ننھی فرشتہ کی لاش بے حس معاشرے سے سوال کررہی ہے
کیا دس سالہ ننھی فرشتہ بھی بے حیائی کا شکار تھی جس نے کسی جنسی درندے کو اپنے لباس یا کردار سے اپنی جانب راغب کیا؟
کچھ سانحات اس قدر سفاک اور بربریت پر مبنی ہوتے ہیں کہ ان کی مذمت کرنے کےلیے الفاظ ناکافی ہو جاتے ہیں۔ بچپن کے وہ روز و شب جن میں تتلیوں اور جگنوؤں کا تعاقب کیا جاتا ہے اور گھروں کے آنگن کو بچوں کا بچپن اپنی چھوٹی چھوٹی شرارتوں اور قہقہوں سے آباد رکھتا ہے، اگر اس عمر میں کوئی بچہ یا بچی کسی انسان نما سفاک بھیڑیئے کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہو کر جان گنوا بیٹھے تو اس سانحے پر کوئی کیا لفظ تحریر کرے جو ایسے بچوں کے والدین کے کرب اور دکھ کا مداوا کرسکے؟ ابھی قصور میں جنسی زیادتی کے بعد قتل ہونے والی ننھی کلی زینب کا زخم بھی ٹھیک سے بھر نہ پایا تھا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دس سالہ بچی فرشتہ مہمند کے لرزہ خیز قتل کی واردات سامنے آ گئی۔
اسلام آباد کے علاقے شہزاد ٹاؤن کے رہائشی گل نبی نے مئی کی 16 تاریخ کو متعلقہ تھانے میں رپورٹ درج کروائی کہ اس کی دس سالہ بچی فرشتہ گھر سے غائب ہے۔ اسے شبہ تھا کہ اس کی بیٹی کو اغوا کر لیا گیا ہے لیکن ''مثالی'' اسلام آباد پولیس نے غلام نبی کی رپورٹ پر ایف آئی آر درج کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کیونکہ غلام نبی کوئی بااثر شخص نہیں بلکہ ایک محنت کش ہے جو مزدوری کرکے اپنا گھربار چلاتا تھا۔ قریب چار روز گزرنے کے بعد جب سوشل میڈیا کے ذریعے فرشتہ کی گمشدگی کی خبر پھیلنے لگی تو بادل نخواستہ پولیس نے فرشتہ کے باپ کی شکایت پر ایف آئی آر درج کر لی۔ اور پھر 20 مئی کے روز ننھی فرشتہ کی لاش شہزاد ٹاؤن سے ملحقہ جنگل سے برآمد ہوئی۔ ننھی فرشتہ کی لاش کی برآمدگی بھی مقامی لوگوں نے کی جنہوں نے گزرتے ہوئے جنگل میں اس کی لاش کو دیکھا اور پولیس کو اطلاع دی، وگرنہ شاید اس ننھی کلی کی لاش کو بھی جانور نوالہ بنا جاتے اور پولیس ہاتھ ہر ہاتھ دھرے بااثر لوگوں اور اشرافیہ کی خدمت انجام دینے میں مصروف رہتی۔
ننھی فرشتہ کو اس کے لواحقین کے مطابق قتل سے قبل جنسی ہوس کا نشانہ بنایا گیا اور تادم تحریر اس معصوم بچی کی لاش پولی کلینک اسپتال میں موجود ہے جہاں ورثا کے مطابق ڈاکٹروں نے بچی کی لاش کا پوسٹ مارٹم ابھی تک نہیں کیا۔ شاید ڈاکٹروں کو بھی اوپر سے احکامات وصول ہونے کا انتظار ہوگا کہ اس بچی کا پوسٹ مارٹم کیا جائے یا نہیں؟ آخر دن دیہاڑے ایک ننھی بچی کا دارالحکومت سے اغوا اور پھر مبینہ جنسی زیادتی کے بعد قتل حکومت وقت کی ساکھ اور اس کی رٹ پر سوالیہ نشان جو کھڑے کرتا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیے: اسلام آباد میں 10 سالہ بچی زیادتی کے بعد قتل
رہی بات فرشتہ کی تو وہ ننھی پری ایک عام سے محنت کش کی بیٹی تھی اور یہی اس کا سب سے بڑا جرم تھا۔ اگر اس ننھی پری کا تعلق ملک کی اشرافیہ سے ہوتا تو شاید ابھی تک زمین پھٹ چکی ہوتی، پولیس نے قاتلوں کی تلاش کےلیے پورا شہر چھان مارا ہوتا اور ڈاکٹروں نے فوری طور پر پوسٹ مارٹم کرکے لاش ورثا کے حوالے کردی ہوتی۔ کم بخت ہمارے معاشرے میں غربت موت کے بعد بھی ذلت و رسوائی کا باعث بنتی ہے۔ ننھی فرشتہ کی لاش پولی کلینک اسپتال کی کسی ٹیبل پر پڑی اس بے حس نظام سے سوال کر رہی ہے کہ ظلم و زیادتی کا شکار بھی میں بنی اور پھر اب موت کے بعد بھی تماشا میرا ہی بنے گا؟ چونکہ فرشتہ کا تعلق سابقہ قبائلی علاقے مہمند ایجنسی سے تھا اور اس کے والدین محنت مزدوری کرنے کےلیے اسلام آباد میں مقیم تھے، اس لیے پشتون تحفظ موومنٹ کے ارکان اسمبلی بھی اس سانحے کی اطلاع پر پولی کلینک اسپتال کے باہر پہنچ گئے اور ڈاکٹروں کے اس بچی کے پوسٹ مارٹم میں تاخیر کے خلاف احتجاج بھی شروع کردیا۔
غالباً دن چڑھتے ہی تمام مرکزی سیاسی جماعتوں کی جانب سے مذمتی بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہو جائے گا اور ہمیشہ کی مانند نیوز چینل سلاٹس کو بھرنے کےلیے ننھی فرشتہ کی لاش اور اس کے ساتھ بیتے اس سفاک سانحے کی منظر کشی میں مشغول ہو جائیں گے۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہوگا۔ وہی مذمتی بیانات، وہی میڈیا پر جذباتی نیوز پیکیج اور ہیجان پر مبنی خصوصی ٹاک شو، سوشل میڈیا پر ننھی فرشتہ کی تصویریں اور اس واقعے پر نوحہ خوانی اور پھر کسی اگلی بریکنگ نیوز، اگلے سانحے کا انتظار کیا جائے گا۔
ہاں اگر کچھ بدلے گا تو وہ غلام نبی اور اس کی بیوی کی زندگی اور ان کا گھر ہوگا جہاں ننھی فرشتہ کے قہقہے دوبارہ کبھی نہیں گونجیں گے؛ اور جہاں اس معصوم کلی کا بچپن ہمیشہ غلام نبی اور اس کی بیوی کے آنسوؤں کی صورت میں بین کرتا رہے گا۔ ننھی زینب کے قتل کے بعد امید ہوچلی تھی کہ شاید یہ بوسیدہ نظام اور بے حس معاشرہ جنسی زیادتی کے مجرمانہ فعل کی مذمت کرتے ہوئے ارباب اختیار کو مجبور کرے گا کہ وہ بچوں اور بچیوں کو اس حوالے سے آگاہی دیتے ہوئے معاشرے میں پیڈوفیلیا (بچوں کے ساتھ جنسی جبلت کی تسکین کی بیماری) کے شکار افراد کو شناخت کرنے کےلیے متاثرہ بچوں یا بچیوں کےلیے کوئی ہیلپ لائن قائم کریں گے جہاں ان کی کونسلنگ کی جاسکے، یا کم سے کم اس بارے میں ماہرین نفسیات پر مشتمل کمیٹی بنا کر اس مسئلے کے تدارک کی کاوش کریں گے۔
یہ بلاگ بھی پڑھیے: زینب امین اور ہماری کھوکھلی سماجی اقدار
لیکن شاید یہ خوش گمانی تھی جس کا حقیقت سے دور دور تلک کوئی تعلق نہیں۔ ہم اُس سماج میں زندہ ہیں جہاں بچے، بوڑھے، جوان سب کی المناک اموات یا تو محض بریکنگ نیوز ہیں یا پھر وقت گزاری کےلیے عمدہ موضوع بحث۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں بچیوں یا خواتین کی عصمت دری اور ان کے قتل کے واقعات اب محض اعداد و شمار مرتب کرنے اور سیمینارز منعقد کرنے کے ہی کام آتے ہیں۔
ابھی چند روز قبل ہی راولپنڈی میں مشہور نجی ہاؤسنگ کالونی میں ایک جوان لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور اس قبیح فعل میں خود پولیس کے ملازمین بھی شامل تھے۔ چونکہ متاثرہ لڑکی ایک کال سینٹر میں کام کرتی ہے اور اپنی نوکری کے سلسلے میں اسے رات کو دفتر جانا پڑتا ہے، اس لیے اس بات کو جواز بنا کر نہ صرف ملزمان کی جانب سے اس کے کردار پر انگلیاں اٹھائی گئیں بلکہ معاشرے میں بسنے والے کئی افراد نے بھی لڑکی کو ہی اس جرم کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
یہ وہ سوچ ہے جو جنسی زیادتی کے حیوانیت پر مبنی فعل کو ایک طرح سے قبولیت کا جواز فراہم کرتی ہے۔ اب بتائیے کہ کیا دس سالہ ننھی کلی فرشتہ بھی بے حیائی کا شکار تھی اور اس نے کسی جنسی درندے کو اپنے لباس یا کردار سے اپنی جانب راغب کیا؟ جب تک اس معاشرے میں جنسی زیادتی کے بارے میں بغیر ابہام کے اس قبیح فعل کو برداشت نہ کرنے کا رجحان پیدا نہیں ہوگا، تب تک ننھی فرشتہ اور دیگر بچیاں اس زیادتی کا شکار بنتی رہیں گی اور یونہی ان کا قتل ناحق جاری رہے گا۔
آج اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑتے وقت میں اس سے نگاہیں نہیں ملا پاؤں گا، کیونکہ اسے دیکھ کر ننھی فرشتہ کے ساتھ بیتا سانحہ اور اس کی لاش میری نگاہوں کے سامنے آ جائے گی۔ کبھی آپ سب بھی محض ایک لمحے کو اپنی اپنی بیٹیوں کی نگاہوں میں جھانکیے اور بتائیے کہ کیا اس جنگل نما معاشرے میں وہ محفوظ ہیں؟ کیا قانون، ریاست اور سماج آپ کے اور میرے بیٹوں یا بیٹیوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے؟ پیڈوفیلیا کے مرض کا شکار افراد سے بچوں کو بچانے کی کوئی حکومتی سطح پر ٹھوس کاوش اور سنجیدگی آپ کو کہیں دکھائی دیتی ہے؟
ان سوالوں کے جوابات آپ کو نفی میں ملیں گے... اور جب تک یہ جواب نفی میں ملتے رہیں گے، فرشتہ جیسی کئی بیٹیاں یونہی اس درندگی کا شکار ہوتی رہیں گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اسلام آباد کے علاقے شہزاد ٹاؤن کے رہائشی گل نبی نے مئی کی 16 تاریخ کو متعلقہ تھانے میں رپورٹ درج کروائی کہ اس کی دس سالہ بچی فرشتہ گھر سے غائب ہے۔ اسے شبہ تھا کہ اس کی بیٹی کو اغوا کر لیا گیا ہے لیکن ''مثالی'' اسلام آباد پولیس نے غلام نبی کی رپورٹ پر ایف آئی آر درج کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کیونکہ غلام نبی کوئی بااثر شخص نہیں بلکہ ایک محنت کش ہے جو مزدوری کرکے اپنا گھربار چلاتا تھا۔ قریب چار روز گزرنے کے بعد جب سوشل میڈیا کے ذریعے فرشتہ کی گمشدگی کی خبر پھیلنے لگی تو بادل نخواستہ پولیس نے فرشتہ کے باپ کی شکایت پر ایف آئی آر درج کر لی۔ اور پھر 20 مئی کے روز ننھی فرشتہ کی لاش شہزاد ٹاؤن سے ملحقہ جنگل سے برآمد ہوئی۔ ننھی فرشتہ کی لاش کی برآمدگی بھی مقامی لوگوں نے کی جنہوں نے گزرتے ہوئے جنگل میں اس کی لاش کو دیکھا اور پولیس کو اطلاع دی، وگرنہ شاید اس ننھی کلی کی لاش کو بھی جانور نوالہ بنا جاتے اور پولیس ہاتھ ہر ہاتھ دھرے بااثر لوگوں اور اشرافیہ کی خدمت انجام دینے میں مصروف رہتی۔
ننھی فرشتہ کو اس کے لواحقین کے مطابق قتل سے قبل جنسی ہوس کا نشانہ بنایا گیا اور تادم تحریر اس معصوم بچی کی لاش پولی کلینک اسپتال میں موجود ہے جہاں ورثا کے مطابق ڈاکٹروں نے بچی کی لاش کا پوسٹ مارٹم ابھی تک نہیں کیا۔ شاید ڈاکٹروں کو بھی اوپر سے احکامات وصول ہونے کا انتظار ہوگا کہ اس بچی کا پوسٹ مارٹم کیا جائے یا نہیں؟ آخر دن دیہاڑے ایک ننھی بچی کا دارالحکومت سے اغوا اور پھر مبینہ جنسی زیادتی کے بعد قتل حکومت وقت کی ساکھ اور اس کی رٹ پر سوالیہ نشان جو کھڑے کرتا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیے: اسلام آباد میں 10 سالہ بچی زیادتی کے بعد قتل
رہی بات فرشتہ کی تو وہ ننھی پری ایک عام سے محنت کش کی بیٹی تھی اور یہی اس کا سب سے بڑا جرم تھا۔ اگر اس ننھی پری کا تعلق ملک کی اشرافیہ سے ہوتا تو شاید ابھی تک زمین پھٹ چکی ہوتی، پولیس نے قاتلوں کی تلاش کےلیے پورا شہر چھان مارا ہوتا اور ڈاکٹروں نے فوری طور پر پوسٹ مارٹم کرکے لاش ورثا کے حوالے کردی ہوتی۔ کم بخت ہمارے معاشرے میں غربت موت کے بعد بھی ذلت و رسوائی کا باعث بنتی ہے۔ ننھی فرشتہ کی لاش پولی کلینک اسپتال کی کسی ٹیبل پر پڑی اس بے حس نظام سے سوال کر رہی ہے کہ ظلم و زیادتی کا شکار بھی میں بنی اور پھر اب موت کے بعد بھی تماشا میرا ہی بنے گا؟ چونکہ فرشتہ کا تعلق سابقہ قبائلی علاقے مہمند ایجنسی سے تھا اور اس کے والدین محنت مزدوری کرنے کےلیے اسلام آباد میں مقیم تھے، اس لیے پشتون تحفظ موومنٹ کے ارکان اسمبلی بھی اس سانحے کی اطلاع پر پولی کلینک اسپتال کے باہر پہنچ گئے اور ڈاکٹروں کے اس بچی کے پوسٹ مارٹم میں تاخیر کے خلاف احتجاج بھی شروع کردیا۔
غالباً دن چڑھتے ہی تمام مرکزی سیاسی جماعتوں کی جانب سے مذمتی بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہو جائے گا اور ہمیشہ کی مانند نیوز چینل سلاٹس کو بھرنے کےلیے ننھی فرشتہ کی لاش اور اس کے ساتھ بیتے اس سفاک سانحے کی منظر کشی میں مشغول ہو جائیں گے۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہوگا۔ وہی مذمتی بیانات، وہی میڈیا پر جذباتی نیوز پیکیج اور ہیجان پر مبنی خصوصی ٹاک شو، سوشل میڈیا پر ننھی فرشتہ کی تصویریں اور اس واقعے پر نوحہ خوانی اور پھر کسی اگلی بریکنگ نیوز، اگلے سانحے کا انتظار کیا جائے گا۔
ہاں اگر کچھ بدلے گا تو وہ غلام نبی اور اس کی بیوی کی زندگی اور ان کا گھر ہوگا جہاں ننھی فرشتہ کے قہقہے دوبارہ کبھی نہیں گونجیں گے؛ اور جہاں اس معصوم کلی کا بچپن ہمیشہ غلام نبی اور اس کی بیوی کے آنسوؤں کی صورت میں بین کرتا رہے گا۔ ننھی زینب کے قتل کے بعد امید ہوچلی تھی کہ شاید یہ بوسیدہ نظام اور بے حس معاشرہ جنسی زیادتی کے مجرمانہ فعل کی مذمت کرتے ہوئے ارباب اختیار کو مجبور کرے گا کہ وہ بچوں اور بچیوں کو اس حوالے سے آگاہی دیتے ہوئے معاشرے میں پیڈوفیلیا (بچوں کے ساتھ جنسی جبلت کی تسکین کی بیماری) کے شکار افراد کو شناخت کرنے کےلیے متاثرہ بچوں یا بچیوں کےلیے کوئی ہیلپ لائن قائم کریں گے جہاں ان کی کونسلنگ کی جاسکے، یا کم سے کم اس بارے میں ماہرین نفسیات پر مشتمل کمیٹی بنا کر اس مسئلے کے تدارک کی کاوش کریں گے۔
یہ بلاگ بھی پڑھیے: زینب امین اور ہماری کھوکھلی سماجی اقدار
لیکن شاید یہ خوش گمانی تھی جس کا حقیقت سے دور دور تلک کوئی تعلق نہیں۔ ہم اُس سماج میں زندہ ہیں جہاں بچے، بوڑھے، جوان سب کی المناک اموات یا تو محض بریکنگ نیوز ہیں یا پھر وقت گزاری کےلیے عمدہ موضوع بحث۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں بچیوں یا خواتین کی عصمت دری اور ان کے قتل کے واقعات اب محض اعداد و شمار مرتب کرنے اور سیمینارز منعقد کرنے کے ہی کام آتے ہیں۔
ابھی چند روز قبل ہی راولپنڈی میں مشہور نجی ہاؤسنگ کالونی میں ایک جوان لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور اس قبیح فعل میں خود پولیس کے ملازمین بھی شامل تھے۔ چونکہ متاثرہ لڑکی ایک کال سینٹر میں کام کرتی ہے اور اپنی نوکری کے سلسلے میں اسے رات کو دفتر جانا پڑتا ہے، اس لیے اس بات کو جواز بنا کر نہ صرف ملزمان کی جانب سے اس کے کردار پر انگلیاں اٹھائی گئیں بلکہ معاشرے میں بسنے والے کئی افراد نے بھی لڑکی کو ہی اس جرم کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
یہ وہ سوچ ہے جو جنسی زیادتی کے حیوانیت پر مبنی فعل کو ایک طرح سے قبولیت کا جواز فراہم کرتی ہے۔ اب بتائیے کہ کیا دس سالہ ننھی کلی فرشتہ بھی بے حیائی کا شکار تھی اور اس نے کسی جنسی درندے کو اپنے لباس یا کردار سے اپنی جانب راغب کیا؟ جب تک اس معاشرے میں جنسی زیادتی کے بارے میں بغیر ابہام کے اس قبیح فعل کو برداشت نہ کرنے کا رجحان پیدا نہیں ہوگا، تب تک ننھی فرشتہ اور دیگر بچیاں اس زیادتی کا شکار بنتی رہیں گی اور یونہی ان کا قتل ناحق جاری رہے گا۔
آج اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑتے وقت میں اس سے نگاہیں نہیں ملا پاؤں گا، کیونکہ اسے دیکھ کر ننھی فرشتہ کے ساتھ بیتا سانحہ اور اس کی لاش میری نگاہوں کے سامنے آ جائے گی۔ کبھی آپ سب بھی محض ایک لمحے کو اپنی اپنی بیٹیوں کی نگاہوں میں جھانکیے اور بتائیے کہ کیا اس جنگل نما معاشرے میں وہ محفوظ ہیں؟ کیا قانون، ریاست اور سماج آپ کے اور میرے بیٹوں یا بیٹیوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے؟ پیڈوفیلیا کے مرض کا شکار افراد سے بچوں کو بچانے کی کوئی حکومتی سطح پر ٹھوس کاوش اور سنجیدگی آپ کو کہیں دکھائی دیتی ہے؟
ان سوالوں کے جوابات آپ کو نفی میں ملیں گے... اور جب تک یہ جواب نفی میں ملتے رہیں گے، فرشتہ جیسی کئی بیٹیاں یونہی اس درندگی کا شکار ہوتی رہیں گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔