ملک میں معدومی کا شکار گدھوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا
چولستان، رحیم یارخان، ننگرپارکر اور مکران میں معدومی کا شکار گدھوں کی مختلف اقسام دیکھی گئی ہیں
پاکستان کے بیشتر علاقوں میں گدھ کو نایاب ہوئے کئی برس گزر گئے مگر چولستان اورمکران کے ساحلی علاقوں میں یورپی گرفن اورمصری نسل کے گدھ دیکھے گئے ہیں ، محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے مطابق پنجاب سمیت ملک کے مختلف خطوں میں معدومی کا شکار گدھوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب کی طرف سے سوشل میڈیا پر مصری نسل اور یورپی گرفن نسل کے گدھوں کی ویڈیو اور تصاویر شیئر کی گئی ہیں۔ پنجاب وائلڈ لائف کے ڈائریکٹر محمد نعیم بھٹی نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب میں چولستان اور رحیم یارخان کے علاقوں میں گدھ دیکھے گئے ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
رپورٹس کے مطابق سندھ کے ضلع تھرپارکر میں بھی چند مقامات پر سفید اور بھورے مصری گدھ نظر آتے ہیں جن کی نسل دنیا بھر میں خطرے سے دوچار ہے۔ مصری گدھ نسبتاً چھوٹی جسامت کے ہوتے ہیں جبکہ بلوچستان میں مکران کی ساحلی پٹی کے علاقے میں بھی مصری اوریورپی گرفن گدھ دیکھے جاسکتے ہیں۔
ضلع ننگرپارکرمیں لمبی چونج والے گدھ اور سفید پشت والے گدھ بھی موجود ہیں تاہم ان کی تعداد خاصی کم ہے، سفید پشت والے گدھوں کی چھانگامانگا میں بنائے گئے بریڈنگ سینٹر میں افزائش بھی کروائی جارہی ہے۔ سفید پشت والے گدھ عام طور پر درختوں پر گھونسلے بناتے ہیں جبکہ لمبی چونچ والے گدھ پہاڑوں پر گھونسلے بناتے ہیں۔
10 سے 12 برس پہلے تک پاکستان کے بیشتر شہر اور قصبے میں گدھ پائے جاتے تھے مگر اب پاکستان بھر میں گدھوں کی مقامی نسلیں تقریباً ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ اس کی وجہ بیمار جانوروں کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ایک دوا ڈائیکلوفینک سوڈیم تھی جس پر حکومت نے ماحول کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی این جی اوز کے دباؤ پر 2006 میں پابندی لگادی تھی۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق گدھ انتہائی ماحول دوست پرندے ہیں جو مردارکھاتا ہے اوراس سے پیداہونے والی بیماریوں کو ختم کرتا ہے۔
محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب کی طرف سے سوشل میڈیا پر مصری نسل اور یورپی گرفن نسل کے گدھوں کی ویڈیو اور تصاویر شیئر کی گئی ہیں۔ پنجاب وائلڈ لائف کے ڈائریکٹر محمد نعیم بھٹی نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب میں چولستان اور رحیم یارخان کے علاقوں میں گدھ دیکھے گئے ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
رپورٹس کے مطابق سندھ کے ضلع تھرپارکر میں بھی چند مقامات پر سفید اور بھورے مصری گدھ نظر آتے ہیں جن کی نسل دنیا بھر میں خطرے سے دوچار ہے۔ مصری گدھ نسبتاً چھوٹی جسامت کے ہوتے ہیں جبکہ بلوچستان میں مکران کی ساحلی پٹی کے علاقے میں بھی مصری اوریورپی گرفن گدھ دیکھے جاسکتے ہیں۔
ضلع ننگرپارکرمیں لمبی چونج والے گدھ اور سفید پشت والے گدھ بھی موجود ہیں تاہم ان کی تعداد خاصی کم ہے، سفید پشت والے گدھوں کی چھانگامانگا میں بنائے گئے بریڈنگ سینٹر میں افزائش بھی کروائی جارہی ہے۔ سفید پشت والے گدھ عام طور پر درختوں پر گھونسلے بناتے ہیں جبکہ لمبی چونچ والے گدھ پہاڑوں پر گھونسلے بناتے ہیں۔
10 سے 12 برس پہلے تک پاکستان کے بیشتر شہر اور قصبے میں گدھ پائے جاتے تھے مگر اب پاکستان بھر میں گدھوں کی مقامی نسلیں تقریباً ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ اس کی وجہ بیمار جانوروں کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ایک دوا ڈائیکلوفینک سوڈیم تھی جس پر حکومت نے ماحول کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی این جی اوز کے دباؤ پر 2006 میں پابندی لگادی تھی۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق گدھ انتہائی ماحول دوست پرندے ہیں جو مردارکھاتا ہے اوراس سے پیداہونے والی بیماریوں کو ختم کرتا ہے۔