یہ منفی تنقید کرنے والے لوگ
محترمہ لیڈی گاگا بے چاری درد کی ماری نے شکایت کی ہے کہ کچھ موالی بدمعاش ٹوئٹر پر اسے منفی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
GILGIT:
اس وقت ہمیں بڑا شدید غصہ آ رہا ہے، ان بدمعاشوں پر جو عفیفۂ جہاں، پاکیزۂ دوراں اور حیا دان زماں محترمہ لیڈی گاگا پر منفی تنقید کر رہے ہیں۔ اس بے چاری درد کی ماری نے شکایت کی ہے کہ کچھ موالی بدمعاش ٹوئٹر پر اسے منفی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ہمارا بس نہیں چلتا اور کچھ ویزے اور زادہ راہ کا پرابلم بھی ہے ورنہ پہلی فلائٹ پکڑ عازم امریکا ہو جاتے اور اس نیم کلوٹے اوباما کو ٹائی سے پکڑ کر پوچھتے کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے، بڑا بنا پھرتا ہے امریکا کا صدر اور دنیا کا طاقت ور ترین حکمران کہ ایک لیڈی گاگا کا تحفظ بھی نہیں کر سکتے۔ پھر ان بدمعاشوں کو تلاش کرتے جو محترمہ کو چھیڑ رہے ہیں اور بھارتی فلموں خاص طور پر ساؤتھ انڈیا کی فلموں کا ہیرو بن کر وہ دھلائی کرتے کہ سارا میل اور ساری سلوٹیں دور ہو جاتیں، لیکن کوئی بات نہیں ہمارے پاس دوسرا آپشن بھی موجود ہے، ایسے مواقعے پر ہم ایسے کام دل ہی دل میں کر لیتے ہیں۔ سو یوں سمجھ لیجیے کہ ہم نے جو کہا ہے وہ کر دیا ہے۔ اوبامہ اپنی گردن مل رہا ہے اور سارے غنڈے اسپتالوں میں پڑے کراہ رہے ہیں ... دل کے آئینے میں ہے تصور یار ، جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی اور
نہ لڑ ناصح سے غالبؔ کیا ہوا گر اس نے شدت کی
ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم لیڈی گاگا کے فین ہوں گے، اس لیے آپے سے باہر ہو رہے ہیں لیکن ایسی کوئی بات نہیں، ہم نے لیڈی گاگا کو آج تک دیکھا بھی نہیں البتہ اس نے جب گانے کی ابتداء کرنا چاہی تو ہم سے ایک اچھا سا نام رکھنے کے لیے ٹیلی فون پر رجوع کیا،
تم کوئی اچھا سا رکھو اپنے کاشانے کا نام
ہم نے فوراً اسے مشورہ دیا کہ جب کام ہی گانے کا کرنا چاہتی ہو یعنی گا گا کر اپنا کیریئر شروع کرنا چاہتی ہو تو اپنا نام بھی گا گا رکھ لو اور گا گا کر دنیا کو گاگا کر دو، سو اس نے گاگا نام رکھا اور گاگا کر اپنا کیریئر بنانے اور گاگا کر اپنی روزی روٹی کمانے لگی۔ بچی ہنر مند تھی، کچھ ہی دنوں میں اس نے گا گا کر انگور کی بیٹی کا مرتبہ حاصل کر لیا یعنی دنیا سر پر اٹھا لی،
اس کی بیٹی نے اٹھا رکھی ہے سر پر دنیا
وہ تو اچھا ہے کہ انگور کے بیٹا نہ ہوا
لیکن غصہ ہمیں اس منفی تنقید اور منفی تنقید کرنے والوں پر آیا کیونکہ ایسے شر پسند عناصر اپنے یہاں بھی بہت ہیں، اتنے زیادہ کہ حکومتوں کو کام کرنے نہیں دیتے اور طرح طرح کی منفی تنقید کرتے رہتے ہیں مثلاً اگر کوئی اچھا کام کرتی ہے جیسے روپے کی شرح کم کرنا تو یہ کم بخت منہ اٹھا کر یہ منفی تنقید کرتے ہیں کہ روپے کی شرح کم ہو گئی۔ مہنگائی بڑھتی ہے تب بھی یہ منفی تنقید کہ مہنگائی بڑھ گئی۔ حد تو یہ ہے کہ لوڈ شیڈنگ پر بھی بیرونی ہاتھ کی شہ پا کر کہہ دیتے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ ہے، ان منفی تنقید والوں کے حوصلے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ اگر ممبران پارلیمنٹ اپنے لیے کچھ منظور کرتے ہیں یا تاحیات مراعات کے لیے چند ارب روپے خرچ ہوتے ہیں تو اس پر بھی منفی تنقید کرتے ہیں۔ گزشتہ روز کسی اخبار میں کسی ''منفی تنقیدیئے'' کا یہ بیان آیا تھا کہ ملک میں امن و امان کی صورت حال ٹھیک نہیں ہے، اس منفی تنقید میں صاف طور پر بیرونی ہاتھ دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس وقت ملک میں امن و امان کی صورت حال اتنی اچھی ہے کہ کوئی اگر سونا اچھالتے ہوئے پشاور سے کراچی اور کراچی سے کوئٹہ کا سفر کرے تو کوئی یہ بھی نہیں پوچھے گا کہ
چنری کے پیچھے کیا ہے، کرتے کے نیچے کیا ہے
اور نہایت خاموشی سے گولی مار دے گا کہ جا تجھے کش مکش دہر سے آزاد کیا، اور یہ تو ہم نے خود اکثر دیکھا ہے کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر ایک ساتھ پانی پیتے ہیں۔ اس امن و امان سے متاثر ہو کر بکریاں اتنی خوش ہو گئی ہیں کہ ہر روز ایک نئی بکری شیر کے ساتھ ایک گھاٹ پر پانی پینے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے آ جاتی ہے اور پہلی والی بکری خوشی کے مارے نہ جانے کہاں چلی جاتی ہے چنانچہ دریائے راوی نہ صرف چین ہی چین ہی لکھتا ہے بلکہ کبھی کبھی چینی چینی بھی لکھ دیتا ہے۔ عدل و مساوات کا یہ عالم ہے کہ امیر و غریب دونوں ایک ہی طرح کا کپڑا پہنتے ہیں، بلکہ اس معاملے میں غریب کچھ زیادہ ہی عیاشی کا ارتکاب کرتے ہیں جو سفید لٹھا امیر لوگ زیب تن کر کے ذرا بھی میلا نہیں ہونے دیتے اور نہایت احتیاط سے استعمال کرتے ہیں غریب لوگ وہی کپڑا پہن کر خاک میں لیٹتے ہیں اور لیٹے ہی رہتے ہیں جب تک کپڑا گل سڑ نہ جائے اور وہ بھی زمین کے نیچے ۔۔۔ یہ فضول خرچی نہیں تو اور کیا ہے، زمین کے نیچے کس نے دیکھا ہے، کس نے کیا پہن رکھا ہے، اکثر لوگ تو اس وقت کچھ بھی نہیں پہنتے،
ڈال دو سایہ اپنے آنچل کا
ناتواں ہوں کفن بھی ہو ہلکا
مطلب کہنے کا یہ ہے کہ یہ ''منفی تنقیدیئے'' خواہ مخواہ کے منفی تنقیدیئے ہوتے ہیں، کوئی بات ہو نہ ہو یہ اپنی کالی زبان سے کچھ نہ کچھ کہتے ہی رہتے ہیں، ایسے تو پورے پاکستان میں یہ منفی تنقید کا مرض عام ہے لیکن اپنے صوبے خیر پہ خیر میں تو لوگوں نے اسے باقاعدہ مشغلہ بلکہ پیشہ بنایا ہوا ہے۔ ذرا اخبار اٹھا کر دیکھئے یہاں وہاں سے دے دھنا دھن منفی تنقید کی توپیں چل رہی ہیں اور بے چاری صوبائی حکومت کو نشانہ بنا رہی ہیں حالانکہ صوبائی حکومت اتنی معصوم ہے کہزیادہ سے زیادہ اگر اس پر کوئی تنقید کی جا سکتی ہے تو وہ بھی منفی نہیں بلکہ مثبت تنقید ہو سکتی ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ ہمارے ملک میں منفی تنقیدیے بہت زیادہ ہیں لیکن حکومتی بیانوں میں یہ بات بھی غلط نہیں کہ اس منفی تنقید میں بہت بڑا حصہ بیرونی ہاتھ کا بھی ہے اور اس کے گواہ ہم خود بھی ہیں، کیونکہ ہم نے بہت سے لوگوں کو باہر کی شہ پا کر منفی تنقید کرتے ہوئے دیکھا اور سنا ہے، ابھی کل ہی کی بات ہے رمضان کے مہینے میں ہم نے کئی ایسے ایس ایم ایس وصول کیے جن میں رمضان المبارک کے لیے دوسرے ملکوں کے نرخ نامے تھے کہ فلاں ملک میں اشیائے صرف کی قیمتیں اتنی اتنی کم ہو گئی ہیں اور پھر اپنے ہاں کے نرخ نامے بتا کر کہا گیا تھا کہ وہ دیکھو اور یہ دیکھو۔
یہ سراسر اپنی حکومت پر منفی تنقید تھی یا نہیں اور بیرونی ممالک کا ہاتھ تھا یا نہیں۔ ارے خدا کے بندو، منفی تنقیدیو ذرا یہ بھی سوچو کہ وہاں کے حالات اور یہاں کے حالات کتنے مختلف ہیں، وہاں تو چند وزیروں کو پالنا پڑتا ہے اور یہاں وزیروں مشیروں اور کبیروں کی پوری فوج کو پالنا پڑتا ہے، سب سے بڑا ثبوت بیرون ہاتھ کا یہ تھا کہ اس میں پڑوسی ملک کا نام بھی شامل تھا اور اس نے صرف اس لیے اپنے ہاں نرخ کم کیے تھے کہ لوگوں کو منفی تنقید کا موقع ملے، حالانکہ اپنے ہاں اگر رمضان میں نرخ بڑھائے جاتے ہیں اور حکومت کے تعاون سے تاجر لوگ روزوں کو سخت سے سخت بناتے ہیں تو اس سے محض عوام کی بھلائی مقصود ہوتی ہے کہ روزے جتنے زیادہ سخت گزریں گے۔
اتنا ہی زیادہ ثواب لوگوں کو ملتا ہے اور برکات کا نزول زیادہ ہوتا ہے لیکن یہ لوگ اصل حالات جانے بغیر منفی تنقید پر اتر آتے ہیں اور یہ تو کچھ بھی نہیں، اکثر اپنے ہاں کے وزیروں کے اخراجات وغیرہ کا موازنہ بھی دوسرے ممالک سے کرتے ہیں جو قطعی جاہلانہ اور بے خبری پر مبنی منفی تنقید ہوتی ہے، آپ خود بتائیں کہ کہاں سو ڈیڑھ سو روپے کی چیز اور کہاں ہزار دو ہزار یا لاکھ دو لاکھ کی چیز ۔۔۔ اعلیٰ درجے کی چیز مہنگی تو ہو گی ہے ۔۔۔۔ اچھا گھوڑا اچھی گاڑی اچھا ہوٹل مہنگا ہوتا ہے یا نہیں، ٹھیک اسی طرح اعلیٰ لوگ وزیر بھی اعلیٰ پائے کے اور مہنگے ترین رکھتے ہیں جس طرح ہوٹلوں میں اسٹار کا سلسلہ ہوتا ہے اسی طرح وزیر اور مشیر بھی مہنگے اور سستے ہوتے ہیں اور معیار پر دلالت کرتے ہیں، کیا آپ نہیں جانتے کہ مہنگا روئے ایک بار سستا روئے بار بار ۔۔۔ اور یہ بھی تو دیکھیے کہ ایک ایک وزیر ہم بار بار استعمال کرتے ہیں، سستی چیز تو ایک بار کے استعمال سے بے کار ہو جاتی ہے۔