گھروں میں ریشم کے کیڑوں پالنے کے رحجان میں کمی
غیر معیاری بیج اور ختم ہوتے شہتوت کے درختوں کی وجہ سے ریشم کے کیڑوں کی پرورش نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے
چھانگا مانگا ناصرف پاکستان کے سب سے بڑے مصنوعی جنگل کی وجہ سے مشہور ہے بلکہ یہاں ریشم کے کیڑوں کی پرورش بھی کی جاتی ہے، چھانگامانگا میں پاکستان کا بہترین ریشم تیار ہوتا اور لوگ گھروں میں کیڑے پالتے تھے لیکن غیر معیاری بیج اور ختم ہوتے شہتوت کے درختوں کی وجہ سے آج یہ کام نہ ہونے کے برابررہ گیا ہے۔
لاہور سے تقریباً 75 کلومیٹر دور چھانگامانگا کے علاقہ میں واقع گھرمیں ایک خاتون چارپائی پر رکھے گئے کیڑوں کو پتے کھلانے میں مصروف ہیں۔ یہ خاتون صغری بی بی ہیں، وہ کئی برسوں سے اپنے گھر میں ریشم کے کیڑوں کی پرورش کرتی اور پھر ان سے ریشم کے خول حاصل کرتی ہیں جنہیں مقامی زبان میں ٹوٹی یا کوے کہا جاتا ہے۔ ریشم کے کیڑے پالنے والوں کو 4 سے 5 ہفتوں تک ان کی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے ،انہیں شکوہ ہے کہ اب ریشم کے کیڑوں کا بیج غیر معیاری مل رہا ہے۔
صغری بی بی کہتی ہیں کہ ہم ان کیڑوں کو بچوں کی طرح پالتے ہیں لیکن جب یہ بڑے ہوتے ہیں تو مرنا شروع ہوجاتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ کیڑوں کے لئے جو بیج ملتا ہے وہ غیرمعیاری اورناقص ہے ، آدھے سے زیادہ کیڑے مرجاتے ہیں۔
کیڑوں کی بنائی گئی ریشم کی ان ٹوٹیوں سے پھرریشم حاصل کیا جاتا ہے ،چھانگامانگا میں کبھی ہرتیسرے گھرمیں ریشم کی بنائی کا کام ہوتاتھا مگر آج چند ایک اڈے ہی نظرآتے ہیں، ریشم کے اس خول یعنی ٹوٹی کو گرم پانی میں ڈالا جاتا ہے ،پھر ان سے نکلنے والے ریشوں کو دیسی ساختہ مشین کی مدد سے اکھٹا کرکے دھاگہ حاصل کیا جاتا ہے، ایک کلو ٹوٹیوں سے تقریبا 1200 گرام ریشم حاصل ہوتا ہے ،خراب ہونیوالے دھاگے کو بھی قابل استعمال بنایا جاتاہے،یہاں انتہائی قیمتی اورمعیاری دھاگا تیار ہوتا ہے۔
ایک کاریگر امتیازنے بتایا وہ گزشتہ 23 سال سے یہ کام کررہے ہیں ، وہ دوسروں کے لئے ریشم تیارکرتے ہیں لیکن ان کے اپنے بچے ریشم سے بنے کپڑے پہننے کا تصور بھی نہیں کرسکتے کیونکہ یہ بہت مہنگا ہوتا ہے۔ ایک اور کاریگر محمد یاسین کہتے ہیں کہ
چھانگا مانگا کے ہر تیسرے گھر میں کبھی ریشم کے کیڑے پالے جاتے تھے اوران سے ریشم تیارہوتا تھا لیکن وہ یہاں چند لوگ ہی باقی بچے ہیں جو یہ کام کرتے ہیں۔
ریشم کے یہ کیڑے شہتوت کے پتے کھاتے اور زیادہ عرصہ سوئے رہتے ہیں آخری اسٹیج میں یہ اپنے جسم سے ریشہ خارج کرتے اور پھر خود کو ریشم کی اس خول میں قید کرلیتے ہیں، ریشم کی اس ٹوٹی کو جب گرم پانی میں ڈال کر ان سے ریشم حاصل کیا جاتا ہے تو یہ کیڑا مرجاتا ہے، یوں ریشم کے یہ ہزاروں کیڑے اپنی جان دیکرانسان کو پہننے کے لئے ریشم دیتے ہیں۔
دوسری طرف محکمہ جنگلات کے حکام کا کہنا ہے کہ ملک بھر کے مختلف علاقے جات میں دس ہزار کے قریب خاندان ریشم کے کیڑوں کی پرورش کے کام سے منسلک ہیں اور تقریباً 700 ٹن ریشم کے کوئے پیدا کر کے 7 کروڑ روپے سے زائد کی سالانہ آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔ حکام کے مطابق ریشم سازی کی صنعت کو فروغ دے کر نہ صرف بھاری زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے بلکہ اس سے ملک میں بے روز گاری پر قابو پانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ یہ ایک گھریلو صنعت ہے جسے لوگ آسانی سے اختیار کر سکتے ہیں۔ پنجاب میں اس وقت سب سے زیادہ ریشم کے کیڑوں کی افزائش سانگلہ ہل ، چک جھمرہ ، چھانگا مانگا، مٹھا ٹوانہ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقوں میں کی جا رہی ہے۔
لاہور سے تقریباً 75 کلومیٹر دور چھانگامانگا کے علاقہ میں واقع گھرمیں ایک خاتون چارپائی پر رکھے گئے کیڑوں کو پتے کھلانے میں مصروف ہیں۔ یہ خاتون صغری بی بی ہیں، وہ کئی برسوں سے اپنے گھر میں ریشم کے کیڑوں کی پرورش کرتی اور پھر ان سے ریشم کے خول حاصل کرتی ہیں جنہیں مقامی زبان میں ٹوٹی یا کوے کہا جاتا ہے۔ ریشم کے کیڑے پالنے والوں کو 4 سے 5 ہفتوں تک ان کی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے ،انہیں شکوہ ہے کہ اب ریشم کے کیڑوں کا بیج غیر معیاری مل رہا ہے۔
صغری بی بی کہتی ہیں کہ ہم ان کیڑوں کو بچوں کی طرح پالتے ہیں لیکن جب یہ بڑے ہوتے ہیں تو مرنا شروع ہوجاتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ کیڑوں کے لئے جو بیج ملتا ہے وہ غیرمعیاری اورناقص ہے ، آدھے سے زیادہ کیڑے مرجاتے ہیں۔
کیڑوں کی بنائی گئی ریشم کی ان ٹوٹیوں سے پھرریشم حاصل کیا جاتا ہے ،چھانگامانگا میں کبھی ہرتیسرے گھرمیں ریشم کی بنائی کا کام ہوتاتھا مگر آج چند ایک اڈے ہی نظرآتے ہیں، ریشم کے اس خول یعنی ٹوٹی کو گرم پانی میں ڈالا جاتا ہے ،پھر ان سے نکلنے والے ریشوں کو دیسی ساختہ مشین کی مدد سے اکھٹا کرکے دھاگہ حاصل کیا جاتا ہے، ایک کلو ٹوٹیوں سے تقریبا 1200 گرام ریشم حاصل ہوتا ہے ،خراب ہونیوالے دھاگے کو بھی قابل استعمال بنایا جاتاہے،یہاں انتہائی قیمتی اورمعیاری دھاگا تیار ہوتا ہے۔
ایک کاریگر امتیازنے بتایا وہ گزشتہ 23 سال سے یہ کام کررہے ہیں ، وہ دوسروں کے لئے ریشم تیارکرتے ہیں لیکن ان کے اپنے بچے ریشم سے بنے کپڑے پہننے کا تصور بھی نہیں کرسکتے کیونکہ یہ بہت مہنگا ہوتا ہے۔ ایک اور کاریگر محمد یاسین کہتے ہیں کہ
چھانگا مانگا کے ہر تیسرے گھر میں کبھی ریشم کے کیڑے پالے جاتے تھے اوران سے ریشم تیارہوتا تھا لیکن وہ یہاں چند لوگ ہی باقی بچے ہیں جو یہ کام کرتے ہیں۔
ریشم کے یہ کیڑے شہتوت کے پتے کھاتے اور زیادہ عرصہ سوئے رہتے ہیں آخری اسٹیج میں یہ اپنے جسم سے ریشہ خارج کرتے اور پھر خود کو ریشم کی اس خول میں قید کرلیتے ہیں، ریشم کی اس ٹوٹی کو جب گرم پانی میں ڈال کر ان سے ریشم حاصل کیا جاتا ہے تو یہ کیڑا مرجاتا ہے، یوں ریشم کے یہ ہزاروں کیڑے اپنی جان دیکرانسان کو پہننے کے لئے ریشم دیتے ہیں۔
دوسری طرف محکمہ جنگلات کے حکام کا کہنا ہے کہ ملک بھر کے مختلف علاقے جات میں دس ہزار کے قریب خاندان ریشم کے کیڑوں کی پرورش کے کام سے منسلک ہیں اور تقریباً 700 ٹن ریشم کے کوئے پیدا کر کے 7 کروڑ روپے سے زائد کی سالانہ آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔ حکام کے مطابق ریشم سازی کی صنعت کو فروغ دے کر نہ صرف بھاری زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے بلکہ اس سے ملک میں بے روز گاری پر قابو پانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ یہ ایک گھریلو صنعت ہے جسے لوگ آسانی سے اختیار کر سکتے ہیں۔ پنجاب میں اس وقت سب سے زیادہ ریشم کے کیڑوں کی افزائش سانگلہ ہل ، چک جھمرہ ، چھانگا مانگا، مٹھا ٹوانہ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقوں میں کی جا رہی ہے۔