جمیل اپنے نقش چھوڑ گیا
جمیل نقش مصور بھی اپنی صنع کے تھے اور میں نے انھیں مختلف انسان بھی پایا۔
جمیل اپنے نقش چھوڑ گیا، اپنی ہی طرز کا مصور دنیا چھوڑ گیا۔ یہ 1990ء کی بات ہے تب میرے افسانوں کی کتاب '' نہ وہ سورج نکلتا ہے'' چھپنے کے لیے تیار ہو چکی تھی اور کتاب کا سرورق بنانے کے لیے میں جمیل نقش سے درخواست کرنے کی جی میں ٹھان چکا تھا۔ میں بتاتا چلوں کہ جمیل نقش کا اور میرا گھر ایک ہی سڑک پر تھے اور دونوں گھروں کے درمیان ایک فرلانگ کا فاصلہ تھا۔
ایک دن میں کتاب کا مسودہ لے کر ان کے گھر گیا اور ان سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ جمیل نقش صاحب نے فوراً حامی بھرلی، مجھے جمیل نقش بڑے انسان لگے (بڑے فنکار، بڑے انسان بھی ہوتے ہیں) ہفتہ دس دن میں جمیل نقش نے کتاب کا سرورق بنا دیا۔ یہ سرورق جمیل نقش کے انداز مصوری سے بالکل مختلف تھا، انھوں نے ایک ہیبت ناک بلا جسے آسیب کہہ لیں کی شبیہ بنائی، موٹی گردن، خوفناک دانت، سر پر دو سینگ اور اس آسیب کے سامنے ایک پتلی سی گردن والا، مریل سا انسان۔ میں نے کتاب کے دوسرے ایڈیشن کا نام اور سرورق وہی رکھے اور اپنے پیش لفظ میں لکھا ''جمیل نقش صاحب نے ''انقلاب'' بھی نقش کر دیا ، مجھ پر تاحیات اس کام کا نشہ طاری رہے گا۔'' جمیل نقش اپنے کام میں دن رات مصروف رہتے تھے، اسی لیے وہ اپنے اسٹوڈیو تک ہی محدود ہو کر رہ گئے تھے مگر مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ خود پیغام بھجوا کر مجھے ملاقات کے لیے بلوایا کرتے تھے۔
میرے افسانوی مجموعے کے بعد جمیل نقش نے بڑی محبت اور عقیدت کے ساتھ حبیب جالبؔ کے لیے میری تحریر، تحقیق، تدوین کردہ کتاب میں ''طلوع ہو رہا ہوں'' صفحات 1200 کا رنگین سرورق بنایا اور کتاب کا نام معہ حبیب جالبؔ بھی خطاطی کیا۔ حبیب جالبؔ کی شعری کتاب ''جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے'' ایک رومانی غزل گو شاعرکی ابتدا اور پھر مزاحمت کے نتیجے میں قید خانہ اور شاعر کے پاؤں میں زنجیر، جالبؔ صاحب کی اس داستان کو جمیل نقش نے خوب نقش کیا۔ جالبؔ صاحب ہی کا پنجابی زبان کا شعری مجموعہ ''رات کلیہنی'' کا سرورق بھی جمیل نقش نے بنایا۔ حبیب جالبؔ کی کتابوں کے سرورق والا کام بھی جمیل نقش کے نقوش میں نمایاں حیثیت کے حامل گردانے جائیں گے۔
جمیل نقش مصور بھی اپنی صنع کے تھے اور میں نے انھیں مختلف انسان بھی پایا۔ میں نے اوپر لکھا ہے کہ وہ مجھے بلوا لیا کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک دن میں ان کے ہاں گیا ہوا تھا، انھوں نے مجھے ایک واقعہ سنایا ''میں ہندوستان گیا ہوا تھا اور زندگی میں پہلی بار اس شہر میں گیا تھا (قارئین شہر کا نام میں بھول رہا ہوں، غالباً علی گڑھ یا بریلی تھا) میرے ساتھ ایک شخص بھی تھا۔ ہم گلیوں میں گھوم رہے تھے اور میں اپنے ساتھی کو پہلے ہی بتا دیتا تھا کہ گلی جب دائیں ہاتھ کو مڑے گی تو نکڑ پر ہی پرچون کی دکان ہو گی جس کے باہر مٹی کے تیل کا ڈرم ہو گا اور ایسا ہی ہوتا۔ پھر میں اگلے موڑ پر کہتا اب ایک بھٹیار خانہ آئے گا، روٹیاں لگ رہی ہوں گی اور بالکل ایسا ہی ہوتا۔ واللہ عالم بالغیب جمیل نقش نے مجھے یہ واقعہ اسی طرح سنایا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ مجھے یوں لگتا تھا کہ ایک زمانہ میں نے ان گلیوں میں گزارا ہے۔
ایک بار میں جمیل نقش کے گھر گیا ان کے گھر کے مین گیٹ پر ایک بیل لگی ہوئی تھی جو پھولوں سے بھری اوپر تک چلی گئی تھی میں ابھی گھر سے ذرا دور تھا میں نقش صاحب کو دیکھ رہا تھا، مگر وہ بیل کی شاخ کو پکڑے ہولے ہولے کچھ بول رہے تھے، میں قریب پہنچا تو انھوں نے مجھے دیکھ کر اتنا کہا جو میں نے سنا ''اچھا پھر بات کریں گے'' میں نے جمیل صاحب سے پوچھا ''یہ آپ کس سے بات کر رہے تھے؟'' تو وہ بولے ''سعید صاحب! یہ بیل اور میں اکثر آپس میں بات چیت کرتے ہیں، بیل اور میں ایک دوسرے سے اپنی اپنی باتیں کرتے ہیں، میں بیل کی باتیں سنتا ہوں، وہ میرے باتوں کا جواب دیتی ہے۔''
میرے اصرار پر وہ میرے گھر بھی آئے اور کچھ دیر بیٹھے جب کہ انھوں نے آنا جانا ترک کر دیا تھا اور وہ اپنے کام کی تکمیل کے لیے فکرمند رہتے تھے وہ کہتے ہیں ''ابھی بہت سا کام کرنے کو ہے'' پھر کہتے ''بس کام پورا ہو جائے'' میرے گھر کے ڈرائنگ روم میں جمیل نقش صاحب کی پینٹنگز لگی ہوئی ہیں۔ پچھلے پندرہ سالوں سے میں ان پینٹنگز کو دیکھ رہا ہوں اور ہر بار ایک نیا خیال، ایک نیا روپ سامنے آ جاتا ہے، مگر میں کیا اور میری بساط کیا! سو میں جمیل نقش کے رنگوں، قوسوں، زاویوں کو یوں ہی دیکھتا رہوں گا اور خود سے نئے نئے معنی تلاشتا رہوں گا۔ جمیل نقش جیسے مصور صدیوں پر محیط ہوتے ہیں اور صدیوں ان کے رنگ، انگ قائم رہتے ہیں۔
کوئی لگ بھگ دس برس پہلے جمیل نقش پاکستان چھوڑ کر لندن شفٹ ہو گئے تھے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ نشریاتی خبروں کے مطابق انھیں لندن ہی میں سپرد خاک کیا جائے گا۔ شاعر صابر ظفر نے ان کے انتقال پر شعر لکھے ہیں۔ صابر ظفر کے بہت سے شعری مجموعوں کے سرورق جمیل نقش نے بنائے تھے ان کے علاوہ عبیداللہ علیم اور سلیم کوثر کے شعری مجموعوں کے سرورق بھی انھوں نے بنائے اور معروف ادبی جریدے سیپ کے سرورق بھی انھی کی کاوشوں کا نتیجہ ہوتے تھے۔ صابر ظفر کے شعر پڑھیے:
دیکھا کبوتروں نے کہ وہ چھت نہیں رہی
پر کھولیں' یا نہ کھولیں' یہ حسرت نہیں رہی
ویسے بھی مثلِ رنگ بریدہ ہے یہ جہاں
وہ حیرتی نہیں ہے' تو حیرت نہیں رہی
دل پر تو نقش ہے' اگر آتا نہیں نظر
دل مانتا نہیں ہے کہ قربت نہیں رہی
وہ آشنائے خلوتِ عریانیٔ حیات
مٹی میں بھی حجاب کی حاجت نہیں رہی
تصویر ڈھونڈتی ہے مصور کو اب ظفر
رنگوں کو چھونے والی رفاقت نہیں رہی
جمیل نقش کی مصوری میں کبوتر ایک حسین استعارہ ہے۔