عوامی مسائل سیاسی کھینچا تانی کی نذر

کوئی سیاسی جماعت بھی لوگوں کی داد رسی نہیں کر رہی۔

پیپلزپارٹی میں سیاسی اختلافات کا سلسلہ شہداد کوٹ میں بھی جاری ہے: فائل

RAWALPINDI:
پیپلزپارٹی میں سیاسی اختلافات کا سلسلہ شہداد کوٹ میں بھی جاری ہے، جس کی وجہ سے حکم راں جماعت کا یہ مضبوط قلعہ مسائل سے دوچار ہو گیا ہے۔

بینظیر بھٹو کے روایتی حلقہ انتخاب شہداد کوٹ کے عوام نے تمام تر زیادتیوں اور نا انصافیوں کے باوجود حالیہ انتخابات میں ضلع کی دو قومی چاروں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر پیپلزپارٹی کے امیدواروں کو کام یاب کیا، مگر اس کے باوجود ان کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ ماضی میں پارٹی کو مخالفین نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا تھوڑے عرصے میں راہ نمائوں کے اختلافات نے پہنچایا ہے اور ممکنہ بلدیاتی انتخابات میں اس کے نتائج زیادہ کھل کر سامنے آسکتے ہیں۔ صدر آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور اور رکن سندھ اسمبلی میر نادر مگسی کے درمیان انتخابات سے کچھ عرصے قبل نواب سردار احمد خان چانڈیو کو پیپلزپارٹی میں شامل کیے جانے کے معاملے پر اختلافات شروع ہوئے جو تاحال جاری ہیں۔

سردار خان چانڈیو کی پیپلزپارٹی میں شمولیت سے ضلع کے اندر انتظامی اختیارات تقسیم ہوئے ہیں جو پارٹی کی اعلا قیادت کی دلی خواہش تھی، حالاں کہ گزشتہ حکومت میں سابق صوبائی وزیر میر نادر علی مگسی ضلع میں سیاہ وسفید کے مالک تھے۔ اب ضلع کے بڑے حصے پر سردار خان کا سکہ چلتا ہے۔ ان کو فریال تالپور سمیت پارٹی کی اعلا قیادت کی مکمل آشیر باد حاصل ہے۔ اب وہ وزیر نہ ہونے کے باوجود ضلع کے تمام امور چلا رہے ہیں، گو کہ میر صاحب بھی منتخب نمائندے کے طورپر اپنی حیثیت قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہیں،لیکن عدالت میں ان کی ڈگری جعلی ہونے کا معاملہ چل رہا ہے، جس کی وجہ سے انہوںنے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور انتخابات کے بعد انہوں نے اکثر وقت کراچی یا امریکا میں گزارنے کو ترجیح دی۔


میر صاحب کی خفگی سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پارٹی سے اختلافات کی وجہ شاید عوام ہیں یا وہ اپنی ڈگری کے مسئلے پر اپنے حلقے کے لوگوںکو قصور وار سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف مخصوص لوگوں کو وہ تمام سرکاری سہولیات فراہم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کررہے ہیں، جب کہ میر نادر مگسی کی تشکیل کردہ آٹھ رکنی کمیٹی بھی فعال کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ حالیہ انتخابات میں یہ ہوا کہ 6 بار رکن اسمبلی بننے والے نادر مگسی کے مقابلے میں نواز لیگ کے نو وارد امیدوار میر غیبی خان مغیری کو غیر معمولی طور پر زیادہ ووٹ ملے، مگر جیت بدستور نادر مگسی کے حصے میں آئی۔ ہوسکتا ہے کہ نادرمگسی کو اس کا صدمہ ہو۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اس کے بعد مزید خیال کرتے اور روٹھے ہوئے حامیوں کو مناتے، مگر ہو اس کے برعکس رہا ہے، جس سے ان کے ووٹر مزید کم ہوسکتے ہیں۔

عوام پینے کے صاف پانی، نکاسی آب اور صفائی ستھرائی کے مسائل سے سخت اذیت میں دوچار ہیں۔ حالت ہے کہ تقریباً گزشتہ تین ماہ سے شہداد کوٹ کا کوئی محلہ اور گلی ایسی نہیں جہاں کوڑا کرکٹ اور گندگی کے ڈھیر نہ ہوں۔ میونسپل کمیٹی میں موجود لوگ سیاسی آشیرباد کے ساتھ چپ سادھے بیٹھے ہیں اور حکم راں جماعت کے ساتھ دیگر سیاسی و مذہبی اور قوم پرست جماعتیں بھی کوئی آواز نہیں اٹھا رہیں۔ نادر مگسی کے مقابلے میں سولہ ہزار ووٹ لینے والے میر غیبی خان مغیری کو عوام کے اس اعتماد کی لاج رکھنی چاہیے اور عوام کے مسائل کے لیے آواز اٹھاکر اپنی سیاسی ساکھ کو مضبوط کرنا چاہیے۔ اسی طرح دیگر امیدواروں کے پاس بھی عوام کے دل میں گھر کرنے کے لیے یہی موقع ہوتا ہے کہ وہ عوام کو یقین دلائیں کہ واقعی وہ ان کی نمایندگی کے اہل ہیں۔

اگر موجودہ صورت حال کا غیر جانب دارانہ جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت اور ان کے منتخب نمائندے یہاں کے عوام سے مخالفین کو بڑی تعداد میں ووٹ دینے کا انتقام لے رہے ہیں، جو جمہوریت کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اگر پی پی مخالف جماعتوں کے راہ نمائوں نے موجودہ صورت حال سے فایدہ اٹھاتے ہوئے عوام کا اعتماد حاصل کرلیا تو مستقبل میں پیپلزپارٹی کو سخت پریشانی سے دو چار ہونا پڑ سکتا گا۔ اب مخالف جماعتوں پر ہے کہ وہ اس صورت حال سے کتنا سیاسی فایدہ اٹھاتی ہیں، یا عوام کو یوں ہی بے یار ومددگار چھوڑے رکھتی ہیں۔
Load Next Story