زکوٰۃ مستحقین تک پہنچائیں
پیشہ ور مانگنے والے ناجائز فائدہ اٹھاتے جبکہ قرابت دار اور سفید پوش نظر انداز ہو جاتے ہیں
جوہر ٹاؤن لاہور کی ایک کوٹھی کے باہر مردوں اورخواتین کا رش لگا ہوا تھا ۔ یہ لوگ صبح سویرے ہی یہاں پہنچ گئے تھے کہ ہر سال رمضان کی تین تاریخ کو یہاں زکوٰۃ تقسیم کی جاتی تھی، کوئی وقت مقرر نہیں تھا اس لئے لوگ سویرے ہی پہنچ جاتے تھے ان میں اکثریت ان خواتین و حضرات کی ہوتی تھی،جو اپنے دیہی علاقوں سے شہروں میں ''رمضان سیزن '' لگانے کیلئے آتے ہیں۔
رمضان آتے ہی لاہور اور دوسرے شہری علاقوںمیں گداگروں اور مانگنے والوں کی بہتات نظر آتی ہے یہ لوگ پورا مہینہ زکوٰۃ،صدقات اور خیرات اکٹھی کرکے عید سے پہلے یا بعد میں اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں، اسی کوٹھی کے باہر سے گزرتے ہوئے ایک صاحب نے حسرت سے کو ٹھی مالکان کی ''دریا دلی '' دیکھی تو آبدیدہ ہوئے، یہ صاحب کوٹھی کے مالک کے سگے بھائی ہیں ان کی بیوی بیمار ہوئی تو پیسہ پانی کی طرح خرچ ہوا، کاروبار تباہ ہوگیا۔
اُن کا چھوٹا بیٹا جو میٹرک کا طالبعلم تھا پڑھائی چھوڑ کر کسی دکان پر ملازمت کرنے لگا، یہ صاحب اپنے بھائی کی عالیشان کوٹھی میں پہنچے اور تمام حالا ت بتا کرمدد چاہی مگر انھوں نے مالی حالات کی تنگی کا بہانہ بنا کر صاف انکارکر دیا، اب رمضان کی تین تاریخ کو انکے گھر کے باہر سینکڑوں افراد زکوٰۃ اور راشن لینے کیلئے کھڑے تھے وہ فیملی ان تمام افراد کو حسب توفیق زکواۃ اور راشن دے گی مگر انکا اپنا سگا بھائی جو کہ انتہائی نامساعد حالات کا شکار ہے انکی اس سخاوت سے محروم تھا، جبکہ انھیں علِم بھی ہے کہ انکا سگا بھائی آج کل انتہائی تنگدستی کا شکار ہے، ا سکی بیوی بیمار ہے، معصوم بچہ تعلیم چھوڑ کر مزدوری کرنے پر مجبور ہے مگر انکی آنکھوں پر شائد انّا پرستی ، تکبر اور خود نمائی کی پٹی بندھ چکی تھی۔
اسی شہر لاہور میں پانچ بچیوں کی ماںایک بیوہ عورت لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرکے اپنا اور اپنی بچیوں کا پیٹ پال رہی ہے، اسکے جیٹھ اور دیور متمول افراد ہیں اسکے سگے بہن بھائیوں کا شمار بھی کھاتے پیتے افراد میں ہوتا ہے، ان سب کو اپنی بہن یا بھابھی کی بے کسی کا علم بھی ہے مگر انکی دریا دلی گھریلو ملازمین یا پیشہ ور بھکاریوں تک محدود ہے۔
لاہور کی ایک فیکٹری کے مالک نے ایک ہسپتال کو بیس لاکھ روپے زکوٰۃ کی مَد میں عطیہ دیا جبکہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے میں اسکے والدین انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں،ایک بھائی کی کریانے کی چھوٹی سی دکان ہے اور اسکی بڑی بچی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک کنواری بیٹھی ہوئی ہے۔
اس قسم کے واقعات ہمارے معاشرے میں بِکھرے پڑے ہیں ہر جگہ ایسے مناظر نظر آتے ہیں، ہر سال تقریباً 60 ارب روپے زکوٰۃ کی مَد میں خرچ کئے جاتے ہیں ، کہا جاتا ہے کہ کم ازکم 45 ارب روپے غیر مستحقین افراد میں خرچ کردئیے جاتے ہیں جس سے زکوٰۃ کی اصل روح ہی مجروح ہو جاتی ہے، بے حسِی اور خودغرضی کے مناظر تو عام نظر آتے ہیں مگر ہمدردی اور ایثار کے اصل مناظر دھندلکوں میں کھوتے جا رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ دن بدن مشکلات کی دلدل میںدھنستا جا رہا ہے۔
زکوٰۃ کا نظام اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔ اگر زکوٰۃ مستحق افراد میں صحیح طریقے سے تقسیم کی جائے تو ہر سال کم از کم 3 لاکھ مستحق بچیوں کی شادی ہو سکتی ہے، پانچ لاکھ بیروزگار افراد کو کاروبارکروایا جا سکتا ہے، پندرہ لاکھ بچوں کا ایک سال کا تعلیمی خرچہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ پانچ لاکھ مستحق مریضوں کو ادّویا ت فراہم کی جا سکتی ہیں۔اس رقم سے پورا سال کم از کم 2 لاکھ سفید پوش گھرانوں کی مالی کفالت کی جا سکتی ہے۔
زکوٰۃ کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر ایک سال ایک مخصوص رقم خرچ نہ ہو یعنی فالتو پڑی رہے یا اتنی رقم کا سونا پڑا رہے تو زکوٰۃ فرض ہو جاتی ہے (ایک سال کا تصاب تقریباً 45000/. روپے ہے اور اس سے زائد رقم پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہے) ۔
اسلام میںسرمائے (نقدی، سونا،چاندی اور دوسری اشیاء) کو جامد کرنے سے منع کیا گیا ہے، سرمائے کو خرچ کرنے کا حکم ہے تاکہ یہ رقم پھیلاؤ میں رہے، اسلامی معاشرے میں معیشت کی بنیاد ہی سرمائے کی ''سرکولیشن'' پر رکھی گئی ہے اسے سمجھنا بہت ضروری ہے، سرمائے کو جمع کرنے سے منع کیا گیا ہے کہ اس طریقہ کار سے صرف فرد کو فائدہ ہوتا ہے معاشرے کو نہیں۔ اگر دولت ''سرکولیٹ''کرتی ہے تو مختلف ہاتھوں میں پہنچتی ہے جسکا فائدہ زیادہ سے زیادہ افراد کو پہنچتا ہے اگر کوئی فرد اپنی دولت،نقدی، سونے، چاندی یا دوسرے طریقوں سے جامد کرتا ہے تو پھر اُسے ایک سال بعد اپنی رقم کی زکوٰۃ ادا کرنی پڑتی ہے۔ حتیٰ کہ اگر صرف سونا یا چاندی ہو مگر نقدی نہ ہو تو سونا اور چاندی فروخت کرکے زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہے وگرنہ سخت گناہ گار ہوگا اور اسکے مال میں اللہ تعالیٰ کی برکت و تائید شامل نہ ہوگی بعض مفتیان حضرات نے ایسے جمع شدہ مال کو بھی حرام قرار دیا ہے کہ جسکی زکوٰۃ ادا نہ کی گئی ہو۔ حضرت ابو بکر صدیقؓکے دور خلافت میں جب کچھ افراد نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کیا انکے خلاف باقاعدہ لشکر کشی کی گئی۔
اللہ کے حکم سے انحراف ممکن ہی نہیں ہے۔ جب زکوٰۃفرض ہے تو اسکی ادائیگی بھی اسی طریقے سے کرنے کی ضرورت ہے کہ جس کا حکم دیا گیا ہے، اپنے طور پر یا اپنے گمان کے مطابق یہ فریضہ ادا نہیں ہو سکتا۔ زکوٰۃ کی رقم فلاح و بہبود کے اجتماعی کاموں میں بھی خرچ کی جا سکتی ہے کہ جیسے کچھ ادارے اپنے طور پر بہترین طریقے سے انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں، جماعت اسلامی کا ادارہ ''الخدمت'' یتیم بچوں کی بہترین طریقے سے کفالت کر رہا ہے یہ ادارہ اپنے طور پر مستحق افراد کی چھان بین کرکے ہر ماہ یتیم بچوں کی تعلیم کی مَد میں مخصوص رقم بنک کے ذریعے ادا کر رہا ہے، میرا ایک دوست کچھ عرصہ قبل دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے انتقال کر گیا، لواحقین میں ایک بیوہ اور چار زیر تعلیم بچے تھے، اس خاندان پر غموں اور مشکلات کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، انھوں نے کسی طرح ''الخدمت'' سے رابطہ کیا۔''الخدمت''سے تعلق رکھنے والے افراد نے چھان بین کے بعد ایک مخصوص رقم بیوہ کے اکاؤنٹ میں منتقل کردی جو اب ہر تین ماہ کے بعد اس بیوہ کے اکاؤنٹ میں جمع ہوجاتی ہے جس سے اسکے بچوںکی تعلیم کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا۔
اس طرح ''اخوت'' بھی بے روزگار اور بے سہارا افراد کا بہترین سہارا ثابت ہو رہی ہے۔ اربوں روپے بے روزگار افراد کو قرض حسنہ کے طور پر دیئے گئے ہیں، ان افراد نے اس رقم سے چھوٹا سا کاروبار شروع کیا، ''اخوت'' نے اسلام کے عین اصولوں کے مطابق افراد کو بھیک کا عادی بنانے کی بجائے انھیں رزق کمانے کی ترغیب اور مدد دی، کہا جاتا ہے کہ قرض حسنہ کے طور پر دی گئی تقریباً تمام رقم واپس آجاتی ہے۔
شوکت خانم ہسپتال میں بھی کینسر کے مرض میں مبتلا نادار افراد کا مفت علاج ہوتا ہے۔ وگرنہ اتنا مہنگا علاج کروانا غریب تو درکنار خاصے کھاتے پیتے افراد کے بس میں بھی نہیں ہے۔
اسی طرح پاکستان میں لا تعداد ادارے بشمول ایدھی فاؤنڈیشن بھی زکوٰۃ، صدقات اور خیرات کی رقم سے چلائے جا رہے ہیں، ان کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے مگر اوّلیت اسلام کے ان اصولوں کو ہی دینی چاہیے کہ جن کے واضح احکامات موجود ہیں۔ زکوٰۃ کے پہلے حقدار قریبی رشتہ دار، محلہ دار یا قریبی جاننے والے ہی ہوتے ہیں۔ اسلام میں''تم اور وہ'' کا فلسفہ موجود ہے یعنی سب سے پہلے انکی اپنی جان یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر سب سے پہلا حق اس فرد کا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہو، اسکے بعد سامنے والے افراد یعنی قریبی رشتہ دار، محلہ دار اور واقف کار، اسکے بعد وہ افراد اور ادارے جو کہ آپ سے دور ہوں یعنی عام مسلمان، اسی فلسفے کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہی ہماری اپنی، ہمارے تعلیمی اداروں اور عام مسلمانوں کی حالت سنور سکتی ہے۔قرابت داروںپر زکوٰۃ اور دوسری رقومات خرچ کرنے کا دو گنا اجّر ہے پہلا اجّر اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا اور دوسرا اجّر عزیز رشتہ داروں پر احسان کرنے کا۔ اللہ تعالیٰ نے قرابت داری جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے کہ کُنبہ مضبوط اور خوشحال ہو پھر خاندان مضبوط ہو، قرابت داری میںحسن سلوک کی وجہ سے کوئی رشتہ دار اپنے آپ کو تنہا اور بے بس محسوس نہ کرے۔
وطن عزیز پاکستان میں ساڑھے تین کروڑ افراد حد غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ لوگوں کی بے بسی اور بے کسی کی کہانیاں سُن کر کلیجہ پھٹ جاتا ہے،اسی شہر لاہور میں پینتالیس سال کی چار بچوں کی ماں اپنے آپ کو بیچنے کیلئے سڑک کنارے کھڑی ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی روٹی کا بندوبست کر سکے اور اسی شہر لاہور میں صرف رمضان میں شاہانہ افطاریوں کی مَد میں کم ازکم 120 کروڑ روپے خرچ کئے جاتے ہیں، یہ افطاریاں صرف اپنی شان و شوکت کا مظاہرہ کرنے کیلئے کی جاتی ہیں صرف ان افراد کو مدعو کیا جاتا ہے جنہیں اللہ نے اپنی ہر نعمت سے نوازا ہوا ہے اور ان میں سے بیشتر افراد کا روزہ بھی نہیں ہوتا ۔
کراچی میں ایم کیو ایم ''بزور بازو'' زکوٰۃ اکٹھی کر تی تھی رقم کا بیشتر حصہ لندن اور دوسرے بیرون ممالک میں بھیجا جاتا تھا۔ زکوٰۃ کی رقم سے بانی ایم کیو ایم اور انکے ساتھی شراب اور عیش و عشرت کی محفلیں برپا کرتے تھے۔ ایم کیو ایم کی دیکھا دیکھی اور پارٹیاں بھی زکوٰۃ اکٹھی کرنے کیلئے میدان میں آ گئیں۔ سب اپنے زیر اثر علاقوں سے زبردستی زکوٰۃ اکٹھی کرتی تھیں ۔ زبردستی زکوٰۃ اکٹھی کرنے کا سب سے بڑا کارنامہ حکومت پاکستان سرانجام دیتی ہے۔ ہر یکم رمضان کو بنکوںمیں نصاب سے زائد رقم پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ کاٹی جاتی ہے چاہیے یہ رقم صرف دس دن پہلے ہی بنک میں جمع کروائی گئی ہو ۔ لوگوں کی اکثریت یکم رمضان سے پہلے ہی اپنی رقم بنک سے نکلوا لیتی ہے یا بنک میں ''ڈیکلریشن'' جمع کروادیتی ہے کہ وہ زکوٰہ نہیں دینا چاہتے۔
رمضان نزدیک آتے ہی بے شمار ''این جی اوز'' بھی زکوٰۃ اکٹھی کرنے کیلئے میدان میں آجاتی ہیں کئی '' این جی اوز'' کمپنیوں اور مخیرحضرات کو اپنے فلاحی کاموں کی تفصیلات بتا کر رقم اکٹھی کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ یہ این جی اوز محض دوماہ کیلئے مخیر حضرات کو کال کرنے کیلئے خوبصورت آواز والی لڑکیوں کو ملازمت پر رکھتی ہیں۔ انھیں تنخواہ کے علاوہ کمیشن بھی دیا جاتا ہے، زکوٰۃ کی رقم کا تھوڑا سا حصہ یہ اپنے فلاحی کاموں پر خرچ کرتی ہیں زیادہ حصہ انکی جیبوں میں جاتا ہے۔
بے شمار این جی اوز رمضان کے دِ نوں میں ''فری افطاری''کا اہتمام بھی کرتی ہیں یہ این جی اوز سڑک کنارے فٹ پاتھوں یا خالی جگہ پر بڑے بڑے بینر لگاتی ہیں کہ''ناداروں اور بے کس افراد کی فری افطاری ''لا تعداد غریب'' افراد ان دسترخوانوں پر بیٹھے روزہ کُھلنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں جس طرح غریب اور نادار افراد کی افطاری کی تشہیر کی جاتی ہے، کوئی سفید پوش فرد وہاں روزہ کھولنے کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔ یہ این جی اوز افطاری کے چکر میں خاصی رقم اکٹھی کر لیتی ہیں زیادہ تر پیسہ ان کے کرتا دھرتا افراد کی جیبوں میں جاتا ہے۔
زکوٰۃ، صدقات اورخیرات کا اصل مقصد مستحق افراد کی مدد اور اُنکی بحالی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کیلئے ہے اسے جرمانے کی رقم کی مانند ادا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ رقم ایسے مستحق افراد میں خرچ کرنے کی ضرورت ہے کہ جو اپنی سفیدپوشی کا بھرم قائم رکھنے کیلئے کسی سے مانگ بھی نہیں سکتے۔انھی کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے، اگر آج یہ جذبہ پیدا ہو جائے تو ہمارے معاشرے میں طبقاتی تفریق کافی حد تک ختم ہو سکتی ہے۔
رمضان آتے ہی لاہور اور دوسرے شہری علاقوںمیں گداگروں اور مانگنے والوں کی بہتات نظر آتی ہے یہ لوگ پورا مہینہ زکوٰۃ،صدقات اور خیرات اکٹھی کرکے عید سے پہلے یا بعد میں اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں، اسی کوٹھی کے باہر سے گزرتے ہوئے ایک صاحب نے حسرت سے کو ٹھی مالکان کی ''دریا دلی '' دیکھی تو آبدیدہ ہوئے، یہ صاحب کوٹھی کے مالک کے سگے بھائی ہیں ان کی بیوی بیمار ہوئی تو پیسہ پانی کی طرح خرچ ہوا، کاروبار تباہ ہوگیا۔
اُن کا چھوٹا بیٹا جو میٹرک کا طالبعلم تھا پڑھائی چھوڑ کر کسی دکان پر ملازمت کرنے لگا، یہ صاحب اپنے بھائی کی عالیشان کوٹھی میں پہنچے اور تمام حالا ت بتا کرمدد چاہی مگر انھوں نے مالی حالات کی تنگی کا بہانہ بنا کر صاف انکارکر دیا، اب رمضان کی تین تاریخ کو انکے گھر کے باہر سینکڑوں افراد زکوٰۃ اور راشن لینے کیلئے کھڑے تھے وہ فیملی ان تمام افراد کو حسب توفیق زکواۃ اور راشن دے گی مگر انکا اپنا سگا بھائی جو کہ انتہائی نامساعد حالات کا شکار ہے انکی اس سخاوت سے محروم تھا، جبکہ انھیں علِم بھی ہے کہ انکا سگا بھائی آج کل انتہائی تنگدستی کا شکار ہے، ا سکی بیوی بیمار ہے، معصوم بچہ تعلیم چھوڑ کر مزدوری کرنے پر مجبور ہے مگر انکی آنکھوں پر شائد انّا پرستی ، تکبر اور خود نمائی کی پٹی بندھ چکی تھی۔
اسی شہر لاہور میں پانچ بچیوں کی ماںایک بیوہ عورت لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرکے اپنا اور اپنی بچیوں کا پیٹ پال رہی ہے، اسکے جیٹھ اور دیور متمول افراد ہیں اسکے سگے بہن بھائیوں کا شمار بھی کھاتے پیتے افراد میں ہوتا ہے، ان سب کو اپنی بہن یا بھابھی کی بے کسی کا علم بھی ہے مگر انکی دریا دلی گھریلو ملازمین یا پیشہ ور بھکاریوں تک محدود ہے۔
لاہور کی ایک فیکٹری کے مالک نے ایک ہسپتال کو بیس لاکھ روپے زکوٰۃ کی مَد میں عطیہ دیا جبکہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے میں اسکے والدین انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں،ایک بھائی کی کریانے کی چھوٹی سی دکان ہے اور اسکی بڑی بچی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک کنواری بیٹھی ہوئی ہے۔
اس قسم کے واقعات ہمارے معاشرے میں بِکھرے پڑے ہیں ہر جگہ ایسے مناظر نظر آتے ہیں، ہر سال تقریباً 60 ارب روپے زکوٰۃ کی مَد میں خرچ کئے جاتے ہیں ، کہا جاتا ہے کہ کم ازکم 45 ارب روپے غیر مستحقین افراد میں خرچ کردئیے جاتے ہیں جس سے زکوٰۃ کی اصل روح ہی مجروح ہو جاتی ہے، بے حسِی اور خودغرضی کے مناظر تو عام نظر آتے ہیں مگر ہمدردی اور ایثار کے اصل مناظر دھندلکوں میں کھوتے جا رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ دن بدن مشکلات کی دلدل میںدھنستا جا رہا ہے۔
زکوٰۃ کا نظام اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔ اگر زکوٰۃ مستحق افراد میں صحیح طریقے سے تقسیم کی جائے تو ہر سال کم از کم 3 لاکھ مستحق بچیوں کی شادی ہو سکتی ہے، پانچ لاکھ بیروزگار افراد کو کاروبارکروایا جا سکتا ہے، پندرہ لاکھ بچوں کا ایک سال کا تعلیمی خرچہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ پانچ لاکھ مستحق مریضوں کو ادّویا ت فراہم کی جا سکتی ہیں۔اس رقم سے پورا سال کم از کم 2 لاکھ سفید پوش گھرانوں کی مالی کفالت کی جا سکتی ہے۔
زکوٰۃ کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر ایک سال ایک مخصوص رقم خرچ نہ ہو یعنی فالتو پڑی رہے یا اتنی رقم کا سونا پڑا رہے تو زکوٰۃ فرض ہو جاتی ہے (ایک سال کا تصاب تقریباً 45000/. روپے ہے اور اس سے زائد رقم پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہے) ۔
اسلام میںسرمائے (نقدی، سونا،چاندی اور دوسری اشیاء) کو جامد کرنے سے منع کیا گیا ہے، سرمائے کو خرچ کرنے کا حکم ہے تاکہ یہ رقم پھیلاؤ میں رہے، اسلامی معاشرے میں معیشت کی بنیاد ہی سرمائے کی ''سرکولیشن'' پر رکھی گئی ہے اسے سمجھنا بہت ضروری ہے، سرمائے کو جمع کرنے سے منع کیا گیا ہے کہ اس طریقہ کار سے صرف فرد کو فائدہ ہوتا ہے معاشرے کو نہیں۔ اگر دولت ''سرکولیٹ''کرتی ہے تو مختلف ہاتھوں میں پہنچتی ہے جسکا فائدہ زیادہ سے زیادہ افراد کو پہنچتا ہے اگر کوئی فرد اپنی دولت،نقدی، سونے، چاندی یا دوسرے طریقوں سے جامد کرتا ہے تو پھر اُسے ایک سال بعد اپنی رقم کی زکوٰۃ ادا کرنی پڑتی ہے۔ حتیٰ کہ اگر صرف سونا یا چاندی ہو مگر نقدی نہ ہو تو سونا اور چاندی فروخت کرکے زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہے وگرنہ سخت گناہ گار ہوگا اور اسکے مال میں اللہ تعالیٰ کی برکت و تائید شامل نہ ہوگی بعض مفتیان حضرات نے ایسے جمع شدہ مال کو بھی حرام قرار دیا ہے کہ جسکی زکوٰۃ ادا نہ کی گئی ہو۔ حضرت ابو بکر صدیقؓکے دور خلافت میں جب کچھ افراد نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کیا انکے خلاف باقاعدہ لشکر کشی کی گئی۔
اللہ کے حکم سے انحراف ممکن ہی نہیں ہے۔ جب زکوٰۃفرض ہے تو اسکی ادائیگی بھی اسی طریقے سے کرنے کی ضرورت ہے کہ جس کا حکم دیا گیا ہے، اپنے طور پر یا اپنے گمان کے مطابق یہ فریضہ ادا نہیں ہو سکتا۔ زکوٰۃ کی رقم فلاح و بہبود کے اجتماعی کاموں میں بھی خرچ کی جا سکتی ہے کہ جیسے کچھ ادارے اپنے طور پر بہترین طریقے سے انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں، جماعت اسلامی کا ادارہ ''الخدمت'' یتیم بچوں کی بہترین طریقے سے کفالت کر رہا ہے یہ ادارہ اپنے طور پر مستحق افراد کی چھان بین کرکے ہر ماہ یتیم بچوں کی تعلیم کی مَد میں مخصوص رقم بنک کے ذریعے ادا کر رہا ہے، میرا ایک دوست کچھ عرصہ قبل دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے انتقال کر گیا، لواحقین میں ایک بیوہ اور چار زیر تعلیم بچے تھے، اس خاندان پر غموں اور مشکلات کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، انھوں نے کسی طرح ''الخدمت'' سے رابطہ کیا۔''الخدمت''سے تعلق رکھنے والے افراد نے چھان بین کے بعد ایک مخصوص رقم بیوہ کے اکاؤنٹ میں منتقل کردی جو اب ہر تین ماہ کے بعد اس بیوہ کے اکاؤنٹ میں جمع ہوجاتی ہے جس سے اسکے بچوںکی تعلیم کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا۔
اس طرح ''اخوت'' بھی بے روزگار اور بے سہارا افراد کا بہترین سہارا ثابت ہو رہی ہے۔ اربوں روپے بے روزگار افراد کو قرض حسنہ کے طور پر دیئے گئے ہیں، ان افراد نے اس رقم سے چھوٹا سا کاروبار شروع کیا، ''اخوت'' نے اسلام کے عین اصولوں کے مطابق افراد کو بھیک کا عادی بنانے کی بجائے انھیں رزق کمانے کی ترغیب اور مدد دی، کہا جاتا ہے کہ قرض حسنہ کے طور پر دی گئی تقریباً تمام رقم واپس آجاتی ہے۔
شوکت خانم ہسپتال میں بھی کینسر کے مرض میں مبتلا نادار افراد کا مفت علاج ہوتا ہے۔ وگرنہ اتنا مہنگا علاج کروانا غریب تو درکنار خاصے کھاتے پیتے افراد کے بس میں بھی نہیں ہے۔
اسی طرح پاکستان میں لا تعداد ادارے بشمول ایدھی فاؤنڈیشن بھی زکوٰۃ، صدقات اور خیرات کی رقم سے چلائے جا رہے ہیں، ان کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے مگر اوّلیت اسلام کے ان اصولوں کو ہی دینی چاہیے کہ جن کے واضح احکامات موجود ہیں۔ زکوٰۃ کے پہلے حقدار قریبی رشتہ دار، محلہ دار یا قریبی جاننے والے ہی ہوتے ہیں۔ اسلام میں''تم اور وہ'' کا فلسفہ موجود ہے یعنی سب سے پہلے انکی اپنی جان یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر سب سے پہلا حق اس فرد کا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہو، اسکے بعد سامنے والے افراد یعنی قریبی رشتہ دار، محلہ دار اور واقف کار، اسکے بعد وہ افراد اور ادارے جو کہ آپ سے دور ہوں یعنی عام مسلمان، اسی فلسفے کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہی ہماری اپنی، ہمارے تعلیمی اداروں اور عام مسلمانوں کی حالت سنور سکتی ہے۔قرابت داروںپر زکوٰۃ اور دوسری رقومات خرچ کرنے کا دو گنا اجّر ہے پہلا اجّر اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا اور دوسرا اجّر عزیز رشتہ داروں پر احسان کرنے کا۔ اللہ تعالیٰ نے قرابت داری جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے کہ کُنبہ مضبوط اور خوشحال ہو پھر خاندان مضبوط ہو، قرابت داری میںحسن سلوک کی وجہ سے کوئی رشتہ دار اپنے آپ کو تنہا اور بے بس محسوس نہ کرے۔
وطن عزیز پاکستان میں ساڑھے تین کروڑ افراد حد غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ لوگوں کی بے بسی اور بے کسی کی کہانیاں سُن کر کلیجہ پھٹ جاتا ہے،اسی شہر لاہور میں پینتالیس سال کی چار بچوں کی ماں اپنے آپ کو بیچنے کیلئے سڑک کنارے کھڑی ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی روٹی کا بندوبست کر سکے اور اسی شہر لاہور میں صرف رمضان میں شاہانہ افطاریوں کی مَد میں کم ازکم 120 کروڑ روپے خرچ کئے جاتے ہیں، یہ افطاریاں صرف اپنی شان و شوکت کا مظاہرہ کرنے کیلئے کی جاتی ہیں صرف ان افراد کو مدعو کیا جاتا ہے جنہیں اللہ نے اپنی ہر نعمت سے نوازا ہوا ہے اور ان میں سے بیشتر افراد کا روزہ بھی نہیں ہوتا ۔
کراچی میں ایم کیو ایم ''بزور بازو'' زکوٰۃ اکٹھی کر تی تھی رقم کا بیشتر حصہ لندن اور دوسرے بیرون ممالک میں بھیجا جاتا تھا۔ زکوٰۃ کی رقم سے بانی ایم کیو ایم اور انکے ساتھی شراب اور عیش و عشرت کی محفلیں برپا کرتے تھے۔ ایم کیو ایم کی دیکھا دیکھی اور پارٹیاں بھی زکوٰۃ اکٹھی کرنے کیلئے میدان میں آ گئیں۔ سب اپنے زیر اثر علاقوں سے زبردستی زکوٰۃ اکٹھی کرتی تھیں ۔ زبردستی زکوٰۃ اکٹھی کرنے کا سب سے بڑا کارنامہ حکومت پاکستان سرانجام دیتی ہے۔ ہر یکم رمضان کو بنکوںمیں نصاب سے زائد رقم پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ کاٹی جاتی ہے چاہیے یہ رقم صرف دس دن پہلے ہی بنک میں جمع کروائی گئی ہو ۔ لوگوں کی اکثریت یکم رمضان سے پہلے ہی اپنی رقم بنک سے نکلوا لیتی ہے یا بنک میں ''ڈیکلریشن'' جمع کروادیتی ہے کہ وہ زکوٰہ نہیں دینا چاہتے۔
رمضان نزدیک آتے ہی بے شمار ''این جی اوز'' بھی زکوٰۃ اکٹھی کرنے کیلئے میدان میں آجاتی ہیں کئی '' این جی اوز'' کمپنیوں اور مخیرحضرات کو اپنے فلاحی کاموں کی تفصیلات بتا کر رقم اکٹھی کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ یہ این جی اوز محض دوماہ کیلئے مخیر حضرات کو کال کرنے کیلئے خوبصورت آواز والی لڑکیوں کو ملازمت پر رکھتی ہیں۔ انھیں تنخواہ کے علاوہ کمیشن بھی دیا جاتا ہے، زکوٰۃ کی رقم کا تھوڑا سا حصہ یہ اپنے فلاحی کاموں پر خرچ کرتی ہیں زیادہ حصہ انکی جیبوں میں جاتا ہے۔
بے شمار این جی اوز رمضان کے دِ نوں میں ''فری افطاری''کا اہتمام بھی کرتی ہیں یہ این جی اوز سڑک کنارے فٹ پاتھوں یا خالی جگہ پر بڑے بڑے بینر لگاتی ہیں کہ''ناداروں اور بے کس افراد کی فری افطاری ''لا تعداد غریب'' افراد ان دسترخوانوں پر بیٹھے روزہ کُھلنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں جس طرح غریب اور نادار افراد کی افطاری کی تشہیر کی جاتی ہے، کوئی سفید پوش فرد وہاں روزہ کھولنے کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔ یہ این جی اوز افطاری کے چکر میں خاصی رقم اکٹھی کر لیتی ہیں زیادہ تر پیسہ ان کے کرتا دھرتا افراد کی جیبوں میں جاتا ہے۔
زکوٰۃ، صدقات اورخیرات کا اصل مقصد مستحق افراد کی مدد اور اُنکی بحالی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کیلئے ہے اسے جرمانے کی رقم کی مانند ادا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ رقم ایسے مستحق افراد میں خرچ کرنے کی ضرورت ہے کہ جو اپنی سفیدپوشی کا بھرم قائم رکھنے کیلئے کسی سے مانگ بھی نہیں سکتے۔انھی کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے، اگر آج یہ جذبہ پیدا ہو جائے تو ہمارے معاشرے میں طبقاتی تفریق کافی حد تک ختم ہو سکتی ہے۔