ذرا بند قبا دیکھ

پاکستان میں ہر وزیر اپنے علاوہ بھی بیان دے سکتا ہے جس سے قریبی ممالک میں تلخی پھیل جانے کا اندیشہ لگا رہتا ہے۔

anisbaqar@hotmail.com

علامہ کی شاعری محض شعر و سخن کا اجتماع نہیں بلکہ ہمہ وقت زندہ رہنے والی شاعرانہ ترکیبیں اور سیاسی و سماجی ہدایات کا حسین مرقع ہوتا ہے۔آپ جس انداز میں چاہیں تنقید کا اسٹیئرنگ موڑ دیں مگر فی الحال ایک محدود موضوع پاکستان کی خارجہ حکمت عملی پر گفتگو مقصود ہے۔ تو آئیے پاک چین دوستی سے گفتگو کا آغاز کریں۔

1962ء میں بھارت اور چین میں زبردست سرحدی جنگ ہوئی، اس کا تذکرہ ایوب خان نے اپنی کتاب ''فرینڈز ناٹ ماسٹرز'' میں کیا ہے۔ اس میں انھوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا تھا کہ وہ امریکی ایما پر بھارت سے دفاعی معاہدہ کرنا چاہتے تھے جو آج کے حالات کے تحت ایک زبردست غلطی ہوتی۔ کیونکہ اس معاہدے میں کشمیر کا کوئی ذکر نہ تھا اور بھارت چونکہ وہ غیر جانبدار تحریک کا رکن اور نمایاں لیڈر تھا لہٰذا اس نے غیر جانبدار ملکوں میں خود کو نمایاں اور روس اور کیوبا کو خوش کرنے کے لیے موقع سے فائدہ اٹھایا۔کیونکہ ان دنوں چین اور روس میں تلخ کلامی شروع ہوچکی تھی اور عالمی کمیونسٹ تحریک نظریاتی طور پر تقسیم ہوچکی تھی۔

چنانچہ ان دنوں چین سے پاکستان کے کوئی خاص مراسم نہ تھے البتہ جنرل ایوب خان نے ان دنوں چین سے دوستی کا منصوبہ بنایا اور لداخ کے علاقے پر لین دین سے اس مسئلے کو آگے بڑھایا۔ چین سے دوستی کی سرخ شمع ذوالفقار علی بھٹو نے روشن کی جو وقت کے ساتھ اس قدر مضبوط ہو گئی ہے کہ سی پیک کی شکل میں پاکستان کے لیے ایک عطیہ ہے۔ مگر یہ اہم راستہ چین سے فکری کے بجائے امریکی راہداری پر ہے اور پوری سیاسی اور معاشی راستہ وہی ہے جو مغرب نواز قوتوں کا ہے۔ ذرا غور فرمائیے اگر بھارت چین سرحدی جنگ کے بعد جنرل ایوب خان جو فیلڈ مارشل بھی تھے اور آمر بھی تھے اگر پنڈت نہرو ان کی دوستانہ آفر کو یس (Yes) کردیتے تو آج پاکستان اور بھارت کی موجودہ صورتحال کیا ہوتی؟

اس لیے موجودہ دور میں وزارت خارجہ کا قلم دان بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کی ذرا سی غلطی یا بہتری کم ازکم نصف صدی پر محیط ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں تعلیمی محاذ پر بھی فارن افیئرز کے شعبے کی بڑی اہمیت ہے۔ مگر پاکستان میں اس محاذ پر ہر وزیر یا کبیر کی زبان آزاد ہے جس کی وجہ سے بیرونی تعلقات میں اتار چڑھاؤ رہتا ہے۔ سابق وزیر اعظم کے دور حکومت میں تقریباً 4 برس کوئی پاکستان کا وزیر خارجہ نہ تھا وزیر اعظم خود ہی اقوام متحدہ میں اپنی بھڑاس نکالتے تھے اور اختتامی دور میں خواجہ آصف وزیر خارجہ نامزد ہوئے جو امریکا سے تعلقات کو خراب تر کرتے رہے۔


افغان جنگ پر پاکستانی کردار کو ایک بڑی غلطی قرار دیا۔ مگر پھر بھی ان کو اپنی قربانیوں کی داستان سناتے رہتے تھے اور پھر اسی لمحے اپنی غلط حکمت عملی قرار دے کر امریکی انتظامیہ کو اپنے خلاف کرتے رہے، نتیجہ یہ ہوا کہ امریکی امداد میں کٹوتی اور بے سبب تلخی کا طویل دورانیہ جس کو موجودہ حکومت پُر کرنے میں خاصی معروف رہی اور آئی ایم ایف کا موجودہ دباؤ بھی کسی حد تک اسی کا شاخسانہ کہا جاسکتا ہے۔ دنیا کے دو اہم وزرائے خارجہ میں ہنگری کسنجر جو امریکا کو کئی محاذ پر آگے لے گئے اور سوویت یونین کے سیاسی مفکر سوسولوف جو وزارت خارجہ کا اسٹیئرنگ ہاتھ میں رکھتے تھے کافی مشہور رہے ہیں۔ مگر پاکستان میں وزارت خارجہ کو اتنی اہمیت نہیں جس کا وہ حقدار ہے البتہ کراچی یونیورسٹی میں ایک نصاب بین الاقوامی تعلقات پر ہے جو International Relations کے نام سے منسوب ہے مگر اس کا کوئی سیاسی فائدہ نہیں لیا جاتا۔ البتہ صاحب ثروت افراد کو نوکریاں مل جاتی ہیں۔

پاکستان میں ہر وزیر اپنے علاوہ بھی بیان دے سکتا ہے جس سے قریبی ممالک میں تلخی پھیل جانے کا اندیشہ لگا رہتا ہے بلکہ ایک عجیب و غریب بیان جو گزشتہ دنوں پاکستانی وزیر خارجہ نے دیا کہ جنوبی پنجاب کا صوبہ بننے کی امید کو انھوں نے ناامیدی میں بدل دیا کہ اس صوبے کا قیام مشکل ہے کیونکہ پنجاب میں ان کی پارٹی کی اکثریت نہیں ہے ، یہ دلیل کتنی مثبت ہے یا منفی۔ وزارت خارجہ کو وزارت داخلہ کے موضوعات کو موضوع بحث بنانا کیا معنی ایسے تمام امور پر علامہ اقبال نے حدود و قیود کی حد بندی کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ دیکھ بھال کر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے کہ آپ کے کیا فرائض ہیں اور آپ کو اپنے حدود میں ہی رہنا چاہیے ایسی ہی بے تکی باتوں سے ایران اور پاکستان میں دوریوں کا اشارہ ہمارے وزیر اعظم نے کیا ہے جس کو وہ خود خوبصورتی سے پر کریں گے۔ ایک دوسرا پہلو جو آج کل کے سیاسی حالات کو تشویش ناک بنا رہا ہے وہ آئی ایم ایف کا موجودہ دائرہ کار ہے جس میں وہ باہر آکر سیاسی معاملات میں ٹانگ اڑانا ہے۔علامہ فرماتے ہیں:

دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ

اب یہاں آئی ایم ایف دامن کی چوڑائی لمبائی دیکھے بنا مطالبہ کر رہا ہے کہ سکہ کے اتار چڑھاؤ کا وہ مالک ہے آئی ایم ایف کی بے شمار خواہشات ہیں اور کچھ تو ایسی جو عوام کو لہولہان کرنے والی ہیں۔ اسپتالوں کی نجکاری جن میں مشہور زمانہ لیڈی ریڈنگ اسپتال کو پرائیویٹ اسپتال بنانے کا عندیہ اور ایسے ہی بڑے دیگر اسپتالوں کو عوام کی پہنچ سے دور کرنے کا مطالبہ۔ جس سے عوام اور اسپتال کے ملازمین کو سڑکوں پر آنے کی دعوت دینا ہے۔ اسی طرح پی آئی اے کو نجکاری کا مشورہ۔ آئی ایم ایف اپنے حدود سے تجاوز کر رہا ہے۔ اس نے عوام کی بند قبا پر ضرب لگائی ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو گزشتہ حکومت نے پی آئی اے کو نج کاری میں لانے کی کوشش کی تھی۔ جس سے ایئرلائن جامد و ساکت ہوگئی تھی۔

سیکڑوں لہولہان ہوئے تھے اور عنایت رضا جو بائیں بازو کے ایک مشہورکارکن تھے شہید ہوگئے تھے۔ اس لیے یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچا۔ آج بھی پی آئی اے یونین کے تنظیم ساز لیڈر طفیل عباس کے تیارکردہ مزدور کارکن اس منصوبے کی مزاحمت کے لیے تیار ہیں۔ ایسی صورت میں آئی ایم ایف دانستہ طور سے موجودہ حکومت کی مقبولیت کو کم کرنے اور عید کے بعد اپوزیشن کو تقویت پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے لہٰذا یہ کہنا بجا ہوگا ہر قدم پر جائزہ لینا ضروری ہے۔
Load Next Story