پہلی بلوچی فلم کیوں ریلیز نہ ہو سکی

فلم انڈسٹری کی تاریخ میں پہلی بلوچی فلم ’’ہمل ماہ گنج‘‘ جو اپنی ریلیز سے قبل ہی متنازعہ بن گئی تھی.


Shabbir Ahmed Arman August 27, 2013
[email protected]

فلم انڈسٹری کی تاریخ میں پہلی بلوچی فلم ''ہمل ماہ گنج'' جو اپنی ریلیز سے قبل ہی متنازعہ بن گئی تھی جسے عوامی دباؤ کے تحت ریلیز نہیں کیا جا سکا تھا۔ گزشتہ دنوں کراچی کے سینما بمبینو میں صحافیوں کے لیے ایک شو کا اہتمام کیا گیا۔ علاوہ ازیں ایک بلوچی ٹی وی چینل ''وش'' میں قسط وار ٹیلی کاسٹ کرنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور اس فلم کے منتخب مناظر بھی دکھائے جا رہے ہیں جن پر تبصرے بھی کیے جا رہے ہیں۔ فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اس فلم کو عام نمائش کے لیے سینما گھروں میں پیش کیا جاتا ہے کہ نہیں لیکن فلم انڈسٹری میں آج بھی یہ سوال گردش میں ہے کہ آخر کیوں کر اس فلم کی مخالفت کی گئی ہے؟ یقینا سینئر لوگ اس سوال کے جواب سے آگاہ ہوں گے لیکن نئی نسل سے تعلق رکھنے والے فلم شائقین کے لیے اس کا جواب باعث معلومات ہو گا۔ اس سوال کے مستند جواب کی تلاش کے لیے راقم الحروف نے فلم ھمل و ماہ گنج کے کہانی نویس و موسیقار فتح محمد نسکدنی، اس فلم کے ایک کردار غلام رسول مگسی اور اس فلم کی مخالفت کے محرک لالا فقیر محمد بلوچ کے تاثرات قلم بند کیے ہیں جنھیں نیک نیتی کے ساتھ قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے۔

اس وقت میرے سامنے فلم ''ھمل و ماہ گنج'' کا پوسٹر ہے جس پر یہ عبارتیں تحریر ہیں۔ ''جمعہ 28 مئی سے عظیم الشان افتتاح، دنیائے فلم کا پہلا بلوچی شاہکار، ٹی وی ڈراما ''آگ اور آنسو'' کے شہرت یافتہ ہیرو انور اقبال بطور میرھمل۔ ستارے: انور اقبال، انیتاگل، نادر شاہ عادل ، بوبی، محمود لاسی، اے آر بلوچ، نوشابہ، شکیل لاسی، نور محمد لاشاری، محمد صدیق بلوچ، بانو، مداری اور ساقی۔ فلم ساز: اشفاق اکبر اقبال، ہدایتکار: ایم اسلم بلوچ و انور اقبال، کہانی و موسیقی: فتح محمد نسکندی، جاری کردہ: بلوچستان پکچرز۔ کراچی کے تین سینما گھروں ایروز، راکسی اور کرن میں اس فلم کی نمائش ہونے والی تھی۔

فتح محمد نسکندی جو اس نام کے کہانی نویس اور موسیقار تھے کا کہنا ہے کہ: تہذیب و ثقافت کے عین مطابق تھی، اس میں تہذیب کے ہر پہلو کو مدنظر رکھا گیا تھا، یہ الگ بات ہے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر کلچر میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہین اس کے مطابق نہیں تھی بلکہ اس وقت کے خالص روایات اور معاشرتی رہن سہن کی عکاس تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت دیگر صوبوں کی بولی جانے والی زبانوں میں جو فلمیں بنائی جا رہی ہیں وہ بھی اپنی تہذیب اور ارتقائی منازل کے عین مطابق ہیں، جو کچھ ان میں دکھایا جاتا ہے، ایسا نہیں کہ ان معاشروں میں ایسی صورت حال نہیں ہوتی ہو تاہم ان فلموں کے ذریعے انھوں نے نہ صرف بہت سی معاشرتی برائیوں اور کوتاہیوں پر کسی حد تک قابو پا لیا ہے بلکہ قومی یکجہتی اور جذبہ ایثار و قربانی جیسی خوبیوں کا پرچار کیا ہے۔

حقیقت میں ہمیں ایک ایسے مستقبل کا سامنا ہے جہاں روشنی کی کرن نظر نہیں آ رہی ہے، ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا ہے، ہر سمت ہمیں اپنے وجود کے مخالفین نظر آتے ہیں۔ یہی وہ وجہ تھی کہ ہم نے فلم بنانے کا فیصلہ کیا تا کہ بلوچ قوم کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور ساتھ ہی بلوچی زبان کو بھی فروغ دیا جا سکے اور قومی احساس کو اجاگر کرنے کا یہ سلسلہ شروع کیا تا کہ قوم اپنی روایات کے مطابق نظم و ضبط کا پابند رہے اور ایک ایسا آئیڈیل پیدا کریں جس میں قوم کی خدمت کرنے کا حقیقی جذبہ پایا جائے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ آج بھی لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ ''نہیں چلے گی، نہیں چلے گی'' کا نعرہ کیوں بلند کیا گیا تھا؟ میرے خیال میں اس سوال کا جواب ان ہی لوگوں سے طلب کیا جائے جنہوں نے اسے بلند کیا تھا یا کہ لگوایا تھا۔''

ہم تو صرف یہ جانتے ہیں کہ جدید دنیا میں قومی ترقی کی راہ میں یہ بڑی رکاوٹ خود ہم ہی سے ڈلوانے کی وہ چال تھی جس میں ہم ایسے پھنس چکے ہیں کہ آج تک اس کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں، اس الجھاؤ میں بہت سی صلاحیتیں ضایع ہوئیں جن خوبیوں کو نمایاں ہونا تھا وہ اندھیری کھائی میں گل ہو گئی، جن چراغوں کو ہر طرف روشنی پھیلانی تھی وہ بے نور ہو گئے۔ بلوچی فن و ثقافت کو فروغ دینے نہیں دیا گیا جو بلوچی فن ابھرنے والا تھا جن ہزاروں باصلاحیت افراد کی معاشی اور اقتصادی پسماندگی دور ہونے والی تھی وقت سے پہلے سب کچھ تباہ و برباد کر دیا گیا۔ جس میں فنکار، کلاکار، ادیب، شاعر، موسیقار اور دیگر تخلیق کار ہنر مند شامل تھے، اسی طرح بہت سے قابل قدر فنکار گمنامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے۔ یہ ایک اچھا کارنامہ تھا یاکہ برا؟ اس کا فیصلہ وقت کر رہا ہے اگر ہمیں احساس ہو تو اس فیصلے کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔

لالا فقیر محمد بلوچ ایک وسیع القلب انسان دوست اور فقیر منش آدمی ہیں جن کی سیاسی، سماجی، ادبی، ثقافتی اور تعلیمی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ انجمن بیداری بلوچاں کے وہ روح رواں ہیں۔ فلم ''ھمل و ماہ گنج'' کی نمائش کے خلاف ''تحریک تحفظ ثقافت بلوچاں'' کے صدر کی حیثیت سے وہ کافی سرگرم رہے، جن کی مسلسل اور اجتماعی جدوجہد کی وجہ سے پہلی بلوچ سینما فلم ''ھمل و ماہ گنج'' سینماؤں کی زینت نہ بن سکی، یہ تحریک کیوں چلی اور فلم ھمل و ماہ گنج کو کیوں چلنے نہیں دیا گیا۔ اس بارے میں آج ان کی رائے کیا ہے، وہ ملاحظہ کیجیے۔

''اب کافی وقت گزر چکا ہے۔ یادیں مندمل ہو چکی ہیں، یہ تقریباً 37 سال پہلے کی بات ہے جب آتش جوان تھا۔ خون میں گرمی تھی جذبات غالب تھے ہم نے اس وقت محسوس کیا کہ بلوچی ثقافت پر ضرب پڑنے والی ہے اور بلوچی فلم ''ھمل وماہ گنج'' کی صورت میں نئی نسل کو گمراہی کی دعوت دی جا رہی ہے بلکہ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اگر اس فلم کو چلنے دیا گیا تو اس وقت پنجابی، پشتو اور سندھی فلموں میں جو ان کی قومی ثقافت کا تماشا دکھایا جا رہا ہے آگے چل کر بلوچی ثقافت کا بھی یہی حشر ہو جائے گا۔ بلوچ نوجوان کچھ بھی برداشت کر سکتا ہے لیکن بلوچی غیرت و حمیت کے تحفظ کے لیے وہ جان کی بازی لگانے پر تیار ہو جاتا ہے۔ یہی جذبہ تھا کہ چند نوجوان کہیں اکٹھے ہوئے اور اس فلم کے خلاف منصوبہ بندی کی گئی اور تقریباً 22 انجمنیں اور ایسوسی ایشنوں پر مشتمل ایک ایکشن کمیٹی بنائی گئی اور یہ طے پایا کہ سب ایک پلیٹ فارم کے تحت اپنی جدوجہد شروع کریں۔ اس طرح ''تحریک تحفظ ثقافت بلوچاں'' کے نام سے تحریک کی ابتداء ہوئی۔ اور بہت جلد یہ تحریک جنگل کی آگ کی طرح ملک بھر میں پھیل گئی۔ تحریک اس قدر شدت اختیار کر گئی کہ سینما مالکان نے اس فلم کی نمائش ہی سے انکار کر دیا اس طرح یہ فلم ہمیشہ کے لیے ڈبے میں بند ہو گئی۔

یہ بات غلط ہے کہ ہم کسی بھی بلوچی فلم کے خلاف تھے ہمارا مقصد یہ تھا کہ ایسی فلم ہو جس میں صحیح تہذیب اور ثقافت کی عکاسی ہو جو کمرشل بنیاد پر نہ بنائی گئی ہو اور یہ پیسہ کمانے کا ذریعہ نہ بنے۔ بنیادی طور پر ہم عریانیت کے خلاف تھے اور فلم ''ھمل و ماہ گنج'' کے کچھ سین اسی زمرے میں آتے تھے۔ مزید یہ کہ اس فلم میں تاریخی حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا گیا۔ یہی باتیں ہم نے انور اقبال کو سمجھائی تھیں ورنہ ان سے ہماری کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ وہ خود ایک بلوچ ہیں ان کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے تھی کہ بلوچ اپنی ثقافت اور روایتوں کے تحفظ کے لیے کس قدر جذباتی اور حساس ہیں۔''

غلام رسول مگسی کہنہ مشق صحافی رہ چکے ہیں آج کل ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ فلم ''ھمل و ماہ گنج'' کے ایک کردار تھے۔ یہ فلم کیوں نہیں چلی؟ اس بارے میں کہتے ہیں کہ ''انور اقبال نے جوکہ کھاتے پیتے گھرانے کے نوجوان تھے اپنے خاندانی مالی وسائل سے پہلی بلوچی فلم کے لیے عملی قدم اٹھایا۔ ھمل و ماہ گنج ایک تاریخی کہانی تھی جو خطہ بلوچستان کلاچ میں اس وقت پرتگیزی حملہ آوروں کے دور حکومت کے پس منظر میں لکھی گئی تھی۔ ھمل و ماہ گنج کے درمیان محبت کی لازوال داستان کے ساتھ ساتھ اس میں روایتی بلوچی بہادری کا ذکر بھی تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح ھمل کے والد نے اپنے جفاکش ساتھیوں کے ساتھ پرتگیزی حملہ آوروں کا مقابلہ کیا تھا۔ جب فلم کا پریمیئر شو بمبینو سینما میں طے ہو چکا تھا کہ اس فلم کے ریلیز کی مخالفت میں باقاعدہ ایک مہم شروع ہوئی جس کی وجہ سے یہ فلم ریلیز نہ ہو سکی۔ فلم پر اعتراض تھا کہ اس میں بلوچی ثقافت کو مسخ کیا جا رہا ہے اور اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو بلوچ قوم کی بدنامی ہو گی جب کہ یہ سوچ غلط فہمی پر مبنی تھی، انور اقبال نے تمام معترضین کو ایسٹرن اسٹوڈیو لے جا کر پوری فلم چلا کر دکھائی لیکن جذباتی نوجوان طبقہ جنہوں نے مہم کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی تھی قائل نہ ہو سکے۔ اس طرح ایک نیک اور قومی جذبے کے تحت جدید تقاضوں کے مطابق فلم کے ذریعے بلوچی ثقافت و بہادری کو اجاگر کرنے کی ایک بے ضرر کوشش کو ناکامی کا سامنا ہوا۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔