روپیہ کیسے مستحکم ہوسکتا ہے
غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری سے جو زرِ مبادلہ حاصل ہوتا ہے وہ بھی روپیہ کی قیمت پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ہماری کرنسی کی ویلیو خطے کی کمزور ترین سطح پر آگئی، آتی بھی کیوں ناں، نوٹ چھاپ کر یا گھر کی چیزیں بیچ کر گھر کے حالات تھوڑی ٹھیک کیے جا سکتے ہیں۔ جب گھر کا سب کچھ گروی رکھا ہو تو اسے چلانے کا اختیار مالک سے زیادہ گروی لینے والوں کا ہوتا ہے۔ ویسے بھی جب گھر میں اکا دکا کمانے والے اور سب کھانے والے ہوں تو کچھ عرصے بعد گھر بیچ کر بھی خلاصی ہونا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اب اس ساری صورتحال کا ذمے دار چاہے آپ عمران خان کو قرار دیں یا سابقہ حکمرانوں کو مگر مسائل تو اس وقت عمران خان کی جھولی میں آن پڑے ہیں، جنھیں چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی درست کرنا اب اُن کی ذمے داری بن گیا ہے۔
اسی لیے جب اُن سے پوچھا جائے کہ آپ نے اپنی حکومت میں غیر منتخب لوگوں کو اعلیٰ عہدے دے رکھے ہیں تو وہ یہی کہتے پائے جاتے ہیں کہ ملک کی معیشت کو ٹھیک کرنا ہے۔ نہلے پہ دہلا یہ کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ آئی ایم ایف پیکیج کے تحت حکومت کو آنے والے بجٹ میں 650ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانا ہوں گے۔
پاکستانی روپے کی قدر برقرار رکھنے کے لیے حکومت اور اسٹیٹ بینک کوئی مداخلت نہیں کریں گے اور روپے کی قدر ری فلوٹ پالیسی کے تحت ہوگی۔ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کی جائے گی، بجلی کی قیمتوں میں دو مرحلوں میں اضافہ کیا جائے گا، پہلے مرحلے میں یکم جولائی سے بجلی کی قیمتیں بڑھائی جائیں گی جب کہ گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جائیگا۔ معاہدے کے تحت پاکستان کے ترقیاتی بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ حکومت کو اِس وقت 350ارب روپے کے ریونیو کی کی کمی کا سامنا ہے جس سے اِس سال 7فیصد بجٹ خسارہ متوقع ہے جس میں کمی لانے کے لیے 1400ارب روپے کے گردشی قرضوں کو ختم کر کے پاور سیکٹرز میں اصلاحات اور دی گئی سبسڈیز ختم کرنا ہوں گی اور نیپرا کو بااختیار بنایا جائے گا۔
ان سخت شرائط کے بعد روپے کا گرنا فطری عمل ہے۔ اس غیر یقینی کیفیت میں اسٹاک ایکسچینج کا 53ہزار انڈیکس سے 33ہزار پر آجانا بھی فطری عمل ہے اور بیرون ملک سے آنے والی سرمایہ کاری کا جمود کا شکار ہونے میں بھی کسی کو تعجب نہیں ہے، اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نوٹ کاغذ کے بے وقعت ٹکروں میں تبدیل ہوگیا ہے۔ پانچ پانچ ہزار کے نوٹ بھی اپنی حیثیت کھو رہے ہیں۔ سکوں کا وجود اب ہمارے ملک سے تقریباً ختم ہی ہو گیا ہے۔ پڑوسی ملک کو ہی دیکھ لیں کبھی ان کا روپیہ ہمارے روپیہ کے مقابلے میں کم مالیت کا تھا مگر اب ہمارے دو ڈھائی روپے کے برابر ہو چکا ہے۔ ہمارے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ دنیا کے بڑے معاشی اداروں کے مطابق خطے کی سب کرنسیوں کے مقابلے میں روپیہ سب سے کم قیمت پر آگیاہے۔ روپیہ کی قیمت پر اثر ڈالنے والے وجوہات کا پتہ چلانا حکومتِ وقت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
ہماری درآمدات کی مالیت برآمدات سے بہت زیادہ ہے۔ غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری سے جو زرِ مبادلہ حاصل ہوتا ہے وہ بھی روپیہ کی قیمت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ کسی ملک کی معیشت پر جو قرض چڑھتا ہے وہ بھی کرنسی کی قیمت پر اثر ڈالتا ہے۔ اگر ملک کی معیشت پر قرض کا بوجھ زیادہ ہے تو کرنسی سستی ہو جائے گی۔لیکن اگر روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مہنگا ہو رہا ہو تو یہ پہچان ہوتی ہے معیشت کے مضبوط ہونے کی اور ایسی صورت میں ملک کے باہر سے پاکستان میں سرمایہ لگانے والوں کے لیے ملک میں کشش پیدا ہوتی ہے لیکن اگر روپیہ ڈالر کے مقابلے میں سستا ہو رہا ہو تو ملک کی اقتصادی حالت کے بارے میں طرح طرح کے سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں۔
بہرکیف کسی بھی معاملے میں چاہے وہ کرنسی کا ہی معاملہ کیوں نہ ہو مہارت سے کامیابی حاصل کرنا بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور تمام مہارتوں کا درومدار مکمل طور پر کامیابی اور جیت پر ہے یعنی کسی بھی مقصد کے لیے بہتر طور پر منصوبہ بندی کرنا اور مقصد کو مقررہ وقت پر حاصل کرنا کامیابی کی نوید لاتا ہے۔ مگر منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ہم اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پاتے،اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے روپے کی بلند سطح پر بحالی کے لیے خلوصِ دل اور لگن کے ساتھ جد و جہد کریں ۔
ہم اس بات کو سمجھیں کہ معیشت تین اجزاء کا مجموعہ ہوتی ہے، پیداوار ، پیداوار کی تقسیم اور معیار زندگی۔ اس کا اہم ترین حصہ پیداوار ہے جب کہ باقی دو شعبوں کا عمل شروع ہی اس وقت ہوتا ہے جب پیداوار موجود ہو۔دنیا میں آج وہی معاشرے ترقی یافتہ ہیں اور انھی ممالک کی کرنسی مضبوط ہے جن کی پیداوار ترقی یافتہ ٹیکنالوجی ہے اور حجم میں بہت زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر امریکا سالانہ ساڑھے سترہ ہزار ارب ڈالر کی اشیا اور خدمات پیدا کرتا ہے، چین جاپان اور جرمنی بالترتیب ساڑھے دس ہزار ارب ڈالر ، ساڑھے چار ہزار ارب ڈالر اور چار ہزار ارب ڈالر کی اشیاء و خدمات پیدا کرتے ہیں، اسی لیے امریکا دنیا کی نمبر ایک ، چین دوسری ، جاپان تیسری اور جرمنی چوتھی بڑی معیشت ہے۔ اس کے برعکس میں ملاوی ، برونڈی ، سینٹرل افریکن ریپبلک، گیمبیا ، اور نائجروغیرہ دنیا میں سب سے کم اشیاء و خدمات پیدا کرتے ہیں، اس لیے ان کا ترقی یافتہ ممالک کی درجہ بندی میں سب سے کمتر مقام ہے اور کرنسی کی ویلیو بھی اُسی حساب سے کم تر ہے۔
چین میں 1979ء سے پہلے سوشلسٹ معیشت تھی، ہر سال قحط پیدا ہوتے تھے، 1958-61 میں ساڑھے تین کروڑ اموات ہوئیں۔ 1979 میں چین مارکیٹ معیشت کی طرف منتقل ہوا ۔ چین نے اپنا رجحان زیادہ سے زیادہ پیداوار کی طرف مرتکز رکھا، یوں 35 برس میں چین نے دس فیصد سالانہ سے ترقی کرکے اپنی معیشت میں بتیس گنا اضافہ کیا اور اسے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بنا دیا۔ ان 35برسوں میں چین کے کسی ایک صوبے میں بھی قحط نہیں آیا اور لوگوں کے معیار زندگی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ جاپان ، جنوبی کوریا ، سنگاپور ، تائیوان وغیرہ نے صنعتی میدان میں پیداواری قوتوں کی مدد سے ہی معاشی ترقی کر کے اقوام عالم میں ایک باعزت اور قائدانہ کردار حاصل کیا ہے، ہمارے پڑوس میں بھارت بھی پیداواری قوتوں میں مسلسل اضافہ کے سبب سالانہ پانچ فیصد سے ترقی کر رہا ہے۔
''پیداوار ''کے علاوہ ہمیں تعلیم پر توجہ دے کر اور یونیورسٹیوں میں ریسرچ کو فروغ دینا ہوگا جس سے نت نئے پراجیکٹس سامنے آئیں اور بہتر پراجیکٹس کو حکومت سپانسر کرے تاکہ نئی چیزیں دنیا کے سامنے آئیں اور وہ ہم سے خریدیں تاکہ ہم بھی اپنی چیزیں بیچ کر ڈالر کما سکیں۔ ہماری بیشتر یونیورسٹیز میں سائنس اور انجینئرنگ سے متعلق مضامین صرف کتابوں کی حد تک پڑھائے جاتے ہیں،طالبعلموں کو عملی مشقیں نہیں کرائی جاتیں، جعلی پراجیکٹس اور جعلی مقالوں کی بھرمار کی وجہ سے ڈگری ہولڈرزنوکریاں حاصل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ انصاف اور قانون کی بالا دستی ہونی چاہیے۔ جس ملک میں قانون کی بالا دستی قائم ہو اور انصاف کا بول بالا ہو وہ قوم کبھی تباہ نہیں ہو سکتی ۔
اگر ہم اچھے شہری ہونے کی ذمے داریاں بھی ساتھ نبھائیں گے تو ہم اچھی اقوام میں گنے جائیں گے۔ ہر شخص دوسرے کے حقوق، مذہب اور فرقے کا خیال رکھے اور رائے کا احترام کرے۔ نئی نسل کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کر نے چاہیے۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ جو شخص 30کی عمر میں ارب پتی نہیں بنا وہ اگلی عمر میں نہیں بن سکتا۔ دنیا کے امیر ترین افراد اسی عمر کے ہیں اور حکومتیں اُن سے اربوں ڈالر ٹیکس کمارہی ہیں جن میں مارک زکربرگ، بل گیٹس(انھوں نے بھی 30سے40سال کی عمر میں ترقی کی)، علی بابا ویب کے چیئرمین جیک ما، ایمزون کے مالک جیف بیزوس وغیرہ شامل ہیں۔ لہٰذا ٹھوس اور مضبوط پالیسی بنائی جائے تبھی جاکر ہمارے روپے کی قدر کو مستحکم کیا جا سکتا ہے۔
اسی لیے جب اُن سے پوچھا جائے کہ آپ نے اپنی حکومت میں غیر منتخب لوگوں کو اعلیٰ عہدے دے رکھے ہیں تو وہ یہی کہتے پائے جاتے ہیں کہ ملک کی معیشت کو ٹھیک کرنا ہے۔ نہلے پہ دہلا یہ کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ آئی ایم ایف پیکیج کے تحت حکومت کو آنے والے بجٹ میں 650ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانا ہوں گے۔
پاکستانی روپے کی قدر برقرار رکھنے کے لیے حکومت اور اسٹیٹ بینک کوئی مداخلت نہیں کریں گے اور روپے کی قدر ری فلوٹ پالیسی کے تحت ہوگی۔ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کی جائے گی، بجلی کی قیمتوں میں دو مرحلوں میں اضافہ کیا جائے گا، پہلے مرحلے میں یکم جولائی سے بجلی کی قیمتیں بڑھائی جائیں گی جب کہ گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جائیگا۔ معاہدے کے تحت پاکستان کے ترقیاتی بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ حکومت کو اِس وقت 350ارب روپے کے ریونیو کی کی کمی کا سامنا ہے جس سے اِس سال 7فیصد بجٹ خسارہ متوقع ہے جس میں کمی لانے کے لیے 1400ارب روپے کے گردشی قرضوں کو ختم کر کے پاور سیکٹرز میں اصلاحات اور دی گئی سبسڈیز ختم کرنا ہوں گی اور نیپرا کو بااختیار بنایا جائے گا۔
ان سخت شرائط کے بعد روپے کا گرنا فطری عمل ہے۔ اس غیر یقینی کیفیت میں اسٹاک ایکسچینج کا 53ہزار انڈیکس سے 33ہزار پر آجانا بھی فطری عمل ہے اور بیرون ملک سے آنے والی سرمایہ کاری کا جمود کا شکار ہونے میں بھی کسی کو تعجب نہیں ہے، اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نوٹ کاغذ کے بے وقعت ٹکروں میں تبدیل ہوگیا ہے۔ پانچ پانچ ہزار کے نوٹ بھی اپنی حیثیت کھو رہے ہیں۔ سکوں کا وجود اب ہمارے ملک سے تقریباً ختم ہی ہو گیا ہے۔ پڑوسی ملک کو ہی دیکھ لیں کبھی ان کا روپیہ ہمارے روپیہ کے مقابلے میں کم مالیت کا تھا مگر اب ہمارے دو ڈھائی روپے کے برابر ہو چکا ہے۔ ہمارے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ دنیا کے بڑے معاشی اداروں کے مطابق خطے کی سب کرنسیوں کے مقابلے میں روپیہ سب سے کم قیمت پر آگیاہے۔ روپیہ کی قیمت پر اثر ڈالنے والے وجوہات کا پتہ چلانا حکومتِ وقت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
ہماری درآمدات کی مالیت برآمدات سے بہت زیادہ ہے۔ غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری سے جو زرِ مبادلہ حاصل ہوتا ہے وہ بھی روپیہ کی قیمت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ کسی ملک کی معیشت پر جو قرض چڑھتا ہے وہ بھی کرنسی کی قیمت پر اثر ڈالتا ہے۔ اگر ملک کی معیشت پر قرض کا بوجھ زیادہ ہے تو کرنسی سستی ہو جائے گی۔لیکن اگر روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مہنگا ہو رہا ہو تو یہ پہچان ہوتی ہے معیشت کے مضبوط ہونے کی اور ایسی صورت میں ملک کے باہر سے پاکستان میں سرمایہ لگانے والوں کے لیے ملک میں کشش پیدا ہوتی ہے لیکن اگر روپیہ ڈالر کے مقابلے میں سستا ہو رہا ہو تو ملک کی اقتصادی حالت کے بارے میں طرح طرح کے سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں۔
بہرکیف کسی بھی معاملے میں چاہے وہ کرنسی کا ہی معاملہ کیوں نہ ہو مہارت سے کامیابی حاصل کرنا بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور تمام مہارتوں کا درومدار مکمل طور پر کامیابی اور جیت پر ہے یعنی کسی بھی مقصد کے لیے بہتر طور پر منصوبہ بندی کرنا اور مقصد کو مقررہ وقت پر حاصل کرنا کامیابی کی نوید لاتا ہے۔ مگر منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ہم اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پاتے،اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے روپے کی بلند سطح پر بحالی کے لیے خلوصِ دل اور لگن کے ساتھ جد و جہد کریں ۔
ہم اس بات کو سمجھیں کہ معیشت تین اجزاء کا مجموعہ ہوتی ہے، پیداوار ، پیداوار کی تقسیم اور معیار زندگی۔ اس کا اہم ترین حصہ پیداوار ہے جب کہ باقی دو شعبوں کا عمل شروع ہی اس وقت ہوتا ہے جب پیداوار موجود ہو۔دنیا میں آج وہی معاشرے ترقی یافتہ ہیں اور انھی ممالک کی کرنسی مضبوط ہے جن کی پیداوار ترقی یافتہ ٹیکنالوجی ہے اور حجم میں بہت زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر امریکا سالانہ ساڑھے سترہ ہزار ارب ڈالر کی اشیا اور خدمات پیدا کرتا ہے، چین جاپان اور جرمنی بالترتیب ساڑھے دس ہزار ارب ڈالر ، ساڑھے چار ہزار ارب ڈالر اور چار ہزار ارب ڈالر کی اشیاء و خدمات پیدا کرتے ہیں، اسی لیے امریکا دنیا کی نمبر ایک ، چین دوسری ، جاپان تیسری اور جرمنی چوتھی بڑی معیشت ہے۔ اس کے برعکس میں ملاوی ، برونڈی ، سینٹرل افریکن ریپبلک، گیمبیا ، اور نائجروغیرہ دنیا میں سب سے کم اشیاء و خدمات پیدا کرتے ہیں، اس لیے ان کا ترقی یافتہ ممالک کی درجہ بندی میں سب سے کمتر مقام ہے اور کرنسی کی ویلیو بھی اُسی حساب سے کم تر ہے۔
چین میں 1979ء سے پہلے سوشلسٹ معیشت تھی، ہر سال قحط پیدا ہوتے تھے، 1958-61 میں ساڑھے تین کروڑ اموات ہوئیں۔ 1979 میں چین مارکیٹ معیشت کی طرف منتقل ہوا ۔ چین نے اپنا رجحان زیادہ سے زیادہ پیداوار کی طرف مرتکز رکھا، یوں 35 برس میں چین نے دس فیصد سالانہ سے ترقی کرکے اپنی معیشت میں بتیس گنا اضافہ کیا اور اسے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بنا دیا۔ ان 35برسوں میں چین کے کسی ایک صوبے میں بھی قحط نہیں آیا اور لوگوں کے معیار زندگی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ جاپان ، جنوبی کوریا ، سنگاپور ، تائیوان وغیرہ نے صنعتی میدان میں پیداواری قوتوں کی مدد سے ہی معاشی ترقی کر کے اقوام عالم میں ایک باعزت اور قائدانہ کردار حاصل کیا ہے، ہمارے پڑوس میں بھارت بھی پیداواری قوتوں میں مسلسل اضافہ کے سبب سالانہ پانچ فیصد سے ترقی کر رہا ہے۔
''پیداوار ''کے علاوہ ہمیں تعلیم پر توجہ دے کر اور یونیورسٹیوں میں ریسرچ کو فروغ دینا ہوگا جس سے نت نئے پراجیکٹس سامنے آئیں اور بہتر پراجیکٹس کو حکومت سپانسر کرے تاکہ نئی چیزیں دنیا کے سامنے آئیں اور وہ ہم سے خریدیں تاکہ ہم بھی اپنی چیزیں بیچ کر ڈالر کما سکیں۔ ہماری بیشتر یونیورسٹیز میں سائنس اور انجینئرنگ سے متعلق مضامین صرف کتابوں کی حد تک پڑھائے جاتے ہیں،طالبعلموں کو عملی مشقیں نہیں کرائی جاتیں، جعلی پراجیکٹس اور جعلی مقالوں کی بھرمار کی وجہ سے ڈگری ہولڈرزنوکریاں حاصل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ انصاف اور قانون کی بالا دستی ہونی چاہیے۔ جس ملک میں قانون کی بالا دستی قائم ہو اور انصاف کا بول بالا ہو وہ قوم کبھی تباہ نہیں ہو سکتی ۔
اگر ہم اچھے شہری ہونے کی ذمے داریاں بھی ساتھ نبھائیں گے تو ہم اچھی اقوام میں گنے جائیں گے۔ ہر شخص دوسرے کے حقوق، مذہب اور فرقے کا خیال رکھے اور رائے کا احترام کرے۔ نئی نسل کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کر نے چاہیے۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ جو شخص 30کی عمر میں ارب پتی نہیں بنا وہ اگلی عمر میں نہیں بن سکتا۔ دنیا کے امیر ترین افراد اسی عمر کے ہیں اور حکومتیں اُن سے اربوں ڈالر ٹیکس کمارہی ہیں جن میں مارک زکربرگ، بل گیٹس(انھوں نے بھی 30سے40سال کی عمر میں ترقی کی)، علی بابا ویب کے چیئرمین جیک ما، ایمزون کے مالک جیف بیزوس وغیرہ شامل ہیں۔ لہٰذا ٹھوس اور مضبوط پالیسی بنائی جائے تبھی جاکر ہمارے روپے کی قدر کو مستحکم کیا جا سکتا ہے۔