چاہتوں کی منزل

ہمارے ملک کے اکثریتی لوگ نیک، ہمدرد، محبت کرنے والے ہیں لیکن عرصہ دراز سے وہ تمام لوگ چاہتوں کی منزل کے متلاشی ہیں۔

KARACHI:
لکیر پیٹنے والے شخص سے پوچھا ! اس لکیرکوکیوں پیٹ رہے ہو؟ جواب مل ا! یہاں سے سانپ گزرا ہے یہ لکیر اس کے گزرنے کا نشان ہے۔ میں نے پوچھا ! تمہیں کیسے معلوم یہاں سے سانپ گزرا ہے۔ موصوف فرمانے لگے! میں نے خود دیکھا ہے وہ اس جگہ سے گزر رہا تھا۔ جب تم نے اسے جاتے دیکھا تو مارا کیوں نہیں؟ بولا میں نے مصمم ارادہ کیا یہ گزر جائے گا تو میں اس کی لکیر پیٹوں گا سو میں کر رہا ہوں۔ میرے پاس کچھ مزید کہنے کے لیے الفاظ ختم ہوگئے کیا کہوں؟ کیسے کہوں؟

ہمارے ملک کے اکثریتی لوگ نیک، ہمدرد، محبت کرنے والے ہیں لیکن عرصہ دراز سے وہ تمام لوگ چاہتوں کی منزل کے متلاشی ہیں۔ دوسری بات غربت بڑھ رہی ہے، وسائل بڑھنے کی بجائے کم بلکہ کہیں تو ناپید ہو رہے ہیں۔ عوام کے لیے صاف پانی، خوراک، تعلیم، علاج معالجہ، روزگار، تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے، سر چھپانے کے لیے چھت نہیں، خواص کے پاس سب کچھ بلکہ افراط زر و جائیدادیں ہیں۔ تاریکی میں تجلی، چراغوں میں تیل نہیں نواحی علاقوں میں گاؤں، دیہات میں غربت نمایاں ہے۔کسانوں کے چہرے مرجھائے ہوئے، محنت کش کملائے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ تعلیم حاصل کی ملازمت نہ ملی دو وقت کی روٹی کے لیے مزدوری شروع کردی تاکہ اپنی اپنے اہل خانہ کی بھوک و افلاس مٹا سکے۔

میری ایک تعلیم یافتہ محنت کش سے بات ہوئی کہنے لگا چند امرا، بڑے لوگ ایسے ہیں جوگرگٹ کی طرح رنگ بدلتے رہے یقینا ان کی شام رات عیش وعشرت کی ہوگی، دن ان کا عیاری و مکاری فریب کاری میں گزرتا رہا۔ ملک کے تمام محنت کش ان کے دامن بھرتے رہے وہ لوگ ان محنت کشوں کے دامن میں چنگاری ڈالتے رہے۔ غربا، مساکین، بیوہ، بے کسوں، یتیموں سے ان کے حقوق چھینتے رہے یہ نادان، سادہ لوح فضا کے ساتھ بھاگ بھاگ کر خواب دیکھتے رہے جاگ جاگ کر۔ عوام کے سپنے ہر دور میں ٹوٹے اور ٹوٹتے رہے۔

ہمارے ملک کی اکثریتی آبادی جفا کش، محنت کشوں پر محیط ہے یہ ملک کا سرمایہ ہیں۔ عوام جس طرح پہلے مہنگائی کی چکی میں پستی رہی اب بھی وہی آنے والا وقت شاید زیادہ مہنگائی لائے۔ عوام کی سہولیات، خوشحالی، بنیادی ضروریات کی کوئی بات نہیں کر رہا۔ کبھی آئی ایم ایف کا قرض، کبھی ڈالر مہنگا ہوگیا، آئل گیس نکالنے کے لیے کراچی کے سمندر میں کیکڑا ون میں کہا تھا وہ نہیں نکلا جھوٹ کیوں کہا۔ ایسی ایسی باتیں جن کو سن کر شرم آتی ہے۔ ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا تو معیشت بدحال نہ ہوتی، قرض نہ لیں تو ملک کیسے چلائیں۔ جب ملک کی معیشت تباہ حال ہوگی تو ڈالر لازمی مہنگا ہوگا۔ اگر کیکڑا ون سے آئل گیس نہ نکل سکا تو اس میں حکومت کا کیا قصور، آج نہیں تو کل کسی اور جگہ سے تیل نکل سکتا ہے کوشش جاری رہنی چاہیے ایسا لگتا ہے مخالفین کے پاس کہنے کو کچھ نہیں عوام سے ہمدردی ہے نہ ملک کا خیال۔

میں ایک مثال پیش کر رہا ہوں۔ ایماندار، دیانتدار، ملک و ملت کے خیر خواہ، ہمدرد چند نیک انسانوں نے اس ملک میں مثال قائم کرتے ہوئے کرپٹ عناصر کو سزا دی، سلاخوں کے پیچھے کھڑا کیا۔ لیکن بعد میں ان ایمانداروں کو اپنی جان بچانی مشکل پڑ گئی گھر بیٹھنے پر عافیت جانی۔کرپٹ کا ساتھ دینے والے زیادہ طاقتور تھے وہ خود بھی ملکی و غیر ملکی طاقتور، اس قسم کے لوگوں کا سادہ لوح نیک لوگ کیا مقابلہ کریں۔


بحیثیت مسلمان میں جانتا ہوں جو کام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوتے ہیں وہ کامیاب و مستحکم ہوتے ہیں۔ حیرت انگیز ضمانتیں، ملک سے دوسرے ملک جانے کی اجازتیں ، ایک فاقہ کش غریب انسان نے بھوک و افلاس سے تنگ آکر موٹرسائیکل چوری کی پکڑا گیا ضمانت تک نہ ہوسکی کئی سال بیت گئے جیل میں زندگی گزار رہا ہے کہنے لگا جیل میں کھانا تو مل رہا ہے۔ ایک شخص کو رمضان المبارک میں روزہ کے یوم کھاتے ہوئے پکڑ لیا۔ پانچ دن کی سزا ہوئی پانچ دن کی سزا کے لیے جیل میں ڈال کر بھول گئے غریب آدمی تھا کسی نے پرواہ نہ کی چھ سال تک مقید رہا۔ یہ عام انسان بلکہ ملک کی اکثریتی عوام کی بات ہے بڑے لوگوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا کیونکہ وہ کوئی چھوٹا جرم نہیں کرتے جتنے بڑے ہوتے ہیں اتنا ہی بڑا جرم پھر اس میں مراعات، سہولیات، حاصل کرتے ہیں۔ کہی سنی بات نہیں سامنے سب کچھ نظر آرہا ہے۔

معیشت کی بدحالی ہو، عالمی بینک کے قرض ہوں، بڑھتی ہوئی مہنگائی ہو، غریب عوام متاثر ہوتی ہے مال و زر والوں پر کوئی اثر نہیں بلکہ وہ امیر سے امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ یا دوں کے زخم، لب بام آرزوؤں کے پھول، سنسان راستے، جاتی ہوئی بہار، آنسو بھری زندگی، تمنائے دل اُداس، اشک بار ہوئی، غم بے کسی، ویراں ہیں امید کی راہیں۔ بدکردار، چوروں کے لبوں پر نغمے مچل رہے ہیں ان کی نظر سے مستی چھلک رہی ہے بہت یاد آئیں گے بیتے ہوئے دن۔ جوش کدہ سے بزم درماں کیے ہوئے غربت میں آنسو اور آہیں، فرقت کا راستہ، خوشیوں کا گلزار اجڑا۔ منی لانڈرنگ والوں کے لیے جب موسم حسین تھا، ان کے لیے کوئی قانون نہیں تھا۔ اب ایسا لگتا ہے شاید حکومت وقت کے پاس طاقت نہ رہی جن لوگوں نے وارداتیں کیں، آج بھی انھی وارداتوں میں کوشاں ہیں۔ جس قدر مقدمات سامنے آ رہے ہیں، ظاہر ہوتا ہے ملک کو لوٹا، قومی خزانہ، عوام کے ٹیکس کی رقومات ان عناصر نے ہڑپ کیں۔ کیا کڑا احتساب ہوگا؟ اکثریت کو معلوم ہے ملک کو کس نے لوٹا؟

اس ملک و ملت نے بہت دکھ سہہ لیے، آندھیاں غم کی یوں چلیں سپنے بکھر گئے جگر جلتا ہے ہر گام پر رونا آیا۔ رنگ و نور، مرادوں کی حسیں رات، سارے ارماں صبح و شام نذرانہ ہیں۔ جگنو بھی خواب بن کر رہ گئے، کیا کہا جائے اب تو سنسان راتوں پر تماشا ہے حیات۔ رات کٹتی نہیں، دن گزرتا نہیں، ایسے زخم دیے جو بھرتے نہیں۔ آنکھ ویران ہے، دل پریشان ہے، غم کا سماں ہے۔ جھوٹے وعدے، دعوے کرتے ہوئے آئے عوام کو درد دے کر چلے گئے۔

قابل ستائش ہیں وہ لوگ جنھوں نے اپنی، اپنے اہل خانہ کی جان پر کھیل کر کڑی تفتیش کی شاید ان کی عرق ریزی رائیگاں چلی جائے۔ موجودہ طبقاتی نظام تفتیش قائم ہونے میں کوشاں ہے۔ اب کس پر یقین کریں روز نت نویلی باتیں، نئے پرانے مقدمات کی نوید لیکن مجرمان کی گرفتاری کیوں نہیں کی جا رہی؟ ان کو کیوں چھوڑا جا رہا ہے؟

اس شہر میں مجھ جیسے دیوانے بہت ہیں شمع فروزاں کو آندھی یا طوفان نہیں بجھا سکے گی پروانے ہزاروں ہیں۔ ہماری سانسوں میں آج بھی حنا کی خوشبو مہک رہی ہے۔ انسان آتا ہے اور چلا جاتا ہے اس کے اچھے کام بھلائے نہیں جاسکتے کسی پر برائی کی نفرت مٹائی نہیں جاسکتی۔ تشنگی میں چاہتوں کی منزل ایسے بھی ہیں جو اپنے آپ کو بقراط سمجھ بیٹھے ہیں وہ پہلے عوام کے کام آئے نہ اب راگ الاپ رہے ہیں ، اخلاقیات سے شاید سروکار نہیں آج اور کل کی قوم کیا سیکھے گی۔ غریبوں کے آشیانے اجاڑ دیے جاتے ہیں ان کو منہدم کردیا جاتا ہے۔ بڑوں کی جائیدادوں میں اضافہ ہوتا رہا اب بھی ہو رہا ہے۔ کس کی مجال ان کا کوئی گھر گرا سکے۔ شک کا بیج بونا اس کی آب یاری کرنا جھوٹے، فریب ان کا دھندہ بن گیا ہے اس میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں عوام کی سادگی و نیکی سے فائدہ اٹھاتے رہے۔

قوم کے دل میں آگ لگی نہ نکلا دھواں، غیر تو پھر غیر ہے لیکن اپنے ہمارے نہ ہوئے۔ بڑی ویراں ہیں ملت کی راہیں، یہ ہماری بد نصیبی نہیں تو کیا ہے۔ کبھی ڈگمگائی کشتی تو کبھی کھو گیا کنارہ۔ ملک میں عوام کی چاہت کا ہے سایہ۔ عوام قطعی ناامید نہیں لیکن ایک سوال ضرور ہے شبِ غم ہو یا درد کی آہیں کیا اس ملت کے نصیب میں وفا نہیں نہ جانے کب ملے گی ان کو چاہتوں کی منزل، دل نے بہت درد سہے آگ سینے میں لگتی رہی۔
Load Next Story