فوج کی موجودگی کے باوجود دھاندلی کے الزامات

شیرازی برادران نے شمس النسا کی فتح ماننے سے انکار کردیا۔

این اے 237پر تمام تین سو پینتالیس پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس قرار دیتے ہوئے ڈھائی ہزار پولیس کی نفری، پندرہ سو فوجی جوان اور تین سو رینجرز کو تعینات کیا گیا تھا۔ فوٹو: فائل

ٹھٹھہ کے ضمنی الیکشن میں عوام نے ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔

این اے 237 پر انیس امیدواروں نے کاغذات نام زدگی جمع کرائے جو کہ تمام منظور کر لیے گئے۔ بعدمیں کئی امیدوار پیپلز پارٹی کی شمس النساء میمن کے حق میں دست بردار ہو گئے۔ شمس النسا کا مقابلہ ریاض شاہ شیرازی سے تھا۔ پیپلز پارٹی ضلع ٹھٹھہ کی پوری قیادت اور ان کے ہم دردوں کی جانب سے فیصلہ کیا گیا کہ اس نشست پر صادق علی میمن کے گھر کے ہی کسی فرد کا حق ہے۔ لہٰذا عوام اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے صادق علی میمن کی والدہ کو الیکشن میں شیرازی گروپ کے سامنے لاکھڑا کیا۔ الیکشن سے پہلے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ صادق علی میمن کی والدہ شمس النساء، شیرازیوں سے مقابلہ نہیں کر پائیں گی اور ہار جائیں گی، مگر ہوا اس کے برعکس۔

دوسری جانب شیرازی برادری نے بھی اپنی انتخابی مہم کو تیز کرتے ہوئے علاقہ اور برادری معززین اور عمائدین سے میل ملاپ بڑھا دیا۔ مختلف جلسے کیے، ضمنی الیکشن سے کچھ دن قبل ہی شیرازی برادران اور ان کے ہم درد و کارکنان نے اپنے ایک پولنگ ایجنٹ کی گرفتاری پر پورے ضلع ٹھٹھہ اور سپر ہائی وے پر بارہ گھنٹوں تک احتجاجی دھرنے دے کر سپر ہائی وے، قومی شاہراہ اور ریلوے ٹریکس کو بند کر دیا، گرفتار پولنگ ایجنٹ، پیپلز پارٹی کی مخصوص سیٹ پر منتخب ہونے والی رخسانہ شاہ کے سگے بھائی ہیں، مگر ان کی گرفتاری پر نہ ہی رخسانہ شاہ اور نہ ہی مسلم لیگ ن کے رہنما اور وزیر اعظم نواز شریف نے کوئی بیان دیا جس پر ٹھٹھہ کے کچھ حلقوں میں یہ بات پھیل گئی ہے کہ یہ تو شیرازی برادارن کو شاید نون لیگ میں شامل ہی نہ کیا گیا یا پھر وہاں کی ان کا کوئی مقام نہیں ہے۔ شیرازی برادران ماضی میں پرویز مشرف کی بغل بچہ جماعت قاف لیگ میں بھی اسی طرح داخل ہوئے اور جب قاف لیگ پر مشکل وقت آیا تو یہ وہاں سے نکل آئے۔


این اے 237پر تمام تین سو پینتالیس پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس قرار دیتے ہوئے ڈھائی ہزار پولیس کی نفری، پندرہ سو فوجی جوان اور تین سو رینجرز کو تعینات کیا گیا تھا۔ اس حلقہ سے پی پی پی اور نون لیگ کے امیدوار کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی تھی۔ پولنگ کے روز ابتدائی تین گھنٹوں تک ووٹرز کی بہت کم تعداد ہی اپنا ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشن پہنچی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ووٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ عوام نے پاک فوج کی جانب سے قیام امن کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کو سراہا۔ الیکشن مجموعی طور پر پُرامن ماحول میں منعقد ہوئے، ایک پولنگ اسٹیشن پر دو افراد نے جعلی شناختی کارڈ پر ووٹ ڈالنے کی کوشش کی تو فوجی جوانوں نے انہیں فوری طور پر گرفتار کر لیا اور ان کی مدد کرنے والے مکلی کے تھانے دار کو بھی دھر لیا، جو اب چھ چھ ماہ قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔

انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد سامنے آنے والے نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کی شمس النساء میمن چوراسی ہزار آٹھ سو انیس ووٹ لے کر کامیاب قرار پائیں، جب کہ ان کے مقابل مسلم لیگ نون کے سید ریاض شاہ شیرازی چونسٹھ ہزار پانچ سو ستر ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ شمس النساء میمن کی کامیابی کی خوشی میں جیالوں نے پی پی رہنماوں صادق علی میمن، امتیاز قریشی، ڈاکٹر واحد سومرو، ارباب وزیر اور غلام قادر پلیجو کے ہم راہ جشن منایا۔

پیپلز پارٹی کی شمس النساء میمن کی کام یابی کے دوسرے روز حسب توقع مسلم لیگ نون اور شیرازی برادری کے ایم این اے سید ایاز شاہ شیرازی اور شکست سے دوچار ہونے والے سید ریاض شاہ شیرازی نے ہنگامی پریس کانفرنس میں ضمنی الیکشن میں سندھ حکومت پر دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی نے سرکاری مشینری کا استعمال کرتے ہوئے بھرپور دھاندلی کی۔ ان الزامات کو پی پی پی کی نو منتخب رکن قومی اسمبلی شمس النساء میمن، سسی پلیجو اور پی پی پی کے ضلعی سیکریٹری اطلاعات نے مسترد کر دیا اور کہا کہ پاک فوج کے جوانوں کی موجودگی میں کسی بھی قسم کی کوئی دھاندلی نہیں ہو سکتی تھی جس کا عملی مظاہرہ خود صحافیوں نے بھی دیکھا کہ کس طرح ووٹرز کو چیک کر کے ووٹ ڈالنے کے لیے بھیجا جا رہا تھا پاک فوج کے جوانوں کی موجودگی میں الیکشن میں غیر شفافیت کا الزام لگانے والوں کی اپنی سیاسی ساکھ ہی متاثر ہو رہی ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مخالفین اپنا دل بڑا کر کے کام یاب ہونے والی امیدوار کو کام یابی کی مبارک باد دے کر اپنے سیاسی قد میں اضافہ کرتے لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔
Load Next Story