سٹی کورٹ پر خود کش حملوں کی دھمکی سیکیورٹی سخت کر دی گئی
وکلا آج پریس کانفرنس کرنگے
سٹی کورٹ پر خود کش حملوں کی دھمکی کے بعد سٹی کورٹ کی سیکیورٹی میں اضافہ کردیا گیا، کراچی بار کے صدر محمود الحسن کو ایک خط موصول ہوا جس میں سٹی کورٹ پر آج(منگل)5خود کش حملے کرنے کی دھمکی دی گئی ہے، خط میں موجود ٹیلی فون نمبر اور ایڈریس جعلی نکلے، وکلا آج (منگل)پریس کانفرنس کریں گے۔
تفصیلات کے مطابق کراچی بار کے صدر محمود الحسن کو پیر کو ایک خط موصول ہوا جس میں5خود کش حملوں کے ذریعے سٹی کورٹ تباہ کرنے کی دھمکی دی گئی، خط میں ڈسٹرکٹ کورٹ ایسٹ بلاک ون کی بلڈنگ کو صبح9بجے سے دوپہر ایک بجے کے درمیان نشانہ بنانے کی دھمکی دی گئی ہے، خط میں7وکلا،3ججز اور6پراسیکیوٹرز کو نشانہ بنانے کا کہا گیا ہے تاہم خط میں کسی کے بھی نام ظاہر نہیں کیے گئے ہیں۔
ایس ایچ او سٹی کورٹ خالد جمیل نے ایکسپریس کو بتایا کہ خط بھیجنے والے کا نام اشتیاق تھا جس پر بہادرآباد کا پتہ لکھا ہوا تھا جبکہ خط پر لکھا ٹیلی فون نمبر پی آئی بی کالونی کا تھا، انھوں نے بتایا کہ پولیس نے فوری طور پر تحقیقات کیں تو بہادرآباد کا ایڈریس جعلی نکلا جبکہ پی آئی بی کالونی کے مذکورہ پتے پر دو خواتین رہائش پذیر ہیں جن کے بارے میں معلومات کرلی گئیں ان کا اس خط سے کوئی تعلق نہیں، ٹیلی فون مہوش انیس نامی خاتون کے نام پر رجسٹرڈ تھا جبکہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ رہائش پذیر ہے، اس کے والد اور شوہر کا انتقال ہوچکا ہے، ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ ان کے ٹیلی فون نمبر کا غلط استعمال کیا گیا ہے
تفصیلات کے مطابق کراچی بار کے صدر محمود الحسن کو پیر کو ایک خط موصول ہوا جس میں5خود کش حملوں کے ذریعے سٹی کورٹ تباہ کرنے کی دھمکی دی گئی، خط میں ڈسٹرکٹ کورٹ ایسٹ بلاک ون کی بلڈنگ کو صبح9بجے سے دوپہر ایک بجے کے درمیان نشانہ بنانے کی دھمکی دی گئی ہے، خط میں7وکلا،3ججز اور6پراسیکیوٹرز کو نشانہ بنانے کا کہا گیا ہے تاہم خط میں کسی کے بھی نام ظاہر نہیں کیے گئے ہیں۔
ایس ایچ او سٹی کورٹ خالد جمیل نے ایکسپریس کو بتایا کہ خط بھیجنے والے کا نام اشتیاق تھا جس پر بہادرآباد کا پتہ لکھا ہوا تھا جبکہ خط پر لکھا ٹیلی فون نمبر پی آئی بی کالونی کا تھا، انھوں نے بتایا کہ پولیس نے فوری طور پر تحقیقات کیں تو بہادرآباد کا ایڈریس جعلی نکلا جبکہ پی آئی بی کالونی کے مذکورہ پتے پر دو خواتین رہائش پذیر ہیں جن کے بارے میں معلومات کرلی گئیں ان کا اس خط سے کوئی تعلق نہیں، ٹیلی فون مہوش انیس نامی خاتون کے نام پر رجسٹرڈ تھا جبکہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ رہائش پذیر ہے، اس کے والد اور شوہر کا انتقال ہوچکا ہے، ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ ان کے ٹیلی فون نمبر کا غلط استعمال کیا گیا ہے