غزوۂ بدر
قرآن مجید نے اسے ’’یوم الفرقان‘‘ سے تعبیر کرکے اس کی اہمیت پر مہر تصدیق ثبت کردی
غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی شان دار اور باوقار فتح کے اثرات فوری طور پر اہل مکہ پر مرتب ہوئے اور قدرتی طور پر ایسا ہونا بھی چاہیے تھا، اس عبرت ناک شکست نے مشرکین مکہ کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ اسلام اور رسول کریم ﷺ کے خلاف جنگی جنون کو انتہاء تک لے جانے والے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ قریش کی عسکری اور سیاسی شہرت کا خاتمہ ہوگیا۔ مکہ میں حضور ﷺ کو شہید کرنے کی سازش کرنے والے چودہ میں سے گیارہ سردار مارے گئے، باقی تین سرداروں نے اسلام قبول کرلیا۔
غزوۂ بدر، حق و باطل کی معرکہ آرائی میں ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔ مسلمانوں کو کفار پر نفسیاتی برتری بھی حاصل ہوئی اور انہیں اپنی ثقافتی اکائی کے تحفظ کے لیے نئے اقدامات کے بار ے میں عزم و عمل کے نئے دروازوں پر دستک دینے کا ہنر بھی عطا ہوا۔ مدینہ منورہ کے آسمان سے خوف و ہراس کے بادل چھٹ گئے۔ مدینہ منورہ کی غیر مسلم قوتیں اب کھلم کھلا اسلام دشمنی کا مظاہرہ نہیں کرسکتی تھیں۔ غزوہ بدر میں فتح کے بعد مسلمانوں کو معاشی، عسکری اور سیاسی حوالے سے بے پناہ فوائد حاصل ہوئے اور وہ تمکنت اور وقار کے ساتھ نئے مسلم معاشرے کی تعمیر میں مصروف ہوگئے۔
مدینہ اور اس کے مضافات میں آباد یہود قبائل نے غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی عظیم فتح کی خبر پر حیرت، خوف اور نفرت کے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا۔ وہ کیسے گوارا کرسکتے تھے کہ مدینہ کی نوزائیدہ مملکت کو سیاسی، معاشی اور عسکری حوالے سے استحکام نصیب ہو۔ انہوں نے قدرتی طور پر غزوۂ بدر کے انجام پر منفی رد عمل ظاہر کیا۔ تاہم جن کے دلوں میں حق کی تلاش کی ذرا سی بھی جستجو تھی، انہوں نے بہ خوشی اسلام قبول کرلیا۔ تاہم اس حوالے سے کسی نے بھی ان کے ساتھ کوئی تعرض نہ رکھا یہی وجہ تھی کہ یہودیوں کی بڑی تعداد اپنے سابقہ دین پر قائم رہی۔ اسلام قبول کرنے والے یہودیوں میں کچھ نے تو دل کی گہرائیوں سے اسلام کو اپنی روح کا حصہ بنایا اور چند ایک نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کی جڑیں کاٹنے کا گھناؤنا کاروبار شروع کردیا۔
میثاق مدینہ کے مطابق یہود اس بات کے پابند تھے کہ وہ مدینہ منورہ پر حملہ کی صورت میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر شہر رسولؐ کا دفاع کریں گے۔ لیکن یہودیوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی شروع کردی۔ کعب بن اشرف تو کھلی دشمنی پر اتر آیا۔ کفار کی شکست پر افسوس کا اظہار کیا۔ یہودی درپردہ ہی نہیں اعلانیہ طور پر مشرکین مکہ کو امداد کی پیش کش کرنے لگے کہ وہ آئیں اور اپنی شکست کا بدلہ لیں۔ ان کا یہ باغیانہ رویہ مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف تھا۔ عرب کے دیگر قبائل نے بھی مسلمانوں کی فتح کی خبر کو خوش دلی سے قبول نہیں کیا تھا، وہ بھی ان گنت تحفظات کا شکار ہوگئے۔ بعض قبائل کی گذر اوقات ہی لوٹ مار پر ہوتی تھی۔
تجارتی قافلے بھی ان کی دست برد سے محفوظ نہ تھے انہیں یہ خدشہ لاحق تھا کہ اگر مسلمانوں کی حکومت کو استحکام ملا اور یہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہوگئی تو یہ سب سے پہلے اﷲ کی حاکمیت اور اس کے قانون کی بالادستی کے لیے اقدامات کرے گی۔ انہیں یہ بھی ڈر تھا کہ اسلامی حکومت ترجیحی بنیادوں پر امن و امان قائم کرکے لاقانونیت اور دہشت گردی کا خاتمہ کرے گی، اس طرح ان کی لوٹ مار کی راہیں مسدود ہوجائیں گی۔ یہ لوگ بنیادی طور پر تاجر پیشہ تھے، دیگر قبائل کے مفادات ان سے وابستہ تھے اس لیے قریش کی عسکری، سیاسی اور نفسیاتی شکست ان کے لیے بھی سوہان روح بن گئی۔ غزوۂ بدر میں ذلت آمیز شکست سے قریش کی سیاسی، مذہبی اور معاشی قیادت کے بت پر کاری ضرب پڑی اور معاشرے پر قریش کی گرفت اتنی مضبوط نہ رہی جتنی پہلے تھی۔
غزوۂ بدر جغرافیائی، سیاسی، معاشی، تہذیبی، ثقافتی اور تمدنی زندگی ہی میں انقلاب آفریں تبدیلیوں کا باعث نہیں بنا بل کہ اس نے تاریخ انسانی کے سفر ارتقاء کو مختلف حوالوں اور مختلف جہتوں سے نہ صرف یک سر بدل کے رکھ دیا بل کہ تعلیمات اسلامی نے علمی، فکری اور اعتقادی دنیا کو ابہام و تشکیک کی گرد سے پاک کرکے عدل و انصاف کی حکم رانی کے شعور کو پختہ کیا۔ اگر خدانخواستہ اس جنگ میں فرزندان توحید کو شکست ہوجاتی اور باطل حق پر غالب آجاتا تو میدان بدر میں حضور ﷺ نے اپنی دعاؤں میں جس خدشے کی طرف اشارہ فرمایا تھا کہ پھر روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا اور یہ کہ تیرا دین قائم نہ ہوسکے گا۔ وہ ظاہر ہوجاتا تو آج کرۂ ارض پر نہ انسانی حقوق کا نام لینے والا کوئی ہوتا اور نہ جمہوری معاشروں کی تشکیل کا تصور ہی ذہنوں میں جنم لیتا، نہ امن عالم کے خواب کو تعبیر ملتی اور نہ انسان کے پاؤں میں خود ساختہ خداؤں کی غلامی کی صدیوں سے پڑی زنجیریں ہی کٹ سکتیں۔
حق، باطل کے ساتھ کسی مرحلے اور کسی سطح پر بھی سمجھوتے کا روادار نہیں۔ اگر مسلمان اپنے عظیم مشن کو پس پشت ڈال کر باطل کے عقائد و نظریات کے ساتھ سمجھوتا کرلیتے اور اپنے عقائد و نظریات سے اپنی فکری اور روحانی وابستگی کو کم زور کرلیتے تو معرکہ بدر کبھی برپا نہ ہوتا۔ مشرکین مکہ کی تلواریں کبھی بے نیام نہ ہوتیں، کفر اپنے پورے مادی وسائل کے ساتھ جذبہ شہادت سے سرشار مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو للکارنے اور ان کے خلاف صف آراء ہونے کی ضرورت ہی محسوس نہ کرتا۔ لیکن ہادی برحق ﷺ نے باطل کے ساتھ کسی سمجھوتے کے امکانات کو رد کرتے ہوئے بے سروسامانی کے عالم میں کفر کے ساتھ ٹکر لینے کا عزم کرلیا۔ یہ نبوت کا پندرھواں سال تھا جب تاریخ اسلام کا فیصلہ کن مرحلہ، حق اور باطل کی کھلی جنگ غزوہ بدر کے نام سے لڑی گئی۔
غزوہ بدر کو دیگر غزوات پر کئی اعتبار سے فوقیت حاصل ہے۔ اسے کفر و اسلام کا پہلا معرکہ ہونے کاشرف حاصل ہے۔ خود حضور اکرم ﷺ نے غزوہ بدر کو ایک فیصلہ کن معرکہ قراردیا اور قرآن مجید نے اسے ''یوم الفرقان'' سے تعبیر کرکے اس کی اہمیت پر مہر تصدیق ثبت کردی۔
غزوۂ بدر، حق و باطل کی معرکہ آرائی میں ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔ مسلمانوں کو کفار پر نفسیاتی برتری بھی حاصل ہوئی اور انہیں اپنی ثقافتی اکائی کے تحفظ کے لیے نئے اقدامات کے بار ے میں عزم و عمل کے نئے دروازوں پر دستک دینے کا ہنر بھی عطا ہوا۔ مدینہ منورہ کے آسمان سے خوف و ہراس کے بادل چھٹ گئے۔ مدینہ منورہ کی غیر مسلم قوتیں اب کھلم کھلا اسلام دشمنی کا مظاہرہ نہیں کرسکتی تھیں۔ غزوہ بدر میں فتح کے بعد مسلمانوں کو معاشی، عسکری اور سیاسی حوالے سے بے پناہ فوائد حاصل ہوئے اور وہ تمکنت اور وقار کے ساتھ نئے مسلم معاشرے کی تعمیر میں مصروف ہوگئے۔
مدینہ اور اس کے مضافات میں آباد یہود قبائل نے غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی عظیم فتح کی خبر پر حیرت، خوف اور نفرت کے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا۔ وہ کیسے گوارا کرسکتے تھے کہ مدینہ کی نوزائیدہ مملکت کو سیاسی، معاشی اور عسکری حوالے سے استحکام نصیب ہو۔ انہوں نے قدرتی طور پر غزوۂ بدر کے انجام پر منفی رد عمل ظاہر کیا۔ تاہم جن کے دلوں میں حق کی تلاش کی ذرا سی بھی جستجو تھی، انہوں نے بہ خوشی اسلام قبول کرلیا۔ تاہم اس حوالے سے کسی نے بھی ان کے ساتھ کوئی تعرض نہ رکھا یہی وجہ تھی کہ یہودیوں کی بڑی تعداد اپنے سابقہ دین پر قائم رہی۔ اسلام قبول کرنے والے یہودیوں میں کچھ نے تو دل کی گہرائیوں سے اسلام کو اپنی روح کا حصہ بنایا اور چند ایک نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کی جڑیں کاٹنے کا گھناؤنا کاروبار شروع کردیا۔
میثاق مدینہ کے مطابق یہود اس بات کے پابند تھے کہ وہ مدینہ منورہ پر حملہ کی صورت میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر شہر رسولؐ کا دفاع کریں گے۔ لیکن یہودیوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی شروع کردی۔ کعب بن اشرف تو کھلی دشمنی پر اتر آیا۔ کفار کی شکست پر افسوس کا اظہار کیا۔ یہودی درپردہ ہی نہیں اعلانیہ طور پر مشرکین مکہ کو امداد کی پیش کش کرنے لگے کہ وہ آئیں اور اپنی شکست کا بدلہ لیں۔ ان کا یہ باغیانہ رویہ مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف تھا۔ عرب کے دیگر قبائل نے بھی مسلمانوں کی فتح کی خبر کو خوش دلی سے قبول نہیں کیا تھا، وہ بھی ان گنت تحفظات کا شکار ہوگئے۔ بعض قبائل کی گذر اوقات ہی لوٹ مار پر ہوتی تھی۔
تجارتی قافلے بھی ان کی دست برد سے محفوظ نہ تھے انہیں یہ خدشہ لاحق تھا کہ اگر مسلمانوں کی حکومت کو استحکام ملا اور یہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہوگئی تو یہ سب سے پہلے اﷲ کی حاکمیت اور اس کے قانون کی بالادستی کے لیے اقدامات کرے گی۔ انہیں یہ بھی ڈر تھا کہ اسلامی حکومت ترجیحی بنیادوں پر امن و امان قائم کرکے لاقانونیت اور دہشت گردی کا خاتمہ کرے گی، اس طرح ان کی لوٹ مار کی راہیں مسدود ہوجائیں گی۔ یہ لوگ بنیادی طور پر تاجر پیشہ تھے، دیگر قبائل کے مفادات ان سے وابستہ تھے اس لیے قریش کی عسکری، سیاسی اور نفسیاتی شکست ان کے لیے بھی سوہان روح بن گئی۔ غزوۂ بدر میں ذلت آمیز شکست سے قریش کی سیاسی، مذہبی اور معاشی قیادت کے بت پر کاری ضرب پڑی اور معاشرے پر قریش کی گرفت اتنی مضبوط نہ رہی جتنی پہلے تھی۔
غزوۂ بدر جغرافیائی، سیاسی، معاشی، تہذیبی، ثقافتی اور تمدنی زندگی ہی میں انقلاب آفریں تبدیلیوں کا باعث نہیں بنا بل کہ اس نے تاریخ انسانی کے سفر ارتقاء کو مختلف حوالوں اور مختلف جہتوں سے نہ صرف یک سر بدل کے رکھ دیا بل کہ تعلیمات اسلامی نے علمی، فکری اور اعتقادی دنیا کو ابہام و تشکیک کی گرد سے پاک کرکے عدل و انصاف کی حکم رانی کے شعور کو پختہ کیا۔ اگر خدانخواستہ اس جنگ میں فرزندان توحید کو شکست ہوجاتی اور باطل حق پر غالب آجاتا تو میدان بدر میں حضور ﷺ نے اپنی دعاؤں میں جس خدشے کی طرف اشارہ فرمایا تھا کہ پھر روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا اور یہ کہ تیرا دین قائم نہ ہوسکے گا۔ وہ ظاہر ہوجاتا تو آج کرۂ ارض پر نہ انسانی حقوق کا نام لینے والا کوئی ہوتا اور نہ جمہوری معاشروں کی تشکیل کا تصور ہی ذہنوں میں جنم لیتا، نہ امن عالم کے خواب کو تعبیر ملتی اور نہ انسان کے پاؤں میں خود ساختہ خداؤں کی غلامی کی صدیوں سے پڑی زنجیریں ہی کٹ سکتیں۔
حق، باطل کے ساتھ کسی مرحلے اور کسی سطح پر بھی سمجھوتے کا روادار نہیں۔ اگر مسلمان اپنے عظیم مشن کو پس پشت ڈال کر باطل کے عقائد و نظریات کے ساتھ سمجھوتا کرلیتے اور اپنے عقائد و نظریات سے اپنی فکری اور روحانی وابستگی کو کم زور کرلیتے تو معرکہ بدر کبھی برپا نہ ہوتا۔ مشرکین مکہ کی تلواریں کبھی بے نیام نہ ہوتیں، کفر اپنے پورے مادی وسائل کے ساتھ جذبہ شہادت سے سرشار مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو للکارنے اور ان کے خلاف صف آراء ہونے کی ضرورت ہی محسوس نہ کرتا۔ لیکن ہادی برحق ﷺ نے باطل کے ساتھ کسی سمجھوتے کے امکانات کو رد کرتے ہوئے بے سروسامانی کے عالم میں کفر کے ساتھ ٹکر لینے کا عزم کرلیا۔ یہ نبوت کا پندرھواں سال تھا جب تاریخ اسلام کا فیصلہ کن مرحلہ، حق اور باطل کی کھلی جنگ غزوہ بدر کے نام سے لڑی گئی۔
غزوہ بدر کو دیگر غزوات پر کئی اعتبار سے فوقیت حاصل ہے۔ اسے کفر و اسلام کا پہلا معرکہ ہونے کاشرف حاصل ہے۔ خود حضور اکرم ﷺ نے غزوہ بدر کو ایک فیصلہ کن معرکہ قراردیا اور قرآن مجید نے اسے ''یوم الفرقان'' سے تعبیر کرکے اس کی اہمیت پر مہر تصدیق ثبت کردی۔