نئے بلدیاتی نظام پر جماعت اسلامی کی بھی تنقید
فوج کے زیر نگرانی ضمنی انتخاب میں فتح سے متحدہ کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔
شہر قائد میں ضمنی انتخاب کے نتائج کے مطابق تحریک انصاف کو عام انتخابات کے مقابلے میں خاصے کم ووٹ حاصل ہوئے۔
عام انتخابات کے سخت دنگل کو دیکھتے ہوئے کراچی کے دو صوبائی اور ایک قومی اسمبلی کے حلقے میں جس مقابلے کی توقع کی جارہی تھی، وہ نظر نہ آسکا اور فی الوقت عام انتخابات کے بعد شہر کی دوسری بڑی سیاسی قوت کی جو حیثیت تحریک انصاف نے حاصل کی تھی وہ کم زور پڑتی محسوس ہوتی ہے۔ 22 اگست کو صوبائی حلقے 95 پر متحدہ کے محمد حسین خان نے 43 ہزار 303 ووٹ لیے، مدمقابل پیپلزپارٹی کے جمیل ضیا دوسرے نمبر پر رہے، جن کو 1ہزار 990 ووٹ ملے۔ رائے دہی کا تناسب شہر کے باقی حلقوں میں سب سے زیادہ 32 فی صد رہا۔ دوسرے صوبائی حلقے 103 پر متحدہ کے عبدالرئوف صدیقی 24 ہزار 84 ووٹ لے کر سرخ رو ٹھہرے۔ ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے سلطان احمد کو 4 ہزار 124 ووٹ ملے۔ یہاں رائے دہی کا تناسب 21 فی صد رہا۔ قومی اسمبلی کے حلقے 254 پر متحدہ کے محمد علی راشد نے 53 ہزار 45، جب کہ مد مقابل تحریک انصاف کے نعیم شیخ نے 5 ہزار 885 ووٹ لیے۔ رائے دہی کا تناسب 17 فی صد رہا، جو کہ دونوں صوبائی حلقوں کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔ کراچی میں قومی کی ایک اور صوبائی کی دو نشستوں پر ڈالے گئے ووٹوں کا مجموعی تناسب 22 فی صد رہا۔
ضمنی انتخاب میں کام یابی کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ ہمیں ختم کرنے کا خواب دیکھنے والے اپنی ہی سونامی میں بہہ گئے۔ دھاندلی کے الزام لگانے والے فوج کی نگرانی میں ہونے والے ضمنی انتخاب کو دیکھیں کہ مخالفین کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ متحدہ کے قائد کا کہنا تھا کہ فوج کے جوانوں کی تعیناتی کے بعد بھی تجزیہ کار متحدہ کی فتح پر کہہ رہے ہیں کہ لوگ کم نکلے، جب کہ پوری دنیا جانتی ہے، ضمنی انتخاب میں رائے دہی کا تناسب کم ہی ہوتا ہے۔ میں تنقید کرنے والوں سے کہتا ہوں کہ ہمارے مخالفین کو ملنے والے ووٹ دیکھو اور سینہ کوبی کرتے رہو۔ الطاف حسین نے آیندہ عام انتخابات بھی فوج کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی تحریک انصاف کی مقتول راہ نما زہرہ شاہد کے قتل کی براہ راست سپریم کورٹ کی زیر نگرانی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوج کے زیر نگرانی اپنی برتری سے متحدہ کے اعتماد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور اس نے ایک بار پھر شہر میں اپنی سیاسی برتری کو جھٹلانے والوں کو اپنی حیثیت کا احساس دلایا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے، جس طرح 1993ء میں ایم کیو ایم نے بغیر مہم چلائے کام یابی حاصل کی تھی اور اس کے بہت سے کام یاب ہونے والے امیدوار بھی پس زندان تھے۔ دو عشروں بعد متحدہ پھر اس حیثیت میں آچکی ہے کہ دھاندلی کے الزامات لگانے والوں کو جواب دے سکے کہ ہم نے فوج کے زیر نگرانی بھی فتح حاصل کی۔
دوسری طرف قائم مقام گورنر آغا سراج درانی کے دست خط سے 2013ء کا بلدیاتی نظام نافذ ہو گیا ہے۔ ضمنی انتخاب سے قبل منظو ر ہونے والے نئے بلدیاتی نظام پر متحدہ کے قائد کے سخت ردعمل اور کارکنوں کو احتجاج کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کے بعد اب جماعت اسلامی بھی میدان میں آگئی ہے، ورنہ ابھی تک 2001ء اور 1979ء کے بلدیاتی نظام کی معطلی وبحالی سے لے کر نئے بلدیاتی نظام کے تجربات تک، جماعت اسلامی نے اس طرح ردعمل نہیں دیا، جیسا کہ اس بار دیکھنے میں آرہا ہے۔ 2001ء کے نظام کے ختم ہونے کے بعد اس معاملے پر زیادہ تر پیپلزپارٹی اور متحدہ کے علاوہ سندھ کے قوم پرست ہی اپنا ردعمل دیتے رہے۔
گزشتہ پانچ، چھ برسوں میں پہلی بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی نے اس حکمت عملی کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور شاید ایسا اس لیے بھی ہوا ہو کہ 2013ء کے اس نظام کی منظوری کے فوری بعد الطاف حسین کے سخت ردعمل کے بعد سے توقع کے برعکس متحدہ کی طرف سے اعتراضات تو کیے جا رہے ہیں، لیکن اتنی سخت بات نہیں کی جا رہی۔ دوسری طرف ضمنی انتخاب کے نتائج سے تحریک انصاف کی مضبوط پڑتی سیاسی قوت پر بھی سوالیہ نشان آگیا ہے، کیوں کہ کراچی میں جماعت اسلامی ہی متحدہ کی سخت جان حریف رہی ہے، جب کہ 11 مئی کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی کے بائیکاٹ کے بعد تحریک انصاف نے بہت زیادہ مضبوطی سے متحدہ کا مقابلہ کیا۔
ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ تحریک انصاف کراچی میں بھی اب ایک بڑی سیاسی قوت بن رہی ہے، لیکن ضمنی انتخاب سے فی الحال تو اس تاثر کی نفی ہوئی، لہٰذا جماعت اسلامی نے بلدیاتی نظام کی مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ سابق ناظم شہر نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے نئے بلدیاتی نظام کو کراچی کے عوام کی توہین اور بے عزتی قرار دیا اور کہا کہ حکومت نچلی سطح پر اختیارات سلب کرکے آئین کی دفعہ 140-A کی صریحاً خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے اور یہ وزیر بلدیات کو کراچی کا سپر میئر بنانے کی کوشش ہے۔ قبل ازیں جماعت اسلامی کے راہ نما محمد حسین محنتی نے کہا تھا کہ دنیا بھر میں اختیارات نچلی سطح پر منتقل کیے جاتے ہیں، لیکن یہاں اختیارات دوبارہ صوبائی حکومت کو دیے جا رہے ہیں۔ پچھلے نظام میں تعلیم، صحت اور ماسٹر پلان بلدیاتی امور تھے، لیکن اب سارے ترقیاتی کاموں کے علاوہ پلوں اور بالائی گزر گاہوں وغیرہ کی تعمیر بھی صوبائی حکومت کو دے دی گئی ہے۔
بلدیاتی نظام کے ساتھ گورنر کے اختیارات میں کمی گزشتہ ہفتے کا معاملہ اہم رہا۔ سندھ میں یہ معاملہ اس تعلق سے خاصا حساس ہے کہ یہاں اختیارات کی تقسیم کے لیے گورنر مہاجر اور وزیر اعلا سندھی ہوتا ہے۔ سندھ اسمبلی میں سرکاری جامعات اور انسٹی ٹیوشنز کے ترمیمی بل کی منظوری کے بعد اب جامعہ کراچی، این ای ڈی اور ڈائو میڈیکل یونی ورسٹی میں کراچی کے طلبا کے لیے مختص ترجیحی نشستیں ختم ہو گئی ہیں۔ صوبے کی جامعات بیک وقت 3 اداروں کی زیر نگرانی آگئیں۔ وفاقی حکومت اور گورنر سیکریٹریٹ کو جواب دہ ہونے کے ساتھ اب وہ صوبائی حکومت کو بھی جواب دہ ہیں۔ اس کے ساتھ شیخ الجامعہ سے لے کر رجسٹرار، ناظم امتحانات اور چیف اکائونٹنٹ کی تقرری کے اختیارات بھی اب صوبائی حکومت کے پاس ہے ۔
عام انتخابات کے سخت دنگل کو دیکھتے ہوئے کراچی کے دو صوبائی اور ایک قومی اسمبلی کے حلقے میں جس مقابلے کی توقع کی جارہی تھی، وہ نظر نہ آسکا اور فی الوقت عام انتخابات کے بعد شہر کی دوسری بڑی سیاسی قوت کی جو حیثیت تحریک انصاف نے حاصل کی تھی وہ کم زور پڑتی محسوس ہوتی ہے۔ 22 اگست کو صوبائی حلقے 95 پر متحدہ کے محمد حسین خان نے 43 ہزار 303 ووٹ لیے، مدمقابل پیپلزپارٹی کے جمیل ضیا دوسرے نمبر پر رہے، جن کو 1ہزار 990 ووٹ ملے۔ رائے دہی کا تناسب شہر کے باقی حلقوں میں سب سے زیادہ 32 فی صد رہا۔ دوسرے صوبائی حلقے 103 پر متحدہ کے عبدالرئوف صدیقی 24 ہزار 84 ووٹ لے کر سرخ رو ٹھہرے۔ ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے سلطان احمد کو 4 ہزار 124 ووٹ ملے۔ یہاں رائے دہی کا تناسب 21 فی صد رہا۔ قومی اسمبلی کے حلقے 254 پر متحدہ کے محمد علی راشد نے 53 ہزار 45، جب کہ مد مقابل تحریک انصاف کے نعیم شیخ نے 5 ہزار 885 ووٹ لیے۔ رائے دہی کا تناسب 17 فی صد رہا، جو کہ دونوں صوبائی حلقوں کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔ کراچی میں قومی کی ایک اور صوبائی کی دو نشستوں پر ڈالے گئے ووٹوں کا مجموعی تناسب 22 فی صد رہا۔
ضمنی انتخاب میں کام یابی کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ ہمیں ختم کرنے کا خواب دیکھنے والے اپنی ہی سونامی میں بہہ گئے۔ دھاندلی کے الزام لگانے والے فوج کی نگرانی میں ہونے والے ضمنی انتخاب کو دیکھیں کہ مخالفین کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ متحدہ کے قائد کا کہنا تھا کہ فوج کے جوانوں کی تعیناتی کے بعد بھی تجزیہ کار متحدہ کی فتح پر کہہ رہے ہیں کہ لوگ کم نکلے، جب کہ پوری دنیا جانتی ہے، ضمنی انتخاب میں رائے دہی کا تناسب کم ہی ہوتا ہے۔ میں تنقید کرنے والوں سے کہتا ہوں کہ ہمارے مخالفین کو ملنے والے ووٹ دیکھو اور سینہ کوبی کرتے رہو۔ الطاف حسین نے آیندہ عام انتخابات بھی فوج کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی تحریک انصاف کی مقتول راہ نما زہرہ شاہد کے قتل کی براہ راست سپریم کورٹ کی زیر نگرانی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوج کے زیر نگرانی اپنی برتری سے متحدہ کے اعتماد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور اس نے ایک بار پھر شہر میں اپنی سیاسی برتری کو جھٹلانے والوں کو اپنی حیثیت کا احساس دلایا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے، جس طرح 1993ء میں ایم کیو ایم نے بغیر مہم چلائے کام یابی حاصل کی تھی اور اس کے بہت سے کام یاب ہونے والے امیدوار بھی پس زندان تھے۔ دو عشروں بعد متحدہ پھر اس حیثیت میں آچکی ہے کہ دھاندلی کے الزامات لگانے والوں کو جواب دے سکے کہ ہم نے فوج کے زیر نگرانی بھی فتح حاصل کی۔
دوسری طرف قائم مقام گورنر آغا سراج درانی کے دست خط سے 2013ء کا بلدیاتی نظام نافذ ہو گیا ہے۔ ضمنی انتخاب سے قبل منظو ر ہونے والے نئے بلدیاتی نظام پر متحدہ کے قائد کے سخت ردعمل اور کارکنوں کو احتجاج کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کے بعد اب جماعت اسلامی بھی میدان میں آگئی ہے، ورنہ ابھی تک 2001ء اور 1979ء کے بلدیاتی نظام کی معطلی وبحالی سے لے کر نئے بلدیاتی نظام کے تجربات تک، جماعت اسلامی نے اس طرح ردعمل نہیں دیا، جیسا کہ اس بار دیکھنے میں آرہا ہے۔ 2001ء کے نظام کے ختم ہونے کے بعد اس معاملے پر زیادہ تر پیپلزپارٹی اور متحدہ کے علاوہ سندھ کے قوم پرست ہی اپنا ردعمل دیتے رہے۔
گزشتہ پانچ، چھ برسوں میں پہلی بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی نے اس حکمت عملی کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور شاید ایسا اس لیے بھی ہوا ہو کہ 2013ء کے اس نظام کی منظوری کے فوری بعد الطاف حسین کے سخت ردعمل کے بعد سے توقع کے برعکس متحدہ کی طرف سے اعتراضات تو کیے جا رہے ہیں، لیکن اتنی سخت بات نہیں کی جا رہی۔ دوسری طرف ضمنی انتخاب کے نتائج سے تحریک انصاف کی مضبوط پڑتی سیاسی قوت پر بھی سوالیہ نشان آگیا ہے، کیوں کہ کراچی میں جماعت اسلامی ہی متحدہ کی سخت جان حریف رہی ہے، جب کہ 11 مئی کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی کے بائیکاٹ کے بعد تحریک انصاف نے بہت زیادہ مضبوطی سے متحدہ کا مقابلہ کیا۔
ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ تحریک انصاف کراچی میں بھی اب ایک بڑی سیاسی قوت بن رہی ہے، لیکن ضمنی انتخاب سے فی الحال تو اس تاثر کی نفی ہوئی، لہٰذا جماعت اسلامی نے بلدیاتی نظام کی مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ سابق ناظم شہر نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے نئے بلدیاتی نظام کو کراچی کے عوام کی توہین اور بے عزتی قرار دیا اور کہا کہ حکومت نچلی سطح پر اختیارات سلب کرکے آئین کی دفعہ 140-A کی صریحاً خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے اور یہ وزیر بلدیات کو کراچی کا سپر میئر بنانے کی کوشش ہے۔ قبل ازیں جماعت اسلامی کے راہ نما محمد حسین محنتی نے کہا تھا کہ دنیا بھر میں اختیارات نچلی سطح پر منتقل کیے جاتے ہیں، لیکن یہاں اختیارات دوبارہ صوبائی حکومت کو دیے جا رہے ہیں۔ پچھلے نظام میں تعلیم، صحت اور ماسٹر پلان بلدیاتی امور تھے، لیکن اب سارے ترقیاتی کاموں کے علاوہ پلوں اور بالائی گزر گاہوں وغیرہ کی تعمیر بھی صوبائی حکومت کو دے دی گئی ہے۔
بلدیاتی نظام کے ساتھ گورنر کے اختیارات میں کمی گزشتہ ہفتے کا معاملہ اہم رہا۔ سندھ میں یہ معاملہ اس تعلق سے خاصا حساس ہے کہ یہاں اختیارات کی تقسیم کے لیے گورنر مہاجر اور وزیر اعلا سندھی ہوتا ہے۔ سندھ اسمبلی میں سرکاری جامعات اور انسٹی ٹیوشنز کے ترمیمی بل کی منظوری کے بعد اب جامعہ کراچی، این ای ڈی اور ڈائو میڈیکل یونی ورسٹی میں کراچی کے طلبا کے لیے مختص ترجیحی نشستیں ختم ہو گئی ہیں۔ صوبے کی جامعات بیک وقت 3 اداروں کی زیر نگرانی آگئیں۔ وفاقی حکومت اور گورنر سیکریٹریٹ کو جواب دہ ہونے کے ساتھ اب وہ صوبائی حکومت کو بھی جواب دہ ہیں۔ اس کے ساتھ شیخ الجامعہ سے لے کر رجسٹرار، ناظم امتحانات اور چیف اکائونٹنٹ کی تقرری کے اختیارات بھی اب صوبائی حکومت کے پاس ہے ۔