مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
پاکستان کو دولخت کرنے کی اصل ذمے دار بھی لسانی عصبیت ہے
HENDU KALACHEH, AFGHANISTAN:
ہمارے خیال میں سیاست اور بالخصوص عصرِ حاضر کی سیاست اور شرافت کا آگ اور پانی کا بیر ہے۔ یہ اور بات ہے کہ نام کے شریف گیسوئے لیلیٰ کے ازلی اسیر ہیں۔ دراصل موجودہ دور کی سیاست نام اور مال کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ہے ادب شرط منہ نہ کھلوائیں۔ سیاست وہ سب سے کامیاب کاروبار ہے کہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کتنے ہی ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے۔
آخر وہ لوگ جو کروڑوں روپے خرچ کرکے ایم این اے کا الیکشن لڑتے ہیں وہ کوئی پاگل تو نہیں ہیں اور اگر قسمت کی دیوی کسی ایم این اے پر مہربان ہوجائے اور وہ وزیر بن جائے تو بس سمجھو کہ اس کی تو لاٹری ہی نکل آئی۔ ہماری گنہگار آنکھوں نے بہت سے ایروں غیروں نتھو خیروں کو کیا سے کیا ہوتے ہوئے دیکھا ہے، مگر اس کے باوجود اپنا حال یہی ہے کہ:
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
کچھ طبیعت ادھر نہیں آتی
جی ہاں دورِ حاضر کی سیاست ہمارے مزاج سے میل نہیں کھاتی۔ پچھلے دور کی سیاست شرافت اور خدمت سے عبارت تھی جسے کم و بیش عبادت کا درجہ حاصل تھا۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی سیاست کے شیر تھے تو مولانا ظفر علی خان کو صحافت کا شیر ہونے کا مرتبہ حاصل تھا۔ جی ہاں! یہ وہ شیر تھے کہ بقول اقبال:
اﷲ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
تمام کے تمام لوگ بشمول قائداعظم محمد علی جناح،
علامہ اقبال اور لیاقت علی خان وغیرہ کھری اور صاف ستھری سیاست کے علمبردار تھے جس کا اعتراف ان کے حلیفوں ہی کو نہیں بلکہ بدترین حریفوں کو بھی تھا۔ ہم ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جنھوں نے ان اکابرین کی ہلکی سی جھلک دیکھی ہوئی ہے۔ ان تمام حضرات کے نزدیک سیاست منافع کمانے کا نہیں بلکہ سراسر خسارے کا سودا تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ نواب زادہ لیاقت علی خان کا شمار اپنے وقت کے بڑے بڑے نوابوں میں ہوتا تھا لیکن انھوں نے وطنِ عزیز پاکستان پر اپنا سب کچھ قربان کردیا حتیٰ کہ اپنی جانِ عزیز بھی نچھاور کردی۔
اس کے بعد پاکستانی سیاست اور قیادت ایسے لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی جن کا مقصدِ حیات ہی مال کمانا اور اس مملکت خداداد کو لوٹ لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرنا تھا۔ اگرچہ ابتری کے اس دور میں بھی سیاست کے میدان میں کچھ اچھے لوگ موجود تھے لیکن کھوٹے سکّوں کی اکثریت نے ان کھرے سکّوں کی ایک نہ چلنے دی۔
پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کی رکنیت ایک زمانے میں بڑے اعزاز کی بات سمجھی جاتی تھی لیکن پھر کچھ ایسا زوال آیا کہ اس بے چاری کے بطن سے طرح طرح کی لیگیں جنوائی گئیں اور یوں محسوس ہونے لگا جیسے اردو زبان کے ہر حرف تہجی کے ساتھ ایک نہ ایک مسلم لیگ وابستہ ہوجائے گی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ''جدا ہوویں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی'' کی آڑ لے کر بعض دینی جماعتیں بھی سیاسی اکھاڑے میں اتر آئیں۔ ان میں وہ جماعتیں بھی شامل ہیں جنھیں قیامِ پاکستان کی مخالف کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ نہ معلوم سیاست کی کشش تھی یا کیا تھا کہ ایک انتہائی نیک نام دینی جماعت نے بھی میدانِ سیاست میں کودنے کا فیصلہ کرلیا، جس کے نتیجے میں اسے اپنے بعض جواہر پاروں کی علیحدگی کا صدمہ بھی جھیلنا پڑا۔
پاکستان کی دائیں بازو کی جماعتوں کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ وہ اﷲ ایک، نبی ایک اور قرآن ایک ہونے کے باوجود اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے میں ہی ضایع ہوگئیں۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو شاید پاکستان کی سیاست کا یہ حال نہ ہوا ہوتا کہ بقولِ شاعر:
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گِھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
دوسری جانب بائیں بازو کی جماعتیں تھیں، جن کے نظریات اور منشور بھی مستعار تھے، جنھیں اگر مانگے کا سودا کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا مگر کوشش بسیار کے باوجود یہ بھی اپنے قدم جمانے میں کامیابی حاصل نہ کرسکیں جس کے نتیجے میں ان کا وجود بھی برائے نام رہ گیا۔ اس کے علاوہ بعض علاقائی جماعتیں معرضِ وجود میں آئیں جو لسانی حدود میں مقید ہونے کے باعث ملک گیر پذیرائی حاصل نہ کرسکیں۔ بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لسانیت کے فتنے نے پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان کو دولخت کرنے کی اصل ذمے دار بھی یہی لسانی عصبیت ہے جو کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتی ہی جارہی ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر برصغیر کے مسلمانوں کی رگوں میں لسانیت کا زہر پھیلا ہوا ہوتا تو یہ ملک معرضِ وجود ہی میں نہ آیا ہوتا۔ دراصل لسانیت اور فرقہ واریت دو ایسی خون آشام جونکیں ہیں جو پاکستانی قوم ہی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا خون چوس رہی ہیں۔ اسی لیے تو علامہ اقبال نے خبردار کیا تھا کہ:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
مگر افسوس صد افسوس کہ شاعرِ ملت کی یہ آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی اور ہم نے اب تک بھی ہوش کے ناخن نہیں لیے ہیں۔
قصّہ کوتاہ پاکستان کی سیاست وہ رضیہ ہے جو بے چاری غنڈوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ اور جس کی رہائی کے دور پرے تک کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ اگرچہ میڈیا نے گزشتہ چند سال کے عرصے میں پاکستانی عوام کو انتہائی باشعور بنادیا ہے لیکن ملک کا سیاسی منظرنامے ابھی تک انتشار، خلفشار اور مایوسی کا شکار ہے۔ ایک جانب حکمراں پیپلز پارٹی ہے جس کی اصل شکل و صورت مسخ اور شناخت گم ہوچکی ہے۔ لگتا ہے کہ یہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے ہی نہیں جس کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی اور جس کی آبیاری ان کی لائق و فائق دخترِ نیک اختر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے کی تھی۔
غور و فکر کا مقام ہے کہ ضیاء الحق کی کابینہ میں شامل ہونے والے سیاستدان بعد میں اس پارٹی میں شامل ہو گئے۔یوسف رضا گیلانی بھی ان میں شامل ہیں۔ بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں بانٹنے والے بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ شہید بے نظیر کے قاتلوں کی تلاش کا کام مکمل نہیں ہوا۔حکومت کو اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے اور کسی نہ کسی طرح آیندہ عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی زیادہ فکر ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما ہیں جو آیندہ اقتدار کے حصول کے لیے بے تاب ہیں جب کہ انھیں ایک صوبے کے مسائل پر قابو پانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان سب سے الگ عمران خان کی تحریکِ انصاف ہے جو گھپ اندھیرے میں امید کی ایک روشن کرن بن کر ابھری تھی لیکن جس پر اب دیگر پارٹیوں کے منحرفین نے بری طرح غلبہ حاصل کرلیا ہے۔
ہمارے خیال میں سیاست اور بالخصوص عصرِ حاضر کی سیاست اور شرافت کا آگ اور پانی کا بیر ہے۔ یہ اور بات ہے کہ نام کے شریف گیسوئے لیلیٰ کے ازلی اسیر ہیں۔ دراصل موجودہ دور کی سیاست نام اور مال کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ہے ادب شرط منہ نہ کھلوائیں۔ سیاست وہ سب سے کامیاب کاروبار ہے کہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کتنے ہی ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے۔
آخر وہ لوگ جو کروڑوں روپے خرچ کرکے ایم این اے کا الیکشن لڑتے ہیں وہ کوئی پاگل تو نہیں ہیں اور اگر قسمت کی دیوی کسی ایم این اے پر مہربان ہوجائے اور وہ وزیر بن جائے تو بس سمجھو کہ اس کی تو لاٹری ہی نکل آئی۔ ہماری گنہگار آنکھوں نے بہت سے ایروں غیروں نتھو خیروں کو کیا سے کیا ہوتے ہوئے دیکھا ہے، مگر اس کے باوجود اپنا حال یہی ہے کہ:
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
کچھ طبیعت ادھر نہیں آتی
جی ہاں دورِ حاضر کی سیاست ہمارے مزاج سے میل نہیں کھاتی۔ پچھلے دور کی سیاست شرافت اور خدمت سے عبارت تھی جسے کم و بیش عبادت کا درجہ حاصل تھا۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی سیاست کے شیر تھے تو مولانا ظفر علی خان کو صحافت کا شیر ہونے کا مرتبہ حاصل تھا۔ جی ہاں! یہ وہ شیر تھے کہ بقول اقبال:
اﷲ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
تمام کے تمام لوگ بشمول قائداعظم محمد علی جناح،
علامہ اقبال اور لیاقت علی خان وغیرہ کھری اور صاف ستھری سیاست کے علمبردار تھے جس کا اعتراف ان کے حلیفوں ہی کو نہیں بلکہ بدترین حریفوں کو بھی تھا۔ ہم ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جنھوں نے ان اکابرین کی ہلکی سی جھلک دیکھی ہوئی ہے۔ ان تمام حضرات کے نزدیک سیاست منافع کمانے کا نہیں بلکہ سراسر خسارے کا سودا تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ نواب زادہ لیاقت علی خان کا شمار اپنے وقت کے بڑے بڑے نوابوں میں ہوتا تھا لیکن انھوں نے وطنِ عزیز پاکستان پر اپنا سب کچھ قربان کردیا حتیٰ کہ اپنی جانِ عزیز بھی نچھاور کردی۔
اس کے بعد پاکستانی سیاست اور قیادت ایسے لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی جن کا مقصدِ حیات ہی مال کمانا اور اس مملکت خداداد کو لوٹ لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرنا تھا۔ اگرچہ ابتری کے اس دور میں بھی سیاست کے میدان میں کچھ اچھے لوگ موجود تھے لیکن کھوٹے سکّوں کی اکثریت نے ان کھرے سکّوں کی ایک نہ چلنے دی۔
پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کی رکنیت ایک زمانے میں بڑے اعزاز کی بات سمجھی جاتی تھی لیکن پھر کچھ ایسا زوال آیا کہ اس بے چاری کے بطن سے طرح طرح کی لیگیں جنوائی گئیں اور یوں محسوس ہونے لگا جیسے اردو زبان کے ہر حرف تہجی کے ساتھ ایک نہ ایک مسلم لیگ وابستہ ہوجائے گی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ''جدا ہوویں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی'' کی آڑ لے کر بعض دینی جماعتیں بھی سیاسی اکھاڑے میں اتر آئیں۔ ان میں وہ جماعتیں بھی شامل ہیں جنھیں قیامِ پاکستان کی مخالف کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ نہ معلوم سیاست کی کشش تھی یا کیا تھا کہ ایک انتہائی نیک نام دینی جماعت نے بھی میدانِ سیاست میں کودنے کا فیصلہ کرلیا، جس کے نتیجے میں اسے اپنے بعض جواہر پاروں کی علیحدگی کا صدمہ بھی جھیلنا پڑا۔
پاکستان کی دائیں بازو کی جماعتوں کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ وہ اﷲ ایک، نبی ایک اور قرآن ایک ہونے کے باوجود اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے میں ہی ضایع ہوگئیں۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو شاید پاکستان کی سیاست کا یہ حال نہ ہوا ہوتا کہ بقولِ شاعر:
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گِھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
دوسری جانب بائیں بازو کی جماعتیں تھیں، جن کے نظریات اور منشور بھی مستعار تھے، جنھیں اگر مانگے کا سودا کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا مگر کوشش بسیار کے باوجود یہ بھی اپنے قدم جمانے میں کامیابی حاصل نہ کرسکیں جس کے نتیجے میں ان کا وجود بھی برائے نام رہ گیا۔ اس کے علاوہ بعض علاقائی جماعتیں معرضِ وجود میں آئیں جو لسانی حدود میں مقید ہونے کے باعث ملک گیر پذیرائی حاصل نہ کرسکیں۔ بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لسانیت کے فتنے نے پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان کو دولخت کرنے کی اصل ذمے دار بھی یہی لسانی عصبیت ہے جو کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتی ہی جارہی ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر برصغیر کے مسلمانوں کی رگوں میں لسانیت کا زہر پھیلا ہوا ہوتا تو یہ ملک معرضِ وجود ہی میں نہ آیا ہوتا۔ دراصل لسانیت اور فرقہ واریت دو ایسی خون آشام جونکیں ہیں جو پاکستانی قوم ہی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا خون چوس رہی ہیں۔ اسی لیے تو علامہ اقبال نے خبردار کیا تھا کہ:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
مگر افسوس صد افسوس کہ شاعرِ ملت کی یہ آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی اور ہم نے اب تک بھی ہوش کے ناخن نہیں لیے ہیں۔
قصّہ کوتاہ پاکستان کی سیاست وہ رضیہ ہے جو بے چاری غنڈوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ اور جس کی رہائی کے دور پرے تک کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ اگرچہ میڈیا نے گزشتہ چند سال کے عرصے میں پاکستانی عوام کو انتہائی باشعور بنادیا ہے لیکن ملک کا سیاسی منظرنامے ابھی تک انتشار، خلفشار اور مایوسی کا شکار ہے۔ ایک جانب حکمراں پیپلز پارٹی ہے جس کی اصل شکل و صورت مسخ اور شناخت گم ہوچکی ہے۔ لگتا ہے کہ یہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے ہی نہیں جس کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی اور جس کی آبیاری ان کی لائق و فائق دخترِ نیک اختر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے کی تھی۔
غور و فکر کا مقام ہے کہ ضیاء الحق کی کابینہ میں شامل ہونے والے سیاستدان بعد میں اس پارٹی میں شامل ہو گئے۔یوسف رضا گیلانی بھی ان میں شامل ہیں۔ بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں بانٹنے والے بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ شہید بے نظیر کے قاتلوں کی تلاش کا کام مکمل نہیں ہوا۔حکومت کو اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے اور کسی نہ کسی طرح آیندہ عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی زیادہ فکر ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما ہیں جو آیندہ اقتدار کے حصول کے لیے بے تاب ہیں جب کہ انھیں ایک صوبے کے مسائل پر قابو پانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان سب سے الگ عمران خان کی تحریکِ انصاف ہے جو گھپ اندھیرے میں امید کی ایک روشن کرن بن کر ابھری تھی لیکن جس پر اب دیگر پارٹیوں کے منحرفین نے بری طرح غلبہ حاصل کرلیا ہے۔