سارے رنگ
سورج نکلا۔ شہر سنہری دھوپ کے نور میں ڈوب گیا۔ اب نو، دس بجے اِدھر اور دن ڈھلے اْدھر بازاروں میں گہماگہمی ہوئی۔
مغلیہ دلی کا رمضان شریف۔۔۔
مرسلہ: سارہ شاداب، لانڈھی،کراچی
ایک دہلوی بزرگ سید وزیر حسن نے دلی کا آخری دیدار کراتے کراتے رمضان المبارک کا بھی دیدار کرا دیا ہے۔ آخری دیدار اس اعتبار سے کہ ابھی مغلیہ دربار جیسا کیسا بھی رہ گیا تھا برقرار تھا۔ اس کے ہوتے ہوئے دلی میں رمضان کا کیا نقشہ تھا۔ ملاحظہ کیجیے۔
''پچھلے پہر تو پیں چلیں۔ ڈنکے بجے۔ سب نے سحری کی۔ روزے کی نیت کی۔ کوئی کلام اللہ لے بیٹھا۔ کوئی وظیفہ پڑھنے لگا۔ فجر کی نماز کے بعد کسی نے آرام کیا۔ گرمی ہوئی تو کوئی دریا کی سیر کو نکل گیا۔ کسی نے تیتر بٹیر اگن کے لال سفید پنجرے لیے اور جنگل کی طرف نکل گیا۔ کوئی پھولوں کا دونا لیے مزاروں پر چلا جاتا ہے۔
سورج نکلا۔ شہر سنہری دھوپ کے نور میں ڈوب گیا۔ اب نو، دس بجے اِدھر اور دن ڈھلے اْدھر بازاروں میں گہماگہمی ہوئی۔ قلعہ سے لگا سارے شہر میں نت نئے پکوان پک رہے ہیں۔ پتیلیاں ٹھنٹھنا رہی ہیں۔ من بھاون چیزیں پک رہی ہیں۔ گھڑی بھر دن رہے، روزہ کشائی لگنی شروع ہوئی قسم قسم کے شربت' تخم ریحان' فالودہ' لیمو کا آب شورہ' قلمی بڑے' دہی بڑے' لونگ چڑے' مچھلی کے کباب' پھلکیاں' سیوا دال' پالک کے پتے' طرح طرح کی ترکاریاں رکابیوں سینیوں میں لگائی گئیں۔
اے لو' وہ سورج غروب ہوا۔ مشرق سے سیاہی پھیلی۔ بادشاہ نے اشارہ فرمایا' ہرکارے نے جھنڈی ہلائی' وہ روزے کی توپ دغی۔ دھائیں۔ چو طرف اذانیں ہونے لگیں۔ سب نے جلدی جلدی آب زم زم' مکے کی کھجور یا چھوارے سے روزہ کھولا۔ کٹورے پہ کٹورا غٹ غٹ شربت پیا ذرا ذرا سی دال ترکاری' میوہ چکھا۔ نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ رات میں ترابیوں (تراویح) کی چہل پہل رہی۔ محلہ کی کوئی مسجد نہیں، جہاں سے کلام اللہ کی آواز نہ آتی ہو۔ اس سے نچنت ہوئے۔ گیارہ، بارہ بجے ذرا کمر سیدھی کی۔ ایک ڈیڑھ بجے چوکی دار آن پہنچے۔ کوئی بیداری سے کہتا ہے' روزہ دارو' اللہ کے پیارو' سب ہی دین دارو اٹھو۔ کوئی کہتا' جاگیو بابا' بھلا ہو گا اور جاگنے میں خدا ملا ہے گا۔
بس یہ سمجھیے' سارا مہینا یوں ہی چہل پہل سے گزرتا۔ آخری جمعہ کو الوداع کے ٹھاٹھ رہتے، انتیسویں تاریخ ہوئی۔ اور سب کی آنکھیں آسمان پر لگ گئیں۔ سانڈنی سوار چاند کی خبر کو روانہ ہوئے۔ کہیں چاند دیکھ لیا ہے تو گواہی آگئی۔ خوشی خوشی سب نے 'جوان عید' (29 ویں کے چاند کی) تیاریاں کیں۔ نہیں تو 'بوڑھی عید' تو کہیں گئی نہیں۔{{{{''
یہ تو سارا بیان رمضان کلچر کا بیان تھا۔ آگے چل کر اس میں کیا کلی پھندنے لگے، وہ آگے زمانے والے جانیں۔ مثلاً افطاری کے سارے پکوان نظر آ رہے ہیں، مگر افطار پارٹی کا کہیں ذکر نہیں۔ ارے افطار پارٹی تو ہمارے زمانے کی ایجاد ہے۔ افطاری کے ذیل میں شربتوں کا ذکر ہے۔ یہ جو شربت کا نعم البدل آیا ہے۔ یعنی کولا اور اس کے بطن سے برآمد ہونے والے نئے ڈرنکس یا نئے مشروبات جو افطار پارٹیوں میں بہت چلتے ہیں، ان کا کوئی ذکر نہیں مگر مت سمجھو کہ شربت رخصت ہو گئے۔ کیسے رخصت ہو جائیں گے۔ شربت تو مہکتے مشروب ہیں۔ گلاب کیوڑے کی مہک شربت کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے۔ روزہ دار ایک گھونٹ ہی لیتا ہے، تو اس کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں اور اب جو بڑے دوا خانوں نے اپنی عطاری کے زور پر ان میں نئے ذائقے نئی خوش بوئیں سمو لی ہیں ان سے یہ شربت کیا سے کیا بن گئے ہیں۔ گرمیوں کے باقی ایام میں بے شک ہم ان کی طرف دھیان نہ دیں، مگر روزہ دار کو جیسے کھجور سے مفر نہیں ہے' ایسے ہی ان شربتوں سے بھی مفر نہیں ہے۔
ہاں توپ تو اب نہیں دغتی۔ نہ افطار کے وقت نہ سحری کے وقت۔ وہ شاہی زمانے کے چوچلے تھے۔ لال قلعہ میں توپ دغے گی تو پورے دلی شہر میں اس کی گونج پہنچے گی۔ باقی شہروں میں نقارے سے توپ کا کام لیا جاتا تھا۔ نئے زمانے کے شور میں نقارے کی آواز بھی گم ہو گئی، مگر سحر خیزیے اس زمانے میں بھی تھے۔ اب بھی ہیں جو محلہ محلہ سحری کی منادی سناتے ہیں۔ افطاری اور سحری میں کیا کشش ہے کہ روزہ خور بھی اس کے رنگا رنگ ذائقوں سے مسحور ہو کر روزہ خوری سے کنارہ کر کے روزہ دار بن جاتے ہیں۔
(انتظار حسین کے کالم 'رمضان المبارک ایک رنگا رنگ لمبا تیوہار' سے چُنا گیا)
۔۔۔
صد لفظی کتھا
بُری خبر
رضوان طاہر مبین
مستقل تنقید سے تنگ آ کر وہ کہتے کہ آپ مجھ سے اختلاف ضرور کریں، لیکن میری صلاحیتوں پر بھی کبھی بات کریں۔
ان کی بات سنی ان سنی کر دی جاتی۔
''آپ میرے علمی کاموں کو بھی تو سامنے رکھیے۔'' ایک مرتبہ انہوں نے اصرار کیا، مگر بے اثر رہا۔
لوگ انہیں غلط سمجھنے لگے تھے کہ ایک دن اُن کی سائنسی اور علمی قدر ومنزلت کے بارے میں بتایا جانے لگا۔۔۔
اُن کی زبردست تعلیمی خدمات کا چرچا ہونے لگا۔۔۔
اُن کے تحقیقی کارناموں پر بات ہونے لگی۔۔۔
کیوں کہ اُن کا انتقال ہو گیا تھا۔۔۔!
۔۔۔
گئے دنوں کے سحر و افطار۔۔۔
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م
جاڑوں کی ٹھٹھرتی ہوئی راتوں میں رات کے آخری پہر جب مسجد سے سحری کا اعلان ہوتا، تو منادی کرنے والی شیریں آواز یوں محسوس ہوتی جیسے کوئی اندھیاری رات کی زلفوں میں دھیرے دھیرے انگلیاں پھیر کر اُسے جگا رہا ہو۔۔۔ یہ ہماری عہد کم سنی کے وہ رمضان ہیں۔۔۔ جب سردیوں کی وجہ سے سحری میں اٹھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا۔۔۔ تب ہمارے ہاں باورچی خانے میں ہی دسترخوان بچھا لیا جاتا کہ چولھے کے سینک کا بھی فائدہ ملے، پھر سحری کے بعد کتنی ہمت کر کے وضو کرتے اور سوئیٹر پر سوئیٹر پہنے فجر کو جاتے۔۔۔ دن چھوٹے ہوتے تھے، اس لیے نماز سے واپسی پر آج کی طرح سونے کا وقت نہیں ملتا تھا، سب اپنے کام اور بچے اسکول جانے کو تیار ہونے لگتے۔
ہم بچوں کو رمضان کھانے پینے اور منفرد شب وروز کے ساتھ یوں بھی دل فریب لگتے کہ اسکول سے مدرسے اور ٹیوشن تک ہر جگہ وقت میں تخفیف ہوتی، پڑھائی میں علاحدہ چھوٹ اور سہولت ملتی۔ پھر رمضان کے بعد عید کا آنا کیا کم خوشی کا مقام ہوتا، لیکن پورا رمضان ایک اور ہی قسم کے تہوار کی صورت طاری ہوتا تھا، جو اِسے باقی کے گیارہ مہینوں سے بالکل ممتاز بنا دیتا تھا۔
یکم رمضان سے ہی محلے بھر میں بیڈ منٹن کا رواج چل پڑتا۔ جس گلی میں دیکھیے اسی کے دور چل رہے ہیں۔۔۔ بہت سے نوعمر بچے وقت گزاری کی راہ، روپیا کمانے سے بھی کرتے، کسی نے ایک تختے پر لکڑی ٹھونک کر اس پر عید کارڈ اور پوسٹ کارڈ سجالیے، کچھ 'واٹر بال' کی بالٹی لیے بیٹھ گئے، محض چند روپوں میں ہی ربڑ، واٹر بال اور واٹر بال پھُلانے کا پمپ آجاتا تھا۔۔۔یہ بھی بچپن میں خاص روزوں کے وقت کا مشغلہ ہوتا۔۔۔ بسا اوقات تو ایسا بھی ہوتا چھوٹی بالٹی میں پانی لے کر آمنے سامنے کئی بچے اپنی 'دکان' لگا بیٹھتے۔ اب مسابقت روپے، دو روپے کی واٹر بال کی نہیں، بلکہ اس کے 'پکا' ہونے کی ہوتی، اس لیے 'یہ پکا پکا مال ہے۔۔۔!' کی صدائیں بھی لگائی جاتیں اور اس پکے پن کو آزمانے کی خاطر واٹر بال ہوا میں اچھالی جاتی، اور گر کر پھٹ جائے، تو سمجھیے کچا مال، دراصل اس 'کچے' یا 'پکے' ہونے میں اس میں پانی کی مقدار کے ساتھ اس کو بھی دوش ہوتا کہ جہاں وہ آکر گرے، وہاں کوئی کنکر یا نوکیلی چیز نہ ہو۔ جانے سونف کی بیڑی اور رمضان کا کیا سمبندھ تھا کہ یہ ناممکن تھا کہ مغرب کے بعد آپ جب باہر نکلیں، تو سونف کی بیڑی کی مخصوص بو آپ کے نتھنوں سے نہ ٹکرائے۔۔۔ خاص طور پر نوعمر لڑکے چھپ چھپا کر اس سے شوق کیا کرتے۔۔۔ اور اس کے کش لگا کر بھرم مارتے، مگر ہر دم یہ دھیان رہتا کہ کہیں کوئی بڑا یہ 'نشہ' کرتے ہوئے نہ دیکھ لے!
ہم تو 'ایک داڑھ' کے روزے سے بھی بہلائے جاتے۔۔۔ جس میں ہماری باقاعدہ یہ کوشش ہوتی کہ سحری سے افطار ہونے تک ایک ہی داڑھ سے کھائیں پیئیں۔۔۔! عصر کے بعد جب باورچی خانے سے طرح طرح کی خوش بوئیں اٹھ رہی ہوتیں، توہم ایک داڑھ کے روزے داروں کا ہاتھ کہاں رکتا تھا، ایسے میں ہمیں یہ کہہ کر روکا جاتا کہ خبردار، عصر کے بعد سے سب کا 'روزہ' ہو جاتا ہے، اب افطار کا انتظار کرو۔ اکثر بڑے بچوں سے یہ بھی پوچھتے کہ روزہ کہاں رکھا ہے؟ ہم نے اس سوال کا جواب تراشا تھا کہ 'نعمت خانے' میں۔۔۔!' اب یہ بھی ہماری خوش نصیبی تھی کہ ہم نے نعمت خانے والے گھر میں ہوش سنبھالا۔۔۔ تب ہی 'روزے' کی طبعی شکل معین کر کے اسے کی جگہ کا تعین نعمت خانہ کیا۔ پھر ہم نے انہی سردیوں میں ہی پہلا روزہ رکھا، ہماری خواہش ہوتی کہ روزہ جاگ کر گزرا جائے، یہی اس کا اصل لطف ہے، تب روزے کا دورانیہ ہی 12 گھنٹے ہوتا، اس لیے ایسا کرنا ممکن بھی ہو جاتا تھا۔
ہم نے اِن دنوں میں کئی بار اُن پرانی گلیوں سے گزر کر دیکھا، جہاں ہم اپنا بچپن چھوڑ آئے کہ شاید بیتے ہوئے سمے کا کوئی ایک لمحہ جو آج بھی وہاں ٹھیرا ہوا مل جائے۔۔۔ شاید کوئی ایسی گھڑی ہو جو تب سے منجمد رہ گئی ہو، اب بیت جائے، مگر وقت کی طرح اُن گلیوں کا نقشہ بھی تو اس قدر بدل گیا کہ پہچانا نہیں جاتا۔۔۔ وہ دھوپ چھائوں دیتا وسیع آکاش بڑی بڑی عمارتیں کھا گئیں اور زمین کھڑی ہوئی گاڑیاں نگل گئیں۔۔۔ اس لیے ایک سحری سے افطار تک کے رنگوں کا کیا ذکر، جو قصہ پارینہ بن گئے۔۔۔ نہ تو اب وہ یار وہاں ہیں اور نہ ہی وہ بے فکری کی عمر ہماری رہی۔۔۔
۔۔۔
شوکت صدیقی کی
'خدا کی بستی'
حنیف خان
یہ پہلا ناول ہے جس نے اپنے قصے کی سطح پر اس قدر جھنجھوڑ کر رکھ دیا، زبان وبیان کا لطف امراؤ جان میں ہے اور اُس کا قصہ بھی خوب ہے، لیکن اس ناول نے دماغ کو ماؤف کر دیا... زمانے کے یہ حاشیائی کردار کس قدر توانا اور زندہ ہیں۔ سوچ رہا ہوں، یہ مہذب معاشرے کو قدم قدم پر تمانچے لگاتے ہیں اور ہم محسوس نہیں کرتے۔ وقت بدلا، حالات بدل گئے، استحصال کے طریقے بھی بدل گئے، لیکن یہ استحصال اج بھی جاری ہے۔
رحمان عباس نے اس ناول کے حوالے سے کہا کہ اسے 'آؤٹ ڈیٹڈ' قرار دے دینا چاہیے، میرا خیال ہے کہ ان کو اپنی رائے پر نظرثانی کرنا چاہیے، بس زمانی علامات کو آپ باہر کر دیں اور زبان و بیان سے تھوڑی دیر کے لیے سمجھوتا کرلیں، پھر دیکھیں یہ کیسا ناول ہے! سب سے زیادہ مظلوم کردار سلطانہ کا ہے، جس کو زمانے نے فٹ بال بناکر رکھ دیا۔ میری پوری ہم دردی اس کردار سے ہے، اردو ناولوں میں امراؤ جان کی امیرن کے کردار کے بعد یہ دوسرا کردار ہے جس سے مجھ میں اس قدر ہمدردی پیدا ہوئی۔ ناول لسانی اور فنی سطح پر کئی مقامات پر جھول ہے، زوائد بھی ہیں، جن سے ناول طوالت کا شکار ہو گیا ہے، لیکن پھر بھی کچھ تو ہے اس میں۔۔۔
۔۔۔
'امّاں۔۔۔ ہمیں آپ کی بہت ضرورت ہے۔۔۔!
آمنہ احسن
میری نانی اماں 30 برس کی تھیں، جب نانا گزر گئے، چھے بچے تھے۔ میری سب سے بڑی خالہ 10 سال کی تھیں اور سب سے چھوٹے ماموں ڈیڑھ برس کے۔ ایک بہت محبت کرنے والا شوہر جب آپ کو دنیا میں تنہا چھوڑ جاتا ہے، اس درد کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے، جو خود اس کرب سے گزرا ہو۔
نانا کے انتقال کے بعد نانی اماں نے اپنی زندگی بچوں کے لیے جی۔ بچوں کے پڑھنے سے لے کر تربیت تک اور چھوٹی چھوٹی ضروریات سے لے کر ان کی شادیوں تک۔ وہ بس فکر اور فکر ہی کرتی رہ گئیں۔ بچوں کی شادیوں کے بعد جب نواسے نواسیوں کی آمد ہوئی, تو اب انہیں ہم سب کی فکر ہوتی۔ مجھے یاد آتا ہے کہ وہ ہم سب کے لیے اون کے سویٹر بُنتی تھیں۔ ہر موقعے پر ہمارے لیے کپڑے سلوا کر لاہور بھیجا کرتی تھیں۔ سوجی کے ٹکڑے اور اچار سے لے کر شلجم کے ساگ تک کون کون سے لذیذ پکوان بناتی تھیں؛؛؛ بس وہ ہمارے چہروں پر خوشی دیکھنا چاہتی تھیں۔
اُن کے آنگن کا کوئی ایک بچہ بھی اداس ہو، وہ بے چین ہوجاتی تھیں، اب بھی ہو جاتی ہیں۔ یاد آتا ہے کہ جب مجھے یرقان ہوا تو وہ کراچی سے لاہور آگئیں اور قسمیں دے کر گئیں کہ آگے نہ پڑھیو؛؛؛ پڑھنے کی ٹینشن میں بیمار ہو جاتی ہے۔ ایسی لاتعداد یادیں ہیں میرے پاس۔ آپ کے پاس بھی ہوں گی، مائیں، نانیاں، دادیاں تو ہوتی ہی ایسی ہیں۔ میری نانی اماں اِن دنوں بہت علیل ہیں، لیکن جب بھی ملنے جاؤں بار بار پوچھتی ہیں میں خوش ہوں ؟ اداس تو نہیں؟ پریشان لگوں تو تسلی دیتی ہیں، دعائیں تو ہمیشہ سے دے رہی ہیں۔
زیادہ بولتی نہیں، چپ چاپ سب کو دیکھتی رہتی ہیں۔ بچپن سے اب تک وہ کبھی بھی اظہار کرنے والی نہیں رہیں، گلے لگانا اور چومنا انہیں نہیں آتا، لیکن ان کا چہرہ اور نگاہ محبت کے اظہار کے لیے کافی ہے۔ امی بھی یہی کہتی ہیں کہ انہوں نے پیار کا کھل کے اظہار نہیں کیا کبھی۔ اس لیے شاید ہم بھی نہ کر سکے، لیکن جب بھی انہیں دیکھتی ہوں۔ آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ انہوں نے نصف سے زیادہ زندگی اپنے شریک حیات کے بغیر ہم سب کو خوش کرنے کے لیے وار دی اور صلے میں کبھی کچھ نہ مانگا۔۔۔پیار کا اظہار بھی نہیں۔۔۔! میں بس آج ان سے اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ ہمیں اور خاص کر مجھے ابھی آپ کی بہت ضرورت ہے اماں! اللہ آپ کو صحت سے رکھے۔۔۔ آمین۔
مرسلہ: سارہ شاداب، لانڈھی،کراچی
ایک دہلوی بزرگ سید وزیر حسن نے دلی کا آخری دیدار کراتے کراتے رمضان المبارک کا بھی دیدار کرا دیا ہے۔ آخری دیدار اس اعتبار سے کہ ابھی مغلیہ دربار جیسا کیسا بھی رہ گیا تھا برقرار تھا۔ اس کے ہوتے ہوئے دلی میں رمضان کا کیا نقشہ تھا۔ ملاحظہ کیجیے۔
''پچھلے پہر تو پیں چلیں۔ ڈنکے بجے۔ سب نے سحری کی۔ روزے کی نیت کی۔ کوئی کلام اللہ لے بیٹھا۔ کوئی وظیفہ پڑھنے لگا۔ فجر کی نماز کے بعد کسی نے آرام کیا۔ گرمی ہوئی تو کوئی دریا کی سیر کو نکل گیا۔ کسی نے تیتر بٹیر اگن کے لال سفید پنجرے لیے اور جنگل کی طرف نکل گیا۔ کوئی پھولوں کا دونا لیے مزاروں پر چلا جاتا ہے۔
سورج نکلا۔ شہر سنہری دھوپ کے نور میں ڈوب گیا۔ اب نو، دس بجے اِدھر اور دن ڈھلے اْدھر بازاروں میں گہماگہمی ہوئی۔ قلعہ سے لگا سارے شہر میں نت نئے پکوان پک رہے ہیں۔ پتیلیاں ٹھنٹھنا رہی ہیں۔ من بھاون چیزیں پک رہی ہیں۔ گھڑی بھر دن رہے، روزہ کشائی لگنی شروع ہوئی قسم قسم کے شربت' تخم ریحان' فالودہ' لیمو کا آب شورہ' قلمی بڑے' دہی بڑے' لونگ چڑے' مچھلی کے کباب' پھلکیاں' سیوا دال' پالک کے پتے' طرح طرح کی ترکاریاں رکابیوں سینیوں میں لگائی گئیں۔
اے لو' وہ سورج غروب ہوا۔ مشرق سے سیاہی پھیلی۔ بادشاہ نے اشارہ فرمایا' ہرکارے نے جھنڈی ہلائی' وہ روزے کی توپ دغی۔ دھائیں۔ چو طرف اذانیں ہونے لگیں۔ سب نے جلدی جلدی آب زم زم' مکے کی کھجور یا چھوارے سے روزہ کھولا۔ کٹورے پہ کٹورا غٹ غٹ شربت پیا ذرا ذرا سی دال ترکاری' میوہ چکھا۔ نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ رات میں ترابیوں (تراویح) کی چہل پہل رہی۔ محلہ کی کوئی مسجد نہیں، جہاں سے کلام اللہ کی آواز نہ آتی ہو۔ اس سے نچنت ہوئے۔ گیارہ، بارہ بجے ذرا کمر سیدھی کی۔ ایک ڈیڑھ بجے چوکی دار آن پہنچے۔ کوئی بیداری سے کہتا ہے' روزہ دارو' اللہ کے پیارو' سب ہی دین دارو اٹھو۔ کوئی کہتا' جاگیو بابا' بھلا ہو گا اور جاگنے میں خدا ملا ہے گا۔
بس یہ سمجھیے' سارا مہینا یوں ہی چہل پہل سے گزرتا۔ آخری جمعہ کو الوداع کے ٹھاٹھ رہتے، انتیسویں تاریخ ہوئی۔ اور سب کی آنکھیں آسمان پر لگ گئیں۔ سانڈنی سوار چاند کی خبر کو روانہ ہوئے۔ کہیں چاند دیکھ لیا ہے تو گواہی آگئی۔ خوشی خوشی سب نے 'جوان عید' (29 ویں کے چاند کی) تیاریاں کیں۔ نہیں تو 'بوڑھی عید' تو کہیں گئی نہیں۔{{{{''
یہ تو سارا بیان رمضان کلچر کا بیان تھا۔ آگے چل کر اس میں کیا کلی پھندنے لگے، وہ آگے زمانے والے جانیں۔ مثلاً افطاری کے سارے پکوان نظر آ رہے ہیں، مگر افطار پارٹی کا کہیں ذکر نہیں۔ ارے افطار پارٹی تو ہمارے زمانے کی ایجاد ہے۔ افطاری کے ذیل میں شربتوں کا ذکر ہے۔ یہ جو شربت کا نعم البدل آیا ہے۔ یعنی کولا اور اس کے بطن سے برآمد ہونے والے نئے ڈرنکس یا نئے مشروبات جو افطار پارٹیوں میں بہت چلتے ہیں، ان کا کوئی ذکر نہیں مگر مت سمجھو کہ شربت رخصت ہو گئے۔ کیسے رخصت ہو جائیں گے۔ شربت تو مہکتے مشروب ہیں۔ گلاب کیوڑے کی مہک شربت کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے۔ روزہ دار ایک گھونٹ ہی لیتا ہے، تو اس کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں اور اب جو بڑے دوا خانوں نے اپنی عطاری کے زور پر ان میں نئے ذائقے نئی خوش بوئیں سمو لی ہیں ان سے یہ شربت کیا سے کیا بن گئے ہیں۔ گرمیوں کے باقی ایام میں بے شک ہم ان کی طرف دھیان نہ دیں، مگر روزہ دار کو جیسے کھجور سے مفر نہیں ہے' ایسے ہی ان شربتوں سے بھی مفر نہیں ہے۔
ہاں توپ تو اب نہیں دغتی۔ نہ افطار کے وقت نہ سحری کے وقت۔ وہ شاہی زمانے کے چوچلے تھے۔ لال قلعہ میں توپ دغے گی تو پورے دلی شہر میں اس کی گونج پہنچے گی۔ باقی شہروں میں نقارے سے توپ کا کام لیا جاتا تھا۔ نئے زمانے کے شور میں نقارے کی آواز بھی گم ہو گئی، مگر سحر خیزیے اس زمانے میں بھی تھے۔ اب بھی ہیں جو محلہ محلہ سحری کی منادی سناتے ہیں۔ افطاری اور سحری میں کیا کشش ہے کہ روزہ خور بھی اس کے رنگا رنگ ذائقوں سے مسحور ہو کر روزہ خوری سے کنارہ کر کے روزہ دار بن جاتے ہیں۔
(انتظار حسین کے کالم 'رمضان المبارک ایک رنگا رنگ لمبا تیوہار' سے چُنا گیا)
۔۔۔
صد لفظی کتھا
بُری خبر
رضوان طاہر مبین
مستقل تنقید سے تنگ آ کر وہ کہتے کہ آپ مجھ سے اختلاف ضرور کریں، لیکن میری صلاحیتوں پر بھی کبھی بات کریں۔
ان کی بات سنی ان سنی کر دی جاتی۔
''آپ میرے علمی کاموں کو بھی تو سامنے رکھیے۔'' ایک مرتبہ انہوں نے اصرار کیا، مگر بے اثر رہا۔
لوگ انہیں غلط سمجھنے لگے تھے کہ ایک دن اُن کی سائنسی اور علمی قدر ومنزلت کے بارے میں بتایا جانے لگا۔۔۔
اُن کی زبردست تعلیمی خدمات کا چرچا ہونے لگا۔۔۔
اُن کے تحقیقی کارناموں پر بات ہونے لگی۔۔۔
کیوں کہ اُن کا انتقال ہو گیا تھا۔۔۔!
۔۔۔
گئے دنوں کے سحر و افطار۔۔۔
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م
جاڑوں کی ٹھٹھرتی ہوئی راتوں میں رات کے آخری پہر جب مسجد سے سحری کا اعلان ہوتا، تو منادی کرنے والی شیریں آواز یوں محسوس ہوتی جیسے کوئی اندھیاری رات کی زلفوں میں دھیرے دھیرے انگلیاں پھیر کر اُسے جگا رہا ہو۔۔۔ یہ ہماری عہد کم سنی کے وہ رمضان ہیں۔۔۔ جب سردیوں کی وجہ سے سحری میں اٹھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا۔۔۔ تب ہمارے ہاں باورچی خانے میں ہی دسترخوان بچھا لیا جاتا کہ چولھے کے سینک کا بھی فائدہ ملے، پھر سحری کے بعد کتنی ہمت کر کے وضو کرتے اور سوئیٹر پر سوئیٹر پہنے فجر کو جاتے۔۔۔ دن چھوٹے ہوتے تھے، اس لیے نماز سے واپسی پر آج کی طرح سونے کا وقت نہیں ملتا تھا، سب اپنے کام اور بچے اسکول جانے کو تیار ہونے لگتے۔
ہم بچوں کو رمضان کھانے پینے اور منفرد شب وروز کے ساتھ یوں بھی دل فریب لگتے کہ اسکول سے مدرسے اور ٹیوشن تک ہر جگہ وقت میں تخفیف ہوتی، پڑھائی میں علاحدہ چھوٹ اور سہولت ملتی۔ پھر رمضان کے بعد عید کا آنا کیا کم خوشی کا مقام ہوتا، لیکن پورا رمضان ایک اور ہی قسم کے تہوار کی صورت طاری ہوتا تھا، جو اِسے باقی کے گیارہ مہینوں سے بالکل ممتاز بنا دیتا تھا۔
یکم رمضان سے ہی محلے بھر میں بیڈ منٹن کا رواج چل پڑتا۔ جس گلی میں دیکھیے اسی کے دور چل رہے ہیں۔۔۔ بہت سے نوعمر بچے وقت گزاری کی راہ، روپیا کمانے سے بھی کرتے، کسی نے ایک تختے پر لکڑی ٹھونک کر اس پر عید کارڈ اور پوسٹ کارڈ سجالیے، کچھ 'واٹر بال' کی بالٹی لیے بیٹھ گئے، محض چند روپوں میں ہی ربڑ، واٹر بال اور واٹر بال پھُلانے کا پمپ آجاتا تھا۔۔۔یہ بھی بچپن میں خاص روزوں کے وقت کا مشغلہ ہوتا۔۔۔ بسا اوقات تو ایسا بھی ہوتا چھوٹی بالٹی میں پانی لے کر آمنے سامنے کئی بچے اپنی 'دکان' لگا بیٹھتے۔ اب مسابقت روپے، دو روپے کی واٹر بال کی نہیں، بلکہ اس کے 'پکا' ہونے کی ہوتی، اس لیے 'یہ پکا پکا مال ہے۔۔۔!' کی صدائیں بھی لگائی جاتیں اور اس پکے پن کو آزمانے کی خاطر واٹر بال ہوا میں اچھالی جاتی، اور گر کر پھٹ جائے، تو سمجھیے کچا مال، دراصل اس 'کچے' یا 'پکے' ہونے میں اس میں پانی کی مقدار کے ساتھ اس کو بھی دوش ہوتا کہ جہاں وہ آکر گرے، وہاں کوئی کنکر یا نوکیلی چیز نہ ہو۔ جانے سونف کی بیڑی اور رمضان کا کیا سمبندھ تھا کہ یہ ناممکن تھا کہ مغرب کے بعد آپ جب باہر نکلیں، تو سونف کی بیڑی کی مخصوص بو آپ کے نتھنوں سے نہ ٹکرائے۔۔۔ خاص طور پر نوعمر لڑکے چھپ چھپا کر اس سے شوق کیا کرتے۔۔۔ اور اس کے کش لگا کر بھرم مارتے، مگر ہر دم یہ دھیان رہتا کہ کہیں کوئی بڑا یہ 'نشہ' کرتے ہوئے نہ دیکھ لے!
ہم تو 'ایک داڑھ' کے روزے سے بھی بہلائے جاتے۔۔۔ جس میں ہماری باقاعدہ یہ کوشش ہوتی کہ سحری سے افطار ہونے تک ایک ہی داڑھ سے کھائیں پیئیں۔۔۔! عصر کے بعد جب باورچی خانے سے طرح طرح کی خوش بوئیں اٹھ رہی ہوتیں، توہم ایک داڑھ کے روزے داروں کا ہاتھ کہاں رکتا تھا، ایسے میں ہمیں یہ کہہ کر روکا جاتا کہ خبردار، عصر کے بعد سے سب کا 'روزہ' ہو جاتا ہے، اب افطار کا انتظار کرو۔ اکثر بڑے بچوں سے یہ بھی پوچھتے کہ روزہ کہاں رکھا ہے؟ ہم نے اس سوال کا جواب تراشا تھا کہ 'نعمت خانے' میں۔۔۔!' اب یہ بھی ہماری خوش نصیبی تھی کہ ہم نے نعمت خانے والے گھر میں ہوش سنبھالا۔۔۔ تب ہی 'روزے' کی طبعی شکل معین کر کے اسے کی جگہ کا تعین نعمت خانہ کیا۔ پھر ہم نے انہی سردیوں میں ہی پہلا روزہ رکھا، ہماری خواہش ہوتی کہ روزہ جاگ کر گزرا جائے، یہی اس کا اصل لطف ہے، تب روزے کا دورانیہ ہی 12 گھنٹے ہوتا، اس لیے ایسا کرنا ممکن بھی ہو جاتا تھا۔
ہم نے اِن دنوں میں کئی بار اُن پرانی گلیوں سے گزر کر دیکھا، جہاں ہم اپنا بچپن چھوڑ آئے کہ شاید بیتے ہوئے سمے کا کوئی ایک لمحہ جو آج بھی وہاں ٹھیرا ہوا مل جائے۔۔۔ شاید کوئی ایسی گھڑی ہو جو تب سے منجمد رہ گئی ہو، اب بیت جائے، مگر وقت کی طرح اُن گلیوں کا نقشہ بھی تو اس قدر بدل گیا کہ پہچانا نہیں جاتا۔۔۔ وہ دھوپ چھائوں دیتا وسیع آکاش بڑی بڑی عمارتیں کھا گئیں اور زمین کھڑی ہوئی گاڑیاں نگل گئیں۔۔۔ اس لیے ایک سحری سے افطار تک کے رنگوں کا کیا ذکر، جو قصہ پارینہ بن گئے۔۔۔ نہ تو اب وہ یار وہاں ہیں اور نہ ہی وہ بے فکری کی عمر ہماری رہی۔۔۔
۔۔۔
شوکت صدیقی کی
'خدا کی بستی'
حنیف خان
یہ پہلا ناول ہے جس نے اپنے قصے کی سطح پر اس قدر جھنجھوڑ کر رکھ دیا، زبان وبیان کا لطف امراؤ جان میں ہے اور اُس کا قصہ بھی خوب ہے، لیکن اس ناول نے دماغ کو ماؤف کر دیا... زمانے کے یہ حاشیائی کردار کس قدر توانا اور زندہ ہیں۔ سوچ رہا ہوں، یہ مہذب معاشرے کو قدم قدم پر تمانچے لگاتے ہیں اور ہم محسوس نہیں کرتے۔ وقت بدلا، حالات بدل گئے، استحصال کے طریقے بھی بدل گئے، لیکن یہ استحصال اج بھی جاری ہے۔
رحمان عباس نے اس ناول کے حوالے سے کہا کہ اسے 'آؤٹ ڈیٹڈ' قرار دے دینا چاہیے، میرا خیال ہے کہ ان کو اپنی رائے پر نظرثانی کرنا چاہیے، بس زمانی علامات کو آپ باہر کر دیں اور زبان و بیان سے تھوڑی دیر کے لیے سمجھوتا کرلیں، پھر دیکھیں یہ کیسا ناول ہے! سب سے زیادہ مظلوم کردار سلطانہ کا ہے، جس کو زمانے نے فٹ بال بناکر رکھ دیا۔ میری پوری ہم دردی اس کردار سے ہے، اردو ناولوں میں امراؤ جان کی امیرن کے کردار کے بعد یہ دوسرا کردار ہے جس سے مجھ میں اس قدر ہمدردی پیدا ہوئی۔ ناول لسانی اور فنی سطح پر کئی مقامات پر جھول ہے، زوائد بھی ہیں، جن سے ناول طوالت کا شکار ہو گیا ہے، لیکن پھر بھی کچھ تو ہے اس میں۔۔۔
۔۔۔
'امّاں۔۔۔ ہمیں آپ کی بہت ضرورت ہے۔۔۔!
آمنہ احسن
میری نانی اماں 30 برس کی تھیں، جب نانا گزر گئے، چھے بچے تھے۔ میری سب سے بڑی خالہ 10 سال کی تھیں اور سب سے چھوٹے ماموں ڈیڑھ برس کے۔ ایک بہت محبت کرنے والا شوہر جب آپ کو دنیا میں تنہا چھوڑ جاتا ہے، اس درد کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے، جو خود اس کرب سے گزرا ہو۔
نانا کے انتقال کے بعد نانی اماں نے اپنی زندگی بچوں کے لیے جی۔ بچوں کے پڑھنے سے لے کر تربیت تک اور چھوٹی چھوٹی ضروریات سے لے کر ان کی شادیوں تک۔ وہ بس فکر اور فکر ہی کرتی رہ گئیں۔ بچوں کی شادیوں کے بعد جب نواسے نواسیوں کی آمد ہوئی, تو اب انہیں ہم سب کی فکر ہوتی۔ مجھے یاد آتا ہے کہ وہ ہم سب کے لیے اون کے سویٹر بُنتی تھیں۔ ہر موقعے پر ہمارے لیے کپڑے سلوا کر لاہور بھیجا کرتی تھیں۔ سوجی کے ٹکڑے اور اچار سے لے کر شلجم کے ساگ تک کون کون سے لذیذ پکوان بناتی تھیں؛؛؛ بس وہ ہمارے چہروں پر خوشی دیکھنا چاہتی تھیں۔
اُن کے آنگن کا کوئی ایک بچہ بھی اداس ہو، وہ بے چین ہوجاتی تھیں، اب بھی ہو جاتی ہیں۔ یاد آتا ہے کہ جب مجھے یرقان ہوا تو وہ کراچی سے لاہور آگئیں اور قسمیں دے کر گئیں کہ آگے نہ پڑھیو؛؛؛ پڑھنے کی ٹینشن میں بیمار ہو جاتی ہے۔ ایسی لاتعداد یادیں ہیں میرے پاس۔ آپ کے پاس بھی ہوں گی، مائیں، نانیاں، دادیاں تو ہوتی ہی ایسی ہیں۔ میری نانی اماں اِن دنوں بہت علیل ہیں، لیکن جب بھی ملنے جاؤں بار بار پوچھتی ہیں میں خوش ہوں ؟ اداس تو نہیں؟ پریشان لگوں تو تسلی دیتی ہیں، دعائیں تو ہمیشہ سے دے رہی ہیں۔
زیادہ بولتی نہیں، چپ چاپ سب کو دیکھتی رہتی ہیں۔ بچپن سے اب تک وہ کبھی بھی اظہار کرنے والی نہیں رہیں، گلے لگانا اور چومنا انہیں نہیں آتا، لیکن ان کا چہرہ اور نگاہ محبت کے اظہار کے لیے کافی ہے۔ امی بھی یہی کہتی ہیں کہ انہوں نے پیار کا کھل کے اظہار نہیں کیا کبھی۔ اس لیے شاید ہم بھی نہ کر سکے، لیکن جب بھی انہیں دیکھتی ہوں۔ آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ انہوں نے نصف سے زیادہ زندگی اپنے شریک حیات کے بغیر ہم سب کو خوش کرنے کے لیے وار دی اور صلے میں کبھی کچھ نہ مانگا۔۔۔پیار کا اظہار بھی نہیں۔۔۔! میں بس آج ان سے اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ ہمیں اور خاص کر مجھے ابھی آپ کی بہت ضرورت ہے اماں! اللہ آپ کو صحت سے رکھے۔۔۔ آمین۔