آئی ایم ایف ڈیل فوائد و نقصانات

آئی ایم ایف صرف معاشی اعداد کی بہتری پر زور دیتا ہے لیکن غربت اور دیگر عوامی مسائل کا خیال نہیں رکھتا


آئی ایم ایف صرف معاشی اعداد کی بہتری پر زور دیتا ہے لیکن غربت اور دیگر عوامی مسائل کا خیال نہیں رکھتا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

حالیہ دنوں میں اقتصادی مسائل کی وجہ سے حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی طرف رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے رائے عامہ موافق نہیں۔ ہمارے ہاں عمومی رجحان ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف رجوع کرنا اچھی بات نہیں۔ خود حکمران جماعت تحریک انصاف سابقہ ادوار حکومت میں آئی ایم ایف کو قومی مصالح کے خلاف سمجھ کر ان پر تنقید کرتی رہی ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں، اس کے متعدد فوائد بھی ہیں۔

یہ درست ہے کہ قرضوں اور امداد کے بجائے پاکستان کا معاشی نظام اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہیے لیکن جہاں مشکلات آئیں اور قرض لینا ناگزیر ہوجائے تو آئی ایم ایف برا آپشن نہیں۔ دنیا بھر میں متعدد ممالک آئی ایم ایف پیکیج پر عمل کرکے آسودہ ہوچکے ہیں۔

آئی ایم ایف ڈیل میں منفی پہلو یہ ہے کہ اس میں ملک معاشی فیصلوں میں آزاد نہیں رہتا۔ اہم فیصلوں میں آئی ایم ایف کے تابع رہنا پڑتا ہے۔ ویسے تو یہ ادارہ معاشی اعداد کو بہتر بنانے کےلیے احکامات دیتا ہے لیکن اس معاملے میں ہر ملک کے حالات مختلف ہوسکتے ہیں۔ اس کی واضح مثال 1980 کی دہائی میں لاطینی امریکا کے ممالک کا معاشی بحران ہے، جو آئی ایم ایف کی وجہ سے پیدا ہوا۔

عموماً آئی ایم ایف اخراجات کا بوجھ ٹیکسوں اور گیس و بجلی و دیگر ضروریات زندگی کے استعمال پر ٹیرف کی شکل میں عوام سے وصول کرنے پر زور دیتا ہے۔ اگر تدبر سے کام نہ لیا جائے تو آئی ایم ایف سے آسودگی کے بجائے بحران میں شدید اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں پر کچھ ممالک، جیسے پولینڈ اور جمہوریہ چیک کو آئی ایم ایف کے ذریعے پہنچنے والے فوائد کا ذکر نہ کرنا انصاف کے خلاف ہوگا، جہاں انہوں نے اس ادارے کی مدد سے اپنی معاشی مشکلات پر قابو پالیا ہے۔

دوسری طرف اس کے فوائد میں سب سے اہم یہ ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد ملکی معیشت پر بحال ہوجاتا ہے۔ پاکستان کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتے اور جو پرانے سرمایہ کار تھے انہوں نے اپنا سرمایہ پاکستان سے نکال لیا ہے۔ آئی ایم ایف ڈیل کے بعد بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔ نیز ایف اے ٹی ایف کے تحت پاکستان کی ریٹنگ بھی بہتر ہوگی جبکہ منی لانڈرنگ اور ٹیررازم فنڈنگ پر بھی کنٹرول ہوگا۔

علاوہ ازیں اس ڈیل کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ حکومت کو مجبوراً وہ اقدامات کرنے پڑیں گے جو معیشت کےلیے مفید ہیں لیکن عام حالات میں وہ ایسے اقدامات سے بوجوہ گریز کرتی ہے؛ ان سے معیشت کو سنبھالنے میں مدد ملے گی۔ جیسے سرکاری خزانے پر بوجھ وہ سرکاری ادارے جو کما کر نہیں دے رہے، مثلاً پی آئی اے اور اسٹیل مل وغیرہ، آئی ایم ایف کی وجہ سے حکومت کو لامحالہ اس بوجھ سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ حکومت یا تو ان کو منافع بخش بنائے گی یا پھر نجکاری کے ذریعے ان سے جان چھڑا کر سرکاری خزانے میں اضافہ کرے گی۔

آئی ایم ایف کی کوشش یہ ہوگی کہ حکومت کسی طرح بجٹ کا خسارہ کم کرے، جس کےلیے آمدنی بڑھانے پر زور ہوگا۔ اس کےلیے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ زیادہ سے زیادہ ڈالا جائے گا۔ بجلی و گیس اور دیگر تمام ضروریات زندگی کے نرخوں میں ہوش ربا اضافہ کیا جائے گا۔ یعنی حکومت اپنی تمام تر ناکامیوں اور اشرافیہ کی غلطیوں کی قیمت غریب عوام سے وصول کرے گی۔ حالانکہ آمدنی بڑھانے کےلیے نئی صنعتوں کا قیام اور کارپوریٹ ٹیکس کی وصولی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے، لیکن فی الحال تحریک انصاف کی طرف سے کسی قسم کا صنعتی پیکیج یا منصوبہ سامنے نہیں آیا۔ اس کے برعکس حکومت تنخواہ دار طبقے سے زیادہ ٹیکس وصولی کے چکر میں ہے، جو ویسے ہی ہوش ربا مہنگائی کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔

بجٹ کا خسارہ کم کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ حکومت اپنے اخراجات میں کمی کرے۔ ماضی کے وزرا و حکمرانوں کی طرح موجودہ حکومت بھی اپنے اخراجات میں کمی نہیں لائے گی۔ ضروری ہے کہ اضافی وزارتیں ختم کی جائیں، اسمبلی ممبران اور وزرا و مشیران کے تمام تر اضافی اور خطیر الاؤنسز ختم کیے جائیں۔ تمام سرکاری اداروں میں کرپشن اور مالی خورد برد کی روک تھام کی جائے، جس میں چپڑاسی سے لے کر اعلیٰ عہدیدار سب ملوث ہیں۔ حکومت خود سخت اقدام کرکے عوام کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ عوام بھی اپنے غیر ضروری اخراجات کم کرکے بچت کی عادت اپنائیں۔ اس سے قرضے لینے کے بجائے کیپٹل یعنی سرمایہ گھر سے حاصل ہوگا۔

ڈالر کے نرخوں میں اضافہ ناگزیر ہوگا، کیونکہ روپے پر شدید دباؤ ہے۔ اسے مصنوعی طریقے سے ہولڈ کرنے کے نقصانات ہوں گے۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ ڈالر ریٹ کو بازار کی قوتوں پر چھوڑا جائے۔ ڈالر کی قدر میں اضافے سے کرنٹ خسارہ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ساتھ ہی برآمدات میں اضافہ کرنے کی تمام تر سعی کی جائے، تاکہ حقیقی معنوں میں بہتری آسکے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشی حالات کی بہتری کےلیے حکومت ٹھوس اور مفید اقدامات کرے۔ آئی ایم ایف ڈیل سے جو فوائد ہوسکتے ہیں، انہیں حاصل کرے اور بہترین ماہرینِ معاشیات کی خدمات حاصل کرے۔

آئی ایم ایف صرف اور صرف معاشی اعداد کی بہتری پر زور دیتا ہے، لیکن غربت اور دیگر عوامی مسائل کا خیال نہیں رکھتا۔ حکومت کو چاہیے کہ بہت توازن و احتیاط سے کام لے اور بوجھ عوام کو منتقل کرنے کے بجائے دیگر اقدامات کرے، جن سے معیشت میں دیرپا استحکام آسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں