’’ون‘‘اور ٹو ان ون
جوڑے میں ایک’’ون‘‘ دب جاتاہے اور دوسرا کچھ زیادہ ہی فعال ہوتاجاتاہے
ہمارا پکاپکا تجربہ ہے اور آپ بھی اگر... دوسروں کو سدھارنے اور دنیا کو راہ راست پر لانے سے۔تھوڑی فرصت نکال سکیں تو معلوم کرسکتے ہیں کہ اس دنیا میں جوکچھ بھی ہے وہ سب کچھ''ٹوان ون'' ہیں یا ''ٹوان ون''شکل میں ہیں یہی توفرق ہے خالق اورمخلوق کا ہے کہ اس پورے سلسلہ تخلیق میں صرف ایک''خالق'' ہی ''ون''ہے باقی ساری مخلوقات ''ٹوان ون''ہوتی ہیں بات سنجیدہ ہونے کے لیے معافی چاہتے ہیں کیونکہ اس ملک میں عرصہ سترسال سے سنجیدگی کو ممنوع قرار دیا جا چکا ہے اور عقل کی جگہ پر حماقتوں، پھکڑپن اور نوٹنکیاں رائج کی گئی ہیں۔
یہ نوٹنکی اور مذاق نہیں تو اور کیاہے کہ یہاں وہاں ناک رگڑ رگڑ،چوکھٹوں پرماتھا گھساگھساکر اور طرح طرح کی شرطیںپوری کرکے بھیک میں بھاری سود پر کشکول بھرا جائے اور یہاں آکر اس سیکم پر یہ سپورٹ وہ سپورٹ،یہ کارڈ وہ کارڈ اور اب تو پورے پورے گھر برات کی مونگ پھلیوں کی طرح پھینکاجائے۔ تاریخ کا ایک واقعہ یاد آیا عباسی خلیفہ منصور کی عظیم خاتون اول ملکہ خیرزان کے بیٹے کی شادی تھی شاید ''امین'' کی۔تو ملکہ عالم کویہ بات بالکل اچھی نہیں لگی کہ دوسری عام ملکاوں کی طرح بارات پر اشرفیا یا سکے یا ہیرے جواہرات پھینکے جائیں یہ میرے سٹنیڈر سے بہت کم ہے،چنانچہ اس نے ایک نئی تکینک پاکستانیت ایجاد کی۔بارات پر کسی سکے یا ہیرے موتی پر لپیٹ کرکاغذ کی گولیاں پھینکیں اور نوٹ کرا دیاگیا کہ کاغذ کی پرچی پڑھ لی جائے۔اور ان پرچیوں میں جب دیکھاگیا تو کسی میں کوئی اور کسی میں کوئی عہدہ یاجاگیر یا بستی درج تھی اور جسے وہ پرچی ملی وہ عہدہ وہ منصب وہ جاگیر وہ جائیداد اس کے نام کردی گئی تھی۔ محققین مورخین دانا دانشوروں نے ملکہ عالم کی اس ایجاد پراس کی سخاوت پر اورحکومت کی مالی حالت پر بہت سارے حاشیے چڑھائے ہیں لیکن یہ کسی نے نہیں بتایاہے کہ وہ جاگیریں جائیدادیں عہدے مراتب اور دولتیں ملکہ اپنے باپ کے گھر سے لائی تھی یا اس نے کہیں مزدوری ملازمت یاخدمت کرکے کمائی تھیں۔ یااس کا شوہرنامدار کاشتکاری کرتاتھا تجارت کرتا مزدور کسان یا انجینئر تھا؟۔ اس لیے توہم کہتے ہیں کہ یہ ساری دنیا اس کے لوازمات اعلانات مراعات سب کچھ ٹوان ون ہوتے ہیں۔
بس اتنا ہے کہ اس جوڑے میں ایک''ون'' دب جاتاہے اور دوسرا کچھ زیادہ ہی فعال ہوتاجاتاہے ۔ ہمیں لگ رہاہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہم سے بات کا رخ پاکستانیت کی طرف پھیل جاتا ہے ورنہ ہمارا ارادہ آج بالکل ہی اول فول بکنے کا ہے، چلیے پھر ٹوان ون کی ابتدا اس مشہور ومعروف''ٹوان ون'' سے کرتے ہیں۔جناب ڈاکٹر پروفیسر اور ماہر مرغیات وانڈایات حضرت شیخ چلی سے لے کردورجدید کے تمام اقتصادی ماہرین سے پوچھ لیجیے کہ اس ''انڈے اور مرغی'' کے پیچھے اوپر بھی جائیں نیچے بھی جائیں دائیں بائیں ہر طرف جائیں کہیں بھی ''ون''نہیں ملے گا کہ ہمیشہ انڈے کے اندر مرغی اور مرغی کے اندر انڈا ملے گا۔چیزوں کوایک طرف کردیجیے باتوں میں بھی ''ٹوان ون''ہوتاہے۔ پشتو میں کسی جھوٹے کوسب سے بڑی ڈگری یہ دی گئی ہے کہ اگروہ کہے کہ خداایک ہے تو مان لو باقی جوکچھ بھی کہے گامت مانو کہ وہ جھوٹ ہی ہوگا۔ ہمارا یہ صوبہ جو پہلے ''خیرپہ خیر'' تھا اب کچھ زیادہ ہی خیرپخیرہوکرڈبل یعنی ٹوان ون''خیرپہ خیر'' ہوگیا ہے چنانچہ اس کے وزیراعلیٰ نے فرمایاہے کہ ''میں بااختیار وزیراعلیٰ ہوں''ہم وزیروں وزیراعلیٰ وںاور وزرائے اعظموںسے ذرا دور رہناپسند کرتے ہیں۔
معلوم کرنے کے لیے ہمیں ضرور قہرخداوندی چشم گل چشم عرف برڈفلو کا حوالہ دینا ہوگا۔ایک دن جب علامہ بریانی عرف برڈفلو نے اپنی تقریر میں اس بات پر بہت زوردیا کہ میں ایماندار اور دیانتدار آدمی ہوں تو قہرخداوندی ہمارے کان میں بولا۔میں تواب تک اسے ایماندار اور دیانتدار آدمی سمجھ رہاتھا۔ ہم نے کہا یہی تو وہ بھی فرمارہے ہیں۔تو بولا اسی سے تو میری غلط فہمی دور ہوگئی کہ اب تک میں اسے ایماندار اور دیانتدار سمجھ رہاتھا۔اس پر قہرخداوندی کی دلیل یہ ہے کہ اگر ایک آدمی واقعی آدمی ہے تو وہ ہرکسی کوبار بار یہ اطلاع کیوں دیتارہتاہے کہ میں آدمی ہوں اور ادھر وہ ایسا کرتاہے تو ضرور اس کے اندر کوئی''ٹوان ون''ہے یعنی ''آدمی''کے علاوہ اس کے اندر کوئی اور بھی چھپاہوتاہے یا پیدا ہورہا ہوتاہے جس کے دیکھ لیے جانے کا خطرہ اس کے منہ سے نکلوا رہاہے کہ میں آدمی ہوں۔
یہ نوٹنکی اور مذاق نہیں تو اور کیاہے کہ یہاں وہاں ناک رگڑ رگڑ،چوکھٹوں پرماتھا گھساگھساکر اور طرح طرح کی شرطیںپوری کرکے بھیک میں بھاری سود پر کشکول بھرا جائے اور یہاں آکر اس سیکم پر یہ سپورٹ وہ سپورٹ،یہ کارڈ وہ کارڈ اور اب تو پورے پورے گھر برات کی مونگ پھلیوں کی طرح پھینکاجائے۔ تاریخ کا ایک واقعہ یاد آیا عباسی خلیفہ منصور کی عظیم خاتون اول ملکہ خیرزان کے بیٹے کی شادی تھی شاید ''امین'' کی۔تو ملکہ عالم کویہ بات بالکل اچھی نہیں لگی کہ دوسری عام ملکاوں کی طرح بارات پر اشرفیا یا سکے یا ہیرے جواہرات پھینکے جائیں یہ میرے سٹنیڈر سے بہت کم ہے،چنانچہ اس نے ایک نئی تکینک پاکستانیت ایجاد کی۔بارات پر کسی سکے یا ہیرے موتی پر لپیٹ کرکاغذ کی گولیاں پھینکیں اور نوٹ کرا دیاگیا کہ کاغذ کی پرچی پڑھ لی جائے۔اور ان پرچیوں میں جب دیکھاگیا تو کسی میں کوئی اور کسی میں کوئی عہدہ یاجاگیر یا بستی درج تھی اور جسے وہ پرچی ملی وہ عہدہ وہ منصب وہ جاگیر وہ جائیداد اس کے نام کردی گئی تھی۔ محققین مورخین دانا دانشوروں نے ملکہ عالم کی اس ایجاد پراس کی سخاوت پر اورحکومت کی مالی حالت پر بہت سارے حاشیے چڑھائے ہیں لیکن یہ کسی نے نہیں بتایاہے کہ وہ جاگیریں جائیدادیں عہدے مراتب اور دولتیں ملکہ اپنے باپ کے گھر سے لائی تھی یا اس نے کہیں مزدوری ملازمت یاخدمت کرکے کمائی تھیں۔ یااس کا شوہرنامدار کاشتکاری کرتاتھا تجارت کرتا مزدور کسان یا انجینئر تھا؟۔ اس لیے توہم کہتے ہیں کہ یہ ساری دنیا اس کے لوازمات اعلانات مراعات سب کچھ ٹوان ون ہوتے ہیں۔
بس اتنا ہے کہ اس جوڑے میں ایک''ون'' دب جاتاہے اور دوسرا کچھ زیادہ ہی فعال ہوتاجاتاہے ۔ ہمیں لگ رہاہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہم سے بات کا رخ پاکستانیت کی طرف پھیل جاتا ہے ورنہ ہمارا ارادہ آج بالکل ہی اول فول بکنے کا ہے، چلیے پھر ٹوان ون کی ابتدا اس مشہور ومعروف''ٹوان ون'' سے کرتے ہیں۔جناب ڈاکٹر پروفیسر اور ماہر مرغیات وانڈایات حضرت شیخ چلی سے لے کردورجدید کے تمام اقتصادی ماہرین سے پوچھ لیجیے کہ اس ''انڈے اور مرغی'' کے پیچھے اوپر بھی جائیں نیچے بھی جائیں دائیں بائیں ہر طرف جائیں کہیں بھی ''ون''نہیں ملے گا کہ ہمیشہ انڈے کے اندر مرغی اور مرغی کے اندر انڈا ملے گا۔چیزوں کوایک طرف کردیجیے باتوں میں بھی ''ٹوان ون''ہوتاہے۔ پشتو میں کسی جھوٹے کوسب سے بڑی ڈگری یہ دی گئی ہے کہ اگروہ کہے کہ خداایک ہے تو مان لو باقی جوکچھ بھی کہے گامت مانو کہ وہ جھوٹ ہی ہوگا۔ ہمارا یہ صوبہ جو پہلے ''خیرپہ خیر'' تھا اب کچھ زیادہ ہی خیرپخیرہوکرڈبل یعنی ٹوان ون''خیرپہ خیر'' ہوگیا ہے چنانچہ اس کے وزیراعلیٰ نے فرمایاہے کہ ''میں بااختیار وزیراعلیٰ ہوں''ہم وزیروں وزیراعلیٰ وںاور وزرائے اعظموںسے ذرا دور رہناپسند کرتے ہیں۔
معلوم کرنے کے لیے ہمیں ضرور قہرخداوندی چشم گل چشم عرف برڈفلو کا حوالہ دینا ہوگا۔ایک دن جب علامہ بریانی عرف برڈفلو نے اپنی تقریر میں اس بات پر بہت زوردیا کہ میں ایماندار اور دیانتدار آدمی ہوں تو قہرخداوندی ہمارے کان میں بولا۔میں تواب تک اسے ایماندار اور دیانتدار آدمی سمجھ رہاتھا۔ ہم نے کہا یہی تو وہ بھی فرمارہے ہیں۔تو بولا اسی سے تو میری غلط فہمی دور ہوگئی کہ اب تک میں اسے ایماندار اور دیانتدار سمجھ رہاتھا۔اس پر قہرخداوندی کی دلیل یہ ہے کہ اگر ایک آدمی واقعی آدمی ہے تو وہ ہرکسی کوبار بار یہ اطلاع کیوں دیتارہتاہے کہ میں آدمی ہوں اور ادھر وہ ایسا کرتاہے تو ضرور اس کے اندر کوئی''ٹوان ون''ہے یعنی ''آدمی''کے علاوہ اس کے اندر کوئی اور بھی چھپاہوتاہے یا پیدا ہورہا ہوتاہے جس کے دیکھ لیے جانے کا خطرہ اس کے منہ سے نکلوا رہاہے کہ میں آدمی ہوں۔