جمہوریت کی نرسریاں اجاڑ سیاست نے تشدد کا رخ اختیار کرلیا
نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل نہ کیا گیا تو اسکی قیمت جمہوری عمل کو ادا کرنا ہوگی، بی بی سی
پاکستان میں حالیہ انتخابی مہم کا ایک اہم پہلو نوجوان رہے اور کئی دہائیوں کے بعد کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں ہی نوجوانوں کی حمایت حاصل کرنے کیلیے سرگرم دکھائی دیں۔
بی بی سی کے مطابق حال ہی میں اسلام آباد میں موجود ایک تھنک ٹینک جناح انسٹی ٹیوٹ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ کے اعدادوشمار کے مطابق آئندہ 20 برس کے دوران ملک میں کام کرنے کے قابل آبادی دگنی ہو جانے کی توقع ہے جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کو روزگار کے مزید تین کروڑ 60 لاکھ مواقع پیدا کرنا ہوں گے اور نوجوانوں کو سیاسی عمل میں شریک کرنے کیلئے اقدامات بھی کرنا ہوں گے اور اگر یہ اقدامات نہ کئے گئے تو اس کی قیمت پاکستان کے جمہوری عمل کو ادا کرنا ہوگی۔
رپورٹ کے مطابق اب سے کچھ عرصہ پہلے تک نوجوانوں کی سیاست میں دلچسپی کو تعلیمی اداروں میں موجود طلبہ یونینوں سے منسلک کیا گیا تھا۔ یعنی نوجوانوں کی بڑی تعداد جو تعلیمی اداروں تک رسائی نہیں رکھتی خاص طور پر دیہی علاقوں میں، انہیں کبھی بھی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع نہیں مل سکا۔ رپورٹ میں پاکستان میں طلبہ یونینوں کی سرگرمیوں کے سیاست پر اثرات کا تذکرہ بھی کیا گیا۔ 50ء اور 60ء کی دہائی کے دوران دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی طلبہ تنظیموں کی ایوب حکومت کیخلاف مزاحمت، 70ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ کے بنگلہ دیش کی علیٰحدگی کی تحریک میں کردار اور ضیاء دور میں جمعیت کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے ملکی سیاست پر اثرات کا تذکرہ بھی موجود ہے۔
بی بی سی کے مطابق حال ہی میں اسلام آباد میں موجود ایک تھنک ٹینک جناح انسٹی ٹیوٹ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ کے اعدادوشمار کے مطابق آئندہ 20 برس کے دوران ملک میں کام کرنے کے قابل آبادی دگنی ہو جانے کی توقع ہے جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کو روزگار کے مزید تین کروڑ 60 لاکھ مواقع پیدا کرنا ہوں گے اور نوجوانوں کو سیاسی عمل میں شریک کرنے کیلئے اقدامات بھی کرنا ہوں گے اور اگر یہ اقدامات نہ کئے گئے تو اس کی قیمت پاکستان کے جمہوری عمل کو ادا کرنا ہوگی۔
رپورٹ کے مطابق اب سے کچھ عرصہ پہلے تک نوجوانوں کی سیاست میں دلچسپی کو تعلیمی اداروں میں موجود طلبہ یونینوں سے منسلک کیا گیا تھا۔ یعنی نوجوانوں کی بڑی تعداد جو تعلیمی اداروں تک رسائی نہیں رکھتی خاص طور پر دیہی علاقوں میں، انہیں کبھی بھی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع نہیں مل سکا۔ رپورٹ میں پاکستان میں طلبہ یونینوں کی سرگرمیوں کے سیاست پر اثرات کا تذکرہ بھی کیا گیا۔ 50ء اور 60ء کی دہائی کے دوران دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی طلبہ تنظیموں کی ایوب حکومت کیخلاف مزاحمت، 70ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ کے بنگلہ دیش کی علیٰحدگی کی تحریک میں کردار اور ضیاء دور میں جمعیت کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے ملکی سیاست پر اثرات کا تذکرہ بھی موجود ہے۔