کرکٹ ورلڈکپ ریکارڈز اور دلچسپ حقائق
تاریخ بتاتی ہے کہ کرکٹ ورلڈ کپ کے میچز میں یہاں کی گلیاں سنسان ہوجاتی ہیں خواہ میچ کسی بھی ٹیم کا ہو۔
دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا میلہ سجنے میں اب کچھ ہی دن رہ گئے ہیں اور ہمیشہ کی طرح ایکسائٹمنٹ لیول بہت زیادہ ہے۔
کرکٹ، برِصغیر کے لوگوں کا پسندیدہ ترین کھیل ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کرکٹ ورلڈ کپ کے میچز میں یہاں کی گلیاں سنسان ہوجاتی ہیں خواہ میچ کسی بھی ٹیم کا ہو۔ یہاں کے لوگ کرکٹ کھیلنے اور دیکھنے کے از حد شوقین ہیں۔ شوق کا یہ عالم ہے کہ لڑائی مار کُٹائی سے بھی نہیں چوکتے۔ پاکستانیوں کی اکثریت کرکٹ کے علاوہ دوسرا گیم نہ ہی ٹھیک سے کھیلنا جانتی ہے اور نہ ہی ٹی وی پر دیکھنا پسند کرتی ہے۔
خیر تو بات ہو رہی تھی کرکٹ ٹورنامنٹ کی لیکن اس سے پہلے ہم آپ کو دنیائے کرکٹ کے معرکوں کے بارے میں دل چسپ اور مفید معلومات فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
کرکٹ ورلڈ کپ کی شروعات 1975 میں برطانیہ سے ہوئی اور اس کے بعد آج تک یہ عالمی کپ ہر چار سال بعد منعقد کیا جاتا ہے۔ اس کا اہتمام انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کرتی ہے۔ اس کے شروع ہونے سے پہلے آزمائشی ٹورنامنٹ ہوتے ہیں۔ کرکٹ کے عالمی کپ کو کرکٹ کا سب سے اہم ٹورنامنٹ تصور کیا جاتا ہے۔ 1973ء سے خواتین کا علیحدہ عالمی کپ کھیلا جاتا ہے۔
عالمی کپ دس ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک اور آئی سی سی ٹرافی میں عمدہ کارکردگی دکھانے والے ممالک کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔ اب تک 11 عالمی کپ کھیلے جا چکے ہیں۔ آخری کپ2015 میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلا گیا۔ کرکٹ ورلڈ کپ میں اب تک آسٹریلیا کی ٹیم سب سے کام یاب ٹیم ہے جو پانچ دفعہ فاتح رہ چکی ہے۔ ویسٹ انڈیز اور بھارت دو دو دفعہ، جب کہ پاکستان اور سری لنکا ایک ایک بار کرکٹ کے عالمی کپ کے فاتح رہ چکے ہیں۔
٭ورلڈ کپ 1975
دنیائے کرکٹ کا پہلا ورلڈ کپ 1975 میں انگلینڈ میں کھیلا گیا جس میں کل آٹھ ممالک کی ٹیمز نے حصہ لیا۔ مشرقی افریقہ کی ٹیم وہ واحد ٹیم ہے جس کا پہلا ورلڈ کپ ہی اس کا آخری ورلڈ تھا۔ یہ ورلڈ کپ وہ واحد ٹورنامنٹ تھا جس میں ایشیا کی کوئی بھی ٹیم سیمی فائنلز میں جگہ نہ بنا سکی۔
اس ورلڈ کپ کے فائنل میں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے بیچ لندن کے میدان لارڈز میں گھمسان کا رن پڑا اور جزائر کریبین کی کالی آندھی کہلائی جانے والی ٹیم نے کلائیو لائیڈ کی کپتانی میں یہ معرکہ مار لیا۔ ویسٹ انڈیز نے یہ میچ 17 رنز سے جیتا تھا۔
٭ورلڈ کپ 1979
1979 کی میزبانی پھر انگلینڈ کے حصے میں آئی اور لندن شہر کے لارڈز میں فائنل منعقد ہوا۔ اس ورلڈ کپ میں براعظم افریقہ سے کسی بھی ٹیم نے شرکت نہیں کی۔ ان مقابلوں کو شائقین کی عدم دلچسپی اور خراب موسم کا بھی سامنا رہا۔ ویسٹ انڈیز کی قسمت اور جاندار پرفامنس انہیں دوبارہ فائنل تک لے آئی جبکہ اس بار انکی مدِمقابل ٹیم انگلینڈ کی تھی۔ قسمت نے ایک بار پھر ساتھ دیا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیم 92 رنز سے یہ ورلڈ کپ بھی جیت گئی اور دینا نے دوسری بار گوروں کی سرزمین پر کالوں کو جشن مناتے دیکھا۔
٭ورلڈ کپ 1983
یہ ورلڈ کپ بھی مسلسل تیسری بار انگلینڈ میں منعقد کیا گیا۔ ان مقابلوں میں بھی آٹھ ٹیموں نے شرکت کی جن میں نئے نئے ٹیسٹ اسٹیٹس کی حامل سری لنکا کے علاوہ آئی سی سی ٹرافی کی فاتح زمبابوے کی ٹیم بھی شامل تھی جس کا یہ پہلا ٹورنامنٹ تھا۔ ویسٹ انڈیز اپنی گذشتہ دو کام یابیوں اور اپنے اعتماد پر فائنل میں جگہ بنانے میں کام یاب ہوگئی۔ لیکن اس بار مدِمقابل ایک ایشیائی ٹیم تھی۔ اور وہ تھی بھارت کی ٹیم۔ کپل دیو کی سربراہی میں ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد بھارت نے یہ میچ 43 رنز سے اپنے نام کیا اور کرکٹ کی ٹرافی کو ایشیا کا راستہ دکھایا۔
٭ورلڈ کپ 1987
ٹرافی کے بعد ورلڈ کپ نے بھی ایشیا کا راستہ دیکھ لیا۔ 1987کا کرکٹ ورلڈ کپ پہلی مرتبہ انگلینڈ سے باہر منعقد کیا گیا اور اس بار میزبانی کا شرف بھارت اور پاکستان کے حصہ میں آیا۔ برصغیر میں دن میں روشنی کے اوقات میں کمی کی وجہ سے پہلی مرتبہ اننگز کا دورانیہ تعداد 60 اوورز سے 50 اوورز کردیا گیا۔ رابندر ناتھ ٹیگور کے شہر کولکتہ کے ایڈن گارڈنز میں فائنل کا میچ کھیلا گیا۔ اس بار گوروں پر قسمت مہربان ہوئی اور آسٹریلیا نے انگلینڈ کو جان توڑ مقابلے کے بعد 7 رنز سے ہرا کر پہلی بار ٹرافی اپنے نام کر لی۔
٭ورلڈ کپ 1992
اب کی بار میزبانی کی باری کیویز اور کینگروز کی تھی۔ یہ ورلڈ کپ دنیا سے دور دو ممالک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں منعقد کیا گیا جہاں پہلی بار رنگین یونیفارم، سفید گیندیں اور فلڈ لائٹ میچ متعارف کروائے گئے۔ 21 سال کی بے دخلی کے بعد یہ جنوبی افریقہ کا پہلا ٹورنامنٹ تھا۔ فارمیٹ کو بدل کر 9 ٹیم کو جگہ دی گئی اور اب ہر ایک ٹیم نے بقیہ آٹھ ٹیموں سے بھڑنا تھا۔
میلبورن کے کرکٹ گراؤنڈ میں انگلینڈ اور پاکستان کی ٹیمز کے درمیان فائنل کھیلا گیا جو عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے 22 رنز سے جیت لیا اور یوں پہلی بار کرکٹ ورلڈ کپ کی ٹرافی ایک مسلمان ملک کی سیر کرنے آئی۔ 1992 کے ورلڈ کپ سے ''مین آف دی ٹورنامنٹ'' کا ایوارڈ شروع کیا گیا جس کے پہلے حق دار آسٹریلیا کے مارٹن کروو ٹھہرے۔
٭ورلڈ کپ 1996
یہ ورلڈ کپ ایک یادگار ورلڈکپ تھا کیوںکہ اس بار تین ممالک اس کی میزبانی کر رہے تھے۔ پاکستان، بھارت اور سری لنکا۔ اس ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے والے ممالک کی تعداد بڑھا کر 12 کر دی گئی جب کہ کینیا، نیدرلینڈز اور متحدہ عرب امارات نے پہلی بار دنیائے کرکٹ کے اس عظیم مقابلے میں قدم رکھا۔ فائنل کی میزبانی کا قرعہ شہرِ لاہور کے نام کھلا جہاں قزافی اسٹیڈیم میں آسٹریلیا اور سری لنکا کی ٹیموں کے درمیان گھمسان کا رن پڑا اور بالآخرراناٹنگا کی سربراہی میں سری لنکا نے عمدہ کھیل پیش کرتے ہوئے 7 وکٹوں سے میدان مار لیا۔ اس ورلڈ کپ کی ٹرافی پاکستان اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بی نظیر بھٹو نے سری لنکن ٹیم کو دی۔ یوں پہلی بار ایک میزبان ملک نے جیت حاصل کی۔ سری لنکا کے ہی سنتھ جے سوریا کو مین آف ٹورنامٹ کا ایوارڈ دیا گیا۔
٭ورلڈ کپ 1999
بیسوں صدی کا آخری ورلڈ کپ شایانِ شان طریقے سے انگلینڈ اور ویلز میں منعقد ہوا جب کہ کچھ میچ نیدرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ میں بھی کھیلے گئے۔ اس مرتبہ کرکٹ ورلڈ کپ چار برس کے وقفے کی بجائے تین برس کے بعد منعقد ہوا۔ یہ ٹورنامنٹ اپنے اس سیمی فائنل کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا جب آسٹریلیا کے خلاف میچ میں جنوبی افریقہ کے ایلن ڈونلڈ ایک رن نہ بنا سکے اور رن آؤٹ ہو گئے۔ یہ میچ ٹائی ہوا لیکن آسٹریلیا بہتر ریکارڈ کی وجہ سے فائنل میں پہنچ گیا۔ آسٹریلیا اور پاکستان کے بیچ لندن کے میدان لارڈز میں فائنل میچ کھیلا گیا جو کینگروز نے 8 وکٹوں سے جیت لیا، جب کہ جنوبی افریقہ کے لینس کلاسنر کو مین آف ٹورنامنٹ کے اعزاز سے نوازا گیا۔
٭ورلڈ کپ 2003
نئی صدی کے آغاز میں کرکٹ ورلڈ کپ کا رخ برِاعظم افریقہ کی طرف موڑ دیا گیا اور جنوبی افریقہ کو میزبان منتخب کیا گیا لیکن کچھ میچز کینیا اور زمبابوے میں بھی کرائے گئے۔ اس ٹورنامنٹ کے دوران انگلینڈ نے زمبابوے میں اور نیوزی لینڈ نے کینیا میں کھیلنے سے انکار کیا تھا۔ فائنل ٹاکرا جنوبی افریقا کے شہر جوہانسبرگ میں بھارت اور آسٹریلیا کی ٹیمیوں کے بیچ ہوا جس میں رکی پونٹنگ کی کپتانی میں آسٹریلیا نے 125 رنز کے بڑے مارجن سے بھارت کو شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔ بھارتی بلے باز سچن ٹنڈولکر نے شاندار بلے بازی کے عوض مین آف ٹورنامنٹ کا ایوارڈ اپنے نام کیا۔
٭ورلڈ کپ 2007
2007 کا ورلڈ کپ پہلی بار ویسٹ انڈیز میں منعقد کیا گیا۔ ہر ملک میں میچ منعقد کروائے گئے جن میں اینٹی گوا اینڈ باربوڈا، بارباڈوس، گرینیڈا، گیانا، جمیکا، سینٹ کٹس اینڈ نیوس، سینٹ لوسیا اور ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو شامل ہیں۔ فائنل میچ کی میزبانی برج ٹاؤن شہر نے کی جہاں بارش کی رم جھم میں آسٹریلیا نے 53 رنز سے سری لنکن ٹیم کو ہرا کر مسلسل تیسری بار ٹائٹل اپنے نام کر کے دنیائے کرکٹ پر اپنی دھاک بٹھا دی۔ آسٹریلیا کے ہی گلین میک گرتھ نے مین آف ٹورنامنٹ کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔ اسی ورلڈ کپ کے دوران ایک انہونی ہوئی جب پاکستان ٹیم کی آئرلینڈ سے شکست کے بعد کوچ باب وولمر نے دل برداشتہ ہو ک خودکشی کر لی تھی۔
٭ورلڈ کپ 2011
2011 ورلڈ کپ کی میزبانی ابتدائی طور پر بھارت، پاکستان، بنگلادیش اور سری لنکا کو دی جانی تھی لیکن بھارتی سازشوں اور پاکستان میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے باعث پاکستان میں کھیلے جانے والے میچز دیگر ممالک میں منتقل کر دیے گئے یوں پہلی بار بنگلادیش میں کوئی عالمی مقابلے منعقد ہوئے۔ فائنل میچ ممبئی کے وانکھیڈے اسٹیڈیم میں بھارت اور سری لنکا کے درمیان کھیلا گیا۔ پہلی بار کرکٹ مقابلوں میں دو ایشیائی ٹیمیں آمنے سامنے آئیں۔ ہوم کراؤڈ اور ٹیم سپرٹ کی بدولت اٹھائیس سال بعد بھارت یہ میچ 6 وکٹوں سے جیت گیا اور ہوم گراؤنڈ پر فتح پانے والا دوسرا ملک بن گیا۔ بھارت کے یووراج سنگھ نے مین آف دی ٹورنامنٹ کا اعزاز جیتا۔
٭ورلڈ کپ 2015
2015 کے ورلڈ کپ کی میزبانی دو ہمسایہ ممالک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو دی گئی۔ فائنل آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں منعقد ہوا جہاں مائیکل کلارک کی سربراہی میں 7 وکٹوں سے آسٹریلیا نے نیوزی لینڈ کو ہرا کر پانچویں بار ٹائٹل اپنے نام کیا۔ یہ ورلڈ کپ اس طرح بھی یادگار ٹھہرا کہ فائنل کھیلنے والی دونوں ٹیمیں میزبان تھیں اور آسٹریلیا وہ تیسری ٹیم قرار پائی جس نے ہوم گراؤنڈ پر فتح کا مزہ چکھا۔ مین آف دی ٹورنامنٹ کا اعزاز آسٹریلیا کے مشل اسٹارک کے حِصے میں آیا۔
٭ورلڈ کپ 2019
اب آتے ہیں موجودہ ورلڈ کپ پر جو انگلینڈ اور ویلز میں کھیلا جائے گا۔ یہ ورلڈ کپ پانچویں بار انگلینڈ میں کھیلا جائے گا۔ اس بار بھارت، آسٹریلیا،جنوبی افریقہ اور سری لنکا کی ٹیموں کو فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستانی ٹیم کچھ کمزور ہے لیکن سرپرائز دینے کی پوزیشن میں ہے۔
اب تک بیس ممالک ورلڈ کپ میچوں کے لیے کم از کم ایک بار کوالیفائی کر چکے ہیں جن میں سے پانچ ٹائٹل جیت بھی چکے ہیں۔ ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کی ٹیموں نے مسلسل یہ ٹائٹل اپنے نام کیا ہے۔ ویسٹ انڈیز نے دو اور آسٹریلیا نے تین بار۔ ٹیم آسٹریلیا نے کل گیارہ میں سے سات فائنل کھیل کر زیادہ فائنل کھیلنے والی ٹیم کا اعزاز حاصل کیا ہے، جب کہ تین بار رنر اپ رہنے والی ٹیم انگلینڈ نے ایک بار بھی ورلڈ کپ نہیں جیتا۔
ایک دل چسپ بات یہ کہ 1992 میں آسٹریلیا، 1999 میں انگلینڈ، 2003 میں جنوبی افریقہ قور 2011 میں بنگلادیش وہ ٹیمیں تھیں جو میزبان ہو کر بھی پہلے مرحلے میں آؤٹ ہو گئی تھیں۔
٭پہلی بار کھیلنے والی ٹیمیں
1975 آسٹریلیا، انگلینڈ، انڈیا، نیوزی لینڈ، پاکستان، سری لنکا اور ویسٹ انڈیز۔ ، 1979 کینیڈا،1983 زمبابوے، 1992 جنوبی افریقہ ، 1996کینیا، ہالینڈ، متحدہ عرب امارات، 1999 بنگلادیش اور اسکاٹ لینڈ، 2003 نمیبیا ، 2007 برمودہ اور آئرلینڈ، 2015 افغانستان۔
دنیائے کرکٹ کے اہم ریکارڈز
کرکٹ سمیت دنیا کا کوئی بھی کھیل ہو اس میں ریکارڈ بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر بات کی جائے کھلاڑیوں کے کیریر کی تو چند حقائق ایسے بھی سامنے آتے ہیں جن سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ تو جانیے کچھ ایسے ہی ریکارڈز جن کے بارے میں پڑھ کر آپ بھی حیرت زدہ ہوجائیں گے ؛
٭ سب سے زیادہ رنز کا ریکارڈ ؛ سچن ٹنڈولکر (بھارت)۔
٭ سب سے زیادہ اسکور کا ریکارڈ ؛ مارٹن گپٹل (آسٹریلیا)۔
٭ سب سے زیادہ رنز کی پارٹنرشپ کا ریکارڈ؛ کرس گیل اور سیمویلز (ویسٹ انڈیز)۔
٭ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رنز کا ریکارڈ؛ سچن ٹنڈولکر (بھارت)۔
٭ سب سے زیادہ سینچریاں اسکور کرنے کا ریکارڈ؛ سچن ٹنڈولکر (بھارت)۔
٭ سب سے زیادہ وکٹیں لینے والا کھلاڑی؛ گلین میک گریتھ (آسٹریلیا)۔
٭ سب سے اچھے اسٹرائیک ریٹ کا ریکارڈ ؛ ملینگا (سری لنکا)۔
٭ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والا کھلاڑی ؛ گلین میک گریتھ (آسٹریلیا)۔
٭ سب سے زیادہ کیچ پکڑنے والے فیلڈر کا ریکارڈ ؛ رکی پونٹنگ (آسٹریلیا)۔
٭ کسی بھی ٹیم کا سب سے زیادہ اسکور؛ آسٹریلیا 417 (بمقابلہ افغانستان)۔
٭ کسی بھی ٹیم کا سب سے کم اسکور ؛ کینیڈا 36 (بمقابلہ سری لنکا)۔
٭ لوگوں کی بڑی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ کرکٹ کی تاریخ میں ایک اوور میں سب سے زیادہ بنائے جانے والے رنز 36 ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایک اوور میں 77 رنز بنائے گئے ہیں۔ یہ میچ Canterbury اور ولنگٹن کی ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا۔
٭ سعید اجمل کی باؤلنگ جادوئی تو قرار دی جاتی ہے۔ اور کئی دفعہ وہ آئی سی سی رینکنگ میں پہلے نمبر پر بھی رہ چکے ہیں، لیکن حیرت انگیز طور پر کبھی انہیں ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں '' مین آف دی میچ '' کا اعزاز حاصل نہیں ہوسکا۔
٭ مہندرا سنگھ دھونی انڈیا کے زبردست بیٹسمین ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر وہ ایسے کھلاڑی بھی ہیں جنہوں نے جنوبی ایشیا سے باہر منعقد ہونے والے ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں کبھی کوئی سینچری اسکور نہیں کی۔
٭ آپ کو شاید اس بات پر یقین نہ آئے کہ وسیم اکرم کا ٹیسٹ اننگ کا بلند ترین اسکور سچن ٹنڈولکر کے اسکور سے بھی زیادہ ہے۔ جی ہاں ٹیسٹ میچ میں وسیم اکرم کا سب سے زیادہ اسکور 257 ہے جب کہ سچن ٹنڈولکر نے 248 رنز بنا رکھے ہیں۔
٭ سر ڈون بریڈ مین نے اپنے پورے کرکٹ کیریر میں صرف 6 چھکے لگائے تھے۔
٭ ڈرک نینز ایسے کھلاڑی ہیں جنہوں نے آسٹریلیا اور نیدرلینڈ دونوں کی جانب سے ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں کھیل پیش کیا ہے۔
٭ کیا آپ اس بات پر یقین کریں گے ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں شاہد آفریدی کے رنز اور وکٹیں عمران خان کے رنز اور وکٹوں سے دو گنا زیادہ ہیں۔ جی ہاں شاہد آفریدی نے ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں 378 وکٹیں اور 7619 رنز اسکور کر رکھے ہیں جب کہ عمران خان نے 182 وکٹیں اور 3709 رنز بنائے ہیں۔
٭ طویل ترین اننگز کھیلنے کا ریکارڈ پاکستانی کرکٹر لٹل ماسٹر حنیف محمد کے پاس ہے۔ انہوں نے 970 منٹ یعنی 16 گھنٹے سے زائد اننگز کھیلی اور 337 رنز اسکور کیے۔
٭ انگلینڈ کے کھلاڑی سر جیک ہوبس نے اپنے فرسٹ کلاس کیریر میں 199 سینچریاں بنا رکھی ہیں۔
٭ انگلینڈ ہی کے ایک اور کھلاڑی ویلفریڈ رہوڈز نے اپنے فرسٹ کلاس کیریر میں 4204 وکٹیں حاصل کیں جبکہ 39967 رنز بھی اسکور کیے۔
٭ سچن ٹنڈولکر نے اپنے پورے کرکٹ کیریر میں شعیب اختر کی 328 گیندوں کا سامنا کیا اور ان گیندوں پر وہ صرف 251 رنز ہی اسکور کر پائے۔
٭ کرکٹ کی تاریخ میں سب سے تیز رفتار گیند پھینکنے کا ریکارڈ شعیب اختر کے پاس ہے۔ انہوں نے یہ گیند 161.3 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینکی۔ یہ گیند 2003 میں ہونے والے ورلڈ کپ میں انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان ہونے والے ایک میچ میں کروائی گئی۔
٭ اس سے تو سب واقف ہیں کہ سچن ٹنڈولکر نے انڈیا کے لیے اپنا سب سے پہلا میچ 1989 میں کھیلا لیکن اس بات سے کم لوگ واقف ہوں گے کہ انڈیا سے قبل ٹنڈولکر 1987 میں ایک میچ میں پاکستان کے لیے بھی کھیل چکے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ میچ انڈیا کے خلاف تھا اور ٹنڈولکر کو عمران خان کی ٹیم میں متبادل فیلڈر کے طور پر شامل کیا گیا تھا اور انہوں نے کپل دیو کو آؤٹ بھی کیا۔ یہ میچ ممبئی کے برابورن اسٹیڈیم میں کھیلا گیا۔
ورلڈ کپ کے دل چسپ حقائق
٭انگلینڈ، ورلڈ کپ کی سب سے زیادہ میزبانی کرنے والا خطہ ہے جب کہ دوسرے نمبر پر بھارت کا نمبر آتا ہے۔
٭ 1992 کو ورلڈ کپ پہلا ٹورنامنٹ تھا جس کی میزبانی کرۂ ارض کے جنوبی ممالک نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے کی۔
٭ 1992 کے ٹورنامنٹ میں پہلی بار سفید گیندوں کا استعمال کیا گیا۔ اسی ٹورنامنٹ میں ہی فلڈ لائٹس کو بھی استعمال میں لایا گیا۔
٭ نسلی امتیاز پر مبنی نظامِ حکومت چلانے کی بدولت جنوبی افریقہ کو پہلے چار ورلڈ کپ ٹورنامنٹس سے باہر رکھا گیا۔
٭ رکی پونٹنگ اور کلائیو لیوڈ وہ کپتان ہیں جنہوں نے دو دو بار یہ ٹارنامنٹ جیتا ہوا ہے۔
٭ نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، انگلینڈ، کینیا، زمبابوے، بنگلادیش، آئرلینڈ، افغانستان، متحدہ عرب امارات اور کینڈا کی ٹیموں نے اب تک ایک بھی ورلڈ کپ نہیں جیتا۔ n
کرکٹ، برِصغیر کے لوگوں کا پسندیدہ ترین کھیل ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کرکٹ ورلڈ کپ کے میچز میں یہاں کی گلیاں سنسان ہوجاتی ہیں خواہ میچ کسی بھی ٹیم کا ہو۔ یہاں کے لوگ کرکٹ کھیلنے اور دیکھنے کے از حد شوقین ہیں۔ شوق کا یہ عالم ہے کہ لڑائی مار کُٹائی سے بھی نہیں چوکتے۔ پاکستانیوں کی اکثریت کرکٹ کے علاوہ دوسرا گیم نہ ہی ٹھیک سے کھیلنا جانتی ہے اور نہ ہی ٹی وی پر دیکھنا پسند کرتی ہے۔
خیر تو بات ہو رہی تھی کرکٹ ٹورنامنٹ کی لیکن اس سے پہلے ہم آپ کو دنیائے کرکٹ کے معرکوں کے بارے میں دل چسپ اور مفید معلومات فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
کرکٹ ورلڈ کپ کی شروعات 1975 میں برطانیہ سے ہوئی اور اس کے بعد آج تک یہ عالمی کپ ہر چار سال بعد منعقد کیا جاتا ہے۔ اس کا اہتمام انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کرتی ہے۔ اس کے شروع ہونے سے پہلے آزمائشی ٹورنامنٹ ہوتے ہیں۔ کرکٹ کے عالمی کپ کو کرکٹ کا سب سے اہم ٹورنامنٹ تصور کیا جاتا ہے۔ 1973ء سے خواتین کا علیحدہ عالمی کپ کھیلا جاتا ہے۔
عالمی کپ دس ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک اور آئی سی سی ٹرافی میں عمدہ کارکردگی دکھانے والے ممالک کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔ اب تک 11 عالمی کپ کھیلے جا چکے ہیں۔ آخری کپ2015 میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلا گیا۔ کرکٹ ورلڈ کپ میں اب تک آسٹریلیا کی ٹیم سب سے کام یاب ٹیم ہے جو پانچ دفعہ فاتح رہ چکی ہے۔ ویسٹ انڈیز اور بھارت دو دو دفعہ، جب کہ پاکستان اور سری لنکا ایک ایک بار کرکٹ کے عالمی کپ کے فاتح رہ چکے ہیں۔
٭ورلڈ کپ 1975
دنیائے کرکٹ کا پہلا ورلڈ کپ 1975 میں انگلینڈ میں کھیلا گیا جس میں کل آٹھ ممالک کی ٹیمز نے حصہ لیا۔ مشرقی افریقہ کی ٹیم وہ واحد ٹیم ہے جس کا پہلا ورلڈ کپ ہی اس کا آخری ورلڈ تھا۔ یہ ورلڈ کپ وہ واحد ٹورنامنٹ تھا جس میں ایشیا کی کوئی بھی ٹیم سیمی فائنلز میں جگہ نہ بنا سکی۔
اس ورلڈ کپ کے فائنل میں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے بیچ لندن کے میدان لارڈز میں گھمسان کا رن پڑا اور جزائر کریبین کی کالی آندھی کہلائی جانے والی ٹیم نے کلائیو لائیڈ کی کپتانی میں یہ معرکہ مار لیا۔ ویسٹ انڈیز نے یہ میچ 17 رنز سے جیتا تھا۔
٭ورلڈ کپ 1979
1979 کی میزبانی پھر انگلینڈ کے حصے میں آئی اور لندن شہر کے لارڈز میں فائنل منعقد ہوا۔ اس ورلڈ کپ میں براعظم افریقہ سے کسی بھی ٹیم نے شرکت نہیں کی۔ ان مقابلوں کو شائقین کی عدم دلچسپی اور خراب موسم کا بھی سامنا رہا۔ ویسٹ انڈیز کی قسمت اور جاندار پرفامنس انہیں دوبارہ فائنل تک لے آئی جبکہ اس بار انکی مدِمقابل ٹیم انگلینڈ کی تھی۔ قسمت نے ایک بار پھر ساتھ دیا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیم 92 رنز سے یہ ورلڈ کپ بھی جیت گئی اور دینا نے دوسری بار گوروں کی سرزمین پر کالوں کو جشن مناتے دیکھا۔
٭ورلڈ کپ 1983
یہ ورلڈ کپ بھی مسلسل تیسری بار انگلینڈ میں منعقد کیا گیا۔ ان مقابلوں میں بھی آٹھ ٹیموں نے شرکت کی جن میں نئے نئے ٹیسٹ اسٹیٹس کی حامل سری لنکا کے علاوہ آئی سی سی ٹرافی کی فاتح زمبابوے کی ٹیم بھی شامل تھی جس کا یہ پہلا ٹورنامنٹ تھا۔ ویسٹ انڈیز اپنی گذشتہ دو کام یابیوں اور اپنے اعتماد پر فائنل میں جگہ بنانے میں کام یاب ہوگئی۔ لیکن اس بار مدِمقابل ایک ایشیائی ٹیم تھی۔ اور وہ تھی بھارت کی ٹیم۔ کپل دیو کی سربراہی میں ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد بھارت نے یہ میچ 43 رنز سے اپنے نام کیا اور کرکٹ کی ٹرافی کو ایشیا کا راستہ دکھایا۔
٭ورلڈ کپ 1987
ٹرافی کے بعد ورلڈ کپ نے بھی ایشیا کا راستہ دیکھ لیا۔ 1987کا کرکٹ ورلڈ کپ پہلی مرتبہ انگلینڈ سے باہر منعقد کیا گیا اور اس بار میزبانی کا شرف بھارت اور پاکستان کے حصہ میں آیا۔ برصغیر میں دن میں روشنی کے اوقات میں کمی کی وجہ سے پہلی مرتبہ اننگز کا دورانیہ تعداد 60 اوورز سے 50 اوورز کردیا گیا۔ رابندر ناتھ ٹیگور کے شہر کولکتہ کے ایڈن گارڈنز میں فائنل کا میچ کھیلا گیا۔ اس بار گوروں پر قسمت مہربان ہوئی اور آسٹریلیا نے انگلینڈ کو جان توڑ مقابلے کے بعد 7 رنز سے ہرا کر پہلی بار ٹرافی اپنے نام کر لی۔
٭ورلڈ کپ 1992
اب کی بار میزبانی کی باری کیویز اور کینگروز کی تھی۔ یہ ورلڈ کپ دنیا سے دور دو ممالک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں منعقد کیا گیا جہاں پہلی بار رنگین یونیفارم، سفید گیندیں اور فلڈ لائٹ میچ متعارف کروائے گئے۔ 21 سال کی بے دخلی کے بعد یہ جنوبی افریقہ کا پہلا ٹورنامنٹ تھا۔ فارمیٹ کو بدل کر 9 ٹیم کو جگہ دی گئی اور اب ہر ایک ٹیم نے بقیہ آٹھ ٹیموں سے بھڑنا تھا۔
میلبورن کے کرکٹ گراؤنڈ میں انگلینڈ اور پاکستان کی ٹیمز کے درمیان فائنل کھیلا گیا جو عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے 22 رنز سے جیت لیا اور یوں پہلی بار کرکٹ ورلڈ کپ کی ٹرافی ایک مسلمان ملک کی سیر کرنے آئی۔ 1992 کے ورلڈ کپ سے ''مین آف دی ٹورنامنٹ'' کا ایوارڈ شروع کیا گیا جس کے پہلے حق دار آسٹریلیا کے مارٹن کروو ٹھہرے۔
٭ورلڈ کپ 1996
یہ ورلڈ کپ ایک یادگار ورلڈکپ تھا کیوںکہ اس بار تین ممالک اس کی میزبانی کر رہے تھے۔ پاکستان، بھارت اور سری لنکا۔ اس ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے والے ممالک کی تعداد بڑھا کر 12 کر دی گئی جب کہ کینیا، نیدرلینڈز اور متحدہ عرب امارات نے پہلی بار دنیائے کرکٹ کے اس عظیم مقابلے میں قدم رکھا۔ فائنل کی میزبانی کا قرعہ شہرِ لاہور کے نام کھلا جہاں قزافی اسٹیڈیم میں آسٹریلیا اور سری لنکا کی ٹیموں کے درمیان گھمسان کا رن پڑا اور بالآخرراناٹنگا کی سربراہی میں سری لنکا نے عمدہ کھیل پیش کرتے ہوئے 7 وکٹوں سے میدان مار لیا۔ اس ورلڈ کپ کی ٹرافی پاکستان اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بی نظیر بھٹو نے سری لنکن ٹیم کو دی۔ یوں پہلی بار ایک میزبان ملک نے جیت حاصل کی۔ سری لنکا کے ہی سنتھ جے سوریا کو مین آف ٹورنامٹ کا ایوارڈ دیا گیا۔
٭ورلڈ کپ 1999
بیسوں صدی کا آخری ورلڈ کپ شایانِ شان طریقے سے انگلینڈ اور ویلز میں منعقد ہوا جب کہ کچھ میچ نیدرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ میں بھی کھیلے گئے۔ اس مرتبہ کرکٹ ورلڈ کپ چار برس کے وقفے کی بجائے تین برس کے بعد منعقد ہوا۔ یہ ٹورنامنٹ اپنے اس سیمی فائنل کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا جب آسٹریلیا کے خلاف میچ میں جنوبی افریقہ کے ایلن ڈونلڈ ایک رن نہ بنا سکے اور رن آؤٹ ہو گئے۔ یہ میچ ٹائی ہوا لیکن آسٹریلیا بہتر ریکارڈ کی وجہ سے فائنل میں پہنچ گیا۔ آسٹریلیا اور پاکستان کے بیچ لندن کے میدان لارڈز میں فائنل میچ کھیلا گیا جو کینگروز نے 8 وکٹوں سے جیت لیا، جب کہ جنوبی افریقہ کے لینس کلاسنر کو مین آف ٹورنامنٹ کے اعزاز سے نوازا گیا۔
٭ورلڈ کپ 2003
نئی صدی کے آغاز میں کرکٹ ورلڈ کپ کا رخ برِاعظم افریقہ کی طرف موڑ دیا گیا اور جنوبی افریقہ کو میزبان منتخب کیا گیا لیکن کچھ میچز کینیا اور زمبابوے میں بھی کرائے گئے۔ اس ٹورنامنٹ کے دوران انگلینڈ نے زمبابوے میں اور نیوزی لینڈ نے کینیا میں کھیلنے سے انکار کیا تھا۔ فائنل ٹاکرا جنوبی افریقا کے شہر جوہانسبرگ میں بھارت اور آسٹریلیا کی ٹیمیوں کے بیچ ہوا جس میں رکی پونٹنگ کی کپتانی میں آسٹریلیا نے 125 رنز کے بڑے مارجن سے بھارت کو شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔ بھارتی بلے باز سچن ٹنڈولکر نے شاندار بلے بازی کے عوض مین آف ٹورنامنٹ کا ایوارڈ اپنے نام کیا۔
٭ورلڈ کپ 2007
2007 کا ورلڈ کپ پہلی بار ویسٹ انڈیز میں منعقد کیا گیا۔ ہر ملک میں میچ منعقد کروائے گئے جن میں اینٹی گوا اینڈ باربوڈا، بارباڈوس، گرینیڈا، گیانا، جمیکا، سینٹ کٹس اینڈ نیوس، سینٹ لوسیا اور ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو شامل ہیں۔ فائنل میچ کی میزبانی برج ٹاؤن شہر نے کی جہاں بارش کی رم جھم میں آسٹریلیا نے 53 رنز سے سری لنکن ٹیم کو ہرا کر مسلسل تیسری بار ٹائٹل اپنے نام کر کے دنیائے کرکٹ پر اپنی دھاک بٹھا دی۔ آسٹریلیا کے ہی گلین میک گرتھ نے مین آف ٹورنامنٹ کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔ اسی ورلڈ کپ کے دوران ایک انہونی ہوئی جب پاکستان ٹیم کی آئرلینڈ سے شکست کے بعد کوچ باب وولمر نے دل برداشتہ ہو ک خودکشی کر لی تھی۔
٭ورلڈ کپ 2011
2011 ورلڈ کپ کی میزبانی ابتدائی طور پر بھارت، پاکستان، بنگلادیش اور سری لنکا کو دی جانی تھی لیکن بھارتی سازشوں اور پاکستان میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے باعث پاکستان میں کھیلے جانے والے میچز دیگر ممالک میں منتقل کر دیے گئے یوں پہلی بار بنگلادیش میں کوئی عالمی مقابلے منعقد ہوئے۔ فائنل میچ ممبئی کے وانکھیڈے اسٹیڈیم میں بھارت اور سری لنکا کے درمیان کھیلا گیا۔ پہلی بار کرکٹ مقابلوں میں دو ایشیائی ٹیمیں آمنے سامنے آئیں۔ ہوم کراؤڈ اور ٹیم سپرٹ کی بدولت اٹھائیس سال بعد بھارت یہ میچ 6 وکٹوں سے جیت گیا اور ہوم گراؤنڈ پر فتح پانے والا دوسرا ملک بن گیا۔ بھارت کے یووراج سنگھ نے مین آف دی ٹورنامنٹ کا اعزاز جیتا۔
٭ورلڈ کپ 2015
2015 کے ورلڈ کپ کی میزبانی دو ہمسایہ ممالک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو دی گئی۔ فائنل آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں منعقد ہوا جہاں مائیکل کلارک کی سربراہی میں 7 وکٹوں سے آسٹریلیا نے نیوزی لینڈ کو ہرا کر پانچویں بار ٹائٹل اپنے نام کیا۔ یہ ورلڈ کپ اس طرح بھی یادگار ٹھہرا کہ فائنل کھیلنے والی دونوں ٹیمیں میزبان تھیں اور آسٹریلیا وہ تیسری ٹیم قرار پائی جس نے ہوم گراؤنڈ پر فتح کا مزہ چکھا۔ مین آف دی ٹورنامنٹ کا اعزاز آسٹریلیا کے مشل اسٹارک کے حِصے میں آیا۔
٭ورلڈ کپ 2019
اب آتے ہیں موجودہ ورلڈ کپ پر جو انگلینڈ اور ویلز میں کھیلا جائے گا۔ یہ ورلڈ کپ پانچویں بار انگلینڈ میں کھیلا جائے گا۔ اس بار بھارت، آسٹریلیا،جنوبی افریقہ اور سری لنکا کی ٹیموں کو فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستانی ٹیم کچھ کمزور ہے لیکن سرپرائز دینے کی پوزیشن میں ہے۔
اب تک بیس ممالک ورلڈ کپ میچوں کے لیے کم از کم ایک بار کوالیفائی کر چکے ہیں جن میں سے پانچ ٹائٹل جیت بھی چکے ہیں۔ ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کی ٹیموں نے مسلسل یہ ٹائٹل اپنے نام کیا ہے۔ ویسٹ انڈیز نے دو اور آسٹریلیا نے تین بار۔ ٹیم آسٹریلیا نے کل گیارہ میں سے سات فائنل کھیل کر زیادہ فائنل کھیلنے والی ٹیم کا اعزاز حاصل کیا ہے، جب کہ تین بار رنر اپ رہنے والی ٹیم انگلینڈ نے ایک بار بھی ورلڈ کپ نہیں جیتا۔
ایک دل چسپ بات یہ کہ 1992 میں آسٹریلیا، 1999 میں انگلینڈ، 2003 میں جنوبی افریقہ قور 2011 میں بنگلادیش وہ ٹیمیں تھیں جو میزبان ہو کر بھی پہلے مرحلے میں آؤٹ ہو گئی تھیں۔
٭پہلی بار کھیلنے والی ٹیمیں
1975 آسٹریلیا، انگلینڈ، انڈیا، نیوزی لینڈ، پاکستان، سری لنکا اور ویسٹ انڈیز۔ ، 1979 کینیڈا،1983 زمبابوے، 1992 جنوبی افریقہ ، 1996کینیا، ہالینڈ، متحدہ عرب امارات، 1999 بنگلادیش اور اسکاٹ لینڈ، 2003 نمیبیا ، 2007 برمودہ اور آئرلینڈ، 2015 افغانستان۔
دنیائے کرکٹ کے اہم ریکارڈز
کرکٹ سمیت دنیا کا کوئی بھی کھیل ہو اس میں ریکارڈ بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر بات کی جائے کھلاڑیوں کے کیریر کی تو چند حقائق ایسے بھی سامنے آتے ہیں جن سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ تو جانیے کچھ ایسے ہی ریکارڈز جن کے بارے میں پڑھ کر آپ بھی حیرت زدہ ہوجائیں گے ؛
٭ سب سے زیادہ رنز کا ریکارڈ ؛ سچن ٹنڈولکر (بھارت)۔
٭ سب سے زیادہ اسکور کا ریکارڈ ؛ مارٹن گپٹل (آسٹریلیا)۔
٭ سب سے زیادہ رنز کی پارٹنرشپ کا ریکارڈ؛ کرس گیل اور سیمویلز (ویسٹ انڈیز)۔
٭ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رنز کا ریکارڈ؛ سچن ٹنڈولکر (بھارت)۔
٭ سب سے زیادہ سینچریاں اسکور کرنے کا ریکارڈ؛ سچن ٹنڈولکر (بھارت)۔
٭ سب سے زیادہ وکٹیں لینے والا کھلاڑی؛ گلین میک گریتھ (آسٹریلیا)۔
٭ سب سے اچھے اسٹرائیک ریٹ کا ریکارڈ ؛ ملینگا (سری لنکا)۔
٭ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والا کھلاڑی ؛ گلین میک گریتھ (آسٹریلیا)۔
٭ سب سے زیادہ کیچ پکڑنے والے فیلڈر کا ریکارڈ ؛ رکی پونٹنگ (آسٹریلیا)۔
٭ کسی بھی ٹیم کا سب سے زیادہ اسکور؛ آسٹریلیا 417 (بمقابلہ افغانستان)۔
٭ کسی بھی ٹیم کا سب سے کم اسکور ؛ کینیڈا 36 (بمقابلہ سری لنکا)۔
٭ لوگوں کی بڑی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ کرکٹ کی تاریخ میں ایک اوور میں سب سے زیادہ بنائے جانے والے رنز 36 ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایک اوور میں 77 رنز بنائے گئے ہیں۔ یہ میچ Canterbury اور ولنگٹن کی ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا۔
٭ سعید اجمل کی باؤلنگ جادوئی تو قرار دی جاتی ہے۔ اور کئی دفعہ وہ آئی سی سی رینکنگ میں پہلے نمبر پر بھی رہ چکے ہیں، لیکن حیرت انگیز طور پر کبھی انہیں ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں '' مین آف دی میچ '' کا اعزاز حاصل نہیں ہوسکا۔
٭ مہندرا سنگھ دھونی انڈیا کے زبردست بیٹسمین ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر وہ ایسے کھلاڑی بھی ہیں جنہوں نے جنوبی ایشیا سے باہر منعقد ہونے والے ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں کبھی کوئی سینچری اسکور نہیں کی۔
٭ آپ کو شاید اس بات پر یقین نہ آئے کہ وسیم اکرم کا ٹیسٹ اننگ کا بلند ترین اسکور سچن ٹنڈولکر کے اسکور سے بھی زیادہ ہے۔ جی ہاں ٹیسٹ میچ میں وسیم اکرم کا سب سے زیادہ اسکور 257 ہے جب کہ سچن ٹنڈولکر نے 248 رنز بنا رکھے ہیں۔
٭ سر ڈون بریڈ مین نے اپنے پورے کرکٹ کیریر میں صرف 6 چھکے لگائے تھے۔
٭ ڈرک نینز ایسے کھلاڑی ہیں جنہوں نے آسٹریلیا اور نیدرلینڈ دونوں کی جانب سے ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں کھیل پیش کیا ہے۔
٭ کیا آپ اس بات پر یقین کریں گے ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں شاہد آفریدی کے رنز اور وکٹیں عمران خان کے رنز اور وکٹوں سے دو گنا زیادہ ہیں۔ جی ہاں شاہد آفریدی نے ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں 378 وکٹیں اور 7619 رنز اسکور کر رکھے ہیں جب کہ عمران خان نے 182 وکٹیں اور 3709 رنز بنائے ہیں۔
٭ طویل ترین اننگز کھیلنے کا ریکارڈ پاکستانی کرکٹر لٹل ماسٹر حنیف محمد کے پاس ہے۔ انہوں نے 970 منٹ یعنی 16 گھنٹے سے زائد اننگز کھیلی اور 337 رنز اسکور کیے۔
٭ انگلینڈ کے کھلاڑی سر جیک ہوبس نے اپنے فرسٹ کلاس کیریر میں 199 سینچریاں بنا رکھی ہیں۔
٭ انگلینڈ ہی کے ایک اور کھلاڑی ویلفریڈ رہوڈز نے اپنے فرسٹ کلاس کیریر میں 4204 وکٹیں حاصل کیں جبکہ 39967 رنز بھی اسکور کیے۔
٭ سچن ٹنڈولکر نے اپنے پورے کرکٹ کیریر میں شعیب اختر کی 328 گیندوں کا سامنا کیا اور ان گیندوں پر وہ صرف 251 رنز ہی اسکور کر پائے۔
٭ کرکٹ کی تاریخ میں سب سے تیز رفتار گیند پھینکنے کا ریکارڈ شعیب اختر کے پاس ہے۔ انہوں نے یہ گیند 161.3 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینکی۔ یہ گیند 2003 میں ہونے والے ورلڈ کپ میں انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان ہونے والے ایک میچ میں کروائی گئی۔
٭ اس سے تو سب واقف ہیں کہ سچن ٹنڈولکر نے انڈیا کے لیے اپنا سب سے پہلا میچ 1989 میں کھیلا لیکن اس بات سے کم لوگ واقف ہوں گے کہ انڈیا سے قبل ٹنڈولکر 1987 میں ایک میچ میں پاکستان کے لیے بھی کھیل چکے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ میچ انڈیا کے خلاف تھا اور ٹنڈولکر کو عمران خان کی ٹیم میں متبادل فیلڈر کے طور پر شامل کیا گیا تھا اور انہوں نے کپل دیو کو آؤٹ بھی کیا۔ یہ میچ ممبئی کے برابورن اسٹیڈیم میں کھیلا گیا۔
ورلڈ کپ کے دل چسپ حقائق
٭انگلینڈ، ورلڈ کپ کی سب سے زیادہ میزبانی کرنے والا خطہ ہے جب کہ دوسرے نمبر پر بھارت کا نمبر آتا ہے۔
٭ 1992 کو ورلڈ کپ پہلا ٹورنامنٹ تھا جس کی میزبانی کرۂ ارض کے جنوبی ممالک نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے کی۔
٭ 1992 کے ٹورنامنٹ میں پہلی بار سفید گیندوں کا استعمال کیا گیا۔ اسی ٹورنامنٹ میں ہی فلڈ لائٹس کو بھی استعمال میں لایا گیا۔
٭ نسلی امتیاز پر مبنی نظامِ حکومت چلانے کی بدولت جنوبی افریقہ کو پہلے چار ورلڈ کپ ٹورنامنٹس سے باہر رکھا گیا۔
٭ رکی پونٹنگ اور کلائیو لیوڈ وہ کپتان ہیں جنہوں نے دو دو بار یہ ٹارنامنٹ جیتا ہوا ہے۔
٭ نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، انگلینڈ، کینیا، زمبابوے، بنگلادیش، آئرلینڈ، افغانستان، متحدہ عرب امارات اور کینڈا کی ٹیموں نے اب تک ایک بھی ورلڈ کپ نہیں جیتا۔ n