صدر زرداری کا خطاب مثبت روایت کا آئینہ دار

صدر زرداری نے نے اپنی رخصتی کے آخری ایام میں نہ تو اخبارات پڑھنا بند کیے اور نہ ہی ٹیلی ویژن دیکھنا

کیا افغان صدر حامد کرزئی کا بدلا ہوا لہجہ پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ ہے؟۔ فوٹو: فائل

صدر مملکت آصف علی زرداری نے درست کہا کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے صدر ہیں جنہوں نے اپنی رخصتی کے آخری دنوں میں نہ تو اخبارات پڑھنا بند کیے اور نہ ہی ٹیلی ویژن دیکھنا بند کیا۔

ان کے اس ایک فقرے میں ہمارے ایوانِ صدر کی 66 سالہ تاریخ رقم تھی۔ پیر کی شب ایوانِ صدر میں اپنے عہدۂ صدارت کی پانچ سالہ مدت کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد صدر آصف علی زرداری جب اخبارات کے مالکان، مدیران اور صحافیوں سے فرداً فرداً ہاتھ ملا رہے تھے تو اپنی کامیابی پر مبارک بادیں وصول کرتے ہوئے وہ انتہائی انکساری سے اپنے مہمان صحافیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ پانچ سال کی مدت کے دوران مجھے آپ کا بھرپور تعاون حاصل رہا جس پر میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ عادتاً تنقید کے عادی ہمارے ہم پیشہ اپنے کام سے باز ہرگز نہ آئیں گے مگر یہ درست ہے کہ اس ایوانِ صدر سے جانے والے بوجھل قدموں سے تو جاتے رہے ہیں مگر آصف زرداری واحد صدر معلوم ہوتے ہیں جو بوجھل دل کے ساتھ قطعاً یہاں سے روانہ نہیں ہو رہے۔

انہوں نے اپنا مختصر مگر جامع خطاب شروع کرتے ہی جب اپنے مہمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا WELCOME TO YOUR PRESIDENCY تو یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ یہ ایوان صدر ان کا نہیں عوام کا ہے وہ تو یہاں عارضی مکین تھے۔ اس ایک اعتراف کے بعد ان کی تمام گفت گو اور اس کا ایک ایک فقرہ براہ راست دل سے نکلتا اور دلوں میں اترتا چلا گیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ہم سے بعض معاملات میں غلطیاں اور کوتاہیاں بھی ہوتی ہوں گی مگر ہم نے میڈیا کی تنقید کو خندہ پیشانی سے قبول کیا دوسروں کو بھی ہمارے روّیے سے سیکھنا ہو گا۔ انہوں نے بین السطور صحافیوں سے بھی استفسار کیا کہ آپ نے بھی تنقید کرنا سیکھا ہو گا۔ امید ہے کہ ہماری صحافی برادری ان کے اس سوال کا جواب اپنے عمل سے دے گی۔


انہوں نے آزادی اظہار رائے سے اپنی کمٹمنٹ کا ایک بار پھر اظہار کرتے ہوئے یقین دلایا کہ صحافیوں کو میری سپورٹ حاصل رہے گی جب وہ یہ کہہ رہے تھے تو محسوس یہ ہو رہا تھا کہ انہیں مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے آزاد صحافت کے وہ معیارات حاصل کرنا ممکن نظر نہیں آرہا جس کا وہ اپنی حکومت کے حوالے سے دعویٰ کر رہے ہیں، البتہ انہوں نے کہا کہ میری اب صحافیوں سے اکثر ملاقاتیں رہیں گی کیوں کہ اب میرے پاس پہلے سے زیادہ وقت ہو گا۔ دراصل وہ صحافیوں کو انٹرویوز اور ٹاک شوز میں اپنی دستیابی سے آگاہ کر رہے تھے۔ پاکستانی سیاست کی اس اہم ترین سیاسی جماعت کے موجودہ سیٹ اپ کو دیکھا جائے تو ہزارہا اختلافات کے باوجود آصف علی زرداری ہی ایسی واحد شخصیت نظر آتے ہیں جو اس پارٹی کو زندہ اور اس میں موجود بھانت بھانت کے لیڈروں کو یکجا رکھنے کی مقناطیسی صلاحیت رکھتے ہیں اور پیر کی شب ایوانِ صدر میں موجود چند ناموں سے ہی یہ بات یوں درست ثابت ہوتی ہے کہ وہاں مخدوم امین فہیم بھی تھے۔

رحمان ملک اور رضا ربانی بھی، ڈاکٹر جہانگیر بدر، مولا بخش چانڈیو، پیر اعجاز شاہ، خورشید شاہ، نوید قمر، فرحت اللہ بابر اور راجہ پرویز اشرف بھی، رخسانہ بنگش اور پلوشہ بہرام بھی موجود تھیں۔ آصف علی زرداری ایوانِ صدر سے اپنی رخصتی کے بعد اپنی جماعت کو سیاسی اعتبار سے متحرک کرنے پر جُت گئے تو وہ میاں نواز شریف اور عمران خان دونوں کے لیے بیک وقت سیاسی مشکلات پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اوراگر انہوں نے 9 ستمبر کے بعد دبئی، لندن یا نیو یارک کو اپنا مسکنِ عام بنا لیا تو پھر پاکستان پیپلز پارٹی سے ایمان کی حد تک محبت کرنے والے ان کے کارکن بھی متعدد ترغیبات کی حامل پاکستان تحریک انصاف کے درِعافیت میں جا بسنے سے بھی گریز نہ کریں گے۔

ادھر پاکستان کے دورے پر تشریف لائے افغان صدر حامد کرزئی کا اندازِ تخاطب پاکستان بھر کے عوام کے لیے سوالات بھری حیرت سے کم نہیں۔ اس سے قبل ان کے منہ سے پاکستانی قوم سے اپنے قائدین، حکومتوں اور عوام کے حوالے سے کلمۂ خیر نہیں سنا، آج صدر کرزئی کو ان پتوں سے ہوا ملتی محسوس ہوئی تو انہوں نے اپنے سابقہ خیرخواہوں پہ مزید تکیہ نہ کرنے کی ٹھانی اور پہلی بار بغیر کسی پیشگی شرط کے پاکستان تشریف لائے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور دیگر امریکی حکام نے صدر کرزئی پر واضح کر دیا ہے کہ اگر آپ کو مارچ 2014ء کے انتخابات میں کامیابی اور افغانستان سے نیٹو امریکی افواج کے انخلاء کے بعد خطے میں اپنی سیاسی اہمیت برقرار رکھنا ہے تو پاکستان اور اہلِ پاکستان سے اپنے تعلقات بہتر بنائیں۔ اسی تناظر میں صدر کرزئی نے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف، صدر پاکستان آصف علی زرداری دیگر سیاسی رہنمائوں اسفند یار ولی، آفتاب خان شیرپائو اور محمود خان اچکزئی سے بھی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ مولانا سمیع الحق ، مولانا فضل الرحمان، پرویز خٹک، منور حسن اور عمران خان سے کب ملاقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔

ادھر امریکہ میں بھی حمایت حاصل کرنے کے لیے انہوں نے اپنے رابطہ کاروں کی نئی صف بندی کرتے ہوئے اپنے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر رنگین دادفر سپانتا، سابق وزیر خزانہ اشرف غنی احمد زئی اور وزیر خارجہ زلمے رسول کو از سر نو متحرک کر دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایک مدت تک بھارت کی بانہوں میں بانہیں ڈالے پاکستان کے خلاف زہر آلود لب و لہجہ رکھنے والے حامد کرزئی بدلتی رُت کے ساتھ مطلوبہ سیاسی اہداف حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں، حکومتِ پاکستان اور وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف نے اپنی مخلصانہ سوچ کے تحت امریکہ اور افغانستان پر انتہائی واشگاف الفاظ میں واضح کر دیا تھا کہ ہماری کوئی پسند نہیں ہماری ترجیح صرف اور صرف افغانستان ہے پُرامن مضبوط اور مستحکم افغانستان کے ساتھ ہی پاکستان کی ترقی و خوشحالی جُڑی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے پاکستان ماضی کی تمام تر تلخیاں بھی بھولنے کو تیار ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے موقف کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے لیکن اگر میاں نواز شریف کے خلوص کو صدر کرزئی نے ان کی کمزوری جانا تو یہ ان کے سیاسی کیرئیر کی سب سے بڑی غلطی ہو گی۔
Load Next Story