اپنے اور ملک کے مفاد میں یہی ہے کہ وہ اکٹھی ہو جائیں۔ ان کی تقسیم سے حکومت کو فائدہ مل رہا ہے۔اس تناظر میں وقت کی ضرورت ہے کہ اپوزیشن متحد ہو کر عوام کے حقوق کی جنگ لڑے۔ یہ درست ہے کہ اپوزیشن حکومت کو گرانے کے لیے اکٹھی ہو رہی ہے۔ موجودہ معاشی بحران کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کی پیش بندی ہو رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اندر یہ خیال آرہا ہے کہ عام آدمی اس حکومت سے بدظن ہو گیا ہے، ناامید ہو گیا ہے۔ لہٰذا حکومت کے خلاف عوامی تحریک کے لیے یہ بہترین وقت ہے۔
کہتے ہیں کہ احتساب کا عمل حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈائیلاگ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے جان بوجھ کر ایسا ماحول بنایا کہ اپوزیشن سے بات چیت کے دروازے بند ہو جائیں۔ شاید اس وقت حکومت کو خود اپنی نالائقیوں کا اندازہ نہیں تھا اور خیال یہی تھا کہ ہم تو آسمان سے تارے توڑ لائیں گے۔ اس لیے احتساب سے اپوزیشن کو ختم کرنا کوئی مشکل نہیں ہو گا۔ حالانکہ ایسا بھی ممکن تھا کہ احتساب بھی چلتا رہتا اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈائیلاگ بھی چلتے رہتے اور نئے معاشی چارٹر پر بھی پارلیمنٹ میں اتفاق ہوجاتا۔
شاید اسکرپٹ میں بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعاون نہیں تھا۔ ورنہ اگر پی پی پی اور ن لیگ کو اسمبلیوں میں بیٹھنے پر قائل کیا جا سکتا ہے۔ اگر پی پی پی کو پہلے مرحلہ میںحکومت سے تعاون پر قائل کیا جا سکتا ہے اور دوسرے مرحلے میں ن لیگ کو ایک لمبی خاموشی پر مجبور کر لیا گیا۔ اگر محاذ آرائی کے ماحول میں بھی فاٹا پر پارلیمنٹ سے مشترکہ بل منظور کیا جا سکتا ہے تو ایک چارٹر آف اکانومی پر اتفاق کیوں ممکن نہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا اپوزیشن کو حکومت کو گرانے کے لیے کوئی تحریک چلانی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں نہیں، یہ مناسب وقت نہیں۔ یہ درست ہے کہ اپوزیشن کو اس قدر دیوار سے لگا دیا گیا ہے کہ اس کے پاس بھی احتجاجی تحریک کے سواکوئی راستہ نہیں ہے۔ کیا اپوزیشن اس وقت حکومت گرانے کی کوئی بھی تحریک کامیاب کرا سکے گی ۔ کیا پی پی پی اور ن لیگ مولانا فضل الرحمٰن کے فارمولے پر متفق ہو گئے ہیں۔ کیا طاقتور حلقے اب اپوزیشن کو روکنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں یا اسکرپٹ میں اپوزیشن کو روکنا شامل نہیں ہے۔
لوگ مہنگائی سے تنگ ہیں۔ ڈالر کی اڑان اور روپے کی گرتی قدر بھی پریشان کن ہے۔ اسٹاک ایکسچینج نے بھی معاشی اعتماد کو ختم کر دیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت کے پاس معاشی مسائل کا کوئی حل ہی نہیں ہے۔ عمران خان کو چپ لگ گئی ہے۔ اسد عمر کلین بولڈ ہو چکے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ نئی معاشی ٹیم عمران خان کی نہیں ہے۔ اس صورتحال میں ملک کے معاشی مستقبل کے حوالے سے بدگمانیاں اور نا امیدی زور پکڑ رہی ہیں۔ایسے میں حکومت گرانے کے تمام بنیادی لوازمات میز پر موجود ہیں جو اپوزیشن کو للچا رہے ہیں۔
لیکن کیا پاکستان اس وقت حکومت گرانے کی کسی تحریک کا متحمل ہو سکتا ہے؟ کیا پاکستان اتنے سنگین معاشی بحران کے بعد کسی سیاسی بحران کا متحمل ہو سکتا ہے؟ کیا سیاسی بحران معاشی بحران کو مزید سنگین نہیں کر دے گا؟ کیا اس وقت حکومت گرانے کی کوشش پاکستان کو کمزور نہیں کرے گی۔ لیکن پھر اپوزیشن کیا کرے؟اس ساری صورتحال میں چپ کر کے گھر بیٹھ جائے؟ حکومت کو کھل کھیلنے کا موقع دے۔ مذاکرات حکومت نہیں کرتی۔ اپوزیشن کو زندہ رہنے کی جگہ حکومت دینے کے لیے تیار نہیں۔ جب حکومت اپوزیشن کو زیرو کرنے کے درپے ہے تو جواب میں اپوزیشن کے پاس بھی حکومت کو زیرو کرنے کی کوشش کے سوا کیا آپشن ہے۔ لیکن یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ حکومت جو کر رہی ہے وہ بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔
موجودہ صورتحال میں سب سے پہلے حکومت کو ہوش کے ناخن لینے ہوںگے۔ اپوزیشن کا بہت گلہ دبا لیا گیا ہے۔ لیکن اس حکمت عملی کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ اب وقت ہے کہ حکومت کو سمجھایا جائے کہ ان کی سیاست اور پالیسی سے ملک کا نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔ اس قدر بری پرفارمنس کے ساتھ حکومت سیاسی انا پرستی کا مظاہر ہ نہیں کر سکتی۔ حکومت کو اپنی انا قربان کرنا ہوگی۔ حکومت کو اپوزیشن کے سامنے جھکنا ہوگا۔ یہی ملک کا مفاد ہے۔ اسی میں حکومت کا بھی مفاد ہے۔حکومت کی کسی بھی قسم کی مزید ہٹ دھرمی جہاں حکومت کو نقصان پہنچائے گی وہاں پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس لیے حکومت کو فوری طو رپر پاکستان کا سیاسی درجہ حرات نیچے لانے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے چاہیے۔ اپوزیشن سے بات چیت کی راہیں تلاش کرنی چاہیے۔یہی پاکستان کا مفاد ہے۔ شاید اس وقت حکومت کی دعوت پر تو اپوزیشن حکومت کے ساتھ نہیں بیٹھے گی۔ لیکن اس کا کوئی تیسرا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔
آپ سوال کر سکتے ہیں کہ پھر احتساب کا کیا بنے گا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ احتساب پاکستان میں اپنی ساکھ برقرار نہیں رکھ سکا۔ وہ اپنی غیر جانبداری بھی برقرار نہیں رکھ سکا ہے۔ سیاسی مقدمات میں سے بھی کچھ نہیں نکلا اور ملک کاکاروبار بھی بیٹھ گیا ہے۔ بیوروکریسی بھی متاثر ہوئی ہے۔ ایسے میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس قسم کے احتساب کو اور کتنا چلایا جا سکتا ہے۔
ملک جس قسم کے معاشی بحران کا شکا ر ہو گیا ہے۔ اس میں پہلے بحران سے نکلنا ہے یا پہلے احتساب کرنا ہے۔ یہ سوال بھی اہم ہو گیا ہے۔ ایسی گورننس سے معاشی بحران کم نہیں ہو گا بلکہ بڑھے گا۔ اسی لیے حکومت کو اب قدم آگے بڑھانے کی بجائے پیچھے کرنا ہوگا۔ اسی میں حکومت کی بھلائی اور پاکستان کا مفاد ہے۔
حکومت کے قیام کے وقت اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے حکومت کو چارٹر آف اکانومی پر مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب ن لیگ حکومت سے بات چیت کے دروازے کھولنے کی راہیں تلاش کر رہی تھی۔ تعاون کی کوئی نہ کوئی شکل بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ شہباز شریف مفاہمت کی سیاست کے لیے کوشاںتھے۔ لیکن اس وقت حکومت ہوائی گھوڑے پر سوار تھی۔ اپوزیشن سے بات کرنا توہین سمجھ رہی تھی۔ شاید اس وقت حکومت کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ معاشی بحران اس قدر شدید ہو جائے گا۔ ویسے تو معاشی بحران کے بعد بھی حکومت کو کوئی خاص عقل نہیں آئی ہے۔ اب بھی حکومت کا رویہ نا قابل فہم ہے۔ وہ اپوزیشن سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ ملک میں کسی نئے چارٹر آف اکانومی کے لیے آج بھی مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہے۔
ادھر ایک سال آپس میں لڑ کر اپوزیشن کو عقل آ رہی ہے۔ اپوزیشن کی جماعتوں کو سمجھ آرہی ہے کہ اپنے اور ملک کے مفاد میں یہی ہے کہ وہ اکٹھی ہو جائیں۔ ان کی تقسیم سے حکومت کو فائدہ مل رہا ہے۔اس تناظر میں وقت کی ضرورت ہے کہ اپوزیشن متحد ہو کر عوام کے حقوق کی جنگ لڑے۔ یہ درست ہے کہ اپوزیشن حکومت کو گرانے کے لیے اکٹھی ہو رہی ہے۔ موجودہ معاشی بحران کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کی پیش بندی ہو رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اندر یہ خیال آرہا ہے کہ عام آدمی اس حکومت سے بدظن ہو گیا ہے، ناامید ہو گیا ہے۔ لہٰذا حکومت کے خلاف عوامی تحریک کے لیے یہ بہترین وقت ہے۔
کہتے ہیں کہ احتساب کا عمل حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈائیلاگ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے جان بوجھ کر ایسا ماحول بنایا کہ اپوزیشن سے بات چیت کے دروازے بند ہو جائیں۔ شاید اس وقت حکومت کو خود اپنی نالائقیوں کا اندازہ نہیں تھا اور خیال یہی تھا کہ ہم تو آسمان سے تارے توڑ لائیں گے۔ اس لیے احتساب سے اپوزیشن کو ختم کرنا کوئی مشکل نہیں ہو گا۔ حالانکہ ایسا بھی ممکن تھا کہ احتساب بھی چلتا رہتا اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈائیلاگ بھی چلتے رہتے اور نئے معاشی چارٹر پر بھی پارلیمنٹ میں اتفاق ہوجاتا۔
شاید اسکرپٹ میں بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعاون نہیں تھا۔ ورنہ اگر پی پی پی اور ن لیگ کو اسمبلیوں میں بیٹھنے پر قائل کیا جا سکتا ہے۔ اگر پی پی پی کو پہلے مرحلہ میںحکومت سے تعاون پر قائل کیا جا سکتا ہے اور دوسرے مرحلے میں ن لیگ کو ایک لمبی خاموشی پر مجبور کر لیا گیا۔ اگر محاذ آرائی کے ماحول میں بھی فاٹا پر پارلیمنٹ سے مشترکہ بل منظور کیا جا سکتا ہے تو ایک چارٹر آف اکانومی پر اتفاق کیوں ممکن نہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا اپوزیشن کو حکومت کو گرانے کے لیے کوئی تحریک چلانی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں نہیں، یہ مناسب وقت نہیں۔ یہ درست ہے کہ اپوزیشن کو اس قدر دیوار سے لگا دیا گیا ہے کہ اس کے پاس بھی احتجاجی تحریک کے سواکوئی راستہ نہیں ہے۔ کیا اپوزیشن اس وقت حکومت گرانے کی کوئی بھی تحریک کامیاب کرا سکے گی ۔ کیا پی پی پی اور ن لیگ مولانا فضل الرحمٰن کے فارمولے پر متفق ہو گئے ہیں۔ کیا طاقتور حلقے اب اپوزیشن کو روکنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں یا اسکرپٹ میں اپوزیشن کو روکنا شامل نہیں ہے۔
لوگ مہنگائی سے تنگ ہیں۔ ڈالر کی اڑان اور روپے کی گرتی قدر بھی پریشان کن ہے۔ اسٹاک ایکسچینج نے بھی معاشی اعتماد کو ختم کر دیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت کے پاس معاشی مسائل کا کوئی حل ہی نہیں ہے۔ عمران خان کو چپ لگ گئی ہے۔ اسد عمر کلین بولڈ ہو چکے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ نئی معاشی ٹیم عمران خان کی نہیں ہے۔ اس صورتحال میں ملک کے معاشی مستقبل کے حوالے سے بدگمانیاں اور نا امیدی زور پکڑ رہی ہیں۔ایسے میں حکومت گرانے کے تمام بنیادی لوازمات میز پر موجود ہیں جو اپوزیشن کو للچا رہے ہیں۔
لیکن کیا پاکستان اس وقت حکومت گرانے کی کسی تحریک کا متحمل ہو سکتا ہے؟ کیا پاکستان اتنے سنگین معاشی بحران کے بعد کسی سیاسی بحران کا متحمل ہو سکتا ہے؟ کیا سیاسی بحران معاشی بحران کو مزید سنگین نہیں کر دے گا؟ کیا اس وقت حکومت گرانے کی کوشش پاکستان کو کمزور نہیں کرے گی۔ لیکن پھر اپوزیشن کیا کرے؟اس ساری صورتحال میں چپ کر کے گھر بیٹھ جائے؟ حکومت کو کھل کھیلنے کا موقع دے۔ مذاکرات حکومت نہیں کرتی۔ اپوزیشن کو زندہ رہنے کی جگہ حکومت دینے کے لیے تیار نہیں۔ جب حکومت اپوزیشن کو زیرو کرنے کے درپے ہے تو جواب میں اپوزیشن کے پاس بھی حکومت کو زیرو کرنے کی کوشش کے سوا کیا آپشن ہے۔ لیکن یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ حکومت جو کر رہی ہے وہ بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔
موجودہ صورتحال میں سب سے پہلے حکومت کو ہوش کے ناخن لینے ہوںگے۔ اپوزیشن کا بہت گلہ دبا لیا گیا ہے۔ لیکن اس حکمت عملی کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ اب وقت ہے کہ حکومت کو سمجھایا جائے کہ ان کی سیاست اور پالیسی سے ملک کا نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔ اس قدر بری پرفارمنس کے ساتھ حکومت سیاسی انا پرستی کا مظاہر ہ نہیں کر سکتی۔ حکومت کو اپنی انا قربان کرنا ہوگی۔ حکومت کو اپوزیشن کے سامنے جھکنا ہوگا۔ یہی ملک کا مفاد ہے۔ اسی میں حکومت کا بھی مفاد ہے۔حکومت کی کسی بھی قسم کی مزید ہٹ دھرمی جہاں حکومت کو نقصان پہنچائے گی وہاں پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس لیے حکومت کو فوری طو رپر پاکستان کا سیاسی درجہ حرات نیچے لانے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے چاہیے۔ اپوزیشن سے بات چیت کی راہیں تلاش کرنی چاہیے۔یہی پاکستان کا مفاد ہے۔ شاید اس وقت حکومت کی دعوت پر تو اپوزیشن حکومت کے ساتھ نہیں بیٹھے گی۔ لیکن اس کا کوئی تیسرا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔
آپ سوال کر سکتے ہیں کہ پھر احتساب کا کیا بنے گا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ احتساب پاکستان میں اپنی ساکھ برقرار نہیں رکھ سکا۔ وہ اپنی غیر جانبداری بھی برقرار نہیں رکھ سکا ہے۔ سیاسی مقدمات میں سے بھی کچھ نہیں نکلا اور ملک کاکاروبار بھی بیٹھ گیا ہے۔ بیوروکریسی بھی متاثر ہوئی ہے۔ ایسے میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس قسم کے احتساب کو اور کتنا چلایا جا سکتا ہے۔
ملک جس قسم کے معاشی بحران کا شکا ر ہو گیا ہے۔ اس میں پہلے بحران سے نکلنا ہے یا پہلے احتساب کرنا ہے۔ یہ سوال بھی اہم ہو گیا ہے۔ ایسی گورننس سے معاشی بحران کم نہیں ہو گا بلکہ بڑھے گا۔ اسی لیے حکومت کو اب قدم آگے بڑھانے کی بجائے پیچھے کرنا ہوگا۔ اسی میں حکومت کی بھلائی اور پاکستان کا مفاد ہے۔