پاک افغان تعلقات وقت کی اہم ترین ضرورت

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے پاکستان نیٹو افواج کے پر امن انخلا کے لیے افغانستان سے مکمل تعاون کرے گا۔

افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کے لیے مدد کرے. فوٹو: رائٹرز/ فائل

ISLAMABAD:
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ 2014 افغانستان کے لیے مشکل سال ہے، پاکستان نیٹو افواج کے پر امن انخلا کے لیے افغانستان سے مکمل تعاون کرے گا، افغانستان کے مسئلے کا حل افغان حکومت کے بغیر ممکن نہیں۔ جب کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کے لیے مدد کرے اوران کی پاکستان سے سیکیورٹی سمیت کئی امور پر امیدیں وابستہ ہیں، دونوں ممالک کے شہریوں، حکومتوں اور سیکیورٹی فورسز کو دہشت گردی کا سامنا ہے، امید ہے کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا اور مستحکم افغانستان کے قیام میں مدد کرے گا۔ ان خیالات کا اظہار دونوں رہنمائوں نے یہاں ون آن ون ملاقات اور وفود کے ساتھ مذاکرات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔

پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے درمیان تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے حالانکہ دونوں ملک صدیوں پرانے جغرافیائی' تاریخی اور ثقافتی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔اس تلخ حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ قیام پاکستان کے بعد افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی تھی' پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت خان کو راولپنڈی میں قتل کرنے والے کا تعلق بھی افغانستان سے تھا' ظاہر شاہ کے سارے دور حکومت میں پاک افغان تعلقات بہت زیادہ اچھے نہیں تھے' ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر سردار دائود برسراقتدار آئے تو ان کے دور حکومت میں کسی حد تک دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی لیکن 1979 میں سردار دائود کے خلاف بغاوت ہوئی جس میں وہ مارے گئے اور کابل پر کمیونسٹوں کا اقتدار قائم ہو گیا۔ اس کے بعد افغانستان میں روسی فوجیں داخل ہو گئیں اور یوں افغان مجاہدین کی سرگرمیوں کا آغاز ہوا' پاکستان نے مجاہدین کا ساتھ دیا' اس کے بعدجو کچھ ہوا'اس سے پاکستان اور افغانستان کے فہمیدہ حلقے بخوبی آگاہ ہیں۔

افغانستان میں بدامنی کا جو سلسلہ شروع ہوا' وہ آج تک جاری ہے' طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد امریکا یہاں آیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا۔ یہ جنگ آج افغانستان اور پاکستان دونوں کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے۔ اس جنگ میں ہزاروں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں' اب 2014میں امریکا افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا رہا ہے' امریکا کے تعاون و حمایت سے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بیک چینل روابط بھی جاری ہیں۔قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان کا دفتر بھی قائم ہے۔ادھر پاکستان بھی انتہا پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی بات کر رہا ہے' گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے قوم سے اپنے خطاب میں انتہا پسندوں سے مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔ یوں دیکھا جائے تواس خطے میں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ اپنے فائنل رائونڈ میں داخل ہو رہی ہے' اس تناظر میں افغانستان کے صدر حامد کرزئی کا دورہ پاکستان انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے خطے کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔


اسلام آباد میں ہونے والی مشترکہ کانفرنس میں حامد کرزئی نے طالبان سے مذاکرات کے لیے مدد کا مطالبہ یا درخواست اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس کے جواب میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے یقین دہانی کرائی ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے ہر ممکن سہولت دیں گے' دونوں ملکوں کی سلامتی اور خوشحالی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان پرامن' متحد اور خوشحال افغانستان کا خواہشمند ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں امن سے پاکستان کی خوشحالی اور امن مشروط ہے بلکہ زیادہ وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو افغانستان میں امن سے پورے جنوبی ایشیاء میں حالات بہتر ہوں گے۔جہاں تک افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کی بات ہے تو اس میں بنیادی کردار افغان حکومت اور امریکا کا ہے کیونکہ طالبان افغان معاشرے کا حصہ ہیں اور یقینی طور پر وہ اگراپنی جدوجہد ختم کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں تو اس کے بدلے میں افغان حکومت میں اپنا حصہ مانگیں گے'یوں دیکھا جائے تو ان مذاکرات کی کامیابی کی کنجی امریکا اور افغان انتظامیہ کے ہاتھ میں ہے۔

اگر امریکا اور افغان حکومت طالبان کو مستقبل کے افغان سیٹ اپ میں ان کی حیثیت کے مطابق حصہ دینے پر آمادہ نہیں ہوتے تو پھر مذاکرات کی کامیابی مشکل ہو گی۔پاکستان طالبان کے حوالے سے اپنے اثرورسوخ کو استعمال کر رہا ہے اور مستقبل میں بھی کرے گا تاہم افغان حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ پاکستان کے مفادات کا بھی خیال کرے۔افغان حکومت کا فرض ہے کہ وہ ایسے عناصر کی سرگرمیوں کو روکے جو پاکستان میں بدامنی اور لاقانونیت کے ذمے دار ہیں۔ سوات کے طالبان رہنما مولوی فضل اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ افغانستان میں مقیم ہے' مولوی فضل اللہ کا گروپ پاکستان کے علاقوں میں حملوں میں ملوث ہے۔ افغانستان کی حکومت کو اس کے معاملے میں پاکستان سے تعاون کرنا چاہیے۔ اس طرح بھارت کی افغانستان میں سرگرمیوں کے بارے میں پاکستان کے جو تحفظات ہیں' انھیں بھی دور کیا جانا چاہیے' اخباری اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نواز شریف اور صدر حامد کرزئی کے درمیان ون آن ون ملاقات بھی ہوئی ہے۔

؎اس ملاقات میں افغان صدر نے وزیراعظم کے سامنے شکوے' شکایتوں کے ڈھیر لگا دیے تاہم وزیراعظم نے انتہائی خندہ پیشانی سے مہمان صدر کے تحفظات اور موقف سنا۔افغانستان میں جو بھی حکومت برسراقتدار آئی ہے 'اس نے ہمیشہ پاکستان کے بارے میں یکطرفہ سوچ اختیار کیے رکھی ہے۔ ڈیورنڈ لائن کا معاملہ ہو یا اب پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی واپسی کا مسئلہ 'پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کی بات ہو یا دراندازی کا معاملہ 'ہر معاملے پر افغان حکومت نے پاکستان کے مفادات کے برعکس موقف اختیار کیا۔ وزیراعظم پاکستان کو افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی واپسی کا مسئلہ بھی اٹھانا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین 'افغانستان کی حکومت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ پاکستان کا مسئلہ بن چکے ہیں۔ افغان حکومت تو چاہے گی کہ یہ لوگ واپس نہ آئیں کیونکہ ان کی واپسی افغان حکومت کے لیے مسائل پیدا کرے گی۔امریکا یا اقوام متحدہ کو بھی اس معاملے سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ وہ بھی اسٹیٹس کو میں ہی خوش ہیں۔

وزیراعظم پاکستان کو افغان صدر کے ساتھ اس معاملے پر ضرور بات کرنی چاہیے۔ افغان مہاجرین واپس چلے جاتے ہیں تو اس کے پاکستان کے معاشرتی حالات پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کا افغانستان کے حوالے سے ویژن ابہام سے پاک ہے 'وہ افغانستان میںمستقل بنیادوں پر امن کے خواہشمند ہیں کیونکہ ان کے اقتصادی ویژن میں جنوبی ایشیاء سے وسط ویشیاء تک تجارتی رابطے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔وزیراعظم نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دریائے کنڑ پر ہائیڈرل منصوبہ شروع کریں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان ریلوے لائن منصوبے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو صدر حامد کرزئی کا پاکستان آنا 'دونوں ملکوں کے درمیان موجود غلط فہمیاں دور کرنے کا باعث بنے گا اور بہت سے معاملات کو حل کرنے کی کوئی راہ نکلے گی۔ افغان حکومت کے طالبان کے ساتھ معاملات طے ہو جاتے ہیں تو افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا۔ ایسی صورت میں پاکستان کے حالات پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہاں بھی انتہا پسندوں کا زور ٹوٹ جائے گا اور ممکن ہے حکومت اور عسکریت پسندوں کے درمیان مذاکرات کی جو باتیں ہو رہی ہیں وہ حقیقت کا روپ دھار جائیں اور یہ مذاکرات کامیاب ہو جائیں۔ یوں اس سارے خطے میں تعمیر و ترقی کا رکا ہوا عمل شروع ہو جائے گا اس لیے افغانستان اور پاکستان کے درمیان اچھے اور مضبوط تعلقات وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں۔
Load Next Story