کائنات کا آغاز کیوں کر ہوا
عدم سے وجودکا پیدا ہونا جہاں کچھ نہ تھا وہاں کچھ ہوجانا عام ذہن کے لیے ناقابل یقین ہو تو ہو۔
بالکل ابتدا میں کچھ بھی نہ تھا۔ نہ جگہ تھی نہ وقت نہ ہی مادہ تھا نہ ہی توانائی کچھ بھی نہ تھا ایک ایسا خلا تھا جس کی نہ کوئی شکل تھی نہ ساخت پھر نہ جانے کیونکر اس خلا میں لرزش ہوئی اور وقت نے جنم لیا۔
عدم سے وجودکا پیدا ہونا جہاں کچھ نہ تھا وہاں کچھ ہوجانا عام ذہن کے لیے ناقابل یقین ہو تو ہو۔ طبیعات دان کے لیے اس پر حیرت کرنا فضول ہے اس لیے کہ ایسا تو ہر گھڑی ہر آن ہوتا رہتا ہے ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا سیاروں کی دنیا سے پرے خلاؤں میں ذرات کے تعاملات ہوتے رہتے ہیں اور کئی ایسے جسم وجود میں آنے سے پہلے ہی فنا ہوجاتے ہیں ان حقائق کو کوانٹم قوانین تسلیم کرتے ہیں۔اس لیے یہ سب تو ہر حال میں ہوتا رہے گا کہ عدم سے وجود اور وجود سے عدم کی طرف انتقال جاری رہے۔
جہاں تک کلاسیکی اضافیت عمومی کا خیال ہے تو اس کے مطابق ہماری کائنات کا آغاز ایک ذرے سے شروع نہیں ہوا، بلکہ یہ ابتدا ہی سے ایک وحدانیت تھی یعنی ایک ایسا علاقہ جو لامحدود کثافت اور درجہ حرارت کا مالک تھا اور ایٹم کے مقابلے میں بے پناہ وسیع و عریض اس کے برعکس کوانٹم نظریہ تجاذب سمجھتا ہے کہ وحدانیت کا مرحلہ غیر ضروری ہے اس لیے ایسا نہیں ہوا ہوگا۔
بات کو آگے بڑھانے کے لیے اگر ہم کلاسیکی اضافیت عمومی کا خیال مان لیں تو بھی وحدانیت کا مرحلہ بہت کم وقت میں ہوگیا ہوگا بے انتہا قوت تجاذب (جس کا آج تصور بھی ممکن نہیں) نے اس وحدانیت کو بے پناہ وسعت دے دی ہوگی۔
پھیلاؤ اور وسعت کے عمل میں ایک سیکنڈ کا مختصر سا حصہ ہی صرف ہوا ہوگا اس لیے وسعت کا وہ عمل ناقابل تصور حد تک تیز رہا ہوگا اور اس دوران کائنات نے کم سے کم 1080 کی مناسبت سے وسعت پائی اس کے فوراً بعد پھیلاؤ اور وسعت کا یہ عمل دھیما پڑ گیا۔
کائنات نے وسعت حاصل کی تو اس میں ٹھنڈے ہونے کا عمل بھی شروع ہوگیا خالص توانائی ٹھنڈی ہوکر مادے میں ڈھل گئی جیساکہ پانی کے بخارات شبنم بن جاتے ہیں یوں ہی اربوں سال گزر گئے اور قدرے ٹھنڈک پیدا ہوگئی کہ کہکشائیں وجود میں آسکیں تب سے اس کائنات نے جنم لینا شروع کیا جو آج ہمارے سامنے ہے۔
اوپر جن واقعات کا اجمالاً ذکر کیا گیا ہے وہ سائنسی اصطلاح میں بگ بینگ سے متعلق ہیں کائنات کے اس طرح ابتدائی پھیلاؤ کا نظریہ سب سے پہلے 1929 میں ایک روسی طبیعات دان الیگزینڈر فرائیڈ مین نے پیش کیا فرائیڈ مین نے اسے پیش کرتے ہوئے کہا کہ کائنات میں موجود تمام کہکشائیں ایک دوسرے سے پرے کو اڑتی جا رہی ہیں ان میں سے بعض تو اس تیزی سے پرے جا رہی ہیں کہ ان کی رفتار اور روشنی کی رفتار ہم آہنگ ہوچکی ہے۔
اس نظریے میں مزید اضافہ جارج گیمو نے یہ کیا کہ اس عظیم دھماکے کے دوران جو توانائی پیدا ہوئی ہوگی اس کے فوٹون سے بھی کم توانائی والی پیدا ہوئی ہوگی۔ اس کے فوٹون آج بھی کم توانائی والی خورد موجی اشعاع کی صورت میں موجود ہوں گے یہ اشعاع بالآخر 1965 میں حادثاتی طور پر رابرٹ ولسن اور آرنوپینزلیس نے دریافت کرلیں وہ دونوں ایک خوردموجی انٹینا پر کام کر رہے تھے۔
آج کل بگ بینگ نظریے کو خاصا پیچیدہ سمجھا جاتا ہے ممکن ہے بعض ذہنوں کے لیے یہ واقعی پیچیدہ ہو۔ بہرحال ابتدا میں جب اسے پیش کیا گیا تو بے حد سادہ تھا۔ پھر 1980 میں الین گوتھ نے اس میں کچھ اضافے کیے الین گوتھ دراصل بگ بینگ کی ذراتی طبیعات پر کام کر رہا تھا اور ریاضیاتی مسائل حل کرتے ہوئے بعض امور اس کے سامنے آگئے اس طرح اس نے بعض ایسی باتوں کو واضح کیا جو اس سے پہلے بے حد پراسرار نوعیت رکھتی تھیں۔
پراسرار سمجھی جانے والی باتوں میں سے ایک تو کائنات کی حیرت انگیز یکسانیت ہے یعنی ہم جس طرف بھی نگاہیں اٹھائیں اور جہاں نظر ڈالیں ایک حیران کن یکساں منظر دیکھتے ہیں گوتھ کے مطابق اس کی وجہ پہلے سیکنڈ میں ہونے والا ناقابل یقین تیز پھیلاؤ ہے۔گوتھ نے ریاضی کی مدد سے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ ایک خاص قسم کے ذرات مقناطیسی مونوپول کائنات میں بے حد قلیل ہوں گے حقیقت میں ایسا ہی نکلا اور ایسے مونوپول ذرات کی تعداد بے حد کم دریافت ہوئی۔
نظریہ واحدانیت (جس کا ہم جداگانہ تذکرہ کرچکے ہیں) بنیادی ذرات اور قوتوں کے مابین تعلق واضح کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی خیال پیش کرتا ہے کہ ابتدائی کائنات کے ٹکڑے آج بھی موجود ہیں ایسے ہی ٹکڑے مقناطیسی مونوپول بھی ہیں جو مثبت یا منفی مقناطیس بار کے مالک ہیں۔