جب غوطۂ دمشق میں قیامت مچی

وہ شخص تین یا شاید چار سال کے ایک مرتے ہوئے بچے کو بچانے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہے.


Sana Ghori August 27, 2013
[email protected]

وہ شخص تین یا شاید چار سال کے ایک مرتے ہوئے بچے کو بچانے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہے۔ کبھی اس کے پھول سے چہرے پر پانی چھڑک کر اس مرجھاتے شگوفے کو دوبارہ کِھلانے کے جتن کرتا ہے تو کبھی اس ننھے سے زرد پڑ جانے والے اور بے جان جسم کو ہاتھوں سے مسل کر اس میں زندگی کی لہر دوڑانے کے لیے کوشاں ہے۔ مگر یہ کوششیں بے سود ثابت ہوتی ہیں، پھول مرُجھا جاتا ہے۔ اس کے ارد گرد اسی حالت سے دوچار اور بھی جسم ہیں، کوئی زندگی سے محروم ہو چکا ہے اور کوئی حالتِ نزع میں ہے۔

دل کو تڑپاتی یہ وڈیو شام کے علاقے ''غوطۂ دمشق'' کی ہے۔

شامی دارالحکومت دمشق کے جنوب اور مشرق میں واقع یہ علاقہ شام کی سر زمین پر آمریت سے بر سر پیکار گروہوں کے قبضے میں ہے، جہاں شامی فوج نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے نہتے شہریوں پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 1300 سے زاید افراد لقمۂ اجل بن گئے۔

یہ فجر سے پہلے کا وقت تھا کہ اچانک سرسبز زرعی علاقے غوطۂ دمشق کی پُرسکوت فضا راکٹوں کی مکروہ آوازوں سے بھر گئی۔ نہ جانے کیا ہوا۔۔۔معصوم بچے بے ہوش ہو ہو کر گرنے لگے۔ ان کے جسم نیلے پڑ گئے اور منہ سے جھاگ نکلنے لگا۔ بچوں کو مرتے دیکھ کر بے حال مائیں بھی آناً فاناً اسی کیفیت کا شکار ہونے لگیں جس میں ان کے بچے جان سے گئے تھے، ان کی روحیں بھی اپنی آنکھ کے تاروں کے تعاقب میں روح جسم سے پرواز کر گئیں۔

حملے کے بعد پہلے پہل درجنوں لوگوں کے مرنے کی اطلاعات ملیں، پھر رفتہ رفتہ یہ تعداد بڑھتی گئی۔

مرنے والوں کی حالت اور کیفیت سے صاف ظاہر تھا کہ انھیں کیمیائی ہتھیاروں سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

امدادی کارکن متاثرین کی مدد کے لیے پہنچنا شروع ہو گئے، لیکن ان میں سے بھی اکثر مارے گئے۔ قلیل تعداد میں دست یاب آکسیجن ماسک لوگوں کو کیمیائی حملے سے بچانے کے لیے ناکافی تھے۔صبح طلوع ہوئی تو اس علاقے میں عجیب منظر تھا۔ لوگ خود کو سڑکوں پر گھسیٹ رہے تھے۔ انھیں ہوا کی تلاش تھی۔ کیمیائی گیس سے بھرے اس علاقے سے نکلنا چاہتے تھے، مگر یہ کیسے ممکن تھا کہ اپاہج جسم طویل سفر طے کر سکیں۔ لوگ خود کو بیمار محسوس کر رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں زخم پڑ گئے تھے۔ ان کے لیے سانس لینا دشوار تھا۔ متاثرین میں سے کئی کی ٹانگیں مفلوج ہو گئی تھیں۔ وہ کچھ دیر اسی کیفیت میں رہتے پھر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے۔

بدھ اکیس اگست شام کی سر زمین پر طلوع ہونے والا وہ دن تھا جس کی ابتدا سیکڑوں نہتے شہریوں کو کیمیائی حملے کے ذریعے بھیانک اور دردناک موت سے دوچار کر کے عالمی قوانین کی پامالی سے ہوئی۔

بشارالاسد کی حکومت سے برسرپیکار گروہوں، جنھیں میڈیا باغی کے نام سے یاد کرتا ہے، کی جانب سے غوطۂ دمشق میں برپا ہونے والی قیامت کی کچھ جھلکیوں کی وڈیو جاری کی گئی ہے، جس میں یقینی طور پر کیمیائی حملے سے ہونے والی ہلاکتوں کے ثبوت ملتے ہیں۔ چنانچہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کیمیائی حملوں کا نشانہ بننے والے علاقے میں فوری طور پر تحقیقاتی ٹیم کی رسائی کا مطالبہ کیا ہے۔ بان کی مون نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا کسی بھی قسم کا استعمال چاہے وہ کسی کی بھی طرف سے ہو، قانون کی خلاف ورزی ہے۔ جو کوئی بھی انسانیت کے خلاف اس قسم کے سنگین جرم کا مرتکب ہو گا اسے نتائج بھگتنا ہوں گے۔

شام میں ماضی میں بھی کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں۔ شامی حکومت اس حوالے سے تردید کرتی رہی ہے، لیکن غوطۂ دمشق میں ان ہتھیاروں کے اندھا دھند استعمال نے بشارالاسد کے جھوٹ کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ بشار الاسد کا سب سے بڑا حامی روس بھی اس معاملے کی تحقیقات کا خواہاں ہے۔

معصوم بچوں کی لاشیں دیکھنے کے باوجود ہمارے ہاں بعض لوگ مُصر ہیں کہ جتنے لوگ مارے گئے وہ باغی تھے، ان کے ساتھ یہی ہونا چاہیے تھا۔ سوشل میڈیا پر اس طرح کے کمنٹس دینے والوں سے عرض ہے کہ اے ہوش مند انسانو! جو 311 بچے اس کیمیائی یلغار میں تڑپ تڑپ کر مر گئے، کیا وہ بھی باغی تھے؟ انھیں آخر کس جرم کی پاداش میں کچل دیا گیا؟

شام میں ہونے والی بدامنی کو فرقہ واریت قرار دے کر فریقین کو ایک ہی نظر سے دیکھنا ظلم ہے۔ یہ فرقوں کی لڑائی نہیں، بہ خدا یہ فرقوں کی جنگ نہیں۔ یہ ظالم اور مظلوم کے درمیان معرکا ہے۔ یہ آمریت اور عوام کے مابین ٹکراؤ ہے، جسے خاص مقاصد کے لیے فرقہ وارانہ جھگڑا قرار دینے کے جتن کیے جا رہے ہیں۔ ایسا کرنے والے درحقیقت پوری مسلم دنیا میں فرقہ واریت پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔

بان کی مون کی دھمکی ہو یا امریکا اور مغربی ممالک کا اس کیمیائی حملے پر ردعمل، یہ سب دکھاوا ہے۔ شامی فوج ایک عرصے سے عوام کا قتل عام کر رہی ہے۔ انتیس ماہ سے جاری جنگ میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں اور شامیوں کی بہت بڑی تعداد ترک وطن پر مجبور ہو چکی ہے۔ سرکاری کارندے بستیوں کی بستیاں اُجاڑ چکے ہیں، مگر اس سب کے باوجود امریکا، یورپی ممالک اور اقوام متحدہ کی تمام کارروائی صرف انتباہ، دھمکیوں اور اعلانات تک محدود ہے۔ یہ دنیا کی خاموشی اور بے عملی ہی ہے کہ بشارالاسد نے مظلوم نہتے شہریوں پر کیمیائی حملے جیسا ظالمانہ اقدام کیا۔

شام میں ڈھائے جانے والے مظالم پر آنکھیں بند رکھنے والے مسلم ممالک بھی بشارالاسد کے اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم ریاستیں اور ان کی تنظیم او آئی سی اپنے طور پر شام کے مسئلے کا حل نکالتی، مگر کچھ کرنا تو کجا مسلم حکمرانوں کی غالب اکثریت اس معاملے پر لب کشائی کے لیے بھی تیار نہیں اور خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ شام کے عوام جس طرح ظلم سہہ کر بھی اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں وہ یہ بتا دینے کے لیے کافی ہے کہ شام میں سحر نمودار ہو کر رہے گی اور بشارالاسد اپنے لاؤلشکر سمیت رسوائی کے اندھیروں میں ڈوب جائے گا، مگر تاریخ دنیا اور مسلمان حکمرانوں کا کردار یاد رکھے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔