پی ٹی آئی قیادت کے پارٹی و حکومتی عہدے الیکشن مہم چلانے میں رکاوٹ

اپوزیشن جماعتوں میں کسی نہ کسی سطح پر سوچ بچار کا عمل جاری ہے۔


Shahid Hameed August 27, 2013
ضمنی انتخابات میں سب سے بڑا سیٹ بیک تحریک انصاف کو ہواہے جو عام انتخابات میں اپنی پارٹی کے قائدعمران خان کی جیتی ہوئی نشست ہار گئی ہے۔ فوٹو: فائل

RAHIM YAR KHAN: ضمنی انتخابات کے حوالے سے انتخابی نتائج کے بعد صورت حال واضح ہوگئی ہے، حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں ایک دوسرے کو وضاحتیں دینے میں مصروف ہیں۔

کیونکہ صرف این اے ون کی نشست حکمران اتحاد نے نہیں گنوائی بلکہ مردان کے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پر جماعت اسلامی کے امیدوار فضل ربانی بھی شکست سے دوچار ہوئے ہیں تاہم اپوزیشن جماعتیں اس صورت حال سے کم ازکم پشاور کی حد تک دوچار نہیں ہیں کیونکہ پشاور میں این اے ون کی نشست اے این پی نے حاصل کرلی ہے تاہم دیگر نشستوں کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں میں کسی نہ کسی سطح پر سوچ بچار کا عمل جاری ہے تاہم سب سے بڑا سیٹ بیک تحریک انصاف کو ہواہے جو عام انتخابات میں اپنی پارٹی کے قائدعمران خان کی جیتی ہوئی نشست ہار گئی ہے جس کے حوالے سے بہت سی وجوہات سامنے موجود ہیں جو اس شکست کی وجہ بنی ہیں تاہم سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ الیکشن پارٹی قیادت کے بغیر لڑا گیا کیونکہ پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل پرویز خٹک وزیراعلیٰ ہیں، صوبائی صدر اسدقیصر سپیکر صوبائی اسمبلی ،صوبائی جنرل سیکرٹری شوکت یوسفزئی ،ریجنل صدر عاطف خان اور ضلعی صدر یاسین خلیل تینوں صوبائی وزراء ہیں اور یہ تمام پارٹی عہدیدار الیکشن کمیشن کی زد میں آنے کی وجہ سے انتخابی مہم میں اس طریقہ سے حصہ نہ لے سکے جس طریقہ سے پارٹی قیادت حصہ لیتی ہے جس کے باعث پی ٹی آئی اپنی جیتی ہوئی نشست ہار گئی ۔

پارٹی وحکومتی عہدوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کا معاملہ تحریک انصاف صرف اپوزیشن کی جانب سے کیے جانے والے ایک مطالبہ کے طور پر لے رہی تھی تاہم ضمنی انتخابات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ صرف اپوزیشن کی جانب سے کیا جانے والا ایک مطالبہ نہیں تھا بلکہ یہ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ اگر تحریک انصاف نے پارٹی کو زندہ رکھنا ہے تو اسے حکومتی اور پارٹی عہدوں کو الگ کرنا ہوگا اس لیے کہ ضمنی انتخابات کا مرحلہ تو گزر گیا ہے جس میں جس پارٹی نے جو کھونا اور جو پانا تھا وہ کھو بھی دیا اور پابھی لیا تاہم اگلا مرحلہ اب بلدیاتی انتخابات کا ہے جس میں تحصیلوں اور اضلاع کی سطح پر انتخابات جماعتی بنیادوں پر منعقد ہونے ہیں اور اگر اس میں بھی پارٹی اور حکومتی عہدے اکھٹے ہوئے تو اس صورت میں انتخابی مہم چلانے کی تمام تر ذمہ داری ان امیدواروں پر ہی ہوگی جو اس میں حصہ لے رہے ہوں گے جس سے تحریک انصاف کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی نقصان ہوگا۔

کیونکہ پارٹی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی پارٹی کے اندر کئی دراڑیں پڑتی ہوئی دکھائی دیں جن کو روکنا اور ان کا خاتمہ کرنا پارٹی قیادت ہی کا کام ہے جو الیکشن میں امیدواروں اور کارکنوں کو میسر نہیں تھی جس کو نہ صرف محسوس کیا گیا بلکہ اس کا برملا اظہار بھی کیا گیا ہے تاہم کارکنوں کے اس برملا اظہار اور خصوصی طور پر این اے ون پشاور کے نتیجہ کو سامنے رکھنے کے باوجود تحریک انصاف کے پارٹی عہدیدار اپنے عہدوں کو چھوڑنے کی جانب مائل نظر نہیں آرہے ہیں جس کی بنیادی وجہ وہ جدوجہد اور مراحل ہیں جن سے گزرتے ہوئے وہ ان پارٹی عہدوں پر پہنچے ہیں تاہم یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ جن پارٹی عہدوں کو تحریک انصاف کے پارٹی عہدیدار سینوں سے لگائے ہوئے ہیں اگر وہ ان عہدوں کو خود سے الگ نہیں کرتے تو اس کا نقصان بھی کسی اور کو نہیں بلکہ خود ان کی پارٹی ہی کو ہوگا اور یہ نقصان خود ان کا اپنا بھی نقصان ہوگا۔



بعض حلقوں کی جانب سے اس رائے کا اظہار بھی کیاجا رہا ہے کہ ضمنی انتخابات میں شکست سے واضح ہوگیا ہے کہ پی ٹی آئی وہ مقبولیت کھوبیٹھی ہے جو اسے مئی کے عام انتخابات میں حاصل تھی حالانکہ ایسی کوئی صورت حال اس لیے نظر نہیں آرہی ہے کہ پشاور اور لکی مروت کی نشستوں کے علاوہ دیگر نشستوں پر نتائج حسب توقع ہی آئے ہیں ، مردان اور بنوں کی صوبائی اسمبلی کی جو نشستیں جن پارٹیوں نے چھوڑی تھیں انہوںنے ہی دوبارہ حاصل کی ہیں اور مردان اور ہنگو سے صوبائی اسمبلی کی وہ دو نشستیں جن پر عام انتخابات میں کامیاب امیدوار دہشت گردی کے واقعات کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے ان کے بھائیوں ہی کی کامیابی کی توقع کی جارہی تھی جو انھیں مل گئی ہے ، صوابی سے قومی اسمبلی کی نشست پی ٹی آئی نے خالی کی اور واپس حاصل کرلی جبکہ نوشہرہ کی قومی اسمبلی کی نشست پر بھی تاحال پی ٹی آئی کا امیدوار آگے ہے اور یہی صورت حال لکی مروت کی نشست پر بھی ہے جو جے یو آئی کی جیتی ہوئی نشست تھی اور اب پی ٹی آئی کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے۔

پی ٹی آئی کو نقصان صرف این اے ون کی نشست پر ہوا ہے جس میں سب سے زیادہ قصور خود پی ٹی آئی اور اس کی قیادت کا ہے جس نے امیدوار کے انتخاب سے لے کر اس انتخابی عمل کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کے دوران اس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی یہ مہم متقاضی تھی جبکہ دوسری جانب اے این پی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے اس نشست کے حصول کو زندگی اور موت کا مسلہ بنایا ہوا تھا اور اپوزیشن جماعتوں کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی جس کے حوالے سے یہ اندازے لگائے جارہے تھے کہ اس کے ورکربے نظیر بھٹو کو شکست دینے والے غلام احمد بلور کے لیے کسی بھی طور میدان میں نہیں نکلیں گے غلط ثابت ہوئے اور پیپلزپارٹی کے ورکروںنے اے این پی کے ساتھ مل کر شانہ بشانہ اس عمل میں حصہ لیا جس کی بدولت اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف سے یہ نشست چھیننے میں کامیاب رہیں ۔



اپوزیشن کی تین جماعتوں جن میں اے این پی ،پیپلزپارٹی اور جے یو آئی شامل ہیں کو ضمنی انتخابات میں مل کر ساتھ چلنے کا فائدہ کسی نہ کسی حد تل ضمنی انتخابات میں بھی ہوا تاہم بغض پی ٹی آئی میں پروان چڑھنے والے اس رومانس کا انھیں سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ تینوں جماعتوں کی قیادت اور کسی حد تک ورکروں میں بھی یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ ان تینوں جماعتوں کو مل کر ہی بلدیاتی انتخابات کے لیے بھی میدان میں اترنا چاہیے جس کا پہلا مرحلہ گو کہ غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد ہوگا تاہم اس میں بھی سیاسی پارٹیاں مختلف گروپوں کی صورت میں پورے طریقہ سے شامل ہوں گی جبکہ دوسرا مرحلہ تو ویسے ہی جماعتی بنیادوں پر منعقد ہونا ہے تاہم بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے تینوںجماعتوں کی قیادت نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا کیونکہ وہ بلدیاتی نظام کے بل کے اسمبلی میں آنے کی منتظر ہیں جس کا جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کیاجائے گا کہ یہ نظام انہوں نے منظور کرنا ہے یا مسترد ؟

اور اگر وہ اس نظام کو منظور کرتے ہوئے اس کے تحت بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیتی ہیں تو اس صورت میں کیا انھیں علیحدہ علیحدہ میدان میں اترنا چاہیے یا مل کر تاہم اس بات کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آیا حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں بھی مل کر انتخابی عمل میں حصہ لیتی ہیں یا ہر پارٹی اپنی قوت بازو کو آزماتی ہے کیونکہ تحریک انصاف کے اندر یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے لیے اسے اکیلے میدان میں اترنا چاہیے تاکہ وہ اپنے منشور اور پروگرام کے مطابق عوام سے ووٹ لے سکیں جبکہ پی ٹی آئی کے بعض حلقے یہ رائے بھی رکھتے ہیں کہ چونکہ ضمنی انتخابات میں مل کر چلنے کا تجربہ کوئی ایسا کامیاب نہیں رہا اس لیے مزیدایسا ایک اور تجربہ کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔

وزیراعظم کی جانب سے عسکریت پسندوں کے بارے میں یہ پالیسی تو دے دی گئی ہے کہ ''مذاکرات ورنہ آپریشن ''تاہم ان کی جانب سے یہ واضح نہیں کیا گیا کہ عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے حوالے سے ان کے ساتھ باضابطہ طور پر رابطہ کون کرے گا اور کس کے ذریعے بات چیت کی جائے گی؟ یہی وجہ ہے کہ عسکریت پسندوں نے اس پالیسی کو دھمکی کے طور پر لیتے ہوئے پیشکش مسترد کردی ہے اوراسی معاملہ پر پہلی مرتبہ پنجابی اور پختون طالبان کی تقسیم بھی پیدا ہوئی ہے تاہم اس صورت میں بھی حکومت کو اپنی پالیسی واضح کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے ایک جانب طالبان کو اپنا بچہ قراردینے والے مولانا سمیع الحق بھی مصالحتی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں تو دوسری جانب مولانا فضل الرحمٰن کا آپشن بھی حکومت کے پاس موجود ہے کیونکہ بات چیت کا آغاز صرف پالیسی کے اعلان سے نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لیے مل بیٹھ کر معاملات کو آگے بڑھایا جانا چاہیے اور ایسا تب ہی ہوسکتاہے کہ جب رابطے ہوں اور ان رابطوں میں بات چیت کے لیے بیٹھنے کے حوالے سے شرائط بھی سامنے آئیں اور ایک دوسرے کا موڈ بھی دیکھ لیاجائے تاہم اگر حکومت ان لوازمات کے چکر میں پڑنے کے موڈ میں نہیں ہے تو تب بھی اسے معاملات کو واضح کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی وقت کا تقاضا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں