سبز ہلالی پرچم اور مزاح…
قامی پرچم کے رنگوں کو پکا کرنے کے لیے اس میں خلوصِ دل، ایثار اور سخت محنت اور عزم کی چاشنی بھی چاہیے
کچھ عرصے پہلے ایک ٹی وی چینل سے قومی دن کے حوالے سے پروگرام دیکھا۔ پروگرام کیونکہ قومی دن اور قومی شخصیات کے حوالے سے تھا، لہٰذا میزبان پروگرام میں مدعو مہمانوں سے اسی سے متعلق سوالات کررہے تھے۔ ہماری ایک پیاری سی فلمی اداکارہ جو سمجھتی کم اور مسکراتی زیادہ ہیں، میزبان ان سے پوچھ بیٹھے کہ آپ کا ہمارے نیشنل ہیروز کے بارے میں کیا خیال ہے؟ محترمہ نے پہلے ذرا سمجھنے کی کوشش کی، لیکن کیا کیا جائے کہ ان کی سمجھ دانی میں اِتنا ہی آسکتا تھا۔ میزبان بے چارے نے ان کی آسانی کے لیے نیشنل ہیرو کا ترجمہ اردو میں بھی کر ڈالا لیکن موصوفہ کی... خیر، مسکراتی ہوئی نیشنل ہیرو سے فلمی ہیرو تک کا سفر پل بھر میں کر ڈالا۔
فرمانے لگیں، ہمارے بہت اچھے اچھے آرٹسٹ ہیں جیسے ...، اس سے پہلے کہ وہ مزید اپنی معلومات ناظرین سے شیئر کرتیں، میزبان کے چہرے پر کئی رنگ جھٹ پٹ آئے اور چلے گئے۔ یقیناً انھوں نے اپنے چکراتے سر کو بہ مشکل تھاما ہوگا۔ خدا بھلا کرے ان کا، عزت رکھ لی انھوں نے اور بات ایسے گھمائی جیسے ہمارے سیاستدان گھماتے ہیں، یعنی بات دہشت گردوں سے نمٹنے کی ہو تو پہنچ جاتے ہیں موصوف موبائل فونز تک۔
قومی پرچم ہو، قومی ترانہ ہو یا ہمارے قومی ہیروز ہوں، یہ سب کتنی عزت اور احترام کے مستحق ہیں، ہم میں سے اکثر واقف نہیں ہیں۔ ہمارے کتنے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے اراکین واقف ہوں گے کہ قومی ترانہ کس نے تحریر کیا، مولانا شبیر احمد عثمانی کون تھے، قائداعظم وزیراعظم تھے یا گورنر جنرل اور گورنر جنرل تھے تو کیوں؟ چوہدری رحمت علی کون تھے، نظریۂ پاکستان کس نظریے پر مبنی تھا، پیر الٰہی بخش کون تھے، شاید پیر کالونی میں بسنے والے بھی واقف نہ ہوں۔ خواجہ ناظم الدین نے کیا کیا تھا، شاید ناظم آباد میں برسوں سے رہنے والے بھی نہ جانتے ہوں لیکن ان قومی ہیروز کی عزّت کرنا ہمارا فرض ہے، اتنا تو ہم سب کو علم ہونا ہی چاہیے۔
کبھی ایک واقعہ سنا تھا کہ چین میں کسی بلڈنگ میں آگ لگ گئی تھی۔ ایک لڑکا بلڈنگ کی اوپری منزل پر تھا، سب کچھ بری طرح جل رہا تھا، لڑکے کو کسی مال و اسباب کی فکر نہ تھی، اسے فکر تھی تو اپنے نیشنل ہیرو کی تصویر کی کہ کہیں وہ جل نہ جائے۔ لڑکے کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو اس نے اپنا پیٹ چاقو سے چیرا اور اپنے نیشنل ہیرو کی تصویر اس میں رکھ کر خود بلڈنگ سے کود گیا۔ اس طرح خود وہ تو جان سے گیا لیکن اپنے لیڈر کی تصویر کو آنچ نہ آنے دی۔
اب یہ واقعہ سچّا تھا یا جھوٹا، خدا جانے! لیکن حال ہی میں بھارت کے مشہور فلمی اداکار شاہ رخ خان پر قومی پرچم کی بے حرمتی کے حوالے سے باقاعدہ لوک جن شکتی پارٹی کے نیشنل سیکریٹری روی برہمی نے 14 اگست کو ایکٹ 1971 کے تحت شکایت درج کی، جسے شاہ رخ خان جیسے بڑے فنکار کے لیے ہم جیسے لوگ یہ کہہ کر ہزار صلواتیں روی برہمی کو سناسکتے ہیں کہ کیونکہ شاہ رخ خان مسلمان ہیں، لہٰذا روی برہمی نے اپنا عناد نکالا، لیکن ان ہی موصوف نے ممبئی کی ہی ایک ماڈل گہنا وشسٹ کے خلاف بھی مقدمہ درج کروایا۔
ان کا کہنا تھا کہ گہنا نے قومی پرچم کی بے حرمتی کی اور اسے بکنی کے طور پر پہنا۔ دکن جیم خانہ پولیس نے ماڈل کو 18 اگست کو دھر لیا اور دوسرے دن ضمانت پر اسے رہا کردیا۔ اب کوئی گہنا کے دل سے پوچھتا کہ اس کے دل میں اپنے قومی پرچم کے لیے کتنی عزت ہے۔ ویسے گہنا مسلمان نہیں ہیں، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ روی برہمی اپنی سیاسی ذمے داریاں پوری کرنے کے علاوہ عوام النّاس پر نظر رکھتے ہوں کہ کون قومی حوالے سے کس الزام کا مستحق ہوسکتا ہے۔ ویسے کچھ عرصے پہلے ہی بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا بھی اس حوالے سے بڑی خبروں میں سرگرم رہیں۔
ان کی ایک تصویر میں جس میں قومی پرچم ان کے قدموں میں لہرارہا تھا، ان کے لیے قیامت بن گیا۔ غلطی پرچم لہرانے والے کی نہ تھی بلکہ ثانیہ جی کی تھی کہ انھوں نے ذرا پیر پسارنے میں تساہل سے کام لیا اور قومی پرچم کو نہیں دیکھا، لیکن عقابی نظروں سے نہ بچ سکیں۔
حال ہی میں ہمارے اپنے ملک میں ایک نوجوان زبیر بلوچ کو بھی شہید کردیا گیا، جس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے 14 اگست کو سبز ہلالی پرچم اپنے گھر پر لہرایا تھا، جس پر اسے تنبیہہ کی گئی لیکن نوجوان نہ مانا اور سزا کے طور پر اس کی جان لے لی گئی۔ قومی پرچم کسی بھی ملک کے لیے بہت اہم ہوتا ہے اور عزت و تکریم کا مستحق ہوتا ہے۔ اس پرچم کی شان بڑھانے کے لیے وطن سے محبت کرنے والے اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتے، لیکن اس کے رنگوں کو پکا کرنے کے لیے اس میں خلوصِ دل، ایثار اور سخت محنت اور عزم کی چاشنی بھی چاہیے۔ اگر یہ کم ہوجائے تو پرچم کے رنگ خود بخود پھیکے پڑ جاتے ہیں۔
ہمیں بچپن سے ہی سِکھایا جاتا ہے کہ بڑوں کی عزت کرو، ان سے تمیز سے بات کرو، ان سے ادب سے پیش آئو، بڑوں سے زبان نہ چلائو۔ ایسی باتیں ہم اپنے بڑوں سے بچپن سے سنتے آرہے ہیں۔ ہمارے لیے ہمارے سینئرز بھی بہت عزت کے مستحق ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک نیوز چینل سے ہمارے ایک سینئر مزاح نگار کے تحریر کردہ پروگرام کی چند جھلکیاں دیکھنے کا موقع ملا۔ عید کے دوسرے دن غالباً اس کو دہرایا جارہا تھا۔ ہمارے وہ سینئر لکھاری غالباً اسی پروگرام کے پروڈیوسر بھی ہیں۔ کمپیوٹر کی مہارت پر اس پروگرام کا ایک خاکہ کچھ یوں تھا کہ قائداعظم کے مزار کے پاس ایک صاحب تو کسی لباس میں ملبوس قومی پرچم لہرا رہے ہیں۔
بیک گرائونڈ میں قومی نغمہ بھی چل رہا ہے، کچھ ہی لمحوں میں وہ صاحب جنھیں غالباً عوام اخذ کیا گیا تھا، اس قومی پرچم کی جگہ ہاتھ کا پنکھا آگیا،کمپیوٹر کی مہارت بھی دِکھائی گئی۔ صاحب کی آنکھوں میں حیرت عود کر آگئی، پیچھے سے قہقہے ابھرے اور خاکہ ختم، خاکے میں چاہے کچھ بھی ہو موصوف کچھ بھی بتانا چاہ رہے ہوں لیکن کیا ان جیسے بڑے نقاد، ڈاکٹر اور کالم نویس کو یہ زیب دیتا تھا کہ وہ قومی پرچم کو اپنے مزاحیہ خاکوں میں استعمال کریں۔ یہ درست ہے کہ وہ اپنے خاکوں میں بڑے بڑے سیاست دانوں کو کچھ کا کچھ بنادیتے ہیں، جس میں صدر سے لے کر وزیراعظم اور وزیران اور مشیران سب شامل ہوتے ہیں، لیکن قومی پرچم کو کسی بھی حوالے سے مزاح کا جزو بنادینا کچھ طبیعت پر گراں سا گزرا۔ مزاح سے ذرا اتر کر ڈاکٹر صاحب قومی پرچم سے ہاتھ میں ہوا جھلنے کے پنکھے آنے تک کی کس طرح وضاحت دیں گے۔
ان کے ذہن میں پروگرام کے فارمیٹ سے ہٹ کر ایک حسّاس نقطہ کو اس انداز سے چھیڑنا کیا مناسب تھا۔ ہمارے سیاست دان اور صدر سے لے کر وزیرانِ پاکستان کیا کررہے ہیں، کیوں کررہے ہیں، کس لیے کررہے ہیں، ڈھکا چھپا سب پتہ ہی ہے لیکن جس پرچم کی سربلندی کے لیے لوگ اپنا سرکٹا دیتے ہیں۔ کیا اس کے لیے مزاح کی یہ کڑواہٹ درست ہے۔ چھوٹے سے زبیر کے دل میں کتنے ارمان تھے جو اس کے ساتھ ہی چلے گئے۔ کیا ایسے خاموش سرفروشوں کو ہم بھلادیں ڈاکٹر صاحب! جواب ہے آپ کے پاس۔
فرمانے لگیں، ہمارے بہت اچھے اچھے آرٹسٹ ہیں جیسے ...، اس سے پہلے کہ وہ مزید اپنی معلومات ناظرین سے شیئر کرتیں، میزبان کے چہرے پر کئی رنگ جھٹ پٹ آئے اور چلے گئے۔ یقیناً انھوں نے اپنے چکراتے سر کو بہ مشکل تھاما ہوگا۔ خدا بھلا کرے ان کا، عزت رکھ لی انھوں نے اور بات ایسے گھمائی جیسے ہمارے سیاستدان گھماتے ہیں، یعنی بات دہشت گردوں سے نمٹنے کی ہو تو پہنچ جاتے ہیں موصوف موبائل فونز تک۔
قومی پرچم ہو، قومی ترانہ ہو یا ہمارے قومی ہیروز ہوں، یہ سب کتنی عزت اور احترام کے مستحق ہیں، ہم میں سے اکثر واقف نہیں ہیں۔ ہمارے کتنے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے اراکین واقف ہوں گے کہ قومی ترانہ کس نے تحریر کیا، مولانا شبیر احمد عثمانی کون تھے، قائداعظم وزیراعظم تھے یا گورنر جنرل اور گورنر جنرل تھے تو کیوں؟ چوہدری رحمت علی کون تھے، نظریۂ پاکستان کس نظریے پر مبنی تھا، پیر الٰہی بخش کون تھے، شاید پیر کالونی میں بسنے والے بھی واقف نہ ہوں۔ خواجہ ناظم الدین نے کیا کیا تھا، شاید ناظم آباد میں برسوں سے رہنے والے بھی نہ جانتے ہوں لیکن ان قومی ہیروز کی عزّت کرنا ہمارا فرض ہے، اتنا تو ہم سب کو علم ہونا ہی چاہیے۔
کبھی ایک واقعہ سنا تھا کہ چین میں کسی بلڈنگ میں آگ لگ گئی تھی۔ ایک لڑکا بلڈنگ کی اوپری منزل پر تھا، سب کچھ بری طرح جل رہا تھا، لڑکے کو کسی مال و اسباب کی فکر نہ تھی، اسے فکر تھی تو اپنے نیشنل ہیرو کی تصویر کی کہ کہیں وہ جل نہ جائے۔ لڑکے کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو اس نے اپنا پیٹ چاقو سے چیرا اور اپنے نیشنل ہیرو کی تصویر اس میں رکھ کر خود بلڈنگ سے کود گیا۔ اس طرح خود وہ تو جان سے گیا لیکن اپنے لیڈر کی تصویر کو آنچ نہ آنے دی۔
اب یہ واقعہ سچّا تھا یا جھوٹا، خدا جانے! لیکن حال ہی میں بھارت کے مشہور فلمی اداکار شاہ رخ خان پر قومی پرچم کی بے حرمتی کے حوالے سے باقاعدہ لوک جن شکتی پارٹی کے نیشنل سیکریٹری روی برہمی نے 14 اگست کو ایکٹ 1971 کے تحت شکایت درج کی، جسے شاہ رخ خان جیسے بڑے فنکار کے لیے ہم جیسے لوگ یہ کہہ کر ہزار صلواتیں روی برہمی کو سناسکتے ہیں کہ کیونکہ شاہ رخ خان مسلمان ہیں، لہٰذا روی برہمی نے اپنا عناد نکالا، لیکن ان ہی موصوف نے ممبئی کی ہی ایک ماڈل گہنا وشسٹ کے خلاف بھی مقدمہ درج کروایا۔
ان کا کہنا تھا کہ گہنا نے قومی پرچم کی بے حرمتی کی اور اسے بکنی کے طور پر پہنا۔ دکن جیم خانہ پولیس نے ماڈل کو 18 اگست کو دھر لیا اور دوسرے دن ضمانت پر اسے رہا کردیا۔ اب کوئی گہنا کے دل سے پوچھتا کہ اس کے دل میں اپنے قومی پرچم کے لیے کتنی عزت ہے۔ ویسے گہنا مسلمان نہیں ہیں، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ روی برہمی اپنی سیاسی ذمے داریاں پوری کرنے کے علاوہ عوام النّاس پر نظر رکھتے ہوں کہ کون قومی حوالے سے کس الزام کا مستحق ہوسکتا ہے۔ ویسے کچھ عرصے پہلے ہی بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا بھی اس حوالے سے بڑی خبروں میں سرگرم رہیں۔
ان کی ایک تصویر میں جس میں قومی پرچم ان کے قدموں میں لہرارہا تھا، ان کے لیے قیامت بن گیا۔ غلطی پرچم لہرانے والے کی نہ تھی بلکہ ثانیہ جی کی تھی کہ انھوں نے ذرا پیر پسارنے میں تساہل سے کام لیا اور قومی پرچم کو نہیں دیکھا، لیکن عقابی نظروں سے نہ بچ سکیں۔
حال ہی میں ہمارے اپنے ملک میں ایک نوجوان زبیر بلوچ کو بھی شہید کردیا گیا، جس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے 14 اگست کو سبز ہلالی پرچم اپنے گھر پر لہرایا تھا، جس پر اسے تنبیہہ کی گئی لیکن نوجوان نہ مانا اور سزا کے طور پر اس کی جان لے لی گئی۔ قومی پرچم کسی بھی ملک کے لیے بہت اہم ہوتا ہے اور عزت و تکریم کا مستحق ہوتا ہے۔ اس پرچم کی شان بڑھانے کے لیے وطن سے محبت کرنے والے اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتے، لیکن اس کے رنگوں کو پکا کرنے کے لیے اس میں خلوصِ دل، ایثار اور سخت محنت اور عزم کی چاشنی بھی چاہیے۔ اگر یہ کم ہوجائے تو پرچم کے رنگ خود بخود پھیکے پڑ جاتے ہیں۔
ہمیں بچپن سے ہی سِکھایا جاتا ہے کہ بڑوں کی عزت کرو، ان سے تمیز سے بات کرو، ان سے ادب سے پیش آئو، بڑوں سے زبان نہ چلائو۔ ایسی باتیں ہم اپنے بڑوں سے بچپن سے سنتے آرہے ہیں۔ ہمارے لیے ہمارے سینئرز بھی بہت عزت کے مستحق ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک نیوز چینل سے ہمارے ایک سینئر مزاح نگار کے تحریر کردہ پروگرام کی چند جھلکیاں دیکھنے کا موقع ملا۔ عید کے دوسرے دن غالباً اس کو دہرایا جارہا تھا۔ ہمارے وہ سینئر لکھاری غالباً اسی پروگرام کے پروڈیوسر بھی ہیں۔ کمپیوٹر کی مہارت پر اس پروگرام کا ایک خاکہ کچھ یوں تھا کہ قائداعظم کے مزار کے پاس ایک صاحب تو کسی لباس میں ملبوس قومی پرچم لہرا رہے ہیں۔
بیک گرائونڈ میں قومی نغمہ بھی چل رہا ہے، کچھ ہی لمحوں میں وہ صاحب جنھیں غالباً عوام اخذ کیا گیا تھا، اس قومی پرچم کی جگہ ہاتھ کا پنکھا آگیا،کمپیوٹر کی مہارت بھی دِکھائی گئی۔ صاحب کی آنکھوں میں حیرت عود کر آگئی، پیچھے سے قہقہے ابھرے اور خاکہ ختم، خاکے میں چاہے کچھ بھی ہو موصوف کچھ بھی بتانا چاہ رہے ہوں لیکن کیا ان جیسے بڑے نقاد، ڈاکٹر اور کالم نویس کو یہ زیب دیتا تھا کہ وہ قومی پرچم کو اپنے مزاحیہ خاکوں میں استعمال کریں۔ یہ درست ہے کہ وہ اپنے خاکوں میں بڑے بڑے سیاست دانوں کو کچھ کا کچھ بنادیتے ہیں، جس میں صدر سے لے کر وزیراعظم اور وزیران اور مشیران سب شامل ہوتے ہیں، لیکن قومی پرچم کو کسی بھی حوالے سے مزاح کا جزو بنادینا کچھ طبیعت پر گراں سا گزرا۔ مزاح سے ذرا اتر کر ڈاکٹر صاحب قومی پرچم سے ہاتھ میں ہوا جھلنے کے پنکھے آنے تک کی کس طرح وضاحت دیں گے۔
ان کے ذہن میں پروگرام کے فارمیٹ سے ہٹ کر ایک حسّاس نقطہ کو اس انداز سے چھیڑنا کیا مناسب تھا۔ ہمارے سیاست دان اور صدر سے لے کر وزیرانِ پاکستان کیا کررہے ہیں، کیوں کررہے ہیں، کس لیے کررہے ہیں، ڈھکا چھپا سب پتہ ہی ہے لیکن جس پرچم کی سربلندی کے لیے لوگ اپنا سرکٹا دیتے ہیں۔ کیا اس کے لیے مزاح کی یہ کڑواہٹ درست ہے۔ چھوٹے سے زبیر کے دل میں کتنے ارمان تھے جو اس کے ساتھ ہی چلے گئے۔ کیا ایسے خاموش سرفروشوں کو ہم بھلادیں ڈاکٹر صاحب! جواب ہے آپ کے پاس۔