کامرہ ایئر بیس پر حملہ ایک صہیونی سازش…
ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے، جب خدا مل سکتا ہے تو پاکستان کی بقاء اور سالمیت کا حل کیوں نہیں مل سکتا
ANKARA:
کامرہ ایئر بیس پر حملہ اپنی نوعیت کا ہونے والا کوئی پہلا اور انوکھا حملہ نہیں ہے، اس واقعے سے پہلے سے بھی کراچی ہی میں مہران نیول ہیڈ کوارٹرز پر حملہ۔جی ایچ کیو پر ہونے والا حملہ، سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ، متعدد بار فوجی مسافر بردار سواریوں پر حملے یہ سب فوجی و عسکری املاک پر حملے روز بروز شدت کے ساتھ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں، اور ہم وجہ جاننے سے اب تک قاصر ہی ہیں۔ آیئے ہم اپنے تئیں کچھ شواہد اکٹھا کرنے کی جسارت کرتے ہیں، وہ کون سے مضمرات ہیں جن کی وجہ سے ہماری فوجی وعسکری قوتوں کو کوئی دشمن زیر کرنے کی ناکام کو شش کررہا ہے،
وجہ یہ ہے کہ سیکیورٹی کے حوالے سے کئی سوالات ذہن میں آتے ہیں۔ آخر وہ ادارے جو پاکستان کی اساس ہیں، ان پر اس طرح کے خودکش حملے، منظم و مربوط حکمت عملی کے تحت ہی معرض وجود میں آسکتے ہیں۔یہاں ہم بات کرتے ہیں آخر دہشت گردوں کے عزائم کیا ہیں، وہ کہاں تربیت پاتے ہیں، کہاں جاکر پناہ لیتے ہیں، کس کے اشارے پر زندگیوں کو موت کی نذرکیے دیتے ہیں، انکو پیسہ و رسد کہاں سے دستیاب ہوتی ہیں، کہاں سے ان کو اسلحہ ملتا ہے ان کے پیچھے کسی نادیدہ،یا دیدہ قوتوں کا ہاتھ ہے اور پھر آخر میں ان کے پاس عسکری اداروں کی وردیاں کہاں سے آجاتی ہیں۔
ایک مخصوص 3D ٹیک ان کی وردیوں میں نصب ہونا چاہیے تاکہ اسکیننگ کے ذریعے اصلی و نقلی کی جانچ ہوسکے۔گلگت میں روزے داروں کو اتار کر ان کو موت کے گھاٹ اتارنے والے بھی فوجی وردیوں میں ملبوس تھے اور انھوں نے لوگوں کو نشانہ بنایا ۔گویا کہ فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے کی سعیٔ ناکام کی گئی لیکن ان کو جان لینا چاہیے اب ہمیں سب سمجھ میں آچکا ہے۔ پچھلے چند سال میں رمضان ہی کے مقدس ایام میں ایسی ہولناک اور دل دہلانے والی حرکات دیکھنے میں آئی ہیں۔ یہ اس بات کی غمازی کررہی ہیں کہ ناپختہ ذہنوں میں42''inch کی اسکرین پر مصنوعی جنت دکھا کر 15-20 سال کے بچوں کی نفسیات کو وحشیانہ روش میںمنتقل کرکے ان کو انسانی حس سے ماورا کرکے انسانیت کا قلع مسمار کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے ۔
عرف عام میں ان کا برین واش کیا جاتا ہے ۔ دنیا کو اپنے دام میں لینے کی سعیٔ لا حاصل کرنے والے ملک امریکا بہادر کا کیا کردار رہا ہے اور کیا کردار ہے اس بات سے قطع نظر کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کے اتحادی، اور وہ ہمارے دوست ہیں۔ ان کی نظر صرف اور صرف پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی طرف ہے اور کچھ نہیں۔ اور پاکستان کی سالمیت کی طرف ہے ، کہیں خودکش حملے کرواکے، کہیں فرقہ وارانہ فسادات کرواکے، بلوچستان میں انڈیا کی مدد سے خلفشار پیدا کیا جارہا ہے، بلوچستان میں بے پناہ معدنی ذخائر ہیں، کوئلہ ، گیس، تیل ہے، لیکن ہم ایک انچ زمین بھی اپنی نہیںکھود سکتے، کیونکہ انکل سام سر پر لٹکتی ہوئی تلوارجو ہیں، 1971ء میں بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان) ہم سے الگ ہوا یا کروایا گیا ۔ اب بلوچستان ہاتھوں سے جارہا ہے،یہاں ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے، جب خدا مل سکتا ہے تو پاکستان کی بقاء اور سالمیت کا حل کیوں نہیں مل سکتا، بقول آتش ؎
سر شمع ساں کٹایے پر دم نہ ماریے
منزل ہزار سخت ہو ہمت نہ ہاریے
پاک فوج نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بے پناہ، اور بے لوث قربانیاں دی ہیں اور جب بھی کبھی ملک پر کوئی افتاد آن پڑی ہے توپاک فوج نے ہی سنبھالادیا ہے ، دہشت گردی کے خلاف جنگ چاہے سوات میں ہو، مالا کنڈ، دیر ہو، ہزارہ ہو وزیرستان، سب کو دہشتگردوں کے عقوبت خانوں سے پاک کیا ہے، ان آپریشنز کے رد عمل کے طور پر یہ دہشت گردی کی کارروائیاں ہونے کا جواز ہے۔ یہ میرا اپنا خیال ہے، امریکا بہادر افغانستان میں جنگ ہارگیا ہے، اور دہشت گرد پاکستان میں کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی مثال ہے۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی کا بیان ہے کہ شمالی وزیرستان میں مشترکہ آپریشن فوج اور عوام کو قبول نہیں، فوج اور عوام کی نظر میں مفاد پاکستان پہلے ہے۔ انھوں نے امریکی جنرل سینٹرل کمان کے سربراہ جنرل سیٹس سے کھلے لفظوں میں کہہ دیا کہ مربوط اور مشترکہ کارروائی میں فرق ہے اور ہم فیصلہ اپنی مرضی سے ہی کرینگے بقول اقبال
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیبا کی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روبا ہی
ہمارے یہاں کیا سیکیورٹی خدشات ہیں اور اگر ہیں تو ان کو دور کیوں نہیں کیا جاتا، کراچی میں مہران نیول بیس پر حملہ اور کامرہ منہاس ایئر بیس پر حملہ ایک ہی سا واقعہ معلوم ہوتا ہے، سلام ہے ایئر فورس کے کمانڈوز کو جنھوں نے مٹھی بھر شر پسندوں کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیے 9 دہشت گرد صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور میرے دو جوان شہادت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے، ادھر کراچی میں بھی ہمارے فوجی بھائی شہید ہوئے تھے۔ یہ دہشت گرد شاید جانتے نہیں ہیں کہ پاکستانی مائیں اپنے بچوں کو شیروں کی طرح پالتی ہیں، اور شیر کی اپنی حفاظت کے لیے کتوں کی ضرورت نہیں ہوتی وہ شیر ہی ہوتا ہے، وہ شیر ہی رہتا ہے ۔
ہمارا قصور کیا ہے ؟ ہمارا قصور صرف اتنا ہے کہ ہم نے کیری لوگر بل اور نیٹو سپلائی پر ناراضگی ظاہر کی تھی، (اپنے کسی شہر میں کچھ ہوجائے تو پورے کا پورا ملک ہی تباہ کیے دیتے ہیں) جس کے بعد پاکستان کے علاقوں پر ڈرون اٹیک شروع ہوگئے، جمہوریت کا راگ الاپنے والے، انسانیت کا پرچار کرنے والے ان لفظوں کے معنوں سے بھی آشنا نہیں، ج سے جمہوریت نہیں ان کے یہاں ج سے جنگ ہے۔
اور الف سے انسانیت نہیں ان کے یہاں الف سے اپنا ہے، ان کا اپنا سب کی ہر چیز اپنی ہے پھر تعامل کیسا،خود امریکا نے ویتنام، یوگنڈا، پیرو، جاپان اور گوانتے ناموبے میں کیا انسانیت سوز مظالم کیے ہیں، عقل حیران ہے کہ ، جدید ترین ٹیکنالوجی والے ملک نے اب تک کوئی ایسی ایجاد نہیں کی جس کی مدد سے اس کو رات میں بھی کچھ نظر آئے، سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کا جواز یہ تھا '' ہمیں رات میں کچھ دکھائی نہیں دیا'' اور میرے وطن کے 26 جوان شہید ہوئے، اور انسانیت کا رونا رونے والوں نے معافی تک نہیں مانگی، کیوں مانگیں معافی وہ ، ان سے لے کر کھانا چھوڑ دیں سب، بقول راز
یہ بزدلی کی علامت ہے دھیان میں رکھنا
بہادر آدمی ہوتا نہیں کبھی سفاک
رحمن ملک صاحب کا بیان تھا کہ عید کے بعد اور عید پر دہشت گردی کی کارروائیاں ہوسکتی ہیں، انھوں نے موبائل فونز کے نیٹ ورکز بند کرکے اچھا اقدام کیا۔ برائے کرم آپ حکومت میں ہیں، وعدوں اور دعوئوں سے باہر نکلیے، آپ خود ہی فرمارہے ہیں شمالی و جنوبی وزیرستان درد سر بنے ہوئے ہیں، جلد از جلد کچھ کرنا ہوگا۔ میرا آپ سب سے ایک سوال ہے ؟ کیا آپ کوئل کو پابند سلاسل کرسکتے ہیں، کرکے دیکھیے، نتیجہ خود دیکھ لیجیے گا، کوئل نہ کوکے گی نہ ہی چہچہائے گی، وہ مرجائے گی، پاکستان کو آزاد ہی رہنے دیں پھر دیکھیں، 65% نوجوان پاکستان کو کن بلندیوں پر لے کر جاتے ہیں۔ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔