مہنگائی سی مہنگائی ہے
اخلاقی بیماریوں کو انسان اپنے خوبصورت لباس میں بڑے بڑے موٹے کتابی اور جذباتی الفاظ میں چھپا لیتا ہے۔
خبریں گرم ہیں ڈالرکی قدر میں اضافہ، سونا گزشتہ چند ہفتوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، اسٹاک مارکیٹ میں مندی سرمایہ کاروں کے کروڑوں روپے ڈوبے گئے، بجلی کے نرخ پھر بڑھ گئے گیس پھر سے مہنگی روپے کی قدر غیر مستحکم۔
مسائل بڑھ رہے ہیں اور پاکستانی عوام دب رہے ہیں، بوجھ مہنگائی کا قرضوں کا، ٹیکسوں کا لیکن اس تمام سلسلے میں ہم سب بشمول حکمران کے ہلکان ہو رہے ہیں حالات برے نظر آرہے ہیں لیکن کیا ان حالات میں ہمیں اپنے اور پرائے کی تمیز ابھی باقی ہے، اخلاقیات کی رمق ابھی زندہ ہے، شعور اب بھی کہیں اندر موجود ہے تو ہم اب بھی ایک زندہ قوم ہیں۔
اس وقت دنیا بھر میں وینزویلا ایک ایسا ملک ہے جہاں مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، وہاں 57.30 کی شرح فیصد سے مہنگائی موجود ہے جبکہ زرمبادلہ کا نمبر اس کے بعد آتا ہے، پچھلے چند برسوں کے مہنگائی کے ہوش ربا تماشوں کا شکار ممالک کی فہرست پر نظر ڈالیں تو بہت سے ایسے ممالک بھی نظر آرہے ہیں جو 2014 سے لے کر 2019 تک مصائب کا شکار تو رہے ہیں لیکن انھوں نے اس عفریت کے پنجے سے کسی قدر چھٹکارا ضرور پایا ہے ۔ اس عمل میں نہ صرف اندرونی طور پر متحرک قوتوں کا کردار نظر آ رہا ہے تو وہیں بیرونی بڑی قوتوں کے دباؤ میں کمی نظر آتی ہے یہ بڑی قوتیں کون ہیں۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق امریکا اور چین کے درمیان معاملات ڈالر کی قیمت پر اثرانداز ہیں۔
ایک اور خبر امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی چھوٹی سی غلطی کسی بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہے ۔ اس کشیدگی پر پاکستان کی تشویش بھی درج ہے۔ ان دونوں خبروں میں امریکا چین سے زیادہ اور حالیہ امریکی سرکار کے دور میں ایران سے ذرا کم خائف ہے، پچھلے چند برسوں میں یہ ناراضگی خاصی تھی جس کی وجہ سے ایران سے بیرونی دنیا کی تجارتی منڈیوں میں مندی رہی تھی ایران تنہائی کا شکار تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان نے کبھی بھی ایران کا ساتھ نہیں چھوڑا لیکن ایک کمزور ملک کے ساتھ اور ایک بڑے طاقتور ملک کی ناراضگی کا مقابلہ ہرگز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ وہیں حال میں پاکستان میں بلوچستان میں بس میں اتار کر مخصوص لوگوں کو شناخت کے بعد جان سے مار دینا اور کارروائی کے بعد ملزمان کا اپنا سفر پاکستان سے بیرونی راستے پر جاری رکھنا اور پاکستان کا صرف ایک بار نہیں کئی بار ان مداخلتوں پر احتجاج کرنا بھی ریکارڈ میں شامل ہے۔
ہم چین کے ساتھ اس وقت بھی کھڑے تھے جب دنیا میں اس کے پیر جیسے ریت میں دبے تھے اور آج جب چین ایک طاقتور بزنس ٹائیکون بن کر بڑی طاقتوں کے حواس پر سوار ہے اس وقت بھی ہم اس کے ساتھ ہیں، گو ایسے بہت پروجیکٹس بھی ہم نے دوستی کی نذر کردیے جو ہمیں خاصے مہنگے پڑے ہیں مثلاً ریلوے کے پروجیکٹ کی مثال لیجیے سرکلر ٹرینوں کے اس منصوبے میں ہمیں ایک اور دوست ملک سے بھی آفر ملی تھی لیکن ہم جو دوستی پر جان چھڑکنے والے ہیں انھیں جھٹکا اور چین کو اوکے کردیا یہاں تک کہ چینی خواتین کو لوگوں نے کراچی سے لے کر پنجاب تک کے بازاروں میں سستے موبائل فونز فروخت کرتے دیکھا۔
بہت سے لوگوں نے کچھ انتہائی واہیات قسم کے چینی دوست بھائی جانوں کو پنجاب میں پولیس کے عملے سے بدتمیزی کرتے اور ہمارے پرچم جو پولیس وین پر چھپا تھا چھیڑ خانی کرتے دیکھا، یہ ویڈیو خوب گھومی پھری اور جب اعلیٰ حکام تک بات پہنچی تو پاک چین بھائی بھائی کی صدائیں بھی بلند کیں وائلن پر پاکستانی گانوں کی دھنیں اور نعرہ دوستی بھی وائرل ہوئے، ہم پاکستانی دراصل جذباتی قوم ہیں کسی بھی غیر ملکی کو اپنی جانب مسکراتے دیکھا ٹوٹی پھوٹی اردو بولتے سنا اور ہمارے محبت کے سوتے بہہ نکلے،یہاں تک کہ چینی مرد حضرات نے محبت کے اس ناتے کو شادی کے بندھن میں جکڑ کر بزنس کی راہیں تلاش کرلیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ ہم پاکستانی مادیت پسندی کے گرداب میں بری طرح جکڑ چکے ہیں اس گرداب نے ہمیں رشوت ستانی، اقربا پروری اور کرپشن کے زہریلے کانٹوں میں بری طرح الجھا دیا، اونچی اونچی تعمیرات نے گلی گلی کرائے کے گھر تلاش کرنے والوں کو سیٹھ بنا دیا جن میں دولت بانٹنے کے بجائے چھپا کر رکھنے کی جبلت ایسی جاگی کہ جس کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں ۔
یہاں تک کہ گھرکے پنکھے بھی سونے سے بنے ہوئے ہیں جن کا کام صرف ہوا فراہم کرنا ہے یہ احساس محرومی نہیں تو اور کیا ہے ماضی میں احساس محرومی کے مریضوں نے معاشرے میں جس ناہمواری اور اخلاقی انحطاط کی بنیاد رکھ دی ہے اسے دور کرنے کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟ جب ایک معمولی سا ٹھیکیدار جو لوگوں کے قرضے کھا کر کچھ عرصے کے لیے گم ہوجاتا تھا تاکہ لوگ اسے بھول جائیں ایک عام سا افسر رشوت لے کر اپنے بینک میں اضافہ کرتا رہا۔ اسکوٹر سے گاڑی اور پھر آگے کا سفر، ایک معمولی سا تاجر کیا یہ ایک کہانی ہے، نہیں بلکہ حقیقت ہے، یہ سب ہمارے ملکی ڈھانچے کے کردار رہے ہیں۔
کیا نیچے سے اوپر کا سفر کرنا گناہ ہے؟ ہرگز نہیں، ترقی کرنا ہر انسان کا حق ہے لیکن اس ترقی کے زینے پر چڑھتے اگر دوسروں کے حقوق سلب کرلیے جائیں تو انسان اخلاقی بیماریوں میں الجھ جاتا ہے یہ بیماریاں عام طبعی بیماریوں سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہیں جو نسلوں کی بربادی کا موجب بنتی ہیں۔
انسانی بیماریوں کا علاج معالج کرلیتا ہے جبکہ اخلاقی بیماریوں کو انسان اپنے خوبصورت لباس میں بڑے بڑے موٹے کتابی اور جذباتی الفاظ میں چھپا لیتا ہے۔ ان بیماریوں سے وہی قوتیں فائدہ اٹھاتی ہیں جنھیں آپ کبھی روس تو کبھی امریکا کا نام دے دیتے ہیں، یاد رہے کہ اب بھی ماشا اللہ سے ہم ایک زندہ قوم ہیں ہلکان ہونے اورکرنے کے عمل کی بجائے یقین اور اتحاد سے فیصلے کریں، قرضے وہیں لگائیں جہاں اس کی ضرورت ہے، ورنہ ڈالرزکی گڈیوں پر پھر سے خاک جم جائے گی۔
مسائل بڑھ رہے ہیں اور پاکستانی عوام دب رہے ہیں، بوجھ مہنگائی کا قرضوں کا، ٹیکسوں کا لیکن اس تمام سلسلے میں ہم سب بشمول حکمران کے ہلکان ہو رہے ہیں حالات برے نظر آرہے ہیں لیکن کیا ان حالات میں ہمیں اپنے اور پرائے کی تمیز ابھی باقی ہے، اخلاقیات کی رمق ابھی زندہ ہے، شعور اب بھی کہیں اندر موجود ہے تو ہم اب بھی ایک زندہ قوم ہیں۔
اس وقت دنیا بھر میں وینزویلا ایک ایسا ملک ہے جہاں مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، وہاں 57.30 کی شرح فیصد سے مہنگائی موجود ہے جبکہ زرمبادلہ کا نمبر اس کے بعد آتا ہے، پچھلے چند برسوں کے مہنگائی کے ہوش ربا تماشوں کا شکار ممالک کی فہرست پر نظر ڈالیں تو بہت سے ایسے ممالک بھی نظر آرہے ہیں جو 2014 سے لے کر 2019 تک مصائب کا شکار تو رہے ہیں لیکن انھوں نے اس عفریت کے پنجے سے کسی قدر چھٹکارا ضرور پایا ہے ۔ اس عمل میں نہ صرف اندرونی طور پر متحرک قوتوں کا کردار نظر آ رہا ہے تو وہیں بیرونی بڑی قوتوں کے دباؤ میں کمی نظر آتی ہے یہ بڑی قوتیں کون ہیں۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق امریکا اور چین کے درمیان معاملات ڈالر کی قیمت پر اثرانداز ہیں۔
ایک اور خبر امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی چھوٹی سی غلطی کسی بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہے ۔ اس کشیدگی پر پاکستان کی تشویش بھی درج ہے۔ ان دونوں خبروں میں امریکا چین سے زیادہ اور حالیہ امریکی سرکار کے دور میں ایران سے ذرا کم خائف ہے، پچھلے چند برسوں میں یہ ناراضگی خاصی تھی جس کی وجہ سے ایران سے بیرونی دنیا کی تجارتی منڈیوں میں مندی رہی تھی ایران تنہائی کا شکار تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان نے کبھی بھی ایران کا ساتھ نہیں چھوڑا لیکن ایک کمزور ملک کے ساتھ اور ایک بڑے طاقتور ملک کی ناراضگی کا مقابلہ ہرگز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ وہیں حال میں پاکستان میں بلوچستان میں بس میں اتار کر مخصوص لوگوں کو شناخت کے بعد جان سے مار دینا اور کارروائی کے بعد ملزمان کا اپنا سفر پاکستان سے بیرونی راستے پر جاری رکھنا اور پاکستان کا صرف ایک بار نہیں کئی بار ان مداخلتوں پر احتجاج کرنا بھی ریکارڈ میں شامل ہے۔
ہم چین کے ساتھ اس وقت بھی کھڑے تھے جب دنیا میں اس کے پیر جیسے ریت میں دبے تھے اور آج جب چین ایک طاقتور بزنس ٹائیکون بن کر بڑی طاقتوں کے حواس پر سوار ہے اس وقت بھی ہم اس کے ساتھ ہیں، گو ایسے بہت پروجیکٹس بھی ہم نے دوستی کی نذر کردیے جو ہمیں خاصے مہنگے پڑے ہیں مثلاً ریلوے کے پروجیکٹ کی مثال لیجیے سرکلر ٹرینوں کے اس منصوبے میں ہمیں ایک اور دوست ملک سے بھی آفر ملی تھی لیکن ہم جو دوستی پر جان چھڑکنے والے ہیں انھیں جھٹکا اور چین کو اوکے کردیا یہاں تک کہ چینی خواتین کو لوگوں نے کراچی سے لے کر پنجاب تک کے بازاروں میں سستے موبائل فونز فروخت کرتے دیکھا۔
بہت سے لوگوں نے کچھ انتہائی واہیات قسم کے چینی دوست بھائی جانوں کو پنجاب میں پولیس کے عملے سے بدتمیزی کرتے اور ہمارے پرچم جو پولیس وین پر چھپا تھا چھیڑ خانی کرتے دیکھا، یہ ویڈیو خوب گھومی پھری اور جب اعلیٰ حکام تک بات پہنچی تو پاک چین بھائی بھائی کی صدائیں بھی بلند کیں وائلن پر پاکستانی گانوں کی دھنیں اور نعرہ دوستی بھی وائرل ہوئے، ہم پاکستانی دراصل جذباتی قوم ہیں کسی بھی غیر ملکی کو اپنی جانب مسکراتے دیکھا ٹوٹی پھوٹی اردو بولتے سنا اور ہمارے محبت کے سوتے بہہ نکلے،یہاں تک کہ چینی مرد حضرات نے محبت کے اس ناتے کو شادی کے بندھن میں جکڑ کر بزنس کی راہیں تلاش کرلیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ ہم پاکستانی مادیت پسندی کے گرداب میں بری طرح جکڑ چکے ہیں اس گرداب نے ہمیں رشوت ستانی، اقربا پروری اور کرپشن کے زہریلے کانٹوں میں بری طرح الجھا دیا، اونچی اونچی تعمیرات نے گلی گلی کرائے کے گھر تلاش کرنے والوں کو سیٹھ بنا دیا جن میں دولت بانٹنے کے بجائے چھپا کر رکھنے کی جبلت ایسی جاگی کہ جس کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں ۔
یہاں تک کہ گھرکے پنکھے بھی سونے سے بنے ہوئے ہیں جن کا کام صرف ہوا فراہم کرنا ہے یہ احساس محرومی نہیں تو اور کیا ہے ماضی میں احساس محرومی کے مریضوں نے معاشرے میں جس ناہمواری اور اخلاقی انحطاط کی بنیاد رکھ دی ہے اسے دور کرنے کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟ جب ایک معمولی سا ٹھیکیدار جو لوگوں کے قرضے کھا کر کچھ عرصے کے لیے گم ہوجاتا تھا تاکہ لوگ اسے بھول جائیں ایک عام سا افسر رشوت لے کر اپنے بینک میں اضافہ کرتا رہا۔ اسکوٹر سے گاڑی اور پھر آگے کا سفر، ایک معمولی سا تاجر کیا یہ ایک کہانی ہے، نہیں بلکہ حقیقت ہے، یہ سب ہمارے ملکی ڈھانچے کے کردار رہے ہیں۔
کیا نیچے سے اوپر کا سفر کرنا گناہ ہے؟ ہرگز نہیں، ترقی کرنا ہر انسان کا حق ہے لیکن اس ترقی کے زینے پر چڑھتے اگر دوسروں کے حقوق سلب کرلیے جائیں تو انسان اخلاقی بیماریوں میں الجھ جاتا ہے یہ بیماریاں عام طبعی بیماریوں سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہیں جو نسلوں کی بربادی کا موجب بنتی ہیں۔
انسانی بیماریوں کا علاج معالج کرلیتا ہے جبکہ اخلاقی بیماریوں کو انسان اپنے خوبصورت لباس میں بڑے بڑے موٹے کتابی اور جذباتی الفاظ میں چھپا لیتا ہے۔ ان بیماریوں سے وہی قوتیں فائدہ اٹھاتی ہیں جنھیں آپ کبھی روس تو کبھی امریکا کا نام دے دیتے ہیں، یاد رہے کہ اب بھی ماشا اللہ سے ہم ایک زندہ قوم ہیں ہلکان ہونے اورکرنے کے عمل کی بجائے یقین اور اتحاد سے فیصلے کریں، قرضے وہیں لگائیں جہاں اس کی ضرورت ہے، ورنہ ڈالرزکی گڈیوں پر پھر سے خاک جم جائے گی۔