فوائد چوہدری نے کیا ناسا کا ’’ستیاناسا ‘‘
ہمارے خیال میں خلائی دوربین ہبل پاکستان اسٹیل ملز میں بنائی گئی ہوگی۔
فواد چوہدری صاحب ان دنوں سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر ہیں۔ ہم نے ''ان دنوں'' اس لیے کہا کہ موجودہ حکومت اپنے جس واحد وعدے پر عمل کر رہی ہے وہ ہے تبدیلی کا وعدہ۔ اسے کہتے ہیں ایفائے عہد۔ جب کوئی ٹھان لے کہ ''جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا'' تو وعدہ نبھانے کے چکر میں کبھی پولیس افسران کی تبدیلی ہوتی ہے، کبھی سرکاری حکام کی اور کبھی وزیر بدلے جاتے ہیں، تاکہ وعدہ پورا ہوتا نظر آئے۔
خیر یہ تو وضاحت تھی، کہنا ہم یہ چاہتے ہیں کہ وفاقی وزیرسائنس اور ٹیکنالوجی نے حال ہی میں جب یہ کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی دوربین ''ہبل'' پاکستانی ادارے سپارکو نے بنائی اور خلاء میں بھیجی ہے، تو دوسروں نے ان کا مذاق اُڑایا مگر ''مجھے یقین ہوا مجھ کو اعتبار آیا''، ہمارے خیال میں ہبل کی بابت ناسا کا دعویٰ غلط ہے اور فواد چوہدری صاحب نے سچ بول کر ناسا کا ''ستیاناسا'' کردیا ہے۔
ہمارے خیال میں خلائی دوربین ہبل پاکستان اسٹیل ملز میں بنائی گئی ہوگی، اور اس پر آنے والی لاگت ہی کی وجہ سے اسٹیل مل کی یہ حالت ہوئی کہ اس دوربین سے اب اسٹیل مل کی پیداوار تلاش کی اور منافع ڈھونڈا جارہا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔۔۔بلکہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ یہ حقیقت فواد چوہدری کے علاوہ اور کوئی کیوں نہ جان سکا؟ ناسا اب تک جھوٹ بول کر ہبل کو اپنے نام کرتا رہا تو پاکستانی حکم راں خاموش کیوں رہے؟ اور خود سپارکو نے کیوں خاموشی اختیار کیے رکھی؟ اول تو ایسے سوالات پیدا ہو ہی گئے ہیں تو انھیں پالنے کی ضرورت نہیں، انھیں پالنے میں پڑا رہنے دیں، زیادہ روئیں تو جھنجھنا دے کر کہہ دیں ''جاؤ کھیلو یہ لو جھنجھنا۔'' اگر پھر بھی یہ چُپ نہ ہوں تو فکر نہ کریں، ہمارے پاس ہر سوال کا جواب ہے۔
پہلے سوال کے جواب میں عرض کیا ہے کہ یہ جو اپنے فواد چوہدری ہیں درحقیقت یہ فوائد چوہدری ہیں، جن کے بہت سے فوائد ہیں۔ واضح رہے کہ ہم صرف اس مفید وصف کی بات نہیں کر رہے کہ وہ ہر حکومت اور سیاسی جماعت میں یوں فِٹ بیٹھتے ہیں جیسے انگوٹھی میں نگینہ، سُسرال میں نیک پروین حسینہ اور گرمی میں ساون کا مہینہ، یہ خصوصیت تو کئی سیاست دانوں کو حاصل ہے کہ وہ ہر ایک کو حاصل ہیں۔
ہم تو فواد چوہدری کے ان فوائد کی بات کر رہے ہیں جو صرف ان سے مخصوص ہیں۔ ان کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جو کوئی نہیں جانتا یہ وہ بھی جانتے ہیں، جیسے صرف پچاس روپے فی کلومیٹر ایندھن خرچ کرکے ہوائی جہاز اُڑانے کا طریقہ، ان کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اپنی گفتار سے گلیشیئر پر بھی آگ لگا سکتے ہیں، اس باعث سیاچن میں ہمارے بہت کام کے تھے پتا نہیں ان سے غلط جگہ کیوں فرائض انجام دلوائے جارہے ہیں، چوہدری صاحب کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ ان کی وجہ سے ایوان سے عوام تک ہنسنے کی سہولت میسر رہتی ہے۔
ان سارے فوائد کے باوصف ان کا کھوج کھوج کر قومی املاک اور ورثہ تلاش کرنا اور اس پر حق جتانا ایک الگ ہی خوبی ہی۔ کچھ دنوں قبل انھوں نے برطانیہ سے کوہ نور ہیرا طلب کیا تھا، امید ہے اب تک آچکا ہوگا۔ ویسے ملکہ برطانیہ سمیت سارے برطانوی ہمارے چوہدری صاحب کا مطالبہ سُن کر حیران رہ گئے ہوں گے کہ قرضے اور امداد طلب کرنے والوں کے بیچ یہ کون ہیرا ہے جو ہیرا طلب کر رہا ہے۔ اس روش کو برقرار رکھتے ہوئے وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہبل کو پاکستان ساختہ دوربین کہہ کر دراصل امریکا اور ناسا سے مطالبہ کیا ہے کہ ''میاں! سیدھی طریوں مان لو کہ ہبل ہماری ایجاد ہے، ورنہ اچھا نہیں ہوگا بتائے دے ریا ہوں۔'' چوہدری صاحب کیا کریں۔
ان کا وہی حال ہے جو علامہ اقبال کا، جو کتابیں اپنے آبا کی یورپ میں دیکھتے تھے تو ان کا دل ہوتا تھا سیپارہ۔ چوہدری صاحب اقبال تو نہیں بلند اقبال ضرور ہیں، اس لیے اپنی میراث دوسروں کے ہتھے چڑھے دیکھ کر وہ ہتھے سے اُکھڑ جاتے ہیں۔ امکان ہے کہ کچھ دنوں بعد ان کی زبانی ہم مزید حقائق جان پائیں گے، جیسے سب سے پہلے چاند پر قدم ایک پاکستانی نے رکھا تھا، وہ تو وہ سابق حکومتوں کے خلاف بہ طور احتجاج چاند ہی پر دھرنا دے کر بیٹھ گیا اور واپس نہیں آیا، ورنہ یہ اعزاز تو ہمیں حاصل ہے۔ یہ تو سو فی صد ممکن ہے کہ وہ دعویٰ کرکے دنیا بھر میں تہلکہ مچادیں کہ ''ہمارا خلائی مخلوق سے رابطہ ہو گیا ہے، اور کوئی آج نہیں ہوا، بہت پہلے سے ہے، بتا آج رہے ہیں۔''
خیر یہ تو وضاحت تھی، کہنا ہم یہ چاہتے ہیں کہ وفاقی وزیرسائنس اور ٹیکنالوجی نے حال ہی میں جب یہ کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی دوربین ''ہبل'' پاکستانی ادارے سپارکو نے بنائی اور خلاء میں بھیجی ہے، تو دوسروں نے ان کا مذاق اُڑایا مگر ''مجھے یقین ہوا مجھ کو اعتبار آیا''، ہمارے خیال میں ہبل کی بابت ناسا کا دعویٰ غلط ہے اور فواد چوہدری صاحب نے سچ بول کر ناسا کا ''ستیاناسا'' کردیا ہے۔
ہمارے خیال میں خلائی دوربین ہبل پاکستان اسٹیل ملز میں بنائی گئی ہوگی، اور اس پر آنے والی لاگت ہی کی وجہ سے اسٹیل مل کی یہ حالت ہوئی کہ اس دوربین سے اب اسٹیل مل کی پیداوار تلاش کی اور منافع ڈھونڈا جارہا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔۔۔بلکہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ یہ حقیقت فواد چوہدری کے علاوہ اور کوئی کیوں نہ جان سکا؟ ناسا اب تک جھوٹ بول کر ہبل کو اپنے نام کرتا رہا تو پاکستانی حکم راں خاموش کیوں رہے؟ اور خود سپارکو نے کیوں خاموشی اختیار کیے رکھی؟ اول تو ایسے سوالات پیدا ہو ہی گئے ہیں تو انھیں پالنے کی ضرورت نہیں، انھیں پالنے میں پڑا رہنے دیں، زیادہ روئیں تو جھنجھنا دے کر کہہ دیں ''جاؤ کھیلو یہ لو جھنجھنا۔'' اگر پھر بھی یہ چُپ نہ ہوں تو فکر نہ کریں، ہمارے پاس ہر سوال کا جواب ہے۔
پہلے سوال کے جواب میں عرض کیا ہے کہ یہ جو اپنے فواد چوہدری ہیں درحقیقت یہ فوائد چوہدری ہیں، جن کے بہت سے فوائد ہیں۔ واضح رہے کہ ہم صرف اس مفید وصف کی بات نہیں کر رہے کہ وہ ہر حکومت اور سیاسی جماعت میں یوں فِٹ بیٹھتے ہیں جیسے انگوٹھی میں نگینہ، سُسرال میں نیک پروین حسینہ اور گرمی میں ساون کا مہینہ، یہ خصوصیت تو کئی سیاست دانوں کو حاصل ہے کہ وہ ہر ایک کو حاصل ہیں۔
ہم تو فواد چوہدری کے ان فوائد کی بات کر رہے ہیں جو صرف ان سے مخصوص ہیں۔ ان کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جو کوئی نہیں جانتا یہ وہ بھی جانتے ہیں، جیسے صرف پچاس روپے فی کلومیٹر ایندھن خرچ کرکے ہوائی جہاز اُڑانے کا طریقہ، ان کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اپنی گفتار سے گلیشیئر پر بھی آگ لگا سکتے ہیں، اس باعث سیاچن میں ہمارے بہت کام کے تھے پتا نہیں ان سے غلط جگہ کیوں فرائض انجام دلوائے جارہے ہیں، چوہدری صاحب کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ ان کی وجہ سے ایوان سے عوام تک ہنسنے کی سہولت میسر رہتی ہے۔
ان سارے فوائد کے باوصف ان کا کھوج کھوج کر قومی املاک اور ورثہ تلاش کرنا اور اس پر حق جتانا ایک الگ ہی خوبی ہی۔ کچھ دنوں قبل انھوں نے برطانیہ سے کوہ نور ہیرا طلب کیا تھا، امید ہے اب تک آچکا ہوگا۔ ویسے ملکہ برطانیہ سمیت سارے برطانوی ہمارے چوہدری صاحب کا مطالبہ سُن کر حیران رہ گئے ہوں گے کہ قرضے اور امداد طلب کرنے والوں کے بیچ یہ کون ہیرا ہے جو ہیرا طلب کر رہا ہے۔ اس روش کو برقرار رکھتے ہوئے وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہبل کو پاکستان ساختہ دوربین کہہ کر دراصل امریکا اور ناسا سے مطالبہ کیا ہے کہ ''میاں! سیدھی طریوں مان لو کہ ہبل ہماری ایجاد ہے، ورنہ اچھا نہیں ہوگا بتائے دے ریا ہوں۔'' چوہدری صاحب کیا کریں۔
ان کا وہی حال ہے جو علامہ اقبال کا، جو کتابیں اپنے آبا کی یورپ میں دیکھتے تھے تو ان کا دل ہوتا تھا سیپارہ۔ چوہدری صاحب اقبال تو نہیں بلند اقبال ضرور ہیں، اس لیے اپنی میراث دوسروں کے ہتھے چڑھے دیکھ کر وہ ہتھے سے اُکھڑ جاتے ہیں۔ امکان ہے کہ کچھ دنوں بعد ان کی زبانی ہم مزید حقائق جان پائیں گے، جیسے سب سے پہلے چاند پر قدم ایک پاکستانی نے رکھا تھا، وہ تو وہ سابق حکومتوں کے خلاف بہ طور احتجاج چاند ہی پر دھرنا دے کر بیٹھ گیا اور واپس نہیں آیا، ورنہ یہ اعزاز تو ہمیں حاصل ہے۔ یہ تو سو فی صد ممکن ہے کہ وہ دعویٰ کرکے دنیا بھر میں تہلکہ مچادیں کہ ''ہمارا خلائی مخلوق سے رابطہ ہو گیا ہے، اور کوئی آج نہیں ہوا، بہت پہلے سے ہے، بتا آج رہے ہیں۔''