پرعزم صحافت

ایکسپریس کے دفتر پر مسلح ملزمان کا حملہ کوئی اتفاقیہ شرارت نہیں بلکہ انتہائی سوچی سمجھی منظم سازش کا شاخسانہ ہے.


Ashar Najmi August 27, 2013

ایکسپریس اخبار کے دفتر پر مسلح ملزمان کا حملہ کوئی اتفاقیہ شرارت نہیں بلکہ انتہائی سوچی سمجھی منظم سازش کا شاخسانہ ہے، جس کے ذریعے دہشت گرد میڈیا اور صحافیوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اس ملک میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک بہت مضبوط و مربوط ہے۔ یہاں حکومتی رٹ نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ بندوق بردار دہشت گرد جب اور جہاں چاہتے ہیں کسی بھی فرد یا ادارے کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ پولیس، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے ادارے محض شریف شہریوں کو بلا جواز تنگ کرنے یا شہریوں پر اندھا دھند گولیاں برسانے کے کام میں اپنی مہارت کو فروغ دیتے نظر آتے ہیں۔ دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کے ہاتھوں شہریوں کی جمع پونجی اور معصوم جانیں گھنٹوں میں درجنوں کی اوسط سے شکار ہو رہی ہیں لیکن بدقسمتی سے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے ذمے دار ادارے اپنی ذمے داریوں سے غفلت برتتے نظر آتے ہیں۔ جس کی بڑی وجہ حکومت کی عدم توجہی اور مجرمانہ خاموشی ہے۔

ایکسپریس اخبار کے دفتر پر مسلح ملزمان کے حملے کو آج کتنے ہی دن گزر گئے ہیں مگر پولیس ابھی تک ذمے داران کو گرفتار تو کجا، ان کا تعین تک نہیں کر سکی ہے۔ دہشت گرد ہر اس ادارے اور فرد کو مسلح کارروائیوں کے ذریعے ڈرا دھمکا رہے ہیں جو ان دہشت گردوں کی مذموم وارداتوں اور ان کے خطرناک عزائم کو عوام کے سامنے لانے کی سعی مسلسل میں کوشاں ہے۔ ایکسپریس میڈیا گروپ نہ پہلے کبھی ایسی بزدلانہ کارروائیوں سے ڈرا ہے نہ کبھی ڈرے گا، اس ادارے نے پاکستانی صحافت کو ایک نیا اسلوب دیا ہے اور ساتھ ہی ملک و قوم کو تعمیری انداز فکر دیا ہے۔ دہشت گردوں کے اس مسلح حملے سے ایکسپریس کے ساری دنیا میں موجود لاکھوں قارئین کو جہا ں دلی صدمہ پہنچا وہیں حکومت اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کارکردگی کا پول بھی سب پر آشکار ہو گیا۔

برطانیہ میں مقیم میرے ایک دوست نے جو باقاعدگی سے روزنامہ ایکسپریس کا مطالعہ کرتا ہے، مجھ سے گزشتہ ہفتے بھی سوال کیا کہ پولیس آخر اب تک کیوں ان دہشت گردوں کو گرفتار نہیں کر سکی جب کہ تمام وسائل اس ادارے کو میسر ہیں پھر بھی کارکردگی میں کوئی پیش رفت کیوں نظر نہیں آتی؟ حکومت کی طرف سے بلند بانگ دعوئوں کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دی جا رہی ہیں مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کا حال افسوس ناک ہے۔ کراچی میں دہشت گردی، لاقانونیت اور بدامنی میں نیا رنگ دیکھنے میں اس وقت آیا جب مسلح ملزمان ایکسپریس میڈیا گروپ کے دفتر پر جدید خودکار اور آتشیں اسلحے سے گولیاں برسا کر باآسانی اپنی کمین گاہ کی طرف لوٹ گئے۔ حکومت وقت کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ شہر کراچی میں ہونے والی بدامنی اور دہشتگردی کے واقعات کا اثر براہ راست پورے پاکستان پر پڑتا ہے۔ دہشت گردوں کی کھلے عام دیدہ دلیری سے جاری سرگرمیاں ہمارے سیکیورٹی اداروں کی ناکامی کا بھانڈا پھوڑتی ساری دنیا کو دکھائی دے رہی ہیں۔

گزشتہ دنوں سکندر نامی شخص کی تقریباً چھ گھنٹے تک پورے اسلام آباد کو مفلوج اور سیکیورٹی اداروں کو بے بس کر دینے والی مجرمانہ حرکت نے پہلے ہی دارالحکومت کے محفوظ تر ہونے کے تاثر کو شدید دھچکا پہنچایا ہے اور اب اس کے بعد صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ایکسپریس میڈیا گروپ کے دفتر پر مسلح دہشت گردوں کے حملے نے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کارکردگی کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔کراچی میں دہشت گردی کا یہ سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ اس کی کڑیاں 70 کی دہائی میں ہونے والی غلط پالیسیوں سے ملتی ہیں جس کے نتیجے میں مذہبی، لسانی اور نسلی بنیادوں پر گروہ، تنظیمیں اور جماعتیں بننا شروع ہوئیں۔ ایک گروہ کو دبانے کے لیے دوسرا گروہ بنایا گیا اور ایک تنظیم یا جماعت کو نیچا دکھانے کے لیے دوسری تنظیم یا جماعت کھڑی کی گئی، پھر یہ گروہ اور تنظیمیں اپنے اپنے مفادات کے لیے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئیں، جس سے تشدد اور تخریب کاری کو فروغ ملا، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ مافیا کی اصطلاحیں وجود میں آئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک پر امن شہر جس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک لوگ چوبیس گھنٹے بلا خوف و خطر سفر کیا کرتے تھے، آج فائرنگ، دھماکوں، بھتہ خوری اور بوری بند لاشوں کا شہر بن کر رہ گیا ہے۔

ہزاروں قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ہوا اور کروڑوں روپے کی املاک جس میں رکشہ، ٹیکسی، بس، ویگن، موٹر سائیکل، پتھارے، پرائیویٹ گاڑیاں، مختلف دفاتر، تجارتی مراکز اور اسکول کالجز وغیرہ بھی شامل ہیں۔ نوبت اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے ہزاروں اہلکاروں کی موجودگی کے باوجود شہر میں حکومت کی رٹ کہیں نظر نہیں آتی۔ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے افسران سرکاری سرپرستی میں آئوٹ آف ٹرن ترقیاں اور زیادہ سے زیادہ سرکاری مراعات حاصل کرنے اور اپنے ادارے کے دیگر افسران کو نیچا دکھانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے میں با اثر مافیا کی سرپرستی کی وجہ سے اول تو ملزمان گرفتار نہیں ہوتے اور اگر گرفتار بھی ہو جائیں تو عدم ثبوت کی بنا پر انھیں سزائیں نہیں ملتیں، اگر سزائیں مل بھی جائیں تو ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ ملزمان کی پشت پناہی کرنے والی تنظیموں کی نشاندہی ہو جاتی ہے مگر وہ اتنی طاقت پکڑ چکی ہیں کہ ان کا قلع قمع ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو چکا ہے۔ اس وقت کراچی کی جو صورت حال ہے اس سے خود ملک کی سلامتی خطرے میں نظر آ رہی ہے۔

شہریوں کے لیے گھروں سے نکلنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، دکانوں اور کاروباری اداروں میں بیٹھے افراد کا قتل، ذاتی مکانات اور دکانوں پر لینڈ مافیا کے قبضوں کے باعث تجارتی سرگرمیوں، سماجی زندگی، سرکاری اور نجی دفاتر میں ملازمین کی غیر حاضری، آمدورفت میں شہریوں کو درپیش مشکلات، متاثرہ علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی نے عوام کے لیے اذیت ناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ ملک دشمن عناصر ملک کی معاشی شہ رگ کو متزلزل کرنے کے بعد غربت و افلاس کا گراف بلند کرنے اور ان کا جینا دوبھر کرنے کی خوفناک سازش کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ صحافیوں پر مجرمانہ حملے اور میڈیا کے دفاتر پر مسلح کارروائیاں اسی سوچی سمجھی سازش کی کڑی ہے جن تک ایک معمولی ذہن کی رسائی باآسانی ہو جاتی ہے، فقط ایک حکمران طبقہ ہی اس صورتحال کے ادراک سے ناواقف دکھائی دیتا ہے۔

کراچی ماضی میں بھی دنیا کے کئی دوسرے شہروں کی طرح بدامنی کی گرفت میں آ چکا ہے مگر دانشمندی، احتیاط، تدبر اور سیاسی عزم کی بدولت صورتحال پر قابو پا لیا گیا۔ ریاستی عملداری اور سیاسی عزم مسائل حل کرنے کی کلیدیں ہیں۔ بدامنی کے اصل اسباب کا باریک بینی سے جائزہ لے کر جامع حکمت عملی بنائی جائے تو کراچی میں قیام امن آج بھی ممکن ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ حکمران خود بھی ہر سطح پر قانون کی مکمل پاسداری کریں اور گاڑیوں پر سیاہ شیشوں، ٹریفک قوانین اور یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی جیسے بظاہر چھوٹے نظر آنیوالے معاملات میں بھی قانون کے خلاف ورزی سے قطعی گریز کریں، کیونکہ حکمرانوں کی چھوٹی سی لاقانونیت بھی پوری سرکاری مشینری کے لیے بڑی سے بڑی لاقانونیت کی راہ ہموار کر دیتی ہے اور کرپٹ سرکاری مشینری کسی مسئلے سے نمٹنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میڈیا کے دفاتر پر بھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دی جاتی رہتی ہیں۔ دہشت گردوں نے تو اپنی دانست میں اس بزدلانہ کارروائی سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ ان کے چہرے اور مذموم مقاصد بے نقاب نہ کیے جائیں تاہم ایکسپریس میڈیا گروپ کا پیغام بھی دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر کے لیے واضح ہے کہ چاہے دہشت گرد اپنی تمام تر توانائیاں بھی خرچ کر دیں، ان کی سازشوں کا پردہ چاک کیا جاتا رہے گا اور عوام کیسامنے دہشت گردوں کے خطرناک عزائم کو بے نقاب کرنے کے لیے صحافت پر عزم ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔