مختلف بلدیاتی نظام کیوں
جنرل پرویز مشرف کا اقتدار ختم ہوا تو ان تمام کو ضلعی نظام میں خرابیاں نظر آگئی تھیں
پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے بلدیاتی نظام مکمل طور پر صوبوں کے حوالے کردیا گیا تھا، جب کہ اس سے قبل جنرل پرویز مشرف نے 2001 میں ملک میں ضلع حکومتوں کا بہترین اور با اختیار نظام دیا تھا جس میں آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی صاحبزادی نفیسہ شاہ، نواب شاہ اور خیرپور کی ضلعی ناظمہ تھیں۔ سندھ کے وزیر بلدیات سعید غنی یوسی ناظم اور آج کل پیپلز پارٹی اور ماضی میں مہرگروپ میں شامل موجودہ صوبائی وزیر ناصر شاہ ضلع سکھر کے دو بار ضلعی ناظم رہے اور یہ سب بااختیار بلدیاتی عہدیدار رہے اور ضلعی نظام کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں انھوں نے کبھی ضلعی نظام کی مخالفت نہیں کی تھی بلکہ اپنے اختیارات کھل کر استعمال کیا کرتے تھے مگر جنرل پرویز مشرف کا اقتدار ختم ہوا تو ان تمام کو ضلعی نظام میں خرابیاں نظر آگئی تھیں۔
نوابشاہ کی ضلعی ناظمہ فریال تالپور کے مقابلے میں نفیسہ شاہ نے ضلع خیرپور میں ضلعی ناظمہ کی حیثیت سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ضلع خیرپور کے پنچایتی سسٹم کی اس وقت کے وفاقی وزیر بلدیات محمد سلیم خان نے راقم کے ساتھ ملاقات میں بڑی تعریف کی تھی۔ پیپلز پارٹی جنرل پرویز مشرف کے بااختیار ضلعی نظام کی سخت مخالف ہے مگر اسے جنرل ضیا الحق کا 1979 کا بلدیاتی نظام بہت پسند ہے جس میں کمشنری نظام تھا اور منتخب بلدیاتی عہدیدار ہوتے ہوئے برائے نام اختیارات کے حامل اور کمشنر، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور مختارکاروں تک کے محتاج تھے جب کہ محکمہ بلدیات ان کا مکمل کنٹرولنگ اتھارٹی تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے بااختیار بلدیاتی ضلعی حکومتوں کے نظام میں انگریز دورکا فرسودہ کمشنری نظام ختم کردیا گیا تھا۔
ضلعی نظام میں منتخب ناظمین کو مکمل مالی و انتظامی اختیارات حاصل تھے اور کمشنر، صوبائی سیکریٹریز اور ڈپٹی کمشنروں کے عہدے تبدیل کرکے انھیں ملک بھر میں ضلعی حکومتوں میں ڈی سی او اور ای ڈی اوز اور اسسٹنٹ کمشنروں کو ٹی ایم او بنایا گیا تھا اور وہ منتخب ناظمین کے ماتحت تھے اور کہا نہ ماننے پر متعدد ناظمین نے ان کے تبادلے بھی کرادیے تھے کیونکہ کمشنری نظام میں یہ اعلیٰ افسران حکم چلانے اور من مانیوں کے عادی تھے اور جہاں انھوں نے اپنے ناظمین پر حکم چلانا شروع کیا، وہاں کے ناظمین نے ان کا تبادلہ کرا دیا تھا۔
ضلعی ناظمین کو ان کے یوسی ناظمین اور نائب ناظمین کو جو ایوان کی صدارت کرتے تھے، یوسیزکے نائب ناظمین منتخب کرتے تھے اور بیوروکریسی منتخب ناظمین کے ماتحت تھی، جس سے عوام کے نچلی سطح پر بااختیار ہونے کا احساس اجاگر ہوا تھا اور ارکان اسمبلی ضلعی ناظمین کی بااختیاری کو اپنی ہتک سمجھتے تھے اور ان کی بلدیاتی مداخلت ختم ہوگئی تھی۔ ملک بھر کے ناظمین کو صوبائی و وفاقی وزارتوں کی بجائے قومی تعمیر نو بیورو کے ماتحت رکھا گیا تھا جس سے محکمہ بلدیات کی اہمیت ختم ہوکر رہ گئی تھی اور ناظمین اپنے حاصل اختیارات میں کھل کر آزادی سے کام کرتے تھے جس کی وجہ سے ارکان اسمبلی اور بیوروکریسی کو ضلعی نظام پسند نہیں تھا۔
مسلم لیگ (ق) کی حکومت ختم ہونے کے بعد جب 2008 میں ملک میں پیپلز پارٹی اور صوبوں میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور اے این پی کی حکومتیں وجود میں آئیں تو انھوں نے ضلعی نظام ختم کرنے کی کوشش کی مگر آئینی تحفظ حاصل نہ ہونے کی وجہ سے فوری ختم نہ کرسکیں مگر انھوں نے آتے ہی کمشنری نظام بحال کیا اور ضلعی حکومتوں کو ان کی مدت ختم ہونے تک مختلف طریقوں سے تنگ کرکے بے بس کرکے رکھا اور آئینی تحفظ ختم اور صدر مشرف کے جانے کے بعد ضلعی نظام ہی ختم کردیا تھا۔ پنجاب ، سندھ اور صوبہ سرحد میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور اے این پی نے اپنے تینوں صوبوں اور بلوچستان میں مختلف پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کی مخلوط حکومت نے 1979 کے جنرل ضیا کے بلدیاتی نظام کو بحال کرکے بلدیاتی اداروں پر من پسند سرکاری ایڈمنسٹریٹر مقرر کرکے ثبوت دیا تھا کہ انھیں جمہوریت کی بنیاد پر عوام کے نچلی سطح پر منتخب عہدیدار پسند نہیں تھے اور اسی لیے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے۔
سیاسی وزرائے اعلیٰ اور وزرائے بلدیات نے ناظمین پر کرپشن کے الزامات لگائے تھے جو کہیں ثابت نہیں ہوسکے تھے۔
کمشنری نظام میں کمشنر، ڈپٹی و اسسٹنٹ کمشنروں کی غلامی کرنے والے ارکان اسمبلی کو اپنے ہی جیسے بلدیاتی عوامی نمایندے ناپسند تھے اور انھیں 1979 کا بلدیاتی نظام ہی پسند تھا جو ملک بھر میں نافذ تھا مگر پی پی حکومت نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے بلدیاتی نظام صوبوں کے حوالے کرکے بلدیاتی نظام کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی تھی اور 2013 میں مسلم لیگ (ن)، پی پی اور پی ٹی آئی نے اپنے صوبوں میں مختلف بلدیاتی نظام نافذ کیے تھے جس کی پیروی میں بلوچستان بھی پیچھے نہیں رہا تھا۔
عمران خان نے 2013 میں کے پی کے میں اپنی مرضی کا بلدیاتی نظام اسمبلی سے منظور کرایا تھا جو چار سطحوں پر مشتمل تھا جب کہ باقی تین صوبوں میں 1979 کے جنرل ضیا کے نظام سے ملتے جلتے ضرور تھے مگر بااختیار نہیں تھے ۔اس طرح ملک کے چاروں صوبوں میں الگ الگ بلدیاتی نظام رائج تھے جو ملک میں ایک اچھی مثال ثابت نہیں ہوئے اور مذاق بن کر رہ گئے تھے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بااختیار بلدیاتی سسٹم کام کر رہے ہیں جہاں کی پولیس اور سرکاری افسران منتخب بلدیاتی میئر کے ماتحت ہوتے ہیں۔ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری کہلاتے ہیں جہاں کارکردگی کی بنیاد پر قومی قیادت ابھرتی ہے۔ ایران، ترکی اور متعدد ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم اپنے علاقوں کے بلدیاتی اداروں کے سربراہ بنے تھے اور انھوں نے اپنی کارکردگی سے ملک میں نام بنایا اور اعلیٰ عہدوں تک پہنچے۔
پاکستان میں کسی بھی سیاسی حکومت نے بلدیاتی اداروں کے کبھی انتخابات کرائے نہ انھیں اختیارات دیے۔ صرف ایک بار مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کرائے تھے جب کہ موجودہ بلدیاتی اداروں کے الیکشن سپریم کورٹ کے حکم پر ہوئے تھے مگر چاروں صوبوں میں ایک سال تک منتخب بلدیاتی اداروں کو چارج نہیں دیا گیا۔ سندھ حکومت نے بلدیاتی اداروں اور میئرز تک کو محدود اختیارات دے رکھے ہیں اور اختیارات کے حصول کے لیے میئر کراچی نے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے مگر جس طرح سیاسی حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے تھے اسی طرح وہ اختیارات بھی نہیں دے رہیں۔ سپریم کورٹ اگر بلدیاتی اداروں کے اختیارات، مدت اور آئین کے مطابق مقررہ مدت تک بلدیاتی انتخابات کرانے کا فیصلہ دے دے تو ملک میں بااختیار بلدیاتی ادارے وجود میں آسکتے ہیں وگرنہ سیاسی حکومتیں اور انھیں منتخب کرنے والے ارکان اسمبلی کبھی ملک میں بااختیار بلدیاتی نظام نہیں آنے دیں گے۔