شہر ناپرساں کراچی اور سپریم کورٹ
کراچی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب اب اک گھناؤنی کچرا کنڈی اورکھنڈرکا مکروہ منظر پیش کر رہا ہے۔
ISLAMABAD:
ہم نے بائیس خواجاؤں کی چوکھٹ کہلانے والے تاریخی شہر دلی کو خیر باد کہہ کر اپنے خوابوں کی سرزمین پاکستان کو اپنا وطن اختیارکیا تو کراچی کو اپنا آخری مسکن بنایا، جسے بانی پاکستان اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی جائے پیدائش اورآخری آرام گاہ ہونے کے حوالے سے '' شہر قائد '' کہلانے کا منفرد اعزاز حاصل ہے جس سے اسے کبھی بھی محروم نہیں کیا جاسکتا۔
کراچی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب اب اک گھناؤنی کچرا کنڈی اورکھنڈرکا مکروہ منظر پیش کر رہا ہے۔ یقین نہیں آتا کہ یہ وہی شہر ہے جس کی سڑکیں کبھی پیرس کی سڑکوں کی طرح صبح و شام دھلا کرتی تھیں اور جو بر اعظم ایشیا کا سب سے صاف ستھرا خوبصورت مثالی شہر مانا جاتا تھا۔ ہم نے اس شہرکی قابل رشک صفائی ستھرائی کا حال کسی عام شہری کی زبانی نہیں بلکہ کراچی کے سب سے پہلے مسلمان میئر حکیم محمد احسن (مرحوم) کی زبان مبارک سے سنا تھا جسے صداقت کے اعتبار سے سندکا درجہ حاصل ہے۔
حکیم صاحب کا شمار پاکستانی،خصوصاً سندھ کی تاریخ ساز شخصیات میں ہوتا ہے۔ان کے خاندان کے حوالے سے دو ٹوک کہا جاسکتا ہے کہ ''ایں خانہ ہمہ آفتاب'' موصوف نہ صرف ایک ماہرطبیب بلکہ نہایت عالم وفاضل انسان تھے۔آپ جامعہ ملیہ اسلامیہ دلی سے فارغ التحصیل تھے ،جہاں آپ کو ادارے کے بانی اورعالمی شہرت یافتہ ماہر تعلیم ڈاکٹر ذاکر حسین (مرحوم) کی ذاتی رہنمائی کا شرف حاصل ہوا، جو بعد میں نائب صدر جمہوریہ ہند اور پھر صدر جمہوریہ ہند کے منصب پر فائز ہوئے۔ راقم الحروف اور حکیم محمد احسن کے درمیان ڈاکٹر ذاکر حسین کی عظیم شخصیت اس اعتبار سے ایک قدر مشترک یا حسن اتفاق کا درجہ رکھتی ہے کہ اس ناچیزکو بھی اپنے ایم۔اے کی سند ڈاکٹر ذاکر حسین کے دست مبارک سے حاصل کرنے کا تاریخی اعزاز حاصل ہے۔
حکیم محمد احسن طب کے میدان کے علاوہ سیاست اور سفارت کے میدانوں میں بھی انھوں نے اپنی لیاقت کے خوب جوہر دکھائے۔ وہ سندھ کے وزیر صحت بھی رہے اور وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے ان کی اہمیت کی بنا پر صومالیہ میں پاکستان کا سفیر مقررکیا۔ حکیم احسن کا کمال یہ تھا کہ انھیں صومالیہ میں بولی جانے والی زبان پر عبور حاصل تھا۔ گویا ان کا معاملہ ''زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم '' والی بات کے بالکل برعکس تھا۔ یہ بھٹو صاحب کی جوہر شناسی تھی کہ ان کی نظر انتخاب حکیم حمد احسن پر پڑی۔ حکیم محمد سعید شہید کی طرح حکیم محمد احسن بھی وقت کے سخت پابند تھے۔ وہ ہماری دعوت پر جب بھی ریڈیو پاکستان تشریف لائے توکیا مجال کے منٹ بھرکی بھی تاخیر ہوئی ہو۔
آخری بار جب وہ پروگرام کی ریکارڈنگ سے فارغ ہوئے تو ہماری درخواست پر وہ چائے نوش فرمانے کے لیے تھوڑی دیرکے لیے ہمارے پاس رک گئے کراچی کی زبوں حالی کا ذکر چھڑگیا تو ضبط کرنے کی انتہائی کوشش کے باوجود ان کی حالات شناس آنکھوں میں بے اختیار آنسو چھلک آئے۔ وہ اس شہرکے حسین ماضی کو یاد کرتے ہوئے اس کے حال پر شدید افسردہ اور اس کے مستقبل کے بارے میں بے حد فکرمند اور متوشش تھے۔ حزن و ملال ان کے چہرے سے عیاں تھا اور بے بسی کا احساس ان کے دل کوکچوکے لگا رہا تھا۔کراچی کے غم نے حکیم محمد احسن کو نڈھال کردیا جو ایک فطری امر تھا کیونکہ اس عظیم شہرقائد کے سرپرست ہی نہیں بلکہ ایک شہری کی حیثیت سے بھی آبیاری کی تھی۔ یہ شہر جو سب کے لیے شہر پناہ تھا اب شہر بے پناہ بن چکا ہے۔
سنا تھا ہم نے کہ وہ شہر ہے اجالوں کا
گئے وہاں تو یہ دیکھا کہ غم کے سائے ہیں
کراچی جوکبھی ملک کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا، معاشی اور اقتصادی اعتبار سے اب بھی وطن عزیزکا مرکز ہے۔کراچی کی معیشت پر پورے ملک کی معیشت کا دار و مدار ہے۔ یہ پورے ملک کا معاشی اورکاروباری حب ہے۔ حکومت کی کل آمدنی اور محصولات کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ بھی یہی شہر ہے۔انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس شہرکی ترقی اور بہتری کو وطن عزیز کے دیگر شہروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ اہمیت اور فوقیت دی جاتی جس کا یہ بجا طور پر حق دار ہے لیکن نہایت افسوس کا مقام ہے کہ معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے۔
ترجیحی سلوک کے بجائے مدت دراز سے اس پاکستان نواز اور وطن ساز شہر کے ساتھ انتہائی سفاک سوتیلے پن کا برتاؤکیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں طرح طرح کے مسائل جنم لے رہے ہیں جس میں لسانی منافرت اور کشیدگی کا سنگین مسئلہ بھی شامل ہے جو بنیادی طور پر عدم مساوات اور دانستہ امتیازی سلوک کا فطری نتیجہ ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ برصغیر کی تقسیم سے قبل یہ شہر محدود آبادی اور رقبے پر محیط ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے بڑی تعداد میں اگر آباد ہونے والے مہاجرین نے اس کی تعمیر و ترقی اور وسعت میں بے پناہ اضافہ کردیا، بقول مصور پاکستان علامہ اقبال:
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
بس دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر پھیلتا اور پھلتا پھولتا چلا گیا تاآنکہ غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس شہرکی آبادی بڑھتے بڑھتے اب دوکروڑ کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے جس میں اندرون ملک سے اٹھ کر آباد ہونے والے روزگار کے متلاشی اہل وطن بھی شامل ہیں۔ اس لیے یہ شہر اب منی پاکستان کہلاتا ہے۔کمر توڑ اور آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی کے باوجود کراچی ملک کا واحد غریب پرور شہر ہے جہاں غریب سے غریب انسان بھی اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکتا ہے۔ یہی شہر ملک بھرکے بے روزگاروں کو روزگار کے سب سے زیادہ مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اس دودھ دینے والی گائے کا دودھ تو سب پینا چاہتے ہیں لیکن اسے چارہ کھلانے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔ یہ بدنصیب شہر مدت دراز سے سیاست کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے اور سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے اس کے مسائل پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی جس کے نتیجے میں یہ شہر شہر ناپرساں بن گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے کراچی کے مسائل کا نوٹس لے کر کراچی کے شہریوں کے برسوں سے رستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھنے اور ان کے ساتھ مدت دراز سے روا رکھی جانے والی ناانصافیوں کا ازالہ کرنے کی لائق تحسین کوشش کی ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔
عدالت عظمیٰ کا یہ تاثر بالکل درست ہے کہ کراچی شہر گندگی کا ڈھیر بن چکا ہے۔ جگہ جگہ سڑکوں پر گٹر ابل رہے ہیں اورکچرے کے انبار نظر آتے ہیں جن کی وجہ سے عام شہریوں کا آنا جانا دشوار ہوگیا ہے اور ٹریفک کی روانی میں شدید مشکلات پیش آرہی ہیں۔ نکاسی آب کا پورا نظام درہم برہم ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے بلدیاتی نظام کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ سندھ حکومت اور بلدیاتی اداروں کی چپقلش ختم ہونے کے بجائے روزبروز بڑھتی ہی جا رہی ہے جس کا خمیازہ ٹیکس پر ٹیکس ادا کرنے والے کراچی کے شہریوں کو مسلسل بھگتنا پڑ رہا ہے۔
کراچی کی سڑکوں کی حالت بھی انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ بہت سی سڑکیں تعمیر نو یا مرمت کے لیے کھودی گئی ہیں مگر برسوں گزرنے کے باوجود جوں کی توں پڑی ہوئی ہیں اور ان کی تکمیل کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آرہے جس کے نتیجے میں پورا شہر ٹریفک کے شدید دباؤ کے ساتھ ساتھ بے تحاشا آلودگی کی زد میں ہے۔ بجلی اور پانی کے مسائل نے بھی کراچی کے شہریوں کی زندگی کو عذاب مسلسل بنادیا ہے۔کراچی کے بیشتر علاقے کئی کئی گھنٹے بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا شکار رہتے ہیں جس کے باعث دیگر کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نکاسی آب کا نظام بری طرح درہم برہم ہوچکا ہے جس نے شہریوں کی زندگی کو اجیرن بنادیا ہے۔
حفظان صحت کے نظام کی مکمل تباہی کے نتیجے میں طرح طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور وبائی امراض پھوٹ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے سنگین سے سنگین تر ہوتے ہوئے شہری مسائل سے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔ سندھ کی حکومت اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ وہ ملک کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے عدالت عظمیٰ کی صائب ہدایات پر فوری عمل درآمد شروع کردیں۔