برساتی نالے کا سفر
خواتین میں ایسے دکھ سہنے کا حوصلہ ہوتا ہے جن کا مرد تصور بھی نہیں کر سکتے۔
جاگیردارانہ معاشرے میںبیٹیوں کا نصیب بھی ڈھور ڈنگروں کی طرح روایات کے کھونٹے سے باندھ دیا جاتا ہے لیکن کچھ خواتین تعلیم حاصل کرنے کے بعد شعور کی اُس منزل تک پہنچ ہی جاتی ہیں جہاں آسودہ حال خاندانوں میں جنم لینے والی خواتین کے لیے پہنچنا بھی محض ایک خواب ہو تا ہے۔
معروف کہانی کار،براڈ کاسٹر، پبلشراور سماجی کارکن پروین ملک کا تعلق بھی ایسے ہی علاقے سے ہے جہاں لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف سمجھا جاتا تھا مگر پروین ملک نے علاقائی روایات کی خار دارتاروں کو پھلانگ کر نہ صرف بہترین تعلیم حاصل کی بلکہ ایک اعلیٰ سرکاری عہدے تک پہنچنے میں بھی کامیاب ہوئیں۔
جس معاشرے میں خواتین کا گھر سے نکلنا تک محال ہو وہاں پڑھنے لکھنے کے بعدکسی دفتر میں مردوں کے شانہ بشانہ نوکری بھی کی جائے اور ایسی غیر منتخب حکومت کے لیے بھی کام کرنا پڑے جو آمریت کو جہوریت کا نعم بدل قرار دیتی ہو تو صبح سے شام کرنا پہاڑ کاٹنے کے برابر ٹھہرتا ہے ، مگر پروین ملک کو اپنی ملازمت کے دوران طویل مدت تک یہ مرحلہ سر کرنے کے ساتھ زندگی کے بکھرے ہوئے اوراق کو بھی یکجا کرنا پڑا۔
حصول تعلیم کے دوران اور اُس کے فورا بعد جب انھوں نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو اُس وزیر اعظم سے ہمدردی کی گناہ گار ٹھہریںجس کی منفرد سیاسی جدو جہد اُسے تختہ ٔ دار تک لے گئی تھی مگر کشور ناہید اور فرزانہ قریشی جیسی خواتین نے ان کا ہمیشہ ساتھ دیا اور منو بھائی، عباس اطہر، آئی اے رحمٰن، عبداللہ ملک اور حنیف رامے جیسے صحافیوں اور دانش وروں کے ساتھ انھیں کام کرنے کا بھی موقع بھی ملا جس نے ان کی شخصیت اور نظریات میں پختگی آئی ۔
فرسودہ روایات سے بغاوت کا پہلا درس تو انھیں اپنی ماں کی گود سے ہی مل چکا تھا جو خاندان میں پہلی پڑھی لکھی اوراپنے علاقے میں تعلیم کا نور پھیلانے والی وہ پہلی خاتون تھیں جن کے پیدا ہوتے ہی پروین ملک کے نانا اور نانی کو ادراک ہو گیا تھا کہ یہ بچی جہالت کے اندھیرے میں ڈوبے اپنے علاقے میں صرف تعلیم کا نور پھیلانے کے لیے ہی پیدا ہوئی ہے شاید اسی لیے انھوں نے اس کا نام بھی ''نور بھری'' رکھا ۔ نور بھری نے ہمت نہ ہاری اور روایتی پابندیوں کے باوجود ایک ایک گھر میں جا کر بچیوں کے والدین کو اس بات پر رضا مند کیا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجیں تا کہ ان کا مستقبل روشن ہو سکے ۔
ان کی ہمت اور لگن کا یہ نتیجہ نکلا کہ جن گھرانوں میں بچیوں کو پڑھانا گناہ سمجھا جاتا تھا ان گھروں کی بیٹیاں بھی جوق در جوق اسکول میں جانے لگیں ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ پروین ملک کے سر پر اُس ماں کا ہاتھ نہ ہوتا جس نے جاگیردارانہ معاشرے سے قطع تعلق کر کے تعلیم کو اپنا زیور بنایا تو بیٹی بھی اُس مقام تک نہ پہنچتی جہاں جانے سے پہلے بہت ساری بیٹیوں کو اپنے خاندان کے بڑے بوڑھوں کی ایک جنبش لب کے لیے کئی برس انتظار کرنا پڑتا ہے۔
پروین ملک نے ضیا الحق کے آمرانہ دور کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو اسے سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے کبھی بچوں اور کبھی گھر کی دوری کی سزا کے ساتھ اس بات کا جواب بھی دینا پڑا کہ وہ سرکاری ملازمت کے دوران آمریت کے بجائے اُس حکومت کے گن کیوں گاتی ہے جس کا منتخب وزیر اعظم تختۂ دار کا سزاوار ہے۔
پروین ملک اٹک کے جس علاقے میں پیدا ہوئیں وہاں برسات کے دنوں میں چھوٹے دریاؤں کے ساتھ ان برساتی نالوں پر بھی جوبن آ جاتا ہے جو دور دراز کے پہاڑی علاقوں کا سفر طے کرتے ہوئے بڑے دریاؤںکے راستے سمندر سے جا ملتے ہیں مگر کم حیثیت ہونے کے باوجود کھیتوں اور کھلیانوں کے قریب سے اسی طرح شور مچاتے ہوئے گزرتے ہیں جیسے سمندر کی لہریں کناروں سے باہر آنے کی جستجو میں رہتی ہیں۔ اٹک اور آس پاس کے علاقوں میں جا بجا پھیلے ان برساتی نالوں کو مقامی زبان میں ''کسیاں'' کہا جاتا ہے جن کی خوب صورتی اور انفرادیت کے جادو سے کوئی نہیں بچ پاتا اور پروین ملک بھی نہ بچ پائیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کے شب و روز کو ''کسیاں دا پانی'' یعنی برساتی نالوں کا پانی کا نام دیا ہے جسے پڑھنے کے بعد یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے کہ عورت چاہے تو اُس نام نہاد مُہر کو آسانی کے ساتھ اپنے ماتھے سے کھرچ سکتی ہے جس پر درج کر دیا جاتا ہے کہ وہ کمزور اور قابل رحم مخلوق ہے۔
پروین ملک کی زندگی کا مطالعہ کرتے وقت قاری کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ انھیں رشتہ داروں نے زیادہ دکھ دیے، دوستوں نے زیادہ پریشان رکھا یا زندگی نے ان کے ساتھ زیادہ ستم کیے ۔ اپنے علاقے کی روایات سے بغاوت تو ان کی والدہ نور بھری نے تن تنہا شروع کر دی تھی ، مگر انھیں شاید اس بات کا علم نہیں تھا کہ میرے نقش قدم پر چلنے والی بیٹی کو زندگی جو دکھ اور پریشانیاں دینے والی ہے وہ پچھلے زمانے سے کہیں زیادہ کٹھن ہوں گی مگر وہ انھیںہنستے ہوئے سگریٹ کے مرغولوں کی نذر کر دے گی۔
خواتین میں ایسے دکھ سہنے کا حوصلہ ہوتا ہے جن کا مرد تصور بھی نہیں کر سکتے اور ان دکھوں میں اولا د کی جدائی کا دکھ بھی شامل ہوتا ہے۔ پروین ملک کی زندگی کا شاید وہ انتہائی کٹھن دور تھا جب اُن کا نو عمر بیٹا ایک حادثے کے بعد دنیا سے رخصت ہو ا اور بیٹی پر سکتہ طاری ہو گیا ، شوہر کاروبار کے سلسلے میں پوری زندگی دوسرے ممالک کی خاک چھان کر واپس لوٹا تو اس کی جیب سے مال و دولت کے بجائے کینسر کی بیماری بر آمد ہوئی اور اپنے علاقے میں علم کا نور پھیلانے والی اُن کی ماں نور بھری کو یہ وہم ہو گیا کہ پروین اُسے قتل کرنا چاہتی ہے۔
پروین ملک کی آپ بیتی فرسودہ رسم و رواج سے لڑنے والی ایک نہتی خاتون کی داستان ہی نہیں ہمارے ملک کی وہ سیاسی تاریخ بھی ہے جس میںکبھی جمہوریت، کبھی آمریت، کبھی صدارتی اور کبھی پارلیمانی نظام کا تجربہ کیا جاتا ہے اور عوام خاموشی سے اُس تجربہ گاہ کا ایندھن بن جاتے ہیں ۔ موجودہ حکومت بھی کوئی ایسا ہی تجربہ کر رہی ہے جس پر استاد محترم رئیسؔ امروہوی کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
نہ جانے کون سے سانچے میں ڈھالیں
ابھی تو صرف پگھلایا گیا ہوں